اسد اللہ تجریشی کی یادداشتیں

بائیکاٹ


انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ

ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی

2024-5-21


اوین جیل میں داخل ہوتے ہی ہمیشہ کی طرح مجھے انفرادی سیل میں لے جایا گیا اور چند دنوں کے بعد وہاں سے نکال کر عام سیل میں شفٹ کردیا گیا۔ عام سیل دو منزلہ تھے۔ ۱۳۵۵ اور ۱۳۵۶ نمبر کے سیل کی ترتیب کچھ اس طرح تھی کہ نچلے طبقے کے پہلے حصے میں غیر مذہبی اور مارکسسٹ قید تھے اور دوسرا حصہ مذہبی قیدیوں کے لئے مختص تھا۔ اسی طرح اوپر کی منزل میں بھی دو ھصے تھے جن میں سے ایک میں اٹھارہ نامور علماء قید تھے جبکہ دوسرے حصے میں سات افراد قید کئے گئے تھے جو سب بائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے۔ کمیونسٹ قیدیوں میں اور بائیں بازو کے قیدیوں میں فرق یہ تھا کہ یہ لوگ مسلح جدوجہد پر یقین نہیں رکھتے تھے اور ان میں سے اکثر روشن فکر اور نظریہ پرداز افراد تھے جن کا جرم کتاب لکھنا یا تھیٹر میں ڈرامہ وغیرہ پیش کرنا تھا۔ میں جب جیل میں آیا تو مجھے پہلے تو مذہبی قیدیوں کے سیل میں لے جایا گیا۔ اس حصے کی مکمل مدیریت مجاہدین خلق کے قیدیوں کے پاس تھی اور میں جیسے ہی جیل میں آیا تو وہ سب مجھ سے ملاقات کرنے کے لئے آگئے۔ مسعود رجوی، موسی خیابانی اور کاشانی سمیت پندرہ افراد تھے جو میرے لاک اپ میں آئے اور میرا گرمجوشی سے استقبال کیا۔ رو بوسی وغیرہ کے بعد ہم نے گفتگو شروع کی۔ آدھے گھنٹے کی اس ملاقات میں تقریبا ہر چیز کے بارے میں گفتگو ہوئی اور پھر خداحافظ کرکے اپنے لاک اپ میں چلے گئے۔ ابھی کچھ دیر بھی نہیں گذری تھی کہ عباس مدرسی مجھ سے ملنے آگیا۔ میں اسے پہلے سے جانتا تھا۔ اسے تنظیم اور میرے درمیان رابط بنایا گیا تھا۔ احوال پرسی کے بعد اس نے جلدی سے اصل بات شروع کی اور کہنے لگا: دیکھو اسداللہ، یہ جیل قصر جیل سے مختلف ہے، یہاں پر تمہیں واضح طور پر اپنا موقف مشخص کرنا ہوگا، کیونکہ جیل میں قید علماء کی جانب سے مجاہدین خلق اور دیگر قیدیوں کے درمیان جدائی کے فتوے کے اعلان کے بعد اب ہر کسی کو اپنا اپنا موقف واضح طور پر بیان کرنا ہے کہ وہ کس کے ساتھ ہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئیے کہ تم اب بھی تنظیم کے ساتھ ہو یا مذہبیوں کے طرفدار ہو اور اس فتویٰ کی پیروی کرو گے۔ میں نے بھی فورا ہی ایک جملے میں جواب دے دیا کہ میں انقلابی جدوجہد کرنے والوں کے ساتھ ہوں لیکن مجاہدین خلق کو ہٹا کر! اسے بھی میرے اس طرح کے جواب کا انتظار نہیں تھا، اس نے اپنا چہرہ جھکایا اور تھوڑی ہی دیر میں لاک اپ سے نکل گیا۔ اگلی صبح بہت دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ وہ تمام افراد جو کل میرے استقبال کے لئے جمع ہوئے تھے اور میرا بھرپور استقبال کیا تھا حتی وہ افراد بھی جو مجھے خوش آمدید کہنے کے لئے کمر تک جھک گئے تھے اور تعظیم کررہے تھے، ان سب کا رویہ بالکل تبدیل ہوچکا تھا اور بعض نے تو مجھے دیکھ کر اپنا منہ ہی گھما لیا تھا اور بعض جن کو یہ بات زیادہ بری لگی تھی وہ گھور گھور کر مجھے دیکھ دیکھ کر گذرنے لگے حتی میرے سلام کا جواب بھی نہیں دے رہے تھے۔

