شہید علی سوری اپنے دوستوں کی زبانی


2015-08-29


تعارف:

شہید علی سوری ملایر کے ایک مضافاتی گاؤں پیرغیب میں ۲۹ دسمبر ۱۹۵۹ کو پیدا ہوئے ان کے والد ۶۱۔ ۱۹۶۰ ء میں امام خمینی کے مقلدین میں سے تھے علی نے پانچ سال کی عمرمیں مرحوم سید ابوطالب میر معنی کے پاس قرآن کریم شروع کیا انھوں نے تعلیم کے لئے رات کے وقت کا انتخاب کیا کیونکہ دن میں کسب معاش کیا کرتے تھے۔ ١۹ رمضان ۱۹۷۶ میں اپنے والد کے انتقال کے بعد علی نے مسجد حاج علی شہباز خان میں انقلابی کمیٹی میں کام شروع کیا اس کے بعد وہ ضخر زندہ کے کیمپ میں اس کے بعد شہید محمد منتظری کے کیمپ میں منتقل ہو ئے پھر ا سکے بعد چھاونی شہدا چلے گئے اور وہیں اپنی ٹریننگ کو مکمل کیا پھر اسکے بعد وہاں سے حربات فنی کی کمیٹی سے منتخب ہو کر کرمان شاہ سے ہوتے ہوئے تہران کے سعد آباد منتقل ہو ئے، تاکہ کچھ اور ضروری تعلیم کو پورا کیا جا سکے، علی سوری ۱۹۷۹ میں صرف ۲۰ سال کےتھے لیکن اپنی صلاحیتوں کی بنا پر وہ ایک استاد کی حیثت اختیار کر چکے تھے، ایک عرصے تک وہ کرمانشاہ میں خواتین رضاکاروں کی تربیت کے افسر رہے، ان ہی کے زمانے میں پاوہ کا حادثہ پیش آیا جس میں وہ شہید آیت اللہ شعبانی کے ساتھ اس علاقے میں گئے، یہاں تمام مسائل کو بیان کرنا مقصود نہیں اس جوان اور اس عظیم شہید کے مقام کے لئے یہی کافی ہے شہید چمران نے پاوہ کے شہدا کی برسی کے موقعہ پر زعما کے ہوتے ہوئے علی کو دعوت دی اور لوگوں کو ان کی شجاعت کے بارے میں بتایا ۔

یہ بات بتانا بھی لازم ہے کہ علی نے سنندج، مریوان، سقز، بانہ، مھاباد، میں بھی موثر کردار ادا کیا منافقین نے دو مرتبہ انھیں قتل کرنے کی کوشش کی پہلی مرتبہ دعائےکمیل میں شرکت کے موقعہ پر ان کے سینے پر گولی ماری اور دوسری مرتبہ خیابان کشاورز کرمانشاہ میں گولہ باری کا نشانہ بنایا۔

علی نے ۲۶ ستمبر ۱۹۸۰ ء کو ایک آپریشن جس کا محور گیلانغزب تھا شرکت کی اس آپریشن میں داود رضوانی ان کے ساتھ تھے وہ اسی آپریشن میں میدانی شناخت کے دورن شہید ہو ئے وہ ۱۹۷۸ء سے ۱۹۸۱ ء تک تقریباً تین سال کے دوران ۹ بار مجرح ہو ئے اور بلآخر کرمانشاہ کی فوجوں کی سربراہی کرتے ہوئے ۲۸ دسمبر ۱۹۸۱ کو آپریشن مطلع فجر میں مغربی گیلان میں جس وقت وہ پل ذہاب اور قصرشیرین کے محاذ پر مامور تھے میں ۲۲ سال کی عمر میں شہادت کے درجہ پر فائز ہو ئے یہاں ہم صرف ان کی شہادت کے واقعہ کو بیان کریں گے اور اس روش کو کہ جو انھوں نے اس آپریشن میں اختیار کی تھی ۔بیان کریں گے۔

انٹرویو:

