ہینڈ بِل بانٹنے کے جرم میں گرفتاری

حسین روحانی صدر
ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی

2021-05-20


مجھے ہینڈ بِل بانٹنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا اور مجھ سے باز پرس ہوئی۔ ان میں سے ایک ہینڈ بِل امام خمینی رح کا وہ مشہور فتوی تھا جس میں انہوں نے سہم امام سے سیستان بلوچستان کے عوام کے لئے کوئلہ خرید کر مستحقین میں تقسیم کرنے کا حکم دیا تھا۔

ہینڈ بلز کو فوجی ساز و سامان میں چھپا کر انہیں ایمونیشن ڈپارٹمنٹ کے افراد کے درمیان تقسیم کرتا تھا۔ بالآخر ایک دن حساس ادارے کے اہلکاروں کا خبر ہوگئی اور میں اسوقت کارخانے میں پکڑا گیا جب میری جیب میں ایک ہینڈ بل موجود تھا۔

تین اہلکاروں کے ساتھ حوض خانے کی عمارت میں داخل ہوا اور کمانڈر حسین پور کے سمانے سے گذرا۔ عام طور پر ایک سپاہی آگے اور دو پیچھے پیچھے چلتے تھے لیکن اس دن تینوں سپاہی آگے آگے چل رہے تھے۔ ان تینوں کو بہت جلدی تھی میں بھی ان کے پیچھے تیزی سے چلتا چلا جا رہا تھا۔ مین گیٹ کھلتے ہی سیدھے ہاتھ پر کمانڈر حسین پور کا کمرہ تھا۔ میں نے تیزی سے کمرے کا دروازہ کھول کر ہینڈ بل وہاں پھینک کر دروازہ بند کردیا اور انکے پچھے پیچھے دوبارہ چل پڑا۔ ایک افسر کے کمرے میں پہنچے۔ میں نے دیکھا فون ہاتھ میں لئے سٹپٹاتا ہوا بات کررہا ہے: جی بہتر جناب، میں ابھی دیکھتا ہوں۔ مجھے پہلے تو بات سمجھ نہیں آئی کہ موضوع یہی ہینڈ بل ہے اور فون کی دوسری طرف وہی کمانڈر ہے جس کے کمرے میں میں نے ہیڈ بل پھینکا تھا اور ہمارے اوپر آنے کے بعد اس نے وہ ہینڈ بل پڑھ لیا تھا۔ افسر نے فون رکھا اور مجھے ایک زور دار تھپڑ رسید کردیا اور مجھے گالیاں دینا شروع کردیں۔ میں نے ہکا بکا ہوکر اس سے پوچھا: "ایسا کیا ہوگیا؟ مجھے کیوں مار رہے ہو؟ اس نے کہا:" اب کمانڈر کے کمرے میں بھی ہینڈ بل ڈالو گے؟" یہ سن کر میں سکون میں آگیا کہ چلو میں نے تقربا ہر جگہ ہینڈ بل پہنچا دیئے ہیں: "میں نے اطمئنان سے پوچھا: '' نہیں تو، کون سا ہیند بل؟ کون سا کمانڈر؟" تمہارے یہ تین سپاہی میری حفاظت کررہے تھے یہ گواہی دیں گے کہ میں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا۔ انہوں نے بھی نہ چاہتے ہوئے میری بات کی تایید کردی۔ چونکہ اگر وہ میری بات کی تایید نہیں کرتے تو کوتاہی برتتنے پر ان کے خلاف کیس ہوجاتا۔

منبع: شیخ‌المعارفین ما کجاست (خاطرات محمد عرب)، تدوین حسین روحانی‌ صدر، تهران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1390، ص 129 و 130.


15khordad42.ir
 
صارفین کی تعداد: 2332



http://oral-history.ir/?page=post&id=9886