ریڈیو کی وہ داستان جو آبادان کی استقامت کی آواز بنا

انٹرویو: احمد رضا امیری سامانی

مترجم: محسن ناصری

2020-06-20


۱۱۶۰ ریڈیو چینل : یہ ریڈیو آبادان ہے ، استقامت اور پائداری کی آواز/ ھنا عبّادان صوتُ الصمود و التصویر ( عربی) نامی کتاب ستمبر ۲۰۱۹ میں شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب کے مصنف "فضل اللہ صابری" ہیں۔

صابری نے اس کتاب میں دفاع مقدس کے ابتدائی سالوں میں اپنے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ پیش آنے واقعات کو قلم بند کیا ہے۔ اس کام کے لیے انھوں نے اور عبداللہ نعیم زادہ نے ۱۰۰ سے زائد انٹرویو کیے ہیں۔ اگرچہ انھوں نے وضاحت بھی کی ہے کہ ایران پر مسلط کی جانے والی ۸ سالہ جنگ کے دوران پیش آنے والے بعض واقعات کو مختلف مناسبتوں کے دوران اور تالیف کی جانے والی کتاب "قرار گاہ بی قرار" میں بیان کرچکے ہیں۔

جیسا کہ کتاب کے عنوان " ۱۱۶۰ ایف ایم" سے کسی حد تک ظاہر ہے کہ اس کتاب میں ایران پر مسلط کردہ جنگ کے ابتدائی سالوں میں آبادان ریڈیو اور اس میں کام کرنے والے افراد کے کردار کو بیان کیا گیا ہے۔ " جنگ کے ابتدائی دنوں کی مشکلات"، " مخصوص پروگرام اور اہم انٹرویو" " بنی صدر کے ساتھ انٹریو" " وزیر پیٹرولیم کا انٹرویو" " ذوالفقاری محلے کی جنگ"  آبادان ریڈیو کا اسٹیٹ آئل میں تبدیل ہوجانا" وغیرہ اس کتاب کے اہم عناوین ہیں۔

وہ دفاع مقدس کے زمانے میں آبادان ریڈیو پراستقامتی تحریکوں کے راوی تھے۔ وہ ریڈیو جو ابتدا میں تیل کی خبروں کے عنوان سے مشہور تھا، خرم شہر کی فتح کے بعد ریڈیو آبادان کے نام سے خدمات انجام دیتا رہا۔ صدام کی فوج نے اس میڈیا کی طاقت سے بارہا نقصان اٹھایا اور کئی دفعہ اس ریڈیو کی عمارت کو حملے کا نشانہ بنایا۔ آخرکار سن ۱۹۸۶ کے موسم سرما میں ریڈیو آبادان کی عمارت اور اس کے براڈکاسٹر بمباری کی زد میں آگئے جس کے سبب کام معطل ہوگیا۔ لیکن جنگ پرانی ہو چکی تھی اور آبادان ریڈیو کا ۱۱۶۰ چینل اپنا مشن انجام دے چکا تھا۔ فضل اللہ صابر(صابری) آبادان میں پیدا ہوئے ہیں اور ۱۹۸۰ ء کے موسم گرما میں ریڈیو آبادان کے ادارے میں شمولیت اختیار کی اور ریڈیو  کی عمارت پر بمباری تک وہاں موجود رہے۔ دوران جنگ گولیوں کی بوچھاڑ میں ریڈیوآبادان کے لیے انجام دی جانے والی خدمات کے حوالے سے جناب صابر اور ان کے ساتھیوں کی بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔            