ہم اس بات کو جانتے تھے کہ علی شہید ہو جا ئے گا یعنی یہ عاقبت اندیشی بہت واضح تھی، ایک رات علی آیا، یہاں بیٹھا، اور کہا کہ کل مطلع فجر کاآپریشن ہے میں بھی اس آپریشن کے سربراہوں میں سے ایک ہوں اس کے بعد زبانی وصیت کرنے لگا کہ میرے پاس کچھ نہیں نہ دولت ہے اور نہ گھر ہے اس گھر کے کاغذات ابھی اس کے نام ہے یہ قالین اس وقت بھی تھا ابھی بھی ہے کہ جسے میری ماں نے بنا تھا پھر کہا کہ جب میں شہید ہو جاوں تو پریشان مت ہونا، میں برا بننا نہیں چاہتا، میں یہ نہیں کرسکتا کہ آج چھٹی لے لوں تاکہ شہید نہ ہوں،  جب ایک آفسر آگے ہے تو آگےہے کیونکہ شہادت آگے ہے یہ بات میں نے اپنے سپاہیوں کو کہہ دی ہے تمہیں بھی بتا رہا ہوں کو ئی پریشانی کی بات نہیں، رونا نہیں، اگر رونا تو صرف امام حسین علیہ السلام کے لئے رونا (شہید کے بھائی فتح علی سوری یہاں رونے لگے )میری ماں اگر چاہے تو (شہیدوں کے گھروالوں کی مدد کرنے والی کمیٹی)شہید بنیاد سے فائدہ لے سکتی ہے کہ جس پر ہم نے کہا کہ نہیں ہمیں کو ئی ضرورت نہیں، تو انھوں نے کہا اگر گرفتار ہوجاؤں تو خدا کی مرضی، میری تو دعا یہ ہے کہ زخمی نہ ہوں شہید ہو جاوں۔یہی دو تین جملے کہے اور خدا حافظ کہا اور اسی رات چل دیئے ۔میری ماں نے گریہ نہیں کیا بس یہی کہتی رہی میرے لعل تجھے خدا کو سونپا (ان کا بھائی یہ کہہ کر رونے لگا)۔ (1)

