سید ناصر حسینی اور الرشید جیل کی یادیں
انتخاب: فائزہ ساساسی خواہ
ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی
2024-10-02
الرشید جیل میں جو پانچ قیدی لائے گئے تھے ان میں سے ایک کی حالت زیادہ خراب تھی۔ بم کے ٹکڑے لگنے سے اس کی آنتیں کٹ چکی تھیں۔ احمد سعیدی کی طرح، جس کا سینہ اور سر متاثر ہوا تھا۔ اس کا لہجہ بھی مازندرانی تھا۔ ظاہری حلیہ سے 45 سال کا لگتا تھا۔ داڑھی کے بال سنہرے رنگ کے تھے۔ جب اسے دیکھا تو مجھے اپنے بھائی قدرت اللہ یاد آگئے۔ عراقیوں نے اسکے فوجی کپڑے پھاڑ دیئے تھے۔ جیل کے نگہبان نے پِنسر سے اسکی داڑھی کے کچھ بال کاٹ دیئے تھے۔ اسکی داڑھی لمبی اور خوبصورت تھی۔ زخمی ہونے کے باوجود۔ جو عراقی بھی وہاں سے گذرتا اسے طعنہ مارتا اور اسکی بے عزتی کرنے کی کوشش کرتا۔ صباح اسکے سر کے گرد ہاتھ پھیر کر اس سے ہوچھتا: تمہارا عمامہ کہاں ہے؟!
بعض کا خیال تھا کہ وہ ایک عالم دین ہے۔ مجھے بھی ایسا ہی لگتا تھا۔ ایک متین اور خاموش طبع شخصیت تھی۔ بہت کم گفتگو کرتا۔ لیکن جب بات کرتا تھا تو عراقیوں کو بری طرح آگ لگ جاتی تھی۔ وہ ایک پاسدار تھا اور کسی بھی صورت وہ اپنے پاسدار ہونے کو کسی بھی مصلحت کی خاطر چھپاتا نہیں تھا۔
ڈپٹی جیلر نے جو فرسٹ لیفٹیننٹ تھا اس سے پوچھا: تم خمینی کے پاسدار ہو؟
اس نے جواب میں کہا: ہاں میں خمینی کا پاسدار ہوں۔
اس نے دوبارہ سوال کیا: کیا اس حال میں بھی تم خمینی کے طرف دار ہو؟
جواب دیا: ہر شخص اپنے رہبر کو پسند کرتا ہے۔ یعنی تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ تم صدام کو پسند نہیں کرتے، زندان کسی کا عقیدہ تبدیل نہیں کرواسکتا، بلکہ اس کا عقیدہ اور مظبوط ہوجاتا ہے۔
گرمی کی شدت کافی زیادہ تھی اور جیل میں اعلیٰ افسروں کے آنے کی تیاری ہورہی تھی۔ عام طور پر روزانہ ایک دو دو اعلی فوجی افرس جیل میں آتے تھے۔ پہلے پانچ چھ دن تو قیدیوں کی انفرادی اور نظامی انفارمیشن جمع کرنے میں لگ گئے۔ اور ان کے بعد والے دن ایسے افسروں کی شناسائی چلتی رہی جن کی ابھی تک شناسائی نہیں ہوپائی تھی۔
جیلر نے قیدیوں کو ایک اعلی افسر کے آنے کی خبر دی جس کا تعلق عراقی وزارت دفاع سے تھا۔ جب اس زخمی ایرانی قیدی نے یزیدی قوم کی قید میں حضرت زینب س کی ذمہداریوں کے حوالے سے بات کی تو جیلر نے کہا: جو افسر یہاں کے دورے پر آرہا ہے اگر چاہتے ہو تو بتاؤ اسے کہہ دیتے ہیں وہ خیال رکھے گا، لیڈر بننے کی کوشش مت کرنا اور اسکے سامنے پشیمانی کا اظہار کرنا۔ اس افسر کو کہنا کہ تم بہت شرمندہ ہو۔ اس طرح اس کا دل نرم پڑ جائے گا اور تمہیں اسپتال لے جانے کے احکامات جاری کردے گا۔
جیلر نے مجھے اور دیگر قیدیوں کو بھی مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں تم لوگوں کو بھی کہہ رہا ہوں، جو کوئی بھی ندامت کا اظہار کرے گا اسے اسپتال لے جایا جائے گا۔
وہ جھوٹ بول رہا تھا اگر ہم ندامت کا اظہار بھی کردیتے تب بھی وہ ہمیں اسپتال لے کر جانے والے نہیں تھے۔ جیلر اعلی افسروں کے سامنے ہماری ندامت کے اظہار کرنے سے لطف اندوز ہونا چاہتا تھا۔ کہنے لگا، پچھلے مہینے بھی یہی اسفر جیل میں آیا تھا تو دو قیدیوں نے ندامت کا اظہار کیا تھا۔ ان میں سے ایک نے سب کے سامنے صدام کی تصویر کو بوسہ بھی دیا تھا۔ اسی لئے افسر نے حکم دیا کہ اس کے اس عمل کے بدلے میں اسے اسپتال لے جایا جائے۔ جب اس نے یہ بات کی تو مجھے یقین ہوگیا کہ جھوٹ بول رہا ہے۔ مجھے یقین تھا کہ کوئی بھی ایرانی قیدی صدام کی تصویر کو بوسہ نہیں دے سکتا۔
اس مازندرانی قیدی نے جو ابھی تک اپنے سر جھکائے بیٹھا تھا جیلر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: یہ جو تم چاہ رہے ہو کہ ہم ذلیل ہوں، ندامت کا اظہار کریں، صدام کی تصویر کے بوسے لیں یہ سب ناممکن ہے، ہم ایسے اصولوں کے پابند ہیں کہ حتی اگر مر بھی جائیں تب بھی ہم ندامت کا اظہار نہیں کریں گے۔ اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ ندامت کا اظہار کرنے اور صدام کی تصویر کے بوسے لینے سے تمہارا دل اسکے لئے نرم پڑجائے گا تو وہ غلطی پر ہے۔ جب اس ایرانی ذخمی نے یہ بات کی تو اس کی کوشش تھی کہ وہ ہمیں سمجھائے کہ ہم بھی یہ کام انجام نہ دیں، اپنے حوام جمع رکھیں غلطی نہ کریں اور اپنے ملک کی عزت کے ساتھ نہ کھیلیں۔
آدھے گھنٹے بعد فوجی اہلکار جس کا نگہبان اور جیلر انتظار کررہے تھے جیل میں داخل ہوا۔ ایک اچھی ڈیل ڈول والا شخص تھا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں اور سر پر بال نہیں تھے۔ چشمہ پہنے ہوئے، چھوٹی آستینوں والی چُست قمیض جو اسکے بدن پر بالکل فٹ تھی۔ اسکے چہرے مہرے سے لگ رہا تھا کہ پچاس سال کے لگ بھگ عمر کا ہے۔ جیل کے دروازے سے داخل ہوتے ہی اس نے قیدیوں پر نظر ڈالنی شروع کی۔ جیسے ہی زخمیوں کے پاس پہنچا تو رک گیا اور ہمیں ٹُک باندھ کر دیکھنے لگا۔ زخمیوں سے مختلف سوالات پوچھے۔ لمبی داڑھی والے مازندارنی زخمی نے اسکی توجہ جلب کرلی۔ اسکے سامنے کھڑا ہوکر کہنے لگا: کیا تم خمینی کے پاسدار ہو؟
مازندرانی نے جواب دیا: ہاں میں خمینی کا پاسدار ہوں۔
اس نے سوال کیا: عالم دین نہیں ہو؟ جواب ملا:نہیں میں پاسدار ہوں
ڈپٹی جیلر نے اسے بتایا کہ یہ لوگ اب بھی خمینی کو پسند کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ قید شہادت سے کم تر نہیں ہے، ان قیدیوں کی قید میں زینب س جیسی ذمہ داریاں ہیں وغیرہ۔۔۔اس عراقی افسر نے طنز کرتے ہوئے مازندرانی سے سوال کیا: تم لوگ عراق میں ہمیں کیا پیغام دینے آئے ہو؟ اب تمہارا خمینی کہاں ہے جو تمہاری مدد کرے گا؟
ایرانی زخمی قیدی نے جس کے جسم میں جان باقی نہیں تھی اپنے سوکھے ہونٹوں کو بھینچتے ہوئے گھونٹ لیا اور اس افسر کو جواب دیا: میں محاذ جنگ پر ایک لمبے عرصے سپاہ کے عقیدتی ڈپارٹمنٹ میں کام کرتا رہا ہوں۔ میں وہاں جونوان کو نہج البلاغہ کا درس دیتا تھا۔ میں تمہارے جواب میں نہج البلاگہ کا بس ایک شعر پڑھوں گا، امام علی ع فرماتے ہیں :
فان تسالینی کیفت انت؟ فاننی
صبور على ریب الزمان صلیب
یعز على ان تری بی کابة
فیشمت عاد اویساء حبیب
عراقی افسر مبہوت رہ گیا اور چپ چاپ اس مازندرانی زخمی کو تکتا رہا۔ اسکے چہرے سے لگ رہا تھا کہ اسے اتنے خوبصورت جواب کا انتظار نہیں تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ جیسے اسکے اندر کی ہوا نکل گئی ہو۔ وہ افسر پنکچر ہوچکا تھا۔ اسکے بعد اس نے کسی بھی قیدی سے بحث نہیں کی۔ وہ مازندرانی زخمی اس گرمی کی شدت میں بھی قرآن کی تلاوت کرتا تھا۔ اس واقعے کے اگلے دن مغرب کے وقت اس کی آواز آنا بند ہوگئی اور وہ شہید ہوگیا۔ وہ امام علی ع کے مکتب سے تزکیہ شدہ امام خمینی کا وفادار اور ان کا پاسدار تھا۔ الرشید جیل کی دیواریں کبھی بھی اس کی دشمن شناسی اور غیرت کو فراموش نہیں کرپائیں گی۔
oral-history.ir
صارفین کی تعداد: 278
http://oral-history.ir/?page=post&id=12120