سالہائے جنگ کی روٹیاں

ریحانہ محمدی
مترجم: محسن ناصری

2020-06-24


" سالہائے جنگ کی روٹیاں" یہ کتاب دفاع مقدس کے زمانے میں سبزوار کے ایک گاوں صدخرو کی خواتین کے کردار پر ایک نظر ہے۔ یہ کتاب " محمد اصغرزادہ" کی جانب سے ۲۴ گھنٹے کے انٹرویو کا حاصل ہے جو انہوں نے صدخَرو کی خواتین سے کیے اور "محمود شم آبادی" نے اس کو قلمبند کیا ہے۔ صدخرو گاوں کی خواتین کی جانب سے جنگ کی حمایت اور ان کے کردار سے متعلق داستان ۱۶ فصلوں اور ۱۲۶ عنوانات پر بیان کی گئی ہے۔ کتاب کی آخری دوفصلیں ان دلیر خواتین اور اس گاؤں کی شہداء کی تصویروں پر مشتمل ہے۔ ہر عنوان میں ایک شخص کی داستان ہے جو کہ ۵ سے ۱۰ خطوط پر مشتمل ہیں۔ خیرالنساء صدخروی نے کتاب میں ایک جگہ " کافی والی مجلس" کے عنوان سے کہا ہے: " ہم مجلس عزا میں کافی پلایا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ مصیبت تلخ ہے تو اس کی تلخی سے انسان کا دھن بھی تلخ رہنا چاہیے۔ آیت اللہ بروجردی کا جب انتقال ہوا تو پورا گاؤں سوگوار ہوگیا۔ تین دنوں تک مسجد میں مجلس عزا برپا کی گئی۔ قرآن خوانی کی آوازیں ایک لمحے کے لیے بھی رکنے نہ پائی۔ خواتین و حضرات اس طرح رو رہے تھے جیسے ان کے اپنے کسی قریبی رشتہ دار کا انتقال ہوگیا ہو۔ ہم گھر میں کافی کو دم کرنے کے بعد بڑی کیتلیوں میں ڈال کرمجلس عزا کے لیے لے جایا کرتے تھے"۔ اس کتاب کے مقدمے کے ایک حصے میں بیان کیا گیا ہے : " جب دشمن گھروں کو جلانے کے لیے تیار تھا تو اس وقت گاؤں کی خواتین ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی ہوئی نہیں تھیں۔ جب گاؤں میں تعمیراتی اور ترقیاتی راہ میں جہاد شروع ہوا تو خواتین نے تعمیراتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، تندور میں روٹیاں لگانے سے لے کر کیک بنانے تک، شال بنانے سے لے کر ٹوپیوں کی تیاری تک، کسی بھی کام کو انجام دینے سے دریغ نہیں کیا اور جو کچھ بھی تھا انہی گھروں سے شروع ہوا۔ خواتین نے گھروں کو میدان جنگ میں تبدیل کردیا تھا اور اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالا۔ صبح کی آذان کے بعد سے گاؤں کی خواتین با وضو ہوکر تندور میں روٹیاں لگانے کا کام شروع کر دیتی تھیں"۔ صدخرو گاؤں سبزوار کے مغرب میں واقع ہے جو دفاع مقدس کی ابتداء کے زمانے سے ہی مجاہدین کی حمایت میں مصروف ہوگیا تھا۔ دفاع مقدس کی تاریخ میں دیہی علاقوں کے کردار کو بہت ہی کم بیان کیا گیا ہے جنہوں نے تعمیراتی جہاد کے ذریعہ جنگ میں اپنا کردار ادا کیا۔ صدخرو گاؤں کی انقلابی خواتین ایک بے مثال نمونہ ہیں جنہوں نے اپنے مردوں کے شانہ بشانہ اپنی زندگی جہاد اور انقلاب کے لیے وقف کردی۔ اگرچہ یہ خواتین تعلیم یافتہ نہیں تھیں اور نہ ہی انہوں نے کسی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی تھی لیکن یہ ضرور جانتی تھی کہ زندگی کا دوسرا نام عقیدہ اور جہاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ کے موقع پر پسینے میں شرابور ہونے کے باوجود تندور میں روٹیاں لگانا ترک نہیں کرتی تھیں۔ امام خمینی (رح) صحیفے کی چودہویں جلد کے صفحہ نمبر ۲۰۳ میں ان خواتین کی عظمت بیان فرماتے ہیں" جب میں ٹی وی پر ان خواتین کو عسکری لشکر کی مدد اور حمایت کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو اپنے دل میں ان کی قدر و منزلت کا احساس کرتا ہوں جو شاید کسی اور کے لیے احساس نہیں کرتا۔ یہ خواتین جو کام انجام دیتی ہیں اس کے بدلے ان کے دلوں میں عوام سے کسی قسم کی توقع یا کسی پوسٹ و مقام کی لالچ نہیں ہوتی بلکہ یہ خواتین گمنام سپاہیوں کی طرح ہیں جو جہاد میں مصروف ہیں"۔ ہمیں کتاب کے ایک حصہ میں یہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے : " پورے علاقے میں کوئی بھی علاقہ صدخرو کی مانند نہیں تھا۔ دشمن پر غلبہ صدخرو خواتین کی مرہون منت حاصل ہوا۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ یہ کام ہماری دنیا اور آخرت کو سنوار دے گا۔ جو بھی کام انجام دیتی، مفت انجام دیتی تھیں اور کسی قسم کی کوئی اجرت وصول نہیں کرتی تھیں۔ ایک بیوہ خاتون نے پانچ یتیم بچوں کے ساتھ اپنی پوری زندگی کو تندور میں روٹیاں لگانے کے لیے صرف کردیا تھا وہ بھی بغیر کسی اجرت کے"۔ یہ کتاب ۱۹۲ صفحات پر مشتمل ہے اور اس کتاب کا پہلا ایڈیشن سن ۲۰۱۹ء کے وسط میں "راہ یار" پبلیکشنز نے ۲۰۰۰ نسخوں کے ساتھ نشر کیا۔

سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3009



http://oral-history.ir/?page=post&id=9302