آپریشن کا مرکزی محور کرمانشاہ کے سپاہی تھے مغربی گیلان سے آوازین کی پہاڑیوں تک، دائیں جانب گور سفید و فریدون تھا غرب کا ساراکا سارا علاقہ جو غرب گیلان میں تھا جنگی علاقہ تھا، ایک مرکزی پوزیشن قصر شیرین کی جانب تھی شرق کا ایک علاقہ جو اونچائی پر تھا کہ جس میں سرکش، بر آفتاب، حاجیان کی گھاٹی، قاسم آباد کی گھاٹی، چم امام حسین، شامل تھے اس کی پشت پر دیرہ کا میدان، دانہ خشک اور سکان کا علاقہ تھا، شہید سوری شرقی علاقے میں تھے، پہلے غربی علاقے کے کمانڈر تھے یعنی بلندی کی جانب فریدون کشیھا کی سمت، چغالوند جو سرحد کی جانب ہے اور دوسری طرف قصر شیرین کی جانب، یہ وہاں کے کمانڈر تھے شہید بروجردی شیش راہ میں آپریشن کی تمام ذ مہ داریاں نبھا رہے تھے، ہم بھی شیش راہ کے دشت دیرہ جہاں کرمانشاہ کے سپاہی تھے آگئے، ستادیشان کے سپاہیوں کو ہمدان کے سپاہیوں سے ملادیا تاکہ کورک وحاجیان کی گھاٹی میں کام کریں، شہید سوری نے ایک دو دن کے بعد یہ آپریشن کیا ۔اور وہاں کا آپریشن روک دیا گیا، شہید سوری دشت دیرہ کی جانب آئے، ہم نے بھی بلندی کا کچھ علاقہ لے لیا تھا، کچھ علاقے پر عراق نے قبضہ کر رکھا تھا، دراصل وہاں آپریشن ممکن نہیں تھا، شہید سوری وہاں کے شہسوار تھے اگرچہ اس آپریشن میں محمد کریمی اور جناب عبدللہ اویسی بھی موجود تھےلیکن غربی علاقے میں آپریشن کو چلانے والے شہید سوری ہی تھے جب کام رک گیا تو شہید بھی شیش راہ آگئے ہم شیش راہ میں تین، چار ٹیچر تھے ایک میں ایک شہید محمد بہرامی ایک عبداللہ اویسی، اور ایک فتاح رئیسیان، جبکہ کورک کی گھاٹی اور حاجیان کی گھاٹی پر مرکزی کمانڈر شہید والا مقام بروجردی تھے کرمانشاہ کی کمانڈرنگ جناب صحرائی اور جناب مظلومی کے ہاتھ میں تھی لیکن اس بٹالین میں جس کی شرکت ضروری تھی وہ شہید علی سوری تھے وہ اس وقت وہاں موجود نہیں تھے، وہ اس وقت غرب گیلان میں تھے اور انھوں نے آپریشن شروع کر دیا تھا لیکن ہماری بٹالین کو کسی سے ملحق نہیں ہونا تھا کیوں کہ کمانڈر جو نہیں تھا، تین چار افرد تھے کہ جنھیں علاقے میں علی سوری کا جانشین بننا تھا، ایک جناب عبداللہ اویسی تھے اور محمد بہرامی تھے اور ایک جناب رئیسیان تھے اور ایک میں خود تھا ہم چار افرد تھے، کیوں کہ ہم ٹرینر تھے اور اسٹاف کے خاص افرد میں سے تھے اور اس بات کے آرزو مند تھے کہ سارا کام ہمارے سپرد کر دیا جا ئے، لہذا طے یہ پایا کہ ہم رات میں علاقے کی چھان بین کرنے جائیں اور کل بٹالین روانہ ہو، شہید سوری بھی اس علاقے میں نہ تھے، ہم رات کو اسی لئے ہی آئے تھے کہ علاقے کو دیکھیں اور اگلے دن بٹالین کو روانہ کردیں، ہم تیار تھے ہمارے ساتھ شہید نوروزی اور جناب اویسی اور رئیسیان صاحب تھے بہرامی صاحب کو ہم نے شامل نہیں کیا جب ہم چلنے کو تیار تھے کہ کوئی آیا اور آکر کہا کہ آخر کیوں تم سب ایک ساتھ جا رہے ہو؟ اگر تم سب کو کچھ ہو گیا تو بٹالین میں پھر کون بچے گا بہرحال ہم میں گوں مگوں کی کیفیت تھی اس کو چھوڑیں یا اس کو۔شہید برجردی اور جناب صحرائی نے کہا کہ جناب دولت آبادی ٹھہر جا ئیں ۔

