شہید رحمان غلامی کی جانب سے اپنی والدہ کی شفاعت

آسمانی باتیں

ترجمہ: سیدہ رومیلہ حیدر

2024-06-09


مجھے شہداء کے اہل خانہ سے ملنا ہی نہیں تھا۔ میں ہر روز سے کچھ پہلے فاؤنڈیشن پہنچی تھی۔ کچھ دیر بعد میں نے دیکھا کہ رضاکار خواتین میں سے ایک خاتون نے ایک کاغذ میری میز پر رکھا اور کہا کہ جلدی کریں خشت شہر کے شہداء کے اہل خانہ سے ملنے جانا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ آج میرا ملاقات کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ کچھ تھکن محسوس کررہی ہوں کسی اور دن چلیں گے۔ ان خاتون نے کہا کہ آپ نے خود ہی مجھ سے کہا تھا کہ میری آج کی ماموریت میں ملاقات لکھیں تاکہ ہم ملاقات کرنے کے جاسکیں۔ میں نے کہا کہ نہیں میں نے تو ایسا کچھ نہیں کہا تھا۔ آج میرا ملاقات پر جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ کچھ دیر بعد میں نے دیکھا وہ خاتون دوبارہ میرے کمرے میں آئیں اور بہت زیادہ اصرار کرنے لگیں کہ آج ہمیں ہر صورت ملاقات کے لئے جانا ہے۔ میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی لیکن انکے اصرار پر خشت جانے کا ارادہ کرلیا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس کے اندر کیا راز چھپا ہے۔

گاڑی میں بیٹھ کر جب ہم چلنے لگے تو پورے راستے اسی فکر میں تھی کہ آج اتنی مصروفیات کے باوجود شہداء کے اہل خانہ سے ملاقات کے اس پروگرام کو میں نے کیوں قبول کیا۔ ان خاتون کے اصرار کو کیوں قبول کیا۔ میرا ذہن اس فکر میں اتنا مشغول ہوگیا تھا کہ مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ ہم کب خژت شہر پہنچ گئے۔ بہرحال بارہ بجے تک ہم شہر میں رہے اور پھر وہاں سے کازرون شہر جانے کے لئے گاڑی میں بیٹھے تو اسد اللہ ساجدی صاحب جو ایک دین دار شخصیت کے حامل شہیدوں کے گھرانے سے تعلق رکھنے والے ایک مجاہد اور اس شہر میں شہید فاؤنڈیشن کے دفتر کے انچارج ہیں کہنے لگے کہ شہید رحمان غلامی کی والدہ کی طبیعت کافی خراب ہے اور ڈاکٹروں نے بھی جواب دے دیا ہے کیا خیال ہے انکی عیادت کے لئے چلا جائے چل کر ان سے ملاقات کرلیں۔ میں نے کہا ظہر کا وقت ہے اچھی بات نہیں ہے کسی کے گھر اس وقت جائیں انہوں نے بہت زیادہ اصرار کیا کہ نہیں شہید کی والدہ ہیں انکے گھر چلنا چاہئے۔ میں نے جتنا بھی اصرار کیا کہ کازرون پہنچنا ہے لیکن بے سود رہا اور میں نے اتنے زیادہ اصرار پر خدا کی پناہ طلب کرتے ہوئے حامی بھر لی۔ میں نے سوچا خدایا ایسی بھی کیا حکمت ہے کہ یہ لوگ اتنا زیادہ اصرار کررہے ہیں۔ ایک بار پھر میں گہری سوچ میں پڑ گئی اور اپنے آپ کو قائل کرنے لگی کہ شہید کی والدہ سے ملاقات کرلینی چاہئے۔ ساجدی صاحب نے گھر کے دروازے پر پہنچ کر مجھے آواز دی تو میں چونک اٹھی دیکھا تو شہید کی بہن دروازے پر مبہوت کھڑی ہوئی تھیں۔ کچھ دیر کے بعد شہید کی بہن کی صلوات کی آواز بلند ہوئی تو میں نے اتنی محبت اور عزت پر خدا کی پناہ چاہی۔ شہید کی والدہ کے پاس کچھ دیر بیٹھی حال احوال پوچھا تو متوجہ ہوئی کہ وہ بات چیت کرنے کے بھی قابل نہیں تھیں۔

میں نے دیکھا کہ اچانک شہید کی بہن بلند آواز سے رونے لگیں میں نے پوچھا بہن کیوں رو رہی ہیں انشاء اللہ آپ کی والدہ بہت جلد ٹھیک ہوجائیں گی تو کہنے لگیں: میں اپنی والدہ کی وجہ سے نہیں رو رہی بلکہ کل رات میں نے خواب میں اپنے شہید بھائی کو دیکھا ۔ خواب میں ہی بھائی کو بتایا کہ والدہ مریض ہیں اور ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے اس لئے میں نے بڑے بھائی کو جو کویت میں رہتے ہیں خبر کردی ہے۔ وہ بھی یہاں واپس پہنچ چکے ہیں۔ اچانک شہید نے کہا کہ نہیں کل تک صبر کریں۔ قرار ہے کہ کازرون کی شہید فاؤنڈیشن کے کچھ افراد والدہ کی عیادت کے لئے آئیں گے۔ یہ چار افراد ہوں گے جن کے ہاتھوں میں امام خمینی رح اور میری تصویر ہوگی اور ان میں سے دو مرد اور دو خواتین ہوں گی، جیسے ہی وہ گھر آئیں گے والدہ ٹھیک ہوجائیں گی۔ شہید کی بہن نے کہا آپ لوگ چار افراد ہیں اور یہ شہید کی شفاعت اور ان سے عشق و محبت ہے جس کی وجہ سے میں گریہ کررہی ہوں۔ میں نے جب جائزہ لیا تو دیکھا کہ ہم چار افراد ہی ہیں دو خواتین اور دو مرد حضرات اور ہمارے ہاتھوں میں شہید کی اور امام خمینی رح کی تصویریں ہیں۔


oral-history.ir
 
صارفین کی تعداد: 379



http://oral-history.ir/?page=post&id=11933