سید قلبی حسین رضوی کی یادیں

خرمشہر کی فتح کے بعد عوام کی خوشی

استخراج: فائزہ ساسانی خواہ

ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی

2021-06-03


جس طرح میں نے ذکر کیا میری ایک اہم ذمہ داری مجاہدین اسلام کی معرکہ حق و باطل میں انجام دی جانے والی سرگرمیوں کے بارے میں اعلانیہ اور پوسٹرز لکھنے اور خطے میں امام خمینی رح اور انقلاب کے حامیوں اور عاشقوں کو اس بارے میں باخبر رکھنے کی تھی۔

اگر میں یہ کہوں کہ ایران آنے سے پہلے کشمیر میں جو بہترین واقعہ مجھے یاد ہے وہ یہی خرم شہر کی آزادی کا واقعہ تھا تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوگی۔ خرم شہر کی فتح کے دن، معمول کے مطابق جب میں نے ریڈیو کھولا تو، تہران میں دوپہر کے دو اور کشمیر میں دوپہر کے چار بج رہے تھے۔ تہران ریڈیو سے خرم شہر کی فتح کا اعلان ہورہا تھا۔ میں نے معمول کے مطابق اپنا پروگرام، ریکاڈر اور دیگر وسائل آمادہ کئے۔ جیسے ہی میں نے یہ خبر سنی۔ اس خبر کو ریکارڈ کیا اور پھر باہر نکل آیا۔ پھر میں نے بازار میں لوگوں کو یہ خبر سنائ۔ لوگ یہ خبر سنتے ہی جشن منانے لگے اور کچھ ہی دیر میں کشمیر کے بازار میں نعرے گونجنے لگے: "اللہ اکبر، خمینی رہبر"

میں نے چار بجے ہی وہ خبر لکھنا شروع کردی تھی۔ تقریبا مغرب کے وقت اسے لکھنے اور ترجمہ کرنے کا مرحلہ ختم ہوا۔ میں نے دیکھا کہ متن بہت طویل ہوگیا ہے۔ اس میں مطالب اور تفصیلات بہت زیادہ تھیں۔ اتنے بڑے متن کو نیم میٹر کے پوسٹر میں سمیٹنا بہت مشکل تھا۔ میں نے حساب کتاب لگایا کہ میرا پوسٹر کتنا بڑا ہونا چاہئے۔ بالآخر (۹۰ X۶۰) سینٹی میٹر کے کاغذ کو آپس میں چپکا کر ایک 5/1 × 25/2 میٹر کا پوسٹر بنا دیا۔

مجھے یاد ہے کہ جب میں نے وہ پوسٹر چپکایا ، تو پورا کمرہ اس پوسٹر سے بھر گیا تھا۔ ایک چھ میٹر کے قالین جتنا پوسٹر تیار تھا۔ اس پوسٹر کو زمین پر بچھا کر میں نے لکھنا شروع کیا۔

مجھے نہیں معلوم تھا ایران میں اس خبر کی ہیڈنگ کیا کھی گئی ہے۔ بعد میں جب اخبارات مجھ تک پہنچے تو میں نے دیکھا کہ میں نے بھی وہی ہیڈنگ لکھی ہے: "خرم شہر آزاد شد" میں نے اردو میں لکھا تھا " خرم شہر آزاد ہوگیا" جسے میں نے لکڑی سے بہت بڑا بڑا کر کے سرخ رنگ سے لکھا تھا۔ چونکہ میں الحمداللہ خود ہی خطاط اور مترجم ہوں۔

صفحہ کے اوپر لکھا: "اسلامی جمہوریہ ایران کی چند کلو میٹر سرزمین آزاد ہوگئی اور بعثیوں کے کئی افسر گرفتار کرلئے گئے" ان سب کو انکے ناموں اور عہدوں کے ساتھ جس طرح تہران ریڈیو نے لکھا تھا اسی طرح جدا جدا لکھا۔

جمو کے ایک ڈاکٹر میرے دوست تھے اور بعض اوقات میرے گھر بھی آجایا کرتے تھے۔ اس رات میرے وہی دوست ڈاکٹر محمد میرے پاس رکے ہوئے تھے۔ میرے کمرے میں بس ایک بستر خالی بچا تھا اور میں باقی پورے کمرے میں پوسٹڑ بچھا کر لکھ رہا تھاوہ سونا چاہتے تھے لیکن بجلی نہیں تھی۔ وہاں صرف تین گھنٹے بجلی آتی تھی اور رات نو بجے کے بعد بجلی چلی جاتی تھی اور ہم موم بتی کی روشنی میں سارے کام کیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر سے میں نے کہا کہ آپ سو جائیں۔ وہ سونے چلے گئے۔ ساڑھے تین بجے انکی آنکھ کھلی تو مجھے دیکھا کہ ابھی تک لکھنے میں مشغول ہوں۔ میرے پاس آکر بیٹھے اور بولے: "رضوی صاحب اگر کسی نے آپ کو اس حالت میں دیکھ لیا کہ کس طرح ایران، انقلاب اور محاذ جنگ کے لئے تندہی سے پوسٹر لکھ رہے ہیں تو کیا وہ یقین کرے گا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے آپ کو تنخواہ نہیں ملتی؟"

میں نے کہا تمہیں تنخواہ سے کیا لینا دینا، جائو جا کر سو جائو۔وہ آدھے گھنٹے بیٹھے اور پھر جاکر سوگئے۔ خدا کا خاص لطف اور عنایات تھیں میں پوسٹر کے آخری الفاظ لکھ رہا تھا اور صبح کی اذان ہورہی تھی۔ صبح کی نماز کے بعد میرا عجیب حال تھا۔ پوسٹر کو مکمل کیا اور خدا سے دعا کی کہ خدایا میں اس کوہستان میں امام خمینی رح اور انقلاب کا طرفدار ہوں اور میری نیت امام خمینی رح اور انقلاب کی خدمت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ خدایا اس چھوٹی سی خدمت کے مقابلے میں مجھے تجھ سے بس تین چیزیں چاہئیں۔ پہلی یہ کہ میرے جد امام رضا علیہ السلام ہیں لیکن میں نے اپنے خواب میں بھی کبھی نہیں سوچا کہ ایران جائوں گا اور اپنے جد کی زیارت کروں گا۔ دوسرا یہ کہ اپنی موت سے پہلے موسی اور حسین زمان، ستمگروں کو ملیا میٹ کرنے والے، امام خمینی رح کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں۔ تیسرا یہ کہ خرم شہر کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں۔

اسکے بعد ڈاکٹر صاحب کو نماز کے لئے جگایا اور کہا کہ یہ پوسٹر یہاں بچھا ہوا ہے، کچھ جوان آئیں گے یہ پوسٹر لے جائیں گے تاکہ بازار میں چپکا سکیں۔ اگر آئیں تو مجھے جگانا نہیں تاکہ میں کچھ گھنٹے سو سکوں۔

میں سوگیا، گیارہ بجنے میں پندرہ منٹ کم تھے۔ کچھ جوان ایک عالم دین کے ساتھ آئے اور مجھے جگا دیا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ باہر کیا ہوا ہے۔ بس اتنی سی خبر ملی کہ صبح لڑکوں نے وپ پوسٹر بازار میں چپکا دیا تھا جس کے بعد ایک شور غل مچ گیا تھا۔ جس رات میں نے یہ پوسٹر لکھا تھا اس رات کوہستان میں ایک پہاڑ سے اللہ اکبر کی آواز آتی تو دوسرے پہاڑ سے خمینی رہبر کی۔ پوری رات نعرے لگتے رہے اور پہاڑوں پر چراغاں کیا گیا۔

صبح جو وہ لوگ آئے اور مجھے جگایا تو کہنے لگے: " اٹھیں، عوام کا جلوس بازار تک پہنچ چکا ہے اور وہاں سب کچھ تیار ہے، بس آپ کا انتظار ہے کہ آکر تقریر کریں"۔ وہاں پہنچا تو عجب سماں تھا۔ پورے کشمیر سے لوگ وہاں جمع ہوچکے تھے اور خوشی میں نعرے لگا رہے تھے۔ میں نے وہاں پچیس منٹ جنگ اور استکباری طاقتوں اور استعمار اور صدام کی فتنہ گری کے بارے میں گفتگو کی۔ اسی کے ساتھ ساتھ جنگ اور خرم شہر کی آزادی کے بارے میں بھی تفصیل سے بتایا۔

اس دن پورے کشمیر میں سرکاری چھٹی کا اعلان کیا گیا تھا اور تمام سرکاری اور غیر سرکاری ادارے، عمارتیں اور بازار بند تھے، اور کشمیر کے عوام خرم شہر کی فتح اور آزادی کا جشن منا رہے تھے۔

[1] شیخ محمدی، رضا، خاطرات سیدقلی حسین رضوی کشمیری، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، چ اول، تابستان 1388، ص 136.


ویب سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 2212



http://oral-history.ir/?page=post&id=9904