رات کے بارہ بجے تھے مجھے غصہ اس بات کا تھا کہ آخر اس اہم ترین آپریشن میں ہمیں کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے، وہ سب چلے گئے میں نے بہرامی صاحب کو بہت ڈھونڈا لیکن وہ نہ ملے کہا گیا کہ وہ بھی آخری وقت ان کے ہمراہ چلے گئے، میں نے کہا تعجب ہے سب چلے گئے میں تنہا رہ گیا ؟ مجھے ان سے گلہ سا ہو نے لگا، صبح ہو ئی مجھ سے کہا گیا کہ یہ سب اوپر کی جانب چلے گئے تھے تاکہ علاقے کو جانچ سکیں یہ لوگ فرنٹ لائین پر تھے کہ ایک شیل ٦۰ آکر ان کے بنکر میں لگا، بہرامی و نوروزی شہید ہو گئے، اور عبداللہ اویسی اور رئیسیان زخمی ہو گئے اور پیچھے کی جانب بھیجے گئے ہیں ۔ شہید بروجردی نے کہا کہ تم جاؤ آج رات بٹالین کو روانہ کرو، یعنی میں خود اپنی ذمہ داری پر اپنی بٹالین آگے بھیج دوں، میری بٹالین بھی سرد ہو گئی تھی کیوں علاقائی شناخت کے دوران اپنا حوصلہ کھو چکی تھی ہمیں بتایا گیا کہ پورا علاقہ محاصرے میں تھا پچھلی راتوں کو حملوں کے بعد ایک بڑا علاقہ عراقیوں کے قبضے میں چلا گیا تھا بس کورک کی گھاٹی کا ایک چھوٹا ساعلاقہ باقی تھا میں اپنی بٹالین کی راہنمائی کرتا ہوا آگے بڑھا تاکہ رات کے وقت اس کو محاذ پر لے جاسکوں میں گیا، ۷۰، ۸۰ افراد پر مشتمل یہ بٹالین آگے بڑھنا شروع ہوئی اور بالآخر اپنے مقام پر پہنچ گئی یہاں تین فرنٹ تھے میں نے اپنے افرد کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا اور انھیں پوزیشن دے دی، میں خود ان کے وسط میں رہا، بہت پریشان تھا، مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا کرنا ہے، حملہ کروں یا نہ کروں اگر حملہ نہیں کرتا تو محاصرہ ہے، انھوں نے کہا ابھی ٹھہرو، ابھی بتاتے ہیں، مجھے احسا س تھا کہ اگر حملہ کرتے ہیں تو خالی ہیں، شہید سوری بھی نہیں تھا اے کاش اگر ہوتا تو تباہ کر دیتے۴، ۵ ٹینک ہی تو تھے، تین مضبوط عراقی بٹالین تھیں، اس کے بعد ہمارا ارادہ دشت گیلان غرب جانے کا تھا بہت خطرناک میدان تھا اوپر ٹھہرنا آسان تھا لیکن وہاں جانا بہت خطرناک تھاہماری صورت حال یہ تھی کہ ہم کوڈ ورڈ میں باتیں کر رہے تھے ہمیں خبر دی گئی کہ شہید سوری آنے والے ہیں یہ خبر سن کر میں نے نماز شکر پڑھی اور بہت خوش ہو ا کہ سوری آرہا ہے، گاڑیاں آنے لگیں کچھ رات کو آئیں بعض سپاہی گاڑیوں کے ساتھ رات میں آئے، بعض گاڑیوں میں بیٹھ کر اور بعض گاڑیوں کی چھت پر بیٹھ کر آئے اندر جگہ نہ تھی شہید سوری کہتے ہیں کہ اندر جگہ نہیں ہے میں باہر بیٹھ جاتا ہوں، واقعی ان گاڑیوں میں جگہ نہیں تھی جب کبھی ایسا ہوتا تھا تو بہت سے لوگ باہر رہ جا تے ہیں اور جب کمانڈر یہ دیکھتا کہ اندر جگہ ہی نہیں تو وہ خود بھی باہر رہ جاتا اور ۲۰، ۳۰ سپاہیوں کو اندار داخل کر دیتا تاکہ انھیں گولیوں سے محفوظ رکھا جا ئے کیوں کہ ان گاڑیوں کی خصوصیت یہ تھی کہ ان میں گولی اثر نہیں کرتی تھی انھیں بلڈپروف کہا جاتاتھا، یہاں سے حرکت کرنا بھی ایک مرحلہ تھا یہ علاقہ موت کا علاقہ تھا، عراقیوں کی گولیاں یہاں تک آرہی تھیں. (2) اس علاقے کی حفاظت کرنا بہت مشکل تھا، تنگ کورک کی اس چوٹی کے نیچے ایک گھاٹی تھی اور اس کے روبرو دشت گیلان غرب تھا اور قصر شرین سے شیاکو تک تقریباً قصر شیرین کے علاقے سے لیکر نفت شہر اور شیاکو کے اطراف سومار کا سارا علاقہ عراقی توپ خانے کی زد میں تھا، ایک ہی چوٹی تھی کہ جس پر عراقی توپ خانہ آگ برسا رہا تھا یہاں سے اس علاقے کی حساسیت ظاہر ہو تی ہے کیوں کہ یہاں سے انھیں پورا علاقہ نظر آرہا تھا اور عراقی یہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ علاقہ ان کے ہاتھ سے نکل جائے، اب یہاں سے ان کی فوجیں جا چکی تھیں لیکن ان کا توپ خانہ تھا ٹینکس تھے اور مسلسل وہ یہاں آگ برسا رہے تھے کچھ ہی فوجی وہاں تھے، جن سے ہمارا رابطہ آپریشن کے بعد ختم ہو گیا تھا، بہت سے لوگ شہید ہو ئے تھے، آپریشن کے بعد ہم نے اپنے لشکر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا ایک حصہ جناب صحرائی کے ہمراہ کرمانشاہ واپس آگیا تھا کچھ لوگ باقی بچے تھے ہم لوگوں نے خود کوضا کارنہ طور پر یہاں روکا تھا، تاکہ وہ تعداد کہ جو اوپر رہ گئی تھی اس کو قوت ملتی رہے۔