اپنے گھر اور آبادان کے بارے میں کچھ بتائیں۔

شروع میں میرے والد شراکت داری میں  کوئلے اور لکڑی کی چھوٹی سی دکان چلایا کرتے تھے۔ اس وقت جب میں ۸ یا ۹ سال کا تھا تب تک لوگوں کو بجلی اور گیس کی فراہمی نہیں تھی اور لوگ کھانا پکانے کے لئے کوئلے سے استفادہ کیا کرتے تھے۔ ہم لوگ اس وقت آبادان کے علاقے فرح آباد میں رہتے تھے اور ہمارے محلے کے سامنے آئل ریفائنری آبادان کا محلہ تھا جہاں ہر قسم کے وسائل موجود تھے۔ آئل کمپنی کی جانب جتنے گھر، ورزشگاہ اور کلب وغیرہ تھے وہاں بجلی کی سہولت موجود تھی۔ لیکن وہ علاقے جہاں عام شہری اور متوسط طبقہ زندگی بسر کرتا تھا، وہ ان تمام سہولتوں سے محروم تھا۔ آبادان کے کارپوریٹ محلے، آئل ریفائنری کے کارکنوں کے لئے مخصوص تھے اور شہری علاقوں میں عام شہری اور مڈل کلاس افراد رہا کرتے تھے۔ ہمارے گھر میں پانی کی سہولت تک موجود نہیں تھی۔

قسمت کو کیا منظور تھا؟

اپنے دوستوں کے ذریعے آبادان کی اُسی صدر مسجد میں ریڈیو آبادان کی راہیں تلاش کیں۔ ۱۹۸۰ ء میں صدر مسجد میں سرگرمیاں قائم کرچکا تھا کیونکہ ہاشمی صاحب قومی آئل ریڈیو میں سابقہ رکھتے تھے نماز جمعہ کمیٹی کے رکن اور "آیت اللہ جمی" نماز جمعہ کے امام ہوا کرتے تھے، مسجد میں اپنی سرگرمیوں کی وجہ سے نماز جمعہ کی کمیٹی سے منسلک ہوٍگیا اور پھر نماز جمعہ میں مؤذّن بن گیا۔ میرے ایک دوست جناب " افشاری" جو کہ نماز جمعہ کے لیے آیا کرتے تھے مجھ سے کہنے لگے " تمہاری آواز بُری نہیں ہے، چاہتے ہو کہ ریڈیو میں پروگرام کی میزبانی کرو؟"۔ میں نے کہا " میں؟ میں نے کبھی نہیں سوچا کہ ریڈیو پروگرام کی میزبانی کروں، آیا میں یہ کام کرسکتا ہوں"۔ کہنے لگے " ہاں ، تمہیں کیا کام ہے؟ ایک خاتون بھی ہیں، وہ بھی پہلی مرتبہ کام کررہی ہیں۔ تم بھی آجاؤ اور دونوں مل کر " تحریک فروغ تعلیم " کے پروگرام کی میزبانی کرو"۔

انقلاب اسلامی کے بعد ریڈیو کے اکثر ملازمین کے چلے جانے کے بعد جوان افراد کی ضرورت تھی

بہت سے افراد کے چلے جانے کے بعد بھی کچھ تعداد پرانے ملازمین کی ابھی باقی تھی جن میں "سعید رابعی" جو کہ جنگ کے اوائل میں ریڈیو کی لائیو ٹرانسمیشن میں میزبان کی حیثیت سے خدمات انجام دینے لگے۔ ملازمین کی تعداد تو موجود تھی لیکن ریڈیو پروگرام کے میزبان نہیں تھے۔ انقلاب اسلامی کے بعد پروگرام کی نوعیت بھی تبدیل ہوچکی تھی اور پروگرام کا رنگ و روپ بھی مذہبی ہوچکا تھا۔ تمام مذہبی طبقات کے افراد جمع ہوچکے تھے کہ ایک تنوع ایجاد کیا جائے اور ایک دوسرے سے سیکھا جائے۔ یہی صورتحال لائیو ریڈیو کی بھی تھی لیکن ہمارے ریڈیو سے کچھ کم تھی۔