جیل کی اُس زمانے کی اصطلاح کے مطابق میرا بائیکاٹ کردیا گیا تھا۔ بائیکاٹ یعنی کسی کو بھی یہ اجازت نہیں تھی کہ وہ سلام کا جواب دے، ساتھ کھانا کھائے، گفتگو کرے، ورزش کرے، یا کوئی بھی اور کام انجام دے۔ یہ کیفیت اس وقت تک رہتی جب تک وہ شخص جس کا بائیکاٹ کیا گیا ہے وہ جبری طور پر یا تو پولیس یا ساواک کی پناہ لے لے اور ان سے تعاون کرنا شروع کردے یا توبہ کرے اور معافی مانگے اور مجاہدین خلق کا مطیع اور فرمانبردار رکن بن جائے۔ اس کا واضح نمونہ میں نے اپنے بائیکاٹ کے بعد دیکھا۔ ایک دن شام کے وقت میں باتھ روم میں وضو کررہا تھا کہ دو قیدی میرے پیچھے کھڑے ہوکر باتیں کرنے لگے۔ ان میں سے ایک جوان قیدی تھا جس کا نام حسن خواجہ نظام الملکی تھا اور مسعود رجوی کی مخالفت کی وجہ سے اس کا بائیکاٹ کردیا گیا تھا۔ حسن اپنے قریبی دوست کو جو رجوی کا نزدیکی آدمی تھا کہہ رہا تھا کہ مسعود کو کہو اللہ رسول کی قسم میں اپنی غلطی مان رہا ہوں! خدا کی قسم تھک گیا ہوں! مسعود کو بولو میں اسکے جوتے کی خاک ہوں! مجھے معاف کردے، مجھے اس شرمندگی سے نجات دلا دے اور پہلے کی طرح کام کرنے کے لئے تیار ہوں، خدا کی قسم اب جو بولو گے وہ کروں گا۔ یہ باتیں سُن کر مجھے بہت زیادہ افسوس ہوا۔ مجاہدین خلق نے انسانی کرامت اور شخصیت کو پیروں تلے روند دیا تھا۔ ایک ہفتے بعد مجھے ایک ایسے سیل میں بھیج دیا گیا جہاں کے بعض قیدیوں کو جانتا تھا، ان میں عزت مطہری، حسین بُنَکدار اور کمال گنجہ ای شامل تھے۔ تنظیم کا ایک اہم عہدیدار بھی وہیں تھا اور وہ اپنے افسروں کو جیل کی خبریں پہنچایا کرتا تھا۔ اس کا نام پرویز یعقوبی تھا اور میں جیسے ہی سیل میں گھسا اس نے مجھ سے باتیں کرنا شروع کردیں۔ اس نے مجھے تجویز دی کہ میں جیل میں غیر مجاہد قیدیوں کا انچارج بن جاؤں، تاکہ بقول اسکے کہ بائیکاٹ شدہ افراد کی سرپرستی قبول کرکے ان کے اور تنظیم کے عہدیداروں کے درمیان رابط کا کام انجام دے سکوں اور وہ لوگ میرے ذریعے اپنے مسائل حل کرواسکیں۔ میں نے بلافاصلہ اس کی تجویز کو رد کردیا اور چونکہ ایسے جواب کا انتظار نہیں تھا وہ حیرتزدہ ہوگیا اور سیل سے باہر چلا گیا تاکہ اپنے سینیئر کو یہ خبر پہنچا سکے۔



 
صارفین کی تعداد: 341


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

جب یادداشت چلی گئی

انقلاب کی کامیابی کے فوراً بعد میں نے مسجد امیر المومنین (ع) میں کام شروع کیا۔ اب، اپنے  اور اپنے خاندان کے بارے میں میری یادداشت مکمل طور پرمحو ہو چکی تھی ۔ جب جنگ شروع ہوئی تو میں نے بسیج  میں شامل ہو کرمحاذ پر امدادا ور سامان کی فراہمی شروع کر دی
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