چند لوگ جو باقی بچے تھےوہ جناب سوری کے زیر نظر تھے کہ جو کرمانشاہ کے آپریشن کے آفسر تھے، کچھ افرد اوپرچوٹی پر تھے،

ان میں کوئی ایک بھی ایک انچ بھی ادھر ادھر نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ اگر کو ئی ذرا بھی حرکت کرتا تو اسے گولیوں کا سامنا کرنا پڑتا یا پھر کوئی راکٹ آگرتا، اور پھر اسپائنر تو تھا ہی جو براہ راست فائر کرتا تھا، ہماری مجبوری تھی کہ وہیں ٹھہرا جا ئے اگر کچھ کھانے کو ملتا تو کھالیتے اور اگر کچھ بھی نہیں تب بھی رات تک وہیں ٹھہرنا ضروری تھا، اور وہ بھی اس گولہ باری میں، ہم ایک پناہ گاہ سے دوسری پناہ گاہ تک تو جاسکتے تھے ہمیں حکم یہی تھا کہ جس طرح بھی ہو ان کی غذا کا اہتمام کیا جائے، پہلی رات ہم جمع ہو گئے اور پروگرام کے تحت سوری اور کچھ اور سپاہی کچھ غذا اور گولیاں لیکر اوپر کی طرف گئے سوری بھی ہمارے ساتھ تھے بہت بیمار تھے اتنے بیمارتھے کہ میں نے انھیں کئی بار کہا کہ مت آو ۔

میں نے کہا کہ تم تو چل بھی نہیں سکتے، تمہارا بدن سُن ہو چکا ہے تم دو قدم بھی نہیں چل سکتے، اس نے کہا کہ یہ میری ذمہ داری ہے، مجھے مانور کیا گیا ہے، میرا جانا ضروری ہے ۔

بہر حال ہم گئے، دوسری رات دوبارہ دوسرا گروہ گیا، پہلی رات کا راشن تو ہم نے پہنچا دیا تھا دوسری رات جانا چاہتے تھے لیکن راستے میں ایک شیل ہم پر آکر گر ا، اور ہمارا یک ساتھی امیر کر د زخمی ہوا اور دو روز اوپر پہاڑی ہو زخمی حالت میں رہا اور شہید ہو گیا، اس میزائلی حملے میں ہمارے گیارہ افرد شہید ہو ئے تھے لیکن ہم پلٹ نہیں سکتے تھے شہیدا کو یہیں چھوڑ کر ہم نے اوپر کی راہ لی اور دوبارہ واپس آئےہماری راہ میں دو خندقیں کہ جنکا نام سیمرغ اور بیسیم موجود تھیں، جس راہ پر ہم چل رہے تھے وہ تقریباً آٹھ یا دس کلومیر کا راستہ تھا کہ جو حاجیان کی گھاٹی سے کورک کی گھاتی تک تھا، دشت میں عراقی فوج تھی اور وہ ہمیں دیکھ رہے تھے، بڑا پھیلاہوا علاقہ تھا صرف رات کو ہی آجاسکتے تھے دن میں خطرہ تھا، اس کے علاوہ بھی ایک راستہ تھا کہ جوبہت خراب تھا آٹھ یا نو کلومیڑ پیدل اور آہستہ اس راہ پر چلے، سارا راستہ دشمن کے ہاتھوں میں تھا، ہم نے چاہا کہ رات کونکل جا ئیں پر نہیں ہو سکتا تھا اور نہ ہی جنازوں کو اپنے ساتھ لا سکتے تھے، بات یہ ہو رہی تھی کہ اس جگہ کو خالی کیاجا ئے کیوں کہ سپاہی پریشان تھے، عراقی فوجیوں نے گھیرا تنگ کر رکھا تھا، تیسرے دن لازمی ہو گیا کہ اس سامان کو اوپر لے جایا جا ئے لیکن مشکل یہ تھی کہ آٹھ دس کلومیٹر دبے قدموں چلنا رات کی تاریکی سے صبح کے جھٹ پٹے تک اور پھر واپس آنا، راستے کے دونوں طرف دشمن کی فوج۔درمیان راہ ایک درہ تھا جو دشت سے ہو کر گذرتا تھا ہمارا اوپر کے درے سے سے گذرنا ضروری تھا دشمن اور ہمارے درمیان کچھ جگہوں پر فاصلہ بہت ہی کم ہو جاتا تھا ١۵۰ سے ۲۰۰ میڑ تک کا فاصلہ اور اس درے سے گذرنا ضروری تھا، وہ بھی بلاکی مشکل اور سختی کے ساتھ، آپریشن کی کمانڈ سوری کے ہاتھ میں تھی، خدا نے چاہا تھا کہ وہ یہاں آئے اور شہید ہو جا ئے،

ورنہ کو ئی بھی اس جگہ پر نہیں آسکتا تھا یہ میں اس وجہ سے کہہ رہا ہوں کہ سوری بیمار تھا اور ہمیں ایک بکتر بند دی گئی تھی ہم نے اپنے سپاہیوں کو بکتر بند میں ڈالا علی سوری و شہید اصغر سلطان آبادی (جو بعد میں شہید ہو گئے)، کنگاورکے سپاہیوں میں سے تھے، بکتر بند میں سوار ہو گئے ہم بھی اس میں بیٹھ گئے میں بکتر بند میں کھڑکی کے پاس باحواس بیٹھا تھا سوری کا پاؤں کھڑکی میں تھااصغر ان کے برابر میں بیٹھا تھا ہم پہلی گھاٹی، پل ذھاب کی جانب سے کورک کی گھاٹی کی جانب چلےگھاٹی میں داخل ہو ئے راستہ دوحصوں میں تقسیم ہو رہا تھا ایک راستہ حاجیان کی جانب اور دوسرا کورک کی جانب ہم کورک کی جانب چلے، ہم دو راہے پر پہنچ گے وہیں پر عراقی سامنے تھے ایک سیکنڈ میں ١۰ سے ۲۰ توپوں اورمیزائیل کا حملہ ہوا ابھی نکلنا ہی چاہ رہے تھے کہ دیکھا کہ علی سوری بکتر بند سے گرا، میں نے سپاہیوں سے کہا کہ علی کو گولی لگ گئی ہے، میں نے پوچھا کہ اصغر کہاں ہے ؟ انھوں نے کہا سوری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اصغر نے سوری کو پکڑ رکھا تھا اور بکتر بند کے آگے گر نے سے روک رہا تھا، ڈرائیور نے کانوں پر کچھ لگا رکھا تھا میں نے چیخ کر کہا، رکو، وہ رک گیا میں باہر کی طرف بھاگا دیکھا کہ علی سانس نہیں لے رہا ہے ۔پکارا، دیکھا کہ جواب ہی نہیں دے رہا ہے ۔اسی وقت ہم نے ایک جیپ آتے ہوئے دیکھی کہ جو آگے کی جانب جا رہی تھی میں نے اسے روکا اور اس کے ڈرائیور سے کہا کہ ایک زخمی ہے اسے واپس لے جانا ہے، ہم ابھی کورک کی گھاٹی میں دشت کے سامنے تھے، ہمارا پلٹنا ضروری تھا ہمیں پل ذھاب جانا تھا اور علی کو ہسپتال پہنچانا تھا۔ میں نے اور اصغر نے اپنا سامان بکتر بند میں رکھا کہ وہ ہمارا سامان لے جا ئے، سوری نے اب تک کو ئی جواب نہیں دیا، سوری آپریشن کے کمانڈر بھی تھا، منت سماجت کے باوجود بھی جیب والا راضی نہیں ہو رہا تھا، اصغر نے اس کی کنپٹی پر پستول رکھا اور کہا کہ اگر قبول نہیں تو میں تجھے یہیں پھینک دونگا اور خود جیب چلا وں گا، وہ پھر بھی نہیں مان رہا تھا ہم نے علی کو زبردستی جیب میں ڈالا اور واپس پلٹ آئے، دیکھا کہ پہاڑ کے اس طرف ایک گاڑی ہے ایک فوجی گاڑی، جس میں خلوصی صاحب بیٹھے تھے کہ جن کا تعلق کنکاور کی فوج سے تھا لیکن وہ کرمان شاہ کے آپریشن میں شامل تھے، ہم نے کہا سوری صاھب زخمی ہیں ہمیں ہسپتال پہنچادیں، تقریباً ۳۰ کلومیٹر کا فاصلہ تھا دشت کے دو راستے تھے جن میں سے ایک پر جانا ضروری تھا جس پر بھی جاتے وہ توپ خانہ کے زیر اثر تھا، اگر دشت شیش راہ سے آتے تو وہ راستہ دور تھا ایک اور راستہ تھا، کچا، لیکن بہت ہی خراب تھا زخمیوں اور مریضوں کے لئے تو وہ مناسب تھا ہی نہیں، ١۵، ١٦ کلومیڑ کا راستہ تھا ہم نے اسی کو اختیا ر کیا، اس میں خطرہ نہیں تھا، وہاں ہو سکتا تھا کہ ہم پر حملہ ہو جا ئے کیوں کہ وہ راستہ توپ خانے کی زد میں تھا ۔اصغر نے کہا کیا کریں میں نے کہا کہ میں آگے بیٹھتا ہوں یا تم بیٹھوں اور علی کو تم سنبھالو اور ڈائیور گاڑی چلائے، گولی علی کے دائیں جانب لگی تھی واٹر ڈیفالکڑ بھی پیاسا لگ رہا تھا اس پر بھی دو تین کلو خون جمع ہوا تھاکیوں کہ اس کو نیچے سے باندھا ہوا تھا میں بھی پیچھے سے کود پڑا سلطانی صاحب نے قبول نہں کیا اور کہا کہ تم بیٹھو، کافی دیر تک ہم اس کو پکڑے رہے ہمیں پتہ نہیں تھا کہ گولی کہاں ہے،

اسکا زخم اور کٹ گیا بس اک آہ کی صدا تھی بولتا کچھ نہیں تھا، ہم نے دیکھا کہ ہم اسکو نہیں پکڑ سکتے، ہم نے گاڑی رکوائی پھر ہم اس کو پیچھے لے گئے میں نے سلطان آبادی سے کہا کہ میں اس طرف بیٹھتا ہوں تم اس طرف بیٹھوپیروں کو پھیلاتے ہیں اور ہاتھوں پر علی کو رکھتے ہیں، تین چار کلومیٹر تک ہم نے ایسا کیا لیکن گاڑی کیوں کہ تیز چل رہی تھی اور رستہ خراب تھا علی کی کراہٹیں بلند ہو رہی تھیں، ہم بھی تھک چکے تھے جسم کی طاقت جواب دے چکی تھی بہر حال ہم جس طرح بھی ہوا سر پل ذہاب اورپھر ہسپتال پہنچ گئے آپریشن تھیڑ تیار کیا گیا، علی کو اندر لے گئے گولے کا ذرّہ اس کے دائیں پہلو میں لگا تھا جس نے بیس بور کی گولی کے برابر سوراخ کردیا تھا جس کے باعث اس کے پھیپڑے خراب ہو چکے تھےدو گھنٹے بعد علی کو باہر لائے میں نے دیکھا وہ جواب نہیں دے رہا ہے وہ شہید ہو چکا تھا ۔ (3)

*نادر پروانہ
تاریخ داں اور نیشنل آرکائیو آرگنائزیشن اور نیشنل لائبریری میں آرکائیو اسپیشلسٹ

 

۱۔ شہید علی سوری کے بھائی فتح علی سوری کا انٹرویو بتاریخ ۳۰ دسمبر ۲۰۱۳ء

۲۔ سردار سید محمود رضا شمس دولت آبادی اکا انٹرویو بتاریخ ۲۷ اکتوبر ۲۰۱۴

۳۔ ولی کولیوند کا انٹرویو بتاریخ ۲۳ جنوری ۲۰۱۴

 


حوالہ: سائٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 4180



http://oral-history.ir/?page=post&id=5588