خاموش فریاد

انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ

ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی

2024-6-13


پورا علاقہ برف سے ڈھکا ہوا تھا۔ تا حد نظر سفیدی پھیلی ہوئی تھی۔ اگر کسی کو راستہ معلوم نہ ہو تو وہ ابتدا میں ہی برف اور سردی کا شکار ہوجاتا اور پھر گرمیوں میں اس کی لاش ملتی۔

اسٹیشن انچارج برادر صالح پور سے ہماہنگ کرچکا تھا کہ مجاہدین کے لئے کھانے پینے کا سامان، گرم کپڑے اور بوٹ لے کر جانے ہیں۔ صالح پور اس علاقے میں میرے جانے کے مخالف تھے کہنے لگے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ آپ اس برفانی ٹنل سے جو ہم نے مجاہدین کے لئے بالائی علاقوں میں جانے کے لئے بنائی ہے پہنچ پائیں۔ لیکن جب میں نے بہت زیادہ اصرار کیا تو وہ تیار ہوگئے۔

ہم دو ٹرکوں پر سامان لاد کر اس علاقے کی طرف روانہ ہوئے۔ جب ہم اس برفانی راستے کے پاس پہنچے تو مجھے مجھے یقین نہیں آیا بیس میٹر اونچی ایک برفانی ٹنل میرے سامنے موجود ہے۔ خدا کا نام لے کر ٹرک ٹنل میں داخل ہوئے۔ ٹنل کی زمین بھی برف سے ڈھکی ہوئی تھی۔ ٹرک آرام آرام سے چل رہے تھے۔ ٹرک تقریبا دو گھنٹے ٹنل میں چلتے رہے، لیکن دو گھنٹوں کے بعد ہم ایک ایسی جگہ پہنچ گئے کہ جہاں ڈرائیور حضرات کی لاکھ کوشش کے باوجود ٹرک برف سے نہیں نکل پائے۔ مجاہدین ہمارے ساتھ مل کر ٹرک کے پہیوں کے آس پاس سے برف نکالتے رہے لیکن ٹرک ہلنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے اور بجائے آگے بڑھنے کے وہ پیچھے حرکت کرنے لگے تھے۔ ہم ٹرکوں سے نیچے اترے اور جس میں جتنی ہمت تھی اس نے اتنا سامان اٹھایا اور پیدل چلنا شروع کردیا۔ برف اتنی نرم تھی کہ بعض مقامات پر ہم کمر تک اندر دھنس جاتے تھے، مجاہدین اپنے دونوں ہاتھوں سے برف خالی کرتے چلے جارہے تھے تاکہ راستہ کھولا جاسکے۔ بعض جگہوں پر برف اتنی زیادہ تھی کہ میں اور براتی صاحبہ سینے تک اندر دھنس جاتے اور ہمارا باہر نلکنا مشکل ہوجاتا۔ ایسے موقع پر برادر صالح پور لکڑی کو در طرف سے پکڑ کر ہماری جانب بڑھاتے اور ہم اسے پکڑ کر برف سے باہر نکلتے۔ یہ فاصلہ چار گھنٹوں میں طے ہوا اور ہم تمام تر زحمتوں کے بعد مجاہدین تک پہنچ گئے۔ جب ہم محاذ پر پہنچے تو سردی کی شدت اور بہت زیادہ تحرک کی وجہ سے ہمارا چہرے کا رنگ نیلا بلکہ سیاہ پڑ چکا تھا۔ برادر صالح پور بہت ڈرے ہوئے تھے چونکہ ہم نے اس پورے راستے میں بہت زیادہ سختیاں برداشت کی تھیں۔ انہیں خدشہ تھا کہ کہیں ہمیں سکتہ نہ ہوجائے۔ فورا جوانوں کو حکم دیا کہ ہمیں پانی دیں۔ وہاں پانی موجود نہیں تھا مجاہدین پانی پینے کے لئے برف کو کسی برتن میں ڈال کر چولہے پر رکھ دیتے جب وہ پانی بن جاتا تو اسے استعمال کرتے۔ میں جب پانی پی رہی تھی تو میری نظر ایک سن رسیدی شخص پر پڑی جو ہمیں دیکھ کر زار و قطار گریہ کررہے تھے۔

ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب جاری تھا۔ میں نے برادر صالح پور سے پوچھا یہ کون صاحب ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یہ تین شہید بیٹوں کے والد ہیں۔ مجھے یقین ہوگیا کہ انہیں اپنے تین شہید بیٹے یاد آگئے ہیں اسی لئے گریہ کررہے ہیں۔ ان کے لئے خدا کی بارگاہ میں اجر طلب کیا انہوں نے مجھے مخاطب کرکے کہا کہ بیٹا میں اپنے بچوں کے لئے گریہ نہیں کررہا۔ وہ تینوں امام پر قربان۔ زرا ساتھ آؤ تو میں بتاتا ہوں میں کیوں گریہ کررہا تھا۔ ہمیں ایک درہ کے کنارے لے گئے جو برف سے بھرا ہوا تھا اور کہنے لگے۔ ہمارے پاس چند دنوں سے کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ ہمارے جوان بہت سخت مشکل اور پریشانی میں تھے۔ کوئی بھی گاڑی برفانی ٹنل سے نہیں گذر پارہی تھی تاکہ ہم تک کھانے پینے کا سامان پہنچ سکے۔ ناچار ہم نے وائرلیس پر پیغام بھیجا کہ ہمیں ہیلی کاپٹر کے ذریعہ کھانے پینے کا سامان، گرم کپڑے اور بوٹ بھجوائے جائیں۔ جب ہیلیکاپٹر یہاں پہنچا تو پورا علاقہ برف سے ڈھکا ہوا تھا۔ اسے مجاہدین کی موقعیت کا اندازہ نہیں ہوا اور وہ سارا سامان اس درے میں پھینک کر واپس چلا گیا۔ مجاہدین ناامید ہوگئے۔ ایک طرف سے بھوک اور پیاس تو دوسری طرف سے برف اور سردی نے انکی ہمت توڑ دی تھی۔ اگر مزید چند دنوں تک یہ سامان یہاں نہیں پہنچتا تو بہت سارے جوان شہید ہوجاتے۔ اس لئے جوانوں میں سے پانچ بہترین جوانوں نے رضاکارانہ طور پر اس درے میں اترنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ یہ ساز و سامان واپس لا سکیں۔ وہ لوگ درے میں اترے لیکن ہم نے جتنا بھی انکا انتظار کیا وہ واپس نہیں آئے اور انکی مظلومانہ فریادیں برف کی خاموشی میں دب کر رہ گئیں۔ وہ بزرگ روتے ہوئے مزید کہنے لگے۔ ہمیں گرمیوں کا انتظار ہے تاکہ یہ برف پانی بن کر بہہ جائے اور ہم اپنے شہیدوں کے جنازے ڈھونڈ کر انکے اہل خانہ کے پاس بھجوا سکیں۔



 
صارفین کی تعداد: 275


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

جب یادداشت چلی گئی

انقلاب کی کامیابی کے فوراً بعد میں نے مسجد امیر المومنین (ع) میں کام شروع کیا۔ اب، اپنے  اور اپنے خاندان کے بارے میں میری یادداشت مکمل طور پرمحو ہو چکی تھی ۔ جب جنگ شروع ہوئی تو میں نے بسیج  میں شامل ہو کرمحاذ پر امدادا ور سامان کی فراہمی شروع کر دی
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