مہدی فرہودی کے بیانات سے اقتباس
کامیابی کے بعد
قصہ دراصل یہ تھا کہ ساواک کے زیر شکنجہ رہ کر علی کی شہادت واقع ہو چکی تھی لیکن ان کے اہل خانہ کو یہ بتایا گیا کہ چونکہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ تعاون نہیں کیا تھا اس لیے ان کو جیل سے رہا کردیا گیا تھا۔ شہید علی جہان آرا تہران یونیورسٹی کی فیکلٹی آف سوشل سائنسز کے طالب علم تھےحجت الاسلام و المسلمین جناب محمد حسن اختری صاحب کے بیانات سے اقتباس
18 سالہ نوجوان کی پٹائی
مجھے گرفتار کر کے اسی افسر کے پاس لے گئے اور اس کے حکم پر مجھ پر تشدد کیا۔ وہ مجھے لٹا کر میری ٹانگوں پر کوڑے برساتے اور پھر اس لیے کہ میری ٹانگوں پر سوجن نہ آئے، مجھے بھاگنے کو کہتے؛ زمین بھی ریتلی تھی، میں ٹانگوں کے اس درد کے ساتھ بہت مشکل سے بھاگ پاتا،جیل میں رہتے ہوئے قیدیوں کا بائیکاٹ
شہید سید اسد اللہ لاجوردی کے بیانات سے اقتباس
وہ ایسی صورت حال پیدا کر دیتے کہ یہ جوان جو نئے نئے جیل میں آئے ہوتے تھے وہ ان کے قابو میں اور زیر تسلط آ جاتے۔ لیکن اگر ان جوانوں کو ہم سے رابطہ کرنے کا موقع مل جاتا تو وہ وقتاً فوقتاً رابطہ کرنے اور بعض مسائل پر ہم سے ہماری رائے جاننے میں کوئی عار محسوس نہ کرتےحاجی حسین فتحی کے بیانات سے اقتباس
گلی کوچوں اور بازار کے لوگوں کی طرف سے امداد
میں جو کچھ لکھ رہا ہوں وہ کچھ قالینوں،لالٹینوں، کھانے کے برتنوں، لباس اور بنیادی ضروریات کی اشیاء کی فہرست ہے جو ہم نے شادگان میں بے گھر ہونے والے لوگوں کے لیے تیار کی ہے، لیکن چونکہ سڑکوں پر عراقی فوج کا قبضہ ہے اس لیے ہمیں آبادان اور سد بندر کے پاس سے ہوتے ہوئے کافی لمبا راستہ طے کر کے وہاں پہونچنا ہوتا ہےحاجی حسین فتحی کا حج سے واپسی پر اظہار خیال
انہوں نے منطقی بات کی اور کہا کہ"اس صورتحال اور اس قسم کی خبروں سے ہم یہاں صحیح فیصلہ نہیں کرسکتے، ہم دوسرے ملک میں ہیں،یہاں اجنبی ہیں، جو فیصلہ بھی طے ہوگا سب مل کر ہی اس پر عمل درآمد کریں گے"۔رونے کے بجائے ہنس رہی تھی
راوی: مھین خمیس آبادی
شام کو جب تک ہم باغ میں تھے شمسی خانم، ستارہ خانم کی اس بات پر ہنستی رہی اور پوچھتی رہی: "ستارہ! آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ منہ دل پر آ گرے؟"مدرسہ فیضیہ کے حادثے کے بارے میں ڈاکٹر باقر کتابی کی روایت
واعظ نے جب خود کو اس حالت میں پایا تو بلند آواز میں کہا: "اے مسلمانو! جو دور و نزدیک سے اس مقدس شہر میں آئے ہو، جب اپنے شہر واپس جاؤ تو لوگوں کو بتانا کہ اب ہمیں امام جعفر صادقؑ کے مذہب کے سربراہ کی مصیبت بیان کرنے کی بھی اجازت نہیں!"سردار محمد جعفر اسدی کی یادوں سے
ایک ماہ کے دوران، جب یہ پل کارون پر موجود تھا، روزانہ عراقی طیارے بمباری کے لیے آتے اور اسے تباہ کرنے کی کوشش کرتے؛ اس بات سے بے خبر کہ ہم صرف رات کو پل استعمال کرتے تھے۔ جب دن نکلتا، ہم پل کو بکسل کیبل سے اپنے کنارے کھینچ لیتے اور کارون کے گھنے نباتاتی پردے میں چھپا دیتے۔ اس طرح، پورے آپریشن کے دوران، عراقی پل کو نقصان نہ پہنچا سکے۔اکبر براتی کی یادیں
اسلامی انقلاب کمیٹی کی تشکیل کے بارے میں
میں (اکبر براتی) بھی اپنی پہلی سرکاری سرگرمی کے طور پر مرکزی کمیٹی کے بازرسی شعبے کا رکن تھا۔ کچھ افراد کو تہران میں کام سونپا گیا، کچھ کو دیگر صوبوں میں بھیجا گیا تاکہ وہاں کمیٹیوں کی تشکیل میں مدد کریں۔ کچھ افراد کو مرکزی کمیٹی میں ہی ذمہ داریاں دی گئیںلشکر علی بن ابی طالب ع میں کربلا بٹالین کے کمانڈر علی اصغر خانی کی یادداشت کا ایک حصۃ
شہید مہدی زین الدین کے بارے میں
جنگ، اب صرف دستی بموں کی جنگ بن چکی تھی۔ وہ پھینکتے، ہم پھینکتے۔ صبح کے وقت، گولہ باری اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے عراقیوں نے قسم کھا لی ہو کہ جو کچھ بھی ان کے پاس ہے، ہم پر اور اس پہاڑی پر نچھاور کر دیں گے۔1
...
گذشتہ مطالب
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
کامیابی کے بعد
قصہ دراصل یہ تھا کہ ساواک کے زیر شکنجہ رہ کر علی کی شہادت واقع ہو چکی تھی لیکن ان کے اہل خانہ کو یہ بتایا گیا کہ چونکہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ تعاون نہیں کیا تھا اس لیے ان کو جیل سے رہا کردیا گیا تھا۔ شہید علی جہان آرا تہران یونیورسٹی کی فیکلٹی آف سوشل سائنسز کے طالب علم تھے"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔

