اس کا دل نادار طبقے کیلئے دھڑکتا تھا
ترتیب: فاطمه مرادی
مترجم: سید مبارک حسین زیدی
2016-08-10
شہر آباد سے سب سے پہلے مدافع حرم
علی اکبر پور جمشیدی (۱): جس وقت مشرقی آذربائیجان میں زلزلہ آیا۔ تو اس صوبے کا تقریباً چھ ہزار کلومیٹر کا رقبہ متاثر ہوا۔ اس زلزلے کی وجہ سے ہرسین، اہر اور ورزقان اور سینکڑوں گاؤں کو نقصان ہوا۔ میں اس وقت مشرقی آذربائیجان کی فوج میں کمانڈر تھا۔ اس زمانے میں ہم ان مصیبت زدہ لوگوں کی خدمت کرنے میں مصروف تھے جیسے کہ ان کیلئے رہائش کا بندوبست کرنا وغیرہ۔ کیونکہ زلزلے کی وجہ سے کئی گھر، مسجدیں، اسکول گرچکے تھے۔
شہید سعید سیاح طاہری(۲) نے مجھے فون کیا اور مجھے زلزلہ زدہ علاقوں کے بچوں اور نوجواں کی حوصلہ افزائی کیلئے مقدس دفاع کے بارے میں بننے والی فلموں کا فیسٹیول منقعد کرنے کی تجویز دی اور وہ خود اس فیسٹیول کا سیکریٹری تھا۔ میرے لئے اس پروگرام کو آذربائیجان کی سردیوں میں منعقد کرنا مشکل تھا کیونکہ حتی شعبہ تعلیم نے بھی طالبعلموں کی ذمے داری قبول نہیں کی تھی اور ان طالبعلموں میں سے بعض نے ابھی ابھی اپنے گھر والوں کو کھویا تھا۔
شہید طاہری کی مدد سے مشرقی آذربائیجان کے زلزلہ زدہ علاقوں سے تقریباً ۴۵ ہزار طالبعلموں کے بارے میں معلومات حاصل کی۔ شہید طاہری نے مجھ سے کہا: "تم جگہ کا انتظام کرو اور صوبے کے افسروں سے بات کرو اور میں طالبعلموں کو سنبھالتا ہوں"۔
طالبعلموں کیلئے مقدس دفاع کی فلموں کا یہ فیسٹیول، مشرقی آذربائیجان میں پندرہ سے سولہ دن تک چلا۔ جس میں حبیب احمد زادہ اور فلمی صنعت کے دیگر ہنرمند افراد، جیسے کہ پرویز پرستوئی، مالک سراج وغیرہ نے شرکت کی۔ جس دوران یہ فیسٹیول منعقد ہو رہا تھا، شہید سیاح طاہر نے فلمی صنعت کے لوگوں کی مدد سے گاڑیوں کو اھروارسباران جیسے گاؤں میں بھیجا، جہاں تک کسی بھی گاڑی کا پہنچنا تقریباً ناممکن تھا، تاکہ وہ طالبعلموں کو اس ہال میں لائیں جہاں یہ فیسٹیول ہو رہا تھا۔ شہید سیاح طاہری کا عقیدہ تھا کہ صرف غم اور مصیبت ہی نہیں بلکہ خوشی کے ذریعے بھی نسل جوان میں انقلابی اقدار کو ایجاد کیا جاسکتا ہے۔
آج یہ امن و امان شہید سعید سیاح طاہری کی طرح کے شہدائے حرم کی وجہ سے ہے۔ آبادان کے سینما "ریکس" کے حادثے کے بعد سن ۱۹۷۸ (۳) میں (شہید سیاح طاہری نے) سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ وہ اسلامی انقلابی کے بعد مقدس دفاع کے دوران امام خمینی ؒ کے سپاہیوں میں سے تھا۔ حتی ۲۲/ ستمبر ۱۹۸۰ میں عراق کے ایران پر حملے سے پہلے، بعث پارٹی کے کارکنوں سے جنگ میں مصروف تھا۔ وہ آبادان اور خرمشھر کے ان چند لوگوں میں سے تھا جو کہ دشمن (یعنی بعث پارٹی) کے مقابلے میں کھڑے ہوئے تھے۔ جنگ کے آپریشنوں میں ان کا اہم کردار تھا۔ وہ "کربلا ۵" نامی آپریشن میں زخمی ہوئے اور ان کی ایک آنکھ بھی ضائع ہوئی۔
ایران، عراق کی جنگ کے بعد، وہ مختلف سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ وہ کوئی کام بھی اپنے لئے نہیں کی کرتا اور خود کو اسلامی انقلاب کامقروض جانتا تھا۔ اس کے باوجود کہ جنگ کے زخمیوں میں سے تھا اور اس حد تک حالت خراب تھی کہ اگر چاہتا تو گھر میں بیٹھے رہتا۔ لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ میں تقریباً ۲۵ یا ۳۰ سال سے شہید سیاح طاہری کو جانتا تھا اور ان کے ساتھ فوج میں تفتیش کے شعبے میں کام کرتا تھا۔ وہ ایک کمانڈر، سپاہی اور دستی بموں کو ناکارہ کرنے والے اسلحوں کے متخصص تھے۔ لبنان کی اسرائیل کے ساتھ جنگوںمیں، وہاں کے لوگوں اور جوانوں کو جنگی ٹریننگ دینے میں ان کا بہت اہم کردار تھا ۔شہید سیاح طاہری کی لبنان میں محنتوں کے نتیجے کو ہم نے تینتیس روزہ جنگ میں دیکھا کہ کس طرح سے لبنان میں اسرائیل اور صیہونی طاقتوں کو قابو کیا گیا۔ وہ سن رسیدہ ہونے کے باوجود شام میں (داعش کے خلاف جنگ میں) لوگوں کی مدد کیلئے گئے۔ عراق اور شام میں ان کا وجود وہاں کے لوگوں کے لئے اطمینان کا باعث تھا۔
وہ صرف حملہ کرنا او ر دفاع کرنا نہیں سکھاتے تھے بلکہ میدان میں اور حملوں میں تکفیریوں کی طرف خود بمباری بھی کیا کرتے تھے۔ اس کے باوجود کہ وہ کمانڈر شپ کا مقام لے سکتے تھے لیکن شام میں بالکل معمولی لوگوں کی طرح ۲۵ سالہ جوانوں کے تحت نظر کام کرتے تھے۔
عراق کی ایران کے خلاف جنگ کے دوران جب اہم امور پر اختتام کو پہنچتے تھے تو مجاہدوں کو حوصلہ دیا کرتے تھے۔ وہ خدا کی راہ میں شہادت کےآرزومند تھے اور مقام معظم رہبری کے ساتھ ملاقات میں بھی انہوں نے یہی درخواست کی تھی کہ وہ اپنی اس شہادت کی آرزو کو پالیں۔ وہ حرم کا دفاع کرنے والے، شہر آبادان سے سب سے پہلے شہید تھے۔ اگر ہم جان لیں کہ شہید طاہری آج زندہ ہوتے اور انقلاب کی راہ میں کیا کرتے اور لوگوں (کی فلاح) کیلئے کیا کرتے اور ہم بھی وہی کریں اور اسی راہ پر چلیں تو یقیناً ہمارا خاتمہ بخیر ہوگا اور امام خمینیؒ اور شہدا کے سامنے شرمندہ نہیں ہونگے۔
وہ آبادن کے "گلزار شہدا" نامی قبرستان میں مدفون ہیں
ہدیہ قبیشی(۴): ہمارے آخری سفر میں، آبادان سے اہواز کے راستے میں، شہید سعید طاہری نے مجھ سے کہا: "اگرمیں شام میں مارا جاؤں، مجھے کہاں دفن کروگی؟" میں نے کہا: "تہران کے قبرستان بہشت زہرا میں یا آبادان کے قبرستان گلزار شہدا میں۔" کہنے لگے: "بہشت زہرا اچھی جگہ ہے۔" میں نےکہا: "آپ نے آبادان میں "گلزار شہدا" کا قبرستان بنانے کیلئے بہت زحمت کی ہے۔" کہنے لگے: "میں نہیں چاہتا کہ میرے بچے زحمت میں پڑیں" میں نے کہا: "اگر بچے چاہیں گے تو آبادان کے گلزار شہدا آجائیں گے۔"
جس روز سعید کی شہادت کی خبر آئی، میں شیراز میں اپنے والد کے گھر تھی۔ میں نے استخارہ کیا کہ اپنے اس شہید کو کہاں دفن کیا جائے۔ پہلا استخارہ تہران کے بہشت زہرا کیلئے اچھا آیا۔ دوسری دفعہ آبادان کے گلزار شہدا کیلئے یہ آیت آئی :{مِنَ المُؤمِنینَ رِجالٌ صَدَقوا ما عاهَدُوا اللَّهَ عَلَیهِ فَمِنهُم مَن قَضى نَحبَهُ وَمِنهُم مَن یَنتَظِرُ وَما بَدَّلوا تَبدیلًا}(۵) (مومنوں میں سے کچھ مرد ایسے ہیں کہ جنہوں نے خدا سے کیئے ہوئے وعدوں کی تصدیق کی، پس ان میں سے بعض نے اپنی اس نذر (موت) کو پورا کردیا (اور شہید ہوگئے) اور بعض (اپنی اس نذر کو پورا کرنے کا) انتظار کر رہے ہیں اور اپنے عہد میں انہوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی ہے۔)
سعید صاحب کی تدفین سے پہلے تہران اور آبادان میں ۸ الوداعی جلسے منعقد ہوئے اور پھر سعید صاحب کے پیکر کو آبادان کے "گلزار شہدا" میں دفن کر دیا گیا۔
وہ ہمیشہ سب سےآخر میں کھانا کھایا کرتے تھے
سیدہ زہرا حسینی(۶):طالبعلموں کیلئے مقدس دفاع کی فلموں کے فیسٹیول کو شروع کرنے کا سہرا شہید سعید سیاح طاہری کے سر ہے۔ اس سال کا فیسٹیول "بوشہر" میں ان کے بغیر برگزار ہوا۔ میں جب فلم کے ہال میں داخل ہوئی تو شہید سعید سیاح طاہری کی آمد کی منتظر تھی۔
سب سے پہلا فیسٹیول سن ۲۰۰۹ میں صوبہ خوزستان میں منعقد ہوا۔ اس فیسٹیول کے مہتمم اعلی جناب حبیب احمد زادہ تھے۔ اور اسکے سیکریٹری خود سعید سیاح طاہری تھے۔ وہ ہر چیز اور ہر شخص کی نسبت ذمے داری کا مظاہرہ کرتے تھے۔ جب بھی یہ فیسٹیول منعقد ہوتا تھا، ہوائی ادے پر ہمارے منتظر ہوا کرتے تھے۔ فیسٹیول کے اختتام پر بھی اسی طرح ہمیں گاڑی تک چھوڑنے آتے تھے۔ خو د اس فیسٹیول کے سیکریٹری اور جنگ کے مجروحین میں سے ہونے کے باوجود، تواضع کا یہ عالم تھا کہ خود ہمارے لئے گاڑی چلایا کرتے تھے۔ بہت ہی پرسکون آدمی تھے۔ ان لوگوں میں سے تھے جو کہیں بھی ظلم ہوتا دیکھتے ہیں تو سب سے پہلے پہنچتے ہیں (تاکہ مظلوم کی مدد کریں)۔
صوبہ ایلام کے شہر "درمشھر" میں جو کہ ایران کے قدیمی شہروں میں سے ہے اور میں بھی وہیں سے ہوں، بے روزگاری وغیرہ کی وجہ سے بالخصوص خواتین کے درمیان نا اُمیدی نظر آتی تھی۔ شہید سیاح طاہری کو جیسے ہی یہ خبر ملی، سکون سے نہ بیٹھے اور ا س شہر میں دفاع مقدس کی فلموں کے فیسٹیول کی تجویز دے ڈالی۔ جب یہ فیسٹیول "درمشھر" میں منعقد ہوا تو مجھے اسکی بہترین تاثیر نظر آئی۔ اور میں نے دیکھا کہ کس طرح لوگوں میں امید پیدا ہوئی۔
جب بھی کوئی فیسٹیول ختم ہوتا تھا، تمام لوگ آرام کرتے تھے لیکن شہید سیاح طاہری، خادموں کے ساتھ مل کر ہال کی صفائی کروایا کرتے تھے اورکرسیوں کو مرتب کرکے رکھا تھے۔(۷) ایک دفعہ فیسٹیول کے اختتام کے بعد میں دوستوں اور صحافیوں سے باتیں کرنے اور انٹرویو دینے میں شاید دو یا تین گھنٹے تک مشغول تھی؛ انٹرویو کے بعد متوجہ ہوئی کہ فیسٹیول کی انتظامیہ کے تمام افراد نے حتی میرے شوہر نے بھی کھانا کھالیا ہے اور سب جاچکے ہیں، میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں، شہید سیاح طاہری کو میں نے دیکھا کہ وہ کھانا لئے میرے طرف آرہے ہیں! بعد میں میری سمجھ میں آیا کہ کیونکہ ان کی ذمے داری تھی کہ سب کو کھانا پہنچ جائے اسی لئے جب تک میں نے کھانا نہیں کھالیا، انھوں نے بھی کھانا نہیں کھایا۔ وہ سب سے آخر میں ہی کھایا کرتے تھے۔
شہیدوں کا خدا، شہیدوں کے پسماندگان کو تنہا نہیں چھوڑتا۔ شہید سیاح طاہری زمینی نہیں تھے لیکن ان کا کردار زمینی تھا (یعنی حدّ سے زیادہ متواضع تھے)۔
بہترین اجر
مہر داد صدیقیان: شہید سیاح طاہری طالبعلموں کیلئے دفاع مقدس کی فلموں کے فیسٹیول کے ازدحام میں بچوں اور نوجوانوں میں گھل مل جایا کرتے تھے اور آرام بخش مسکراہٹ ان کے لبوں پر رہتی تھی۔ فیسٹیول کے انعقاد کے درمیان ایک با تدبیر مدیر نظر آتے تھے اور ان تمام خصوصیات کی وجہ سے فیسٹیول منظم طریقتے سے منعقد ہوا کرتا تھا۔ کسی بھی دنیاوی مقصد کو مدنظر رکھے بغیر اور محروم و مصیبت زدہ لوگوں کو خوشحال کرنے کیلئے د فاع مقدس کی فلموں کا فیسٹیول منعقد کیا کرتے تھے۔ آج ہمارے وطن میں امنیت انہی طرح کے لوگوں کے سبب سے ہے۔
سید علی صالحِی: میں نے ایک دن آبادان یں ہی شہید سیاح طاہری سے کہا: "تم کس قدر پاکیزہ شخص ہو؟" انھوں نے جواب میں کہا: "مجھ میں اگر کچھ پاکیزگی ہے تو اس کی وجہ جنگ پر جانا ہے"َ مجھ سے کہنے لگے: " سید دعا کرو کہ میں شہید ہوجاؤں"۔
مشرقی آذربائیجان میں طالبعلموں کیلئے دفاع مقدس کی فلموں کے فیسٹیول کے زمانے میں، میں اپنے دوسرے آرٹسٹ دوستوں کے ساتھ جشن کے پروگرام کی میزبانی میں مصروف تھا کہ میں نے سنا کہ ایک شخص نے کہ: "ہم نے اتنے شہید اس لئے دیئے تھے کہ یہ لوگ گانا بجانا کریں؟"شہید نے مجھے جواب میں کہا: "ہمارا مقصد اور ذمہ داری معلوم اور مشخص ہے۔"
مالک سراج: سن ۱۹۷۹ اور دفاع مقدس سے لیکر اب تک، میں شہید طاہری کے ساتھ مسلسل کام کرتا رہا ہوں۔ مشکل ترین حالات میں بھی اپنے آپ پر قابو رکھا کرتے تھے۔ کسی اجر و انعام کی توقع کے بغیر قوم اور دین کے مقابلے میں اپنی ذمے داری کو یادہ سے زیادہ حد تک پورا کیا کرتے تھے۔ شہادت، شہید سیاح طاہری کیلئے بہترین اجر تھا۔
سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
صارفین کی تعداد: 4278
http://oral-history.ir/?page=post&id=6509