سردار محمد جعفر اسدی کی یادداشت کا ٹکڑا
فتح البین آپریشن کے بعد
انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ
مترجم: سید رومیلہ حیدر
2025-7-28
فتح المبین آپریشن جب ختم ہوا تو سارے کمانڈرز منتظران شہادت بیس میں جمع ہوئے جو اس عظیم اور ناقابل یقین فتح پر کافی خوش تھے، جو انتہائی کم مدت میں حاصل ہوئی تھی، اور سب نے ہی جنگ جاری رہنے کی صورت میں اپنی آمادگی کا اظہار کیا۔ میں کچھ غلط نہیں کہوں گا اگرفوج اور سپاہ کے کمانڈروں کی اس آپریشن کی کامیابی کے بعد پیدا ہونے والی رفاقت اور نزدیکی کا ذکر کروں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اب سپاہیوں کے معمول کے پروٹوکلز اور فوجی ادب آداب کی کچھ خبر نہیں تھی۔ سب ایک جگہ جمع ہوگئے تھے، اور انتہائی بے تکلف محبت آمیز ملاقات جاری تھی۔ ایک دوسرے کو سلام کرنے میں سبقت، دسترخوان پر ایک دوسرے سے تعارف، ہنسی مذاق اور میٹنگ شروع ہونے سے پہلے گرمجوشی، فتح المبین آپریشن کے بعد منعقد ہونے والی پہلی ہی میٹنگ میں ایسا لگ رہا تھا کہ سب ایک ہی ہوگئے ہیں اور ان سب کی فکر و ذکر بس ایک ہی نقطہ تھا کہ سب کو معلوم تھا کہ اس کا نام اب تک " خونین شہر" ہے۔
گلیوں اور بازاروں میں موجود عوام ساتھ ہی پاسداران انقلاب اور فوج کے جنگجوؤں میں حقیقی خوشی اور مسرت تھی، اور بسیجی جو 10 روزہ لڑائیوں میں اپنے حصے کی فتح کی شیرینی کو شہروں میں لے جانے اور دوستوں اور اہل خانہ میں تقسیم کرنے کے لئے چند دنوں کی چھٹی کی تیاری کر رہے تھے۔ ہماری خوشی اور مسرت کا خلاصہ کبھی کبھار فتح المبین کے آپریشنل منصوبے پر نظر ڈالنے سے ہوتا تھا، جو گالف میں وار روم کی دیوار کے سینے پر بڑا اور روشن آویزاں تھا، جسے جب ہم خرم شہر کے نقشے کو دیکھنا چاہتے تھے، تو ہم اس پر ایک نظر ڈال لیتے تھے۔ ہم نے ایک گہری سانس لی اور ہماری آنکھیں سرخ نشانات سے کھیل رہی تھیں، جو فتح شدہ علاقوں کی نمائندگی کرتے تھے، تاکہ ہمارے ذہنوں میں ہر چیز عظیم نظر آئے!
مجھے یاد ہے کہ کسی نے بھی تھکاوٹ کا بہانہ نہیں بنایا۔ کمانڈروں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ہمیں دشمن کو وقت نہیں دینا چاہئے اور ابتکار عمل کا موقع ضائع نہیں کرنا چاہئے جو ہم نے بڑی محنت اور تلخیوں کے ساتھ حاصل کیا ہے۔ تاہم، یہ ہم سب پر شروع سے ہی واضح تھا کہ خرم شہر کے حالات مختلف تھے اور اسے خصوصی منصوبہ بندی اور مضبوط انتظام کی ضرورت تھی، اور یہ کہ اس کے لئے بہت ساری آمادہ فورسز کی ضرورت تھی. یہ بات واضح تھی کہ عراق شعوری طور پر ہماری اگلی منزل سے آگاہ تھا جو دریائے کارون اور خرم شہر کے مغرب میں ہے، لیکن ہم جانتے تھے کہ وہ قلیل مدت میں کسی اور حملے پر یقین نہیں کرے گا اور اسے ہماری استطاعت سے باہر نہیں سمجھے گا، اور ہمارے ماضی کے طرز عمل اور آپریشن ثامن الائمہ اور فتح المبین کے درمیان آٹھ ماہ کے وقفے نے دشمن پر یہ بات واضح کر دی تھی۔ اس وجہ سے ہمیں چونکا دینے کے طریقہ کار پر عمل کرنا پڑا اور فتح المبین میں ہمارے عمل کی رفتار پر ان کی حیرت میں مبتلا ہونے کے مرحلے سے فائدہ اٹھانا پڑا۔ یقینا عراق کے علاقائی اور عالمی حامی، جو یہ سمجھتے تھے کہ خرم شہر صدام کا ٹرمپ کارڈ ہے اور آسانی سے ان کے ہاتھوں سے باہر نہیں نکل سکتا، نے اپنی تمام تر سیاسی اور پروپیگنڈہ طاقت کے ساتھ ساتھ ظاہری اور خفیہ فوجی حمایت کو استعمال کرتے ہوئے ہمارے ذہنوں میں فتح کو ناممکن بنا دیا۔ وہ چاہتے تھے کہ خرم شہر چند دنوں میں عراق کے ہاتھوں میں چلا جائے اور اس طرح ان کے پاس مستقبل میں عراق کو مسلح کرنے اور ایران کی فارورڈ وار مشین کو تباہ کرنے کا وقت ہوگا۔ صدام نے یہ ایسے ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ اگر ایرانی خرم شہر پر قبضہ کر لیں تو ہم انہیں بصرہ کی چابی دے دیں گے۔ صدام اپنے دعوں کے برخلاف کچھ زیادہ فوجی ذہانت کا حامل نہیں تھا اور اس نے فتح المبین کی شکست کو ابھی تک درک نہیں کیا تھا۔ شیرازیوں کے بقول "اس کے زخموں پر ابھی تک ہوا نہیں لگی تھی"! اسے سمجھ لینا چاہیے تھا کہ ہمارے جوش و خروش کی رگ ہل چکی ہے اور خرم شہر کو دوبارہ دیکھنے کے لئے ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ درحقیقت آبادان اور دشت عباس کی فیصلہ کن فتوحات نے ہمیں سکھایا تھا کہ امید پیہم سے خرم شہر کو بھی فتح کیا جا سکتا ہے۔
گالف سیشنز میں تمام کمانڈروں کے جسم الگ لیکن روح ایک ہوچکی تھی اور بہت سی گفتگو کے بعد وہ جلد ہی اس نتیجے پر پہنچے کہ ایک ماہ کے اندر اندر فوج اور پاسداران انقلاب کی مشترکہ ستاد کو چار ہیڈکوارٹرز کی شکل میں مضبوط کیا جائے اور یونٹوں کی سہولیات کو مضبوط کیا جائے، فورسز کو دوبارہ منظم کیا جائے اور آپریشنل منصوبوں کا مزید باریک بینی سے جائزہ لیا جائے۔ کمانڈروں نے آپریشن شروع کرنے کا حتمی فیصلہ بھی محسن رضائی اور صیاد شیرازی کو سونپ دیا اور کہا کہ داڑھی اور قینچی آپ کے ہاتھوں میں ہے، ہم فرمانبردار اور تیار ہیں۔
ہم سب جانتے تھے کہ ہمیں ایک اور مہینے تک صبر و تحمل سے کام لینا ہے اور پھر آپریشن کے لیے ایک ایسے علاقے میں جانا ہے جس کے لئے فورسز کو بار بار جمع کرنے کی ضرورت نہیں تھی اور ماضی کی کارروائیوں کے معمول کے الفاظ اور توضیحات بھی اب نہیں تھیں۔ ہم جانتے تھے کہ ملک کے ہر کونے میں خرم شہر کی باتیں ہو رہی تھیں اور پورا ملک ایران کے پھولوں جیسے شہروں کی آزادی کی خبر سننے کا منتظر ہے!
صارفین کی تعداد: 25








گذشتہ مطالب
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
فتح البین آپریشن کے بعد
مجھے یاد ہے کہ کسی نے بھی تھکاوٹ کا بہانہ نہیں بنایا۔ کمانڈروں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ہمیں دشمن کو وقت نہیں دینا چاہئے اور ابتکار عمل کا موقع ضائع نہیں کرنا چاہئے جو ہم نے بڑی محنت اور تلخیوں کے ساتھ حاصل کیا ہے"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔

