یادوں بھری رات کا ۳۱۳واں پروگرام (دوسرا حصہ)

اسارت کی سختیاں "مہدی طحانیان" کی زبان سے

مقالہ نویس : مریم اسدی جعفری

مترجم: محسن ناصری

2020-12-27


ایران کی تاریخ کی بیانگر ویب سائٹ کی جانب سے  ۲۱ مئی ۲۰۲۰  کو 313ویں پروگرام  کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں دفاع مقدس کے دوران خرم شہر کی آزادی کے لیے حصہ لینے والے "مہدی رفیعی" نے شرکت کی اور مہدی طحانیان اس پروگرام کی دوسری نشست کے مہمان تھے جنہوں نے دفاع مقدس میں پیش آنے والی داستانوں کو نقل کیا۔

اس پروگرام میں میزبانی کے فرائض جناب اکبر عینی نے انجام دے رہے تھے۔ پروگرام کی ابتداء میں خرم شہر سے متعلق شہید مرتضی آوینی کی تیار کردہ کلیپ پیش کی گئی اور اس کے بعد مھدی طحانیان نے اپنی گفتگو کا آغاز کیا۔

پروگرام کے دوسرے حصے میں " مہدی طحانیان" جو کہ " میرے تمام تیرا سال"نامی  کتاب کے مصنف ہیں۔ وہ دفاع مقدس میں پیش آنے والے واقعات کو داستان کی شکل میں بیان کررہے تھے۔ انہوں نے اپنے تقریر کا آغاز کچھ اس انداز میں کیا کہ " خداوند متعال کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں دفاع مقدس کی تلخ و شیرین یادوں کو ایک دفعہ پھر تازہ کرنے کا موقعہ دیا اور دفاع مقدس میں الٰہی رنگ اور اس کی معنویت ، حق و باطل کے معرکے اور جوانوں کی قربانیوں کو یاد کرنے کا موقعہ ملا ہے۔ انشاء اللہ امید ہے جس قدر ہمیں توفیق حاصل ہوئی ہے اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرسکیں اور امید ہے کہ عوام کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہوگی۔ دشمن کے لیے اس بات کا یقین کرنا بہت ہی مشکل تھا کہ مجھ جیسا کم سن جوان اس جنگ میں موجود ہے اور ان کے لیے یہ ایک عجیب و غریب بات تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب ہمیں اسیر کیا گیا، اس رات گولہ باری اس قدر زیادہ تھی کہ میں جہاں بھی نظر اٹھا کردیکھتا تھا وہاں عراقی ٹینک سے گولے گررہے تھے اور عراقی ہمارے سروں پر سے گزر کر ہم تک پہنچے تھے۔ ہمارے گِرد ایک بڑا حلقہ قائم کیا ہوا تھا اور ہم کو اس کے درمیان بٹھایا ہوا تھا۔ انہوں نے ہمیں اپنے محاصرے میں لیا ہوا تھا۔ لیکن مجھ سمیت تمام جوان ایک دوسرے کے ساتھ جڑے بیٹھے تھے۔ عراقی افسر چلّائے جارہے تھے " تفرّقوا۔۔۔ تفرّقوا" یعنی جُدا ہوجاو۔۔ جُدا ہوجاو ۔۔ لیکن جوان ان کی باتوں کو اہمیت ہی نہیں دے رہے تھے۔ اس شدید فائرنگ میں ان کوشش یہ تھی کہ ہم تک پہنچ جائیں اور ہمیں اسیر کرلیں۔ اگرچہ اس ہدف کے لیے انہوں نے بہت سا جانی نقصان اٹھایا۔ عراقی افسران جو ہمیں دیکھنے کے اس قدر مشتاق تھے کہ ان کی کوشش تھی جلد از جلد ہم تک پہنچ جائیں۔ ایک عراقی افسر میرے پاس آیا اور مجھے اپنے ساتھ اسیر کر کے لے گیا۔ اس نے مجھے اپنے ٹینک میں بٹھایا اور کچھ تصویریں بھی بنائیں۔ جس دن ہم اسیر ہوئے بہت سے چھوٹے بڑے واقعات پیش آئے۔ اندھیرا چھا رہا تھا اور ہمیں عراقی فوج نے ایک زندان میں منتقل کردیا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہماری اسارت کی پہلی صبح ۱۰ مئی ۱۹۸۲ء  کا دن تھا۔ میں نے دیکھا عراقی فوج نے اسیروں کے لیے جو اقدامات کئے ہیں اس سے ظاہر تھا کہ عراقی فوج نے ہماری خاطر تواضح کے لیے تمام تیاری مکمل کررکھی ہے۔ عراقی فوجی ہر روز صبح آتے تھے اور ہم میں سے کچھ قیدیوں کو اپنے ساتھ جیپ میں بیٹھا کر میدان جنگ لے جایا کرتے تھے تاکہ اپنے جوانوں کا حوصلہ بڑھا سکیں۔ اور کہا کرتے تھے کہ یہ دیکھوں ایرانی فوج میں صرف ان جیسے سن و سال کے جوان ہیں۔ جن کو تم باآسانی شکست دے سکتے ہو۔ ان کے بڑے جنگ سے خوف کھاتے ہیں بس ایران فوج میں چھوٹے بچے ہی ہیں۔ ڈرو مت اور ان کا مقابلہ کرو یہاں تک کہ کامیابی تمہارا مقدر بن جائے۔ لیکن ، الحمد للہ ہمارے پاس جو اسلامی فکر تھی، ایمان کی قوت اور جس قرآنی نظریے کی بنیاد پر دشمن کا مقابلہ کررہے تھے اس نے ہمیں دشمن کے مقابلے میں استقامت بخشی۔

ہمارے جوانوں کو ایران اور امام خمینیؒ سے جو محبت تھی اس نے دشمن سے مقابلے میں مدد فراہم کی۔ جب انسان کے پاس نظریہ ہو اور اس کے پاس جذبہ ہوتو وہ کسی کی زور زبردستی کو قبول نہیں کرتا اور حق پر ڈٹ جاتا ہے۔ دشمن سمجھتا تھا کہ اس کا مقابلہ چھوٹے اور کم سن جوانوں سے ہے اور وہ جو چاہے کرسکتا ہے اور اپنے مذموم مقاصد کو باآسانی حاصل کرسکتا ہے۔ لیکن بہت ہی جلد دشمن پر واضح ہوگیا کہ اس کی خام خیالی ہے اور اس کو اپنے لیے واپسی کا راستہ کھلا رکھنا ہوگا۔ ہمارے جوانوں کے ایمان کا اثر یہ ہوا کہ دشمن کی فوج میں موجود سن رسیدہ افراد ہمارے جذبے کو دیکھ کر حیران تھے اور حسرت کیا کرتے تھے کہ ان کے پاس بھی ایسا جذبہ ہو جس کے ذریعے وہ میدان جنگ میں جاسکیں۔ جب ان کا زور نہیں چلتا تو ہمیں جان سے مارنے کی دھمکی دیتے۔ بعض اوقات مجھے دھمکی دیا کرتے تھے کہ " تم کو بدترین طریقے سے قتل کریں گے، کبھی کہتے تمہیں توپ کے سامنے باندھ کر اڑا دیں گے"۔ ہمیشہ کوشش کیا کرتے تھے کہ ہمارے سامنے بدترین اموات کا ذکر کریں اور بعض اوقات ان دھمکیوں کو عملی نمونے میں بھی تبدیل کردیا کرتے تھے۔ شاید ممکن نہ ہو کہ میں ان تمام موارد کو بیان کرسکوں لیکن وہ کوشش کیا کرتے تھے کہ ہمیں بدترین سرانجام سے ڈرائیں۔  لیکن، الحمد للہ کسی کے قدم نہیں ڈگمگائیں اور تمام جوان ثابت قدم رہیں۔ انہوں نے بھی دیکھا کہ دھمکیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ دشمن نے پوری کوشش کی اور ہر قسم کے حربے آزمائیے لیکن کامیاب نہیں ہوسکیں۔ ان تمام دھمکیوں سے زیادہ ان کی خواہش تھی کہ کوئی جوان ایران اور انقلاب کے خلاف ایک لفظ بھی کہے۔ بین الاقوامی اخبارات کے صحافی ہمیشہ ہمارے سیل کے باہر موجود ہوتے تھے۔ جب کبھی ان عراقی فوجیوں کی نظر ہم پر پڑتی تو ہمیں صحافیوں کے پاس لے جاتے تھے  اور ہمارا انٹرویو کرتے تھے ہم اس قسم کے سوال کرتے تھے جس کے ذریعے ان کو فائدہ حاصل ہوسکے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بعثی فوجی ہمیشہ مجھ جیسے جوانوں کو جمہوری اسلامی ایران پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا کرتے تھے  تاکہ ایران پر بین الاقوامی برادری کے دباؤ کو زیادہ کرسکے۔ بعثی فوجی ہم سے کہا کرتے تھے کہ ہم چاہتے ہیں کہ تمہاری مظلومیت کو دنیا کے سامنے پیش کریں اور دنیا کو بتائیں کہ تمہارے سن و سال کے جوانوں کی جگہ میدان جنگ نہیں یا یہ کہ تمہارا مقام جنگ کا قید خانہ ہے۔۔۔؟ کیا یہ انصاف ہے کہ کم سن جوان اسیر ہوں؟ یہ کس کا کام ہے۔۔؟ کس نے تم کو میدان جنگ میں بھیجا ہے۔۔؟

الحمد للہ اس کم وقت میں بھی جب ہم کو صحافیوں کے سامنے پیش کیا جاتا تھا تو اس دوران بھی ہم ان کی فکر کو تبدیل کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ ایک عراقی کُرد فوجی تھا جو فارسی بھی جانتا تھا اور یہ فوجی پورے انٹرویو میں ہمارے ساتھ رہتا تھا۔ یہ فوجی بہترین فارسی جانتا تھا اور بعض اوقات تو ہم سے بھی بہتر فارسی میں بات کرتا تھا۔ انٹرویو کے دوران یہ عراقی ہمارے سامنے موجود رہتا تھا جب ہم انٹرویو دیتے تو یہ ہم کو دھمکیاں دیتا۔ کہا کرتا تھا کہ " یہ کہو۔۔ یا یہ مت کہو۔۔ آج رات کی خیر منا لو۔۔اس بات کا خیال بھی رکھو کہ یہ صحافی ۲ منٹ بعد چلے جائیں گے۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔" لیکن الحمد للہ یہ دھمکیاں کسی بھی جوان کے حوصلے کو اثرانداز نہیں کرسکیں۔ ہم اپنے دل کی بات کہا کرتے تھے اور تمام تر اذیتوں کو برداشت کیا کرتے تھے۔ یقین کریں عراقی فوجی ان صحافیوں کے معاملے میں اس قدر حساس تھے کہ بعض اوقات فکر کرتے تھے کہ ان کو شکست ہوئی ہے۔ کیوں کہ عراقی فوجی ان صحافیوں کے سامنے صدام حسین کی شخصیت کو مثبت اور رحم دل دیکھانا چاہتے تھے۔ لیکن جب ہماری ایران اور انقلاب اسلامی سے محبت کو دیکھتے تھے تو یہ صحافی اس قدر متحول ہوجایا کرتے تھے اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجایا کرتے تھے۔ کبھی ہمارے ماتھے کو چومتے تھے اور کبھی ہمارے شانوں کا بوسہ لیا کرتے تھے۔ بعض اوقات عراقی فوج ان صحافیوں کا گریبان پکڑ لیا کرتے تھے اور کہتے تھے " تم یہاں کس لیے آئے ہو اور کیا تم بھول گئے ہو کہ یہاں تمہارا کیا کام ہے"۔ لیکن ان سب کاموں کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا تھا صحافیوں کو وہ مل جاتا تھا جس کے لیے وہ جیل آیا کرتے تھے۔ ان تمام کاموں کا نتیجہ یہ ہوا کرتا تھا کہ عراقی فوج کے تشدد میں مزید اضافہ ہوجاتا تھا۔ ہم کو آدھی رات  کے وقت ۲-۳ بجے سیل سے نکال کر سخت سردی میں حمام لے جایا کرتے تھے۔ اس قدر تشدد کیا کرتے تھے کہ ۵ منٹ کے عرصے میں جن دوستوں کے ساتھ ہم رہا کرتے تھے اور ان کو بہت اچھی طرح پہچانتے تھے، تشدد کے بعد سمجھ نہیں آتا تھا کہ ہم کس کے برابر میں بیٹھے ہیں۔ یہ تو صرف تشدد کی بات ہے لیکن عراقی فوجی کھانے اور صفائی کے معاملے میں بھی ہمیں ٹارچر کا نشانہ بنایا کرتے تھے۔ لیکن ، الحمد للہ ہمارے جوان ان تمام تر مشکل حالات کے باوجود ثابت قدم رہتے۔ یقین کریں دشمن تشدد کا دائرہ جس قدر بڑھاتا جاتا جوانوں کے حوصلے اسی قدر مضبوط ہوتے چلے جاتے تھے۔ دشمن کا ظلم جس قدر بڑھتا جاتا جوانوں کی استقامت بھی اس سے زیادہ بڑھتی جاتی تھی۔ خدا کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ عراق کی بعثی فوج کے جلّاد بھی جب ہمارے جوانوں کا حوصلہ دیکھتے تھے تو کہتے " بابا ، تم لوگ کس قسم کے انسان ہو۔۔؟ انْتُم و اللہِ فوقَ بشرٍ۔۔ خدا کی قسم تم لوگ انسان نہیں ہو"۔ یا " واللہ ، تم ہمارے اسیر نہیں ہو بلکہ ہم تمہارے اسیر ہیں۔ یہ کون کہتا تھا ، ظالم ترین ، سفاک ترین ، بغضی ترین افراد ہمارے جوانوں کے لیے اس قسم کے جملات کہا کرتے تھے۔ کیوں کہ یہ ایام ، ایام ماہ رمضان کے نزدیک ہیں تو چاہتا ہوں کہ قید میں عرفا کے حالات سے آپ کو آگاہ کروں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ قید میں ہمارا پہلا رمضان تھا جو شدید گرمی کے دن تھے۔ وہ عراق کی گرمی اور رمادی کا علاقہ جو کہ عراق کے گرم علاقوں میں سے ایک ہے اور اس کی سردی بھی شدید ہوتی ہے۔ جوانوں کا اصرار تھا کہ وہ کھانا جو تم ہمیں صبح دیتے ہو اس کو صبح نہیں دو بلکہ افطار کے وقت دے دو۔ عراقی فوجی کہا کرتے تھے کہ "نہیں ممکن نہیں ہے اور فوج کے قانون کے مطابق روزہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے"۔ فوجی بیس میں روزہ رکھنے کو جائز نہیں جانا جاتا اور کسی کو مذھبی سرگرمیاں اختیار کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ کہتے تھے تم کو کس نے مجبور کیا ہے روزہ رکھو اور تم مجبور نہیں ہو روزہ رکھو"۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہمیں افطار کے وقت کھانا دیا جاتا تھا تو ایسا لگتا تھا کہ اس میں کسے نے جھاگ بھی ڈالا ہے۔ وہاں فریج نام کی کوئی چیز نہیں تھی جس کے ذریعے کھانے کو محفوظ بنا لیا جائے۔ یہ سوپ کی صورتحال تھی باقی کھانوں کا تو پوچھیں ہی مت۔ خدا جانتا ہے کہ ہم نے کن شرائط کا سامنا کیا ہے، کھانے پینے کی مشکلات سے لے کر تشدد کے عذاب تک جوانوں نے ہر قسم کے ظلم کو برداشت کیا۔ یہ خداوند متعال کا لطف و کرم تھا جس نے جوانوں کو زندہ رکھا۔یہ کوئی ایک دو دن کی بات نہیں تھی۔ ہم خدا سے کہا کرتے تھے " خدایا کیا ممکن ہے کوئی یہ کھانا کھائے اور زندہ رہ جائے۔۔؟"۔  وقت نہیں ہے کہ ان واقعات کو ایک ایک کر کے آپ کے سامنے پیش کروں۔ جو بھی تھا بابرکت نظریے کا نتیجہ تھا۔ ہمیں ہر حال میں اسلام کا قدردان ہونا چاہیے۔ اگر ہم ایران کو دشمنوں کے مقابلے میں عزیز اور کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے اسلام کو مضبوطی سے تھامے رہیں۔ اگر اسلام کو تھامنا ہے تو ضروری ہے کہ قرآن کو مضبوطی سے تھام لیں۔ ایران کے ساتھ ہمیں اسلام اور قرآن کو بھی محفوظ رکھنا ہوگا جب ہی ہم اپنے مستقبل کو محفوظ بنا سکیں گے۔ جب ایک قوم کسی نظریے کے ساتھ دشمن کے مقابلے میں قیام کرتی ہے تو دشمن کے سامنے استقامت کا مظاہرہ کرتی ہے۔ کسی بھی دشمن میں جرائت نہیں ہوتی کہ اس کے ملک و قوم کی جانب بُری نگاہ سے دیکھے یا اس کی پاکیزہ خاک پر قبضہ کرنے کوشش کرے۔ بہت بہت شکریہ ۔۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔۔

 

 

 


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 2164



http://oral-history.ir/?page=post&id=9660