ریڈیو آبادان میں کیسے جگہ بنائی؟

مجھے مجبوراً اس کی توفیق حاصل ہوئی۔ میں اس وقت ۲۱ سال کا تھا اور میرے انتخاب کے بعد بہت سے پرانے میزبان ریڈیو چھوڑ کر جا چکے تھے۔ باقی رہ جانے والے میزبانوں کو میرے ہوتے اسٹوڈیو سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ یہاں تک کے ۲۲ ستمبر ۱۹۸۰ ء سے پہلے کے آخری جمعے کے دن میں نماز جمعہ کا مؤذّن تھا، نماز جمعہ آبادان کی پیڑولیم یونیورسٹی میں برقرار کی گئی۔ آذان کے دوران میں نے دیکھا سپاہ پاسداران کا ایک جوان اپنے دوستوں کو اشارے سے بلا رہا ہے۔ آذان کے بعد میں نے اس سے پوچھا کیا بات ہے کیوں ایسا کررہے ہو تو کہنے لگا " عراقی فوج نے خرم شہر کی سرحد پر ہمارے کچھ جوانوں کو شہید کردیا ہے، وہاں جھڑپ چل رہی ہے۔ ہم جارہے ہیں دیکھے کیا ہوا ہے"۔ اس وقت میرے ذہن میں آیا کہ آبادان ریڈیو کو سرحدی جنگ کے لیے آمادہ کروں۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ جنگ دو تین ہفتے یا زیادہ سے زیادہ ایک مہینے میں ختم ہوجائے گی۔ میں نے کچھ جنگی ترانے انتخاب کیے تاکہ جوانوں کے حوصلوں کو بلند رکھا جاسکے اور کچھ ترانے ممکنہ خطرناک صورتحال اور معمول کی صورت حال کے موقع پر نشر کرنے کے لیے جمع کیے ، لیکن ہمارا بالکل بھی خیال نہیں تھا کہ یہ جنگ ۸ سال تک چلے گی اور بڑی جنگ میں تبدیل ہوجائے گی۔

کیا جنگ کے طولانی ہونے کا احتمال دیا تھا؟

بہت ہی کم، میرا خیال تھا جنگ چند روز سے زیادہ نہیں چلے گی۔ جنگ کے پہلے دن صبح کے ۸ یا ۹ بجے تھے ہم ریڈیو کی عمارت میں تھے کہ اچانک بمباری شروع ہوگئی جس کی وجہ سے عمارت کے دَر و دیوار لرزنے لگے۔ تمام افراد وحشت زدہ ہوگئے تھے کیونکہ اس سے پہلے بھی بمباری ہوچکی تھی تو فوراً ہی سمجھ گئے کہ عراق کی جانب سے اشتعال انگیزی کی گئی ہے۔ ہم دریائے اروند کی جانب تھے اور ظاہر سی بات ہے دشمن کی بمباری کا نشانہ بھی آئل ریفائنری تھی اور ابتدا میں آئل ریفائنری کو ہی تباہ کردیا۔ ریڈیو آبادان کے ملازمین کو جنگی حالات میں احتیاطی تدابیر کی مختصر تربیت دی گئی تھی کیونکہ عراق ۱۹۷۵ء  میں بھی ایران پر حملہ کرچکا تھا۔ چونکہ کوئی بھی جنگ کا احتمال نہیں دے رہا تھا یہی وجہ تھی کہ جنگی حالات میں احتیاطی تدابیر کے کام کرنے کی تربیت بھی نہیں دی جاتی تھی۔ پورے آبادان کی یہی حالت تھی کہیں بھی تربیت نہیں دی گئی تھی۔ اسکول ، یونیورسٹی ، ہلال احمر کسی میں بھی جنگ کے دوران ایمرجنسی حالات میں کام کرنے کی صلاحیت نہیں تھی حتی سپاہ پاسداران کے بہت سے جوانوں نے آر پی جی کو صرف تصویروں میں ہی دیکھا تھا۔ جب کبھی عراقی فوج کی جانب سے مارٹر گولہ فائر کیا جاتا تھا تو لوگ اس آواز سن کر زمین پر لیٹنے کے بجائے تجّسس میں کھڑے ہوکر دیکھنے لگتے تھے کہ یہ گولہ کہاں سے آرہا ہے، یہی وجہ ہے کہ جانی نقصان بہت زیادہ ہوا۔

دوران جنگ آبادان شہریوں سے خالی ہوگیا لیکن آپ نے پھر بھی ریڈیو آبادان نہیں چھوڑا۔۔؟

 ہم آبادان کی استقامت کی آواز تھے، ہمیں تو رہنا تھا۔ جنگ کے دوسرے دن آبادان کی بجلی منقطع ہوگئی تھی کیوں کہ دشمن کے جنگی طیاروں نے آبادان کے بجلی گھر کو تباہ کردیا تھا۔ اہم ترین مسئلہ یہی تھا۔ کیونکہ ہم شہر کی استقامت کی آواز تھے اور لوگوں کی نظریں ہم پر لگیں تھی۔ اگر ریڈیو کی آواز سنتے تو سمجھ جاتے شہر ابھی زندہ ہے۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے وہ لوگ جنہوں نے ابھی تک شہر نہیں چھوڑا تھا ان کی امید ٹوٹ جاتی، ہم نے بھی بجلی کے محکمے سے یہی کہا تاکہ بجلی بحال کرنے میں تیزی لائی جائے۔ لیکن وہ بھی کہنے لگے کہ " ہمارے پاس اتنے طاقور جنریٹر نہیں ہیں کہ آپ کی عمارت کی بجلی بحال کی جاسکے"۔ آئل کمپنی سے کہا، انہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ بجلی نہیں دے سکتے۔ شہر میں باقی رہ جانے والے افراد کی غذائی کمی کو پوری کرنے کے لیے " ارزاق" نامی ادارہ قائم کیا گیا۔ ہم ان کے پاس بھی گئے اور بجلی کی ترسیل کی درخواست کی تو انھوں نے بھی یہی جواب دیا کہ ہمارے پاس بھی اتنے طاقتور جنریٹر نہیں ہیں۔ لیکن ایک تندورہے جو کہ بند ہوچکا تھی اس کے پاس ایک کیلو وارڈ کا جنریٹر ہے۔ بس ہم گئے اور اس کو ساتھ لے آئے۔ لیکن ہمہ وقت یہی خیال تھا کہ " کیا یہ ہماری مشکل حل کرسکے گا؟"۔ جنریٹر کو وصل کیا تو دیکھا نہیں، اس قدر طاقت نہیں رکھتا کہ عمارت کی لائٹ بحال کرے۔ تو ہم نے تمام کمروں کی لائٹ بند کرکے صرف اسٹوڈیو کی لائٹ روشن کی تب بھی کام نہیں کرسکا۔ تو ہم نے دیکھا صرف ہماری میز جس کے ذریعے اعلان کیا کرتے تھے اس کو بجلی فراہم کرسکتا ہے لیکن وہ بھی صرف دو گھنٹے کے لیے، اس کے بعد گرم ہوکر بند ہوجایا کرتا تھا۔ ایک دو دن کے بعد شہری حکومت کو سمجھ آگئی کہ ریڈیو کس قدر اہمیت کا حامل ہے تو ایک طاقتور جنریٹر بھیجا جس کے ذریعے ہماری بجلی کی مشکل حل ہوئی۔ شہر کی بجلی بحال ہوجانے کے بعد جب کبھی بجلی چلی جاتی تو اسی جنریٹر سے استفادہ کرتے تھے۔

آبادان پر عراق کے حملے کا دن آپ کو یاد ہے؟

مجھے یاد ہے، ہم سوسنگرد سے ایک انٹرویو کے بعد واپس آرہے تھے، میں اور ہمارے رپورٹر محمد مالکی اور جناب صدر ہاشمی، ریڈیو کے منتظمین تھے۔ سوسنگرد کے بعد اہواز چلے گئے اور قرار تھا کہ ایک گھنٹے بعد واپس آبادان چلے جائیں گے۔ میرے خیال سے ۹ اکتوبر ۱۹۸۰ ء کی بات ہے ہم راستے میں تھے کہ احساس ہوا کہ بہت زیادہ سناٹا ہے۔ دیکھا کہ سڑک کنارے ایک ٹرک ہمیں لائٹ کے ذریعے اشارہ دے رہا ہے، دیکھا تو  شادگان شہر کے میئر ہیں۔ ہمیں کنارے لے گئے اور بتایا کہ عراقی فوج نے آبادان کے راستے کو بند کردیا ہے اور خواتین ، بچے اور مرد میں سے جو بھی شہر سے نکل رہے تھے سب کو گرفتار کرلیا ہے۔ مزید کہنے لگے سپاہ پاسداران کے گیارہ جوان ہیں جن کے پاس صرف کلاشنکوف ہے۔ ہمارے پاس بھی ایک پسٹل، ایک یوزی اور دوربین تھی اگر ہم اس حالت میں آگے جاتے تو حتماً عراقی  ہمیں بھی قتل کردیتے۔ تقریباً چار یا پانچ گھنٹے گاڑی کو دھکا دینا پڑا کیونکہ اس کا گیئر باکس ٹوٹ گیا تھا۔ اللہ اللہ کرکے آبادان سے چالیس کلومیٹر دور ایٹمی پلانٹ کے نزدیک پہنچنے لیکن ہمیں اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ پوری رات اس ادارے کے گیٹ کے سامنے گزارنی پڑی جس میں مچھروں نے ہماری خوب خاطر کی یا یوں کہوں کہ دعوت اڑائی۔ اگر مجھ سے پوچھا جائے  کہ تمہاری بدترین رات کون سی ہے تو میں اسی رات کو اپنی بدترین رات قرار دوں گا۔ ایک ٹرک میں سوار ہوکر آبادان کی جانب روانہ ہوئے۔ صبح ۸ بجے آبادان کے نزدیک پہنچے ہی تھے کہ ایک عراقی جنگی طیارہ ہم پر حملہ آور ہوا، اس کے غوطہ لگانے سے اندازہ ہوا کہ بموں سے خالی ہے لیکن ہم پر گولیاں برسائے گا اور یہی ہوا۔ اس قدر گولیاں برسائی جو ہماری گوش و کنار سے گزرتی ہوئی زمین میں دھنستی جاری تھی، اللہ نے ہمیں خطرے کے منہ سے نکالا اور ہمیں زندگی بخشی۔ سپاہ پاسداران کے جوان پہنچے اور بتایا کہ کل عراقی افواج "کارون " دریا عبور کرکے آبادان میں داخل ہوچکی ہے۔

ریڈیو آبادان کے سامعین کس قسم کے افراد تھے؟

فارسی اور عربی دونوں زبانوں میں پروگرام نشر کیا کرتے تھے۔ ہماری اولین ترجیح وہ سپاہی تھے جو میدان جنگ میں دشمن سے مقابلہ کررہے تھے تاکہ ان کے حوصلے بلند رہیں۔ سامعین کے دوسرے طبقے میں وہ افراد تھے جو شہر میں باقی رہ گئے تھے۔ ہمارے لیے لازم تھا کہ ان کی ہمّت بڑھائیں۔ تیسرے وہ افراد تھے جن کے گھروالے تو شہر سے جاچکے تھے لیکن وہ خود شہر میں باقی رہ گئے تھے۔ آخری مرحلے میں ہمارے مخاطبین ہمسایہ ممالک کے افراد تھے جنہیں ہم یہ بتانا چاہتے تھے کہ ہم جنگ طلب قوم نہیں ہیں۔

آپ کب ریڈیو آبادان کے سربراہ مقرر ہوئے؟

ریڈیو میں میرا انتخاب بعنوان میزبان ہوا تھا لیکن مجھے میزبانی بالکل بھی پسند نہیں تھی۔ میں نے دیکھا کہ ساؤنڈ لائبریری کو مینجمنٹ کی ضرورت ہے تو میں وہاں چلا گیا۔ پروڈیوسر اور ڈائر یکٹر سے ملاقات کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا اور دفتری امور میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگا اور یہی باعث بنا کہ میں ابتداء سے آخر تک تمام کاموں سے آشنا ہوگیا۔ آہستہ آہستہ بعض کاموں کی کامل ذمہ داری میرے حوالے کی جانے لگی۔ مثلاً میں براڈ کاسٹنگ کا انچارج تھا تو پروڈکشن میں بھی مدد کرنے لگا،اگر کبھی کسی کام کی ذمہ داری مجھے دی جاتی تو میں دوسروں کی بھی مدد کرتا، یوں میں نے مختلف کاموں میں مہارت حاصل کرلی۔ یہاں تک کہ میں پروڈکشن بