حج کا سفر

ترجمہ: محب رضا

2024-6-20


میں چالیس کی دہائی کے اوائل میں حج پر گیا تھا۔ اس زمانے میں  فوج، ملٹری پولیس یا سٹی کونسل  سے شاذ و نادر  ہی کوئی شخص حج، مشہد مقدس یا کربلا معلیٰ کی زیارات کے لیے جایا کرتا تھا ، لیکن ایسا بھی نہیں تھا کہ  کوئی بھی نہیں جاتا تھا ۔ بالآخر ، ایرانی فوج میں موجود مومن افراد ہر حال میں واجبات اور  حرام و حلال کی رعایت کرنے کے پابند تھے، نماز ادا کرتے تھے، مالی واجبات کی ادائیگی کرتے تھے، حج کا فرض انجام دیتے تھے ، روزہ رکھتے تھے۔۔ جس سال میں نے خانہ خدا کی زیارت کی،  اس سفر میں مجھے بہت سے افسران اور دوسرے عہدے داران  دکھائی دئیے  اورمیں نے  ان میں کرنل سید ناصر اشرفی کو پہچان لیا ، جنکا تعلق کرمانشاہ سے تھا ۔ وہ  اپنی بیوی کے ساتھ حج پر آئے تھے ، جب انہوں نے مجھے مکہ میں دیکھا تو بہت خوش اور متاثر ہوئے۔ میں ان کے مقابلے میں نسبتاً جوان تھا ، تقریباً 31 سال کا۔ یہ کرنل سید ناصر اشرفی کچھ عرصے کے لیے ملٹری پولیس رضائیہ رجمنٹ میں ہمارے کمانڈر رہےتھے اور ان کا تعلق ایک مذہبی اورعلماء کے  گھرانے سے تھا۔ میں نے ان کے والد کو بھی پہچانتا تھا جو کرمانشاہ کے مشہور علماء میں سے تھے۔ جب وہ  اپنے بیٹے اور ان کےاہل خانہ سے ملنے ارومیہ آئےتھے تو میں   نے انکو سلماس سے  لیا، اور ارومیہ میں کرنل اشرفی کے گھر پہنچا یاتھا۔

حج کا سفر میرے لیے بہت بہترین اور یادگار تھا۔ اس زمانے کے  فوجی ضابطوں کے مطابق اگر فوجی یا ملٹری اہلکار بیرون ملک سفر پر جاتے تھے تو باہرجانےکے اجازت نامے پر شاہ کےدستخط لازم تھے ۔ میں نے دو ماہ کی چھٹی کے لیے درخواست دی تھی  اور مجھے چھٹی ملنے میں دو مہینے لگے! کیونکہ شاہ اسی سال امریکہ گیا تھا اور اتفاق سے  محرم اور عاشورہ کے ایام بھی تھے۔ اس لیے میری چھٹی کی منظوری،  شاہ کے آنے تک موخر رہی ۔ یہ شاہ کا وہی  دورہ امریکہ تھا جس پر امام خمینی نے بعد میں کافی تنقید کی۔

ایک دن جب میں ملٹری پولیس یونٹ  میں تھا،توچھٹی کے ملنے میں دیر ہونے اور ابھی تک  جواب نہ آنے  پر ناراضگی میں، میں نے شاہ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا:"آخر یہ کیا بات ہے؟ اگر شاہ کو  امریکہ جانا ہے تو  امام حسین علیہ السلام کےایام عزا میں کیوں گیا ہےجبکہ اس کی قوم اپنے آئمہ  کی مصیبت میں سوگ منا رہی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ملک کی ضرورت اس بات کی متقاضی ہے کہ ملک کا سربراہ ،ان دنوں، اس طرح کےسفر پر جائے تو کوئی مسئلہ نہیں،لیکن وہ امریکہ میں  عیش و عشرت  کی محفلوں میں کیوں جاتا ہے، حتیٰ  ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ بعض  روزناموں اوراخبارات نے لکھا ہےکہ ایران  کے شاہ نے ، امریکیوں کی شراب نوشی،  رقص اور لہو و لعب کی محفلوں میں شرکت کی ہے۔۔! "

 البتہ ان الفاظ نے بعد میں میرے لیے مسائل پیدا کیے، کیونکہ بعض چغل خورافراد نے میری تمام باتیں من و عن ملٹری پولیس کے کاؤنٹر انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ کو رپورٹ  کر دیں۔ ہمارا کمانڈر ،بریگیڈیئر دانشور ایک اچھا اوربھلائی کرنے والا شخص تھا ، وہ انقلاب کے بعد ملٹری پولیس کا کمانڈر بھی بنا، اس نے مجھے رات دس  بجے اپنے دفتر میں بلایا۔ اس نے ایک خط ، جس کے ساتھ ایک رپورٹ بھی تھی، میرے سامنے رکھا۔ یہ خفیہ دستاویزات تھیں، میں نے پڑھا ، تہران  آفس نے بریگیڈیئرکو لکھا تھا کہ آپ کے عہدیدارنے فلاں فلاں بات کی ہے۔ بریگیڈیئرنے پوچھا: کیا تم نے یہ باتیں کیں ہیں؟ میں نے کہا: ہاں!

اس نے پھر پوچھا: تم نے یہ الفاظ کہے ہیں؟ میں نے کہا: ہاں؛ اس نے تیسری بار بولا: کیا تم نے یہ  کہا ہے؟ تم نے غلط کیا ہے!

پھر پوچھا: اب میں تہران آفس کے لیے کیا جواب لکھوں؟ تم اپنا جواب خود لکھو گے، بھیجوں گامیں! مجھے ذمہ داری دی گئی ہے کہ شخصی طور پر اس معاملے کی پوچھ گچھ کروں۔

میں نے اسے  تمام ماجرے کی پوری طرح  سے وضاحت کی۔ جب اس پر حقیقت واضح ہو گئی تو اس نے تہران کو ایسا قطعی جواب لکھا کہ اس کے بعدانہوں نے میرا پیچھا چھوڑ دیااور میں 1349 تک بغیر کسی عدالت اور تفتیش کے آزاد رہا۔

لیکن اس کے بعد، ملٹری پولیس کاؤنٹر انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ کے دباؤ  کے تحت ، انہوں نے مجھےحکم دیا کہن تمہیں لرستان (خرم آباد) جانا ہوگا ، تم  ارومیہ میں  مزیدسروس جاری نہیں رکھ سکتے۔

منبع: پیر پیشگام: خاطرات حاج حمید ناسوئیه‌چی از پیشگامان انقلاب اسلامی در ارومیه، تدوین مصطفی قلیزاده عیار، تهران، سوره مهر، 1392، ص 58 - 60.

 



 
صارفین کی تعداد: 458


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

 آیت اللہ مدنی کے بارے میں سردار محمد جعفر اسدی کی یادداشتیں

اسی رویہ کی وجہ سے ساواک نے انہیں خرم آباد سے شہر بدر کرنے کا فیصلہ کیا اور رات کو انکے گھر کے دروازے پر پہنچ کر دستک دی جب آپ نے دروازہ کھولا تو آپ کو گھر کے کپڑوں میں بغیر عبا عمامے کے تھانے لے گئے اور وہاں سے نورآباد ممسنی کے علاقے بھیج دیئے گئے۔ خرم آباد سے باہر نکل کر کسی کوگھر بھیج کر آپ کا عبا اور عمامہ منگوایا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