حلبچہ پر بمباری کا واقعہ
انتخاب: فاطمہ بہشتی
ترجمہ: سیدہ رومیلہ حیدر
2024-05-22
۱۱ بج کر تیس منٹ حلبچہ شہر کا آخری کونا
منہ میں بھرے پانی کے ساتھ دن کا کھانا کھا رہا ہوں جو اُس باصفا اصفہانی نے شہر کے ابتدائی حصے میں مجھ سے خداحافظی کے موقع پر اپنی گاڑی کے عقب سے اٹھا کر دیا تھا۔ قبولی اور دہی! ابھی تیسرے یا چوتھے لقمے نے میرے منہ میں بھرے پانی کی کیفیت کو ختم بھی نہیں کیا تھا کہ ہوائی جہاز نے ڈایو لگائی اور لقمہ گھونٹتے ہوئے ہم بھی نیچے چلے گئے، یعنی نالے کے پیچھے پوزیشن سنبھال لی اور اب جب جہاز اوپر واپس جائے گا تو ہم بھی اوپر ہوجائیں گے، اور منہ میں موجود لقمہ چباتے ہوئے شہر کے ان مقامات کو دیکھیں گے جہاں سے دھواں اٹھ رہا ہے۔
ان پر خدا کی لعنت ہو ایک لقمہ بھی سکون سے کھانے نہیں دیتے!
اب ہم چلنے لگے ہیں۔ کچھ دیر بعد ایک لڑکا ہمیں ملا جس کا نام کامل ابراہیم تھا۔ کہنے لگا سترہ سال کا ہے اور ہمیں دیکھ کر اپنے گھر سے باہر نکلا ہے۔ کامل اپنے گھر والوں کے ساتھ شہر میں ہی رُک گیا ہے اور اسکی شفاف آنکھیں اس بات کی طرف اشارہ کررہی ہیں کہ وہ کیمیکل بمباری کے اثرات سے بچا ہوا ہے۔
کامل سے خدا حافظی کے بعد ہم نے شہر کا ایک چکر لگایا۔ نہر کے کنارے سے ہوتے ہوئے کہ جہاں مینڈک تنہائی کے نغمے گا رہے تھے اب ہم شہر کے مرکز کی جانب رواں دواں تھے۔
ہمارے سیدھے ہاتھ پر کھیت ہیں۔ جہاں جوان پیازچہ اور نورسیدہ تمباکو کی فصلیں حلبچہ کی زمین کے زرخیز ہونے کا پتہ دے رہی ہیں۔ ایک بار پھر ہوائی جہاز کی آواز نے ہمیں بے اختیار سوکھی ہوئی نہر کی جانب روانہ کردیا۔
اس سوکھی ہوئی نہر میں ایک سیاہ رنگ کی کیبل بچھی ہوئی تھی جس کے بارے میں معلوم نہیں تھا کہ اس کا سِرا کہاں ہے۔
شہر کا مرکز دھماکے سے لرز اٹھا اور ایک سفید رنگ کا دھواں اٹھا جو بہت جلد ہی غائب ہوگیا۔
ہمیں ابھی تک اس حادثے کی خبر نہیں ہے جو ہم چند منٹ کے بعد دیکھنے والے ہیں۔ ہوائی جہاز کے غائب ہوتے ہی ہم نے اپنے آپ کو شہر کے مرکز کے نزدیک پہنچایا اور ۔۔۔
۱۲ بجے، حلبچہ کی تنباکو گلی
سڑک کی اینٹوں سے بنی دیوار ایک سہ راہ پر ختم ہوجاتی ہے اور زمین پر بنے فرش پر ایک سفید تہہ بچھی ہوئی ہے، ایسا لگتا ہے کسی نے زمین پر چونا بکھیر دیا ہو۔ پورے محلے سے عجیب سی بو آرہی ہے، ایسی انجانی بو جس کے لئے ذہن میں کوئی آرکائیو موجود نہیں ہے۔
ہماری نگاہیں حادثے کی جگہ کا تعین کرنے کے لئے سیدھے ہاتھ کی جانب مرکوز ہوچکی ہیں، ناگھان ہمارے مکمل حواس ایک دلخراش منظر کی جانب متمرکز ہوگئے ہیں، زمین پر منہ کے بل گری ہوئی ایک لڑکی کا منظر۔
آنکھیں مبھوت ہو کر اس لڑکی کی لاش کو دیکھ رہی ہیں۔ میں بے اختیار چیخ اٹھا۔
۔سعید، سعید
اسکے منہ اور ناک کے پاس ہتھیلی بھر تھوک جمع ہے اور اسکا الٹا پیر عجیب انداز سے خم ہے۔ یہی خمیدہ پیر لڑکی کے دل کی دھڑکن کو اس کے پیر کی جانب منتقل کررہا ہے۔ ایک مبہم گمان، آنکھوں کے زاویے کو اسکے بدن کی جانب موڑتا ہے۔ ابھی تک حواس اس منظر میں گرفتار ہے ناگہان بے یقیقنی کی کیفیت میں میں دوسری بار چیخ اٹھا۔
سانس لے رہی ہے، زندہ ہے
ساتھی پہنچ چکے ہیں۔ ان کے پہنچتے ہی میری آنکھیں اس منظر کی قید سے آزاد ہوگئیں۔ دس میٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹے بچے کے جسم نے اپنی جانب متوجہ کیا، میں اسکی جانب بڑھا۔ میں نے ایک بار پھر پریشان ہوکر فریاد بلند کی:
۔یہ بھی زندہ ہے ۔۔۔
اس بچے کا ظاہر بھی اسکی کی ممکنہ بہن سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا۔ آنکھوں کی سفیدی کی جگہ خون کے رنگ نے لے لی تھی اور آنکھوں کی پتلیاں ایک سمت ٹکی ہوئی تھیں۔ بے اختیار کسی موہوم نقطے کو تک رہا تھا۔ اسکی سانسیں اکحر رہی تھیں۔ منہ اور ناک سے نکلنے والے پانی اسکے پورے چہرے پر بکھر چکا تھا۔ سینے سے خرخراہٹ کی عجیب سی آوازیں آرہی تھیں۔ احمد کوشش کرہا تھا کہ اس لڑکی کو ہوش میں لائے۔ بچے کو میں نے گود میں اٹھایا، ایسا لگ رہا تھا کہ اسکی پوری ہڈیاں ٹوٹ چکی ہیں۔
ہم سب ہی ایک ایسی پریشانی میں گرفتار جس میں خوف کا عنصر نمایاں تھا، ان دونوں کو کنارے پر لارہے تھے۔ ایک ساتھی کی فریاد کے ساتھ ہی ہم سب کی نگاہیں اس لعنتی سہ راہ کی جانب مرکوز ہوگئیں:
۔ یہاں، یہاں
خدایا یہ کیسی جگہ ہے؟ حیرت سے منہ کھولے ہوئے اپنے مدمقابل ایک کھلے قبرستان کا مشاہدہ کررہے تھے۔ باوجود اس کے کہ ہمیں اپنی موقعیت معلوم ہے لیکن ہم سب ہی اپنا آپ کھو چکے ہیں۔ ایسا محسوس ہوا کہ ہم میں اور ان میں زرہ برابر بھی فرق نہیں ہے، ایسا لگ رہا تھا کہ ہم کھڑے کھڑے ہی خشک ہوچکے ہیں۔
بچوں، عورتوں اور مردوں کے جنازے ایک دوسرے کے موازی اور خمیدہ گلی کے کونے تک بکھرے ہوئے تھے۔ اتنی بڑی تعداد میں مردوں کا مشاہدہ کرنا وہ بھی ہم جیسوں کے لئے کہ جنہوں نے مردوں کی قبروں پر لگے کتبے سے ہی زیارت کی ہو ایک غیر قابل قبول منظر تھا۔ اے کاش بس دل کو دہلاتا، اس نے تو ہمارے جسم کی ایک ایک چیز کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا تھا۔ ہم سب کے اعصاب منجمد ہوکر ایک سوکھی لکڑی کی طرح اکڑ چکے تھے، تنباکو گلی میں داخل ہونے والی ایک گاڑی کی آواز پر بحال ہونا شروع ہوئے جو اسی طرف آرہی تھی۔
ایک ساتھی جو مدد طلب کرنے گلی کے کونے پر گیا تھا اب ایک جنگی ٹرک لےکر آرہا ہے جو محاذ جنگ کی فرنٹ لائن کے لئے ایمونیشن لنے کے لئے پیچھے آیا تھا، ان دونوں ممکنہ بھائی بہن کے پاس آکر کھڑا ہوگیا ہے۔ وہ دونوں مکمل بے ہوش ہیں، انہیں کمبلوں میں ڈال کر ٹرک میں منتقل کیا جارہا ہے۔
پریدہ حواس آہستہ آہستہ اپنے آشیانوں میں واپس آرہے ہیں۔ ہم تو اپنے آپ میں واپس آچکے ہیں لیکن ہمارے دلوں میں عزا کے سیاہ پرچم بلند ہوچکے ہیں۔ حالنکہ کہ اپنے عزادار دلوں کو اپنے آنسوؤں سے سہارا دے رہے ہیں لیکن بے فائدہ ہے۔ اسی عالم میں ان جنازوں کے درمیاں سے گذر رہے ہیں۔
ایک سفید رنگ کے سوٹ کیس کے ساتھ ایک جوان، ایک کھلے ہوئے سوٹ کیس کے ساتھ ایک خاتون، دو آدمی، دروازے کے نزدیک ایک ادھیڑ عمر کے مرد کی گود میں ایک شیرخوار بچہ، ایک پانچ چھ سال کی بچی اور ایک نوزائدہ بچہ ایک دوسرے کی آغوش میں، ایک بچہ جس کی کمر دروازے کی چوکھٹ سے ٹکرا کر ٹوٹ کر تہہ ہوچکی ہے، باہر نکلنے کے دروازے پر ایک ماں اپنے پانچ بچوں کے ساتھ۔۔۔
ایک لمحے کے لئے رکے۔۔۔اب ان جنازوں کی تصویریں ہمارے سامنے سے گذر رہی ہیں۔
ایک بوڑھی خاتون اپنی پرانی چھڑی جیسی، ایک گاڑی جنازوں سے بھری ہوئی، جنازوں کے درمیان سے خرخراہٹ کی آوازیں، ڈرائیور بھی اپنی سیٹ پر مومیای بن چکا ہے، گھروں سے مبہم سی آوازیں، گریہ و زاری کی آوازیں، نالہ و شیون کی صدائیں، ایک چھوٹے جنازے کے پاس چھوٹی چھوٹی چپلیں، منہ ادھ کھلا، آنکھیں آدھی بند۔۔۔۔
سینکڑوں لاشیں اور ہزاروں تصویریں۔۔۔
جرم و جنایت کی ایک ہولناک ترین نمائش میں حیرت کی کیفیت نے ہم سے اس قتل عام کے ذمہ داروں کے بارے میں فکر کرنے کی فرصت بھی چھین لی تھی۔ یہاں زندگی کا ہرا بھرا درخت، اتنے سارے انسانوں کے قتل عام کے بعد، وہ بھی حلبچہ کی بہار کی بہار میں جڑ سے اکھڑ چکا تھا۔ یہاں "زندگی مردہ باد" کا نعرہ ایسے عالم میں سچ ثابت ہوا تھا کہ کسی کہ منہ سے ایک قطرہ خون بھی ٹپکا۔ یہاں زندگی کی خالی جگہ موت کے مظاہرے سے پُر ہوچکی تھی۔ یہاں کیمیکل بمباری کے ذریعے اندھی گولیاں حلبچہ کے سینکڑوں باسیوں کے تن میں پیوست ہوچکی تھیں۔
ایک گھنٹہ پہلے جب ہوائی جہاز شہر کی جانب ڈایو لگا رہا تھا تو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا وہ سفید بادل جو جلد ہی غائب ہوگیا اس گلی میں بسنے والے افراد کے قتل کا باعث ہوگا۔ بمباری کے وقت ان کم سن اور نوزائیدہ بچوں کی حالت کا تصور ایک ایسا مرثیہ ہے جس کا ذکر مصیبت منبر قلم سے غیر ممکن نظر آتا ہے۔
oral-history.ir
صارفین کی تعداد: 590
http://oral-history.ir/?page=post&id=11898