گرلز سیکنڈری اسکول اور شہید بہشتی

ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی

2022-5-1


"۔۔۔ جب انکو تہران لایا گیا، تو سب سے پہلے حکم دیا گیا کہ انکو لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول لے جایا جائے، جہاں پر وہ پڑھائیں گے، اور ہدف یہ تھا کہاس سیکنڈری اسکول میں انہیں تنگ کیا جائے گا، لڑکیاں انہیں چھیڑیں گی۔ اس زمانے میں لڑکیوں کے لباس بہت زیادہ نا مناسب ہوا کرتے تھے اور شہید بہشتی عمامہ پہنتے تھے، ایک عالم دین تھے، لیکن خدا نے بھی انہیں خوبصورتی سے نوازا تھا۔ انکی شکل و صورت اور قد کاٹھ اتنا جاذب نظر تھا کہ جس کے بھی سامنے جاتے وہ آپ کے وقار اور عظمت کا دلدادہ ہوجاتا۔

جب اسکول میں داخل ہوئے تو لڑکیوں کا سامنا ہوا جنہیں پہلے سے بتایا گیا تھا کہ مثلا فلاں آپ کے کلاس ٹیچر ہوں گے لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ ایک عالم دین کو لایا جارہا ہے۔ لڑکیوں نے کھڑے ہو کر ایک ساتھ تالیاں بجانا شروع کردیں اور چلانے لگیں " مولوی آگیا مولوی آگیا"۔ اور اسکول بھی تہران کا سیکنڈری اسکول، کوئی عام اسکول نہیں تھا جہاں تاجروں کے بچے پڑھتے ہوں بلکہ غالبا دربار سے وابستہ افراد کی بچیاں وہاں پڑھتی تھیں۔۔۔۔انہوں نے تالیاں بجا بجا کر شہید بہشتی کا مذاق اڑانا شروع کردیا۔

شہید بہشتی نے پرسکون اور باوقار انداز سے اپنے کام کا آغاز کیا۔ ابھی تیسرا ہفتہ نہیں گذرا تھا کہ ان بچیوں کے اہل خانہ نے ساواک کو اس خطرے سے آگاہ کیا کہ انہوں نے تمام بچیوں کو جذب کرلیا ہے اور خطرہ یہ ہے کہ یہ لڑکیاں اب خمینی کی طرفدار نہ بن جائیں (اس زمانے میں امام خمینی رح کو "حاج آقا" کہا جاتا تھا لیکن مخالفین انہیں "خمینی" کہا کرتے تھے)


گھر والوں کا کہنا تھا کہ اب کچھ باقی نہیں بچ گیا ہے کہ اسکول کی بچیاں، سب کی سب خمینی کا اطلاعیہ بانٹنے میں لگ جائیں۔ اس لئے شہید بہشتی کو وہاں سے ہٹا دیا گیا، جب انہیں ہٹایا گیا تو اسکول کی لڑکیوں نے رو رو کر احتجاج کیا کہ ہمارے ٹیچر کو کیوں ہٹایا جارہا ہے۔

شہید بہشتی کو عیسائی لڑکیوں کے اسکول بھیج دیا گیا۔۔۔۔ نیت یہی تھی کہ انہیں تنگ کیا جائے گا۔ لیکن ایک بار پر انہیں اندازہ ہوا لڑکیوں کی اکثریت کو شہید نے اپنے سیرت و کردار سے جذب کرلیا ہے لہذا کچھ عرصہ بعد ہی انہیں ایک اور اسکول بھیج دیا گیا۔ یہاں تک کہ ان پر کسی بھی تعلیمی اور چقافتی ادارے میں سرگرمیاں انجام دینے پر پابندی عائد کردی گئی۔۔۔۔"

 

منبع: خاطره از حجت الاسلام هادی دوست محمدی
کتاب تاریخ شفاهی زندگی و مبارزات آیت الله شهید بهشتی، تدوین: دکتر امامعلی شعبانی، مرکز اسناد انقلاب اسلامی



 
صارفین کی تعداد: 2695


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

نوحہ خوانی کی آڑ میں اہلکاروں کو چکمہ

اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا. میں نے خود کو ایک جوان نوحہ خواں کے پاس پایا جو زنجیر زنی کرنے والوں کے لیے تھکی ہوئی آواز میں نوحہ پڑھ رہا تھا. میں نے جلدی سے کہا: مولا حسین ع تمہیں اس کی جزا دیں، تم بہت تھک گئے ہو، لاؤ میں تمہاری مدد کروں اور میں نے مائیک میں پڑھنا شروع کردیا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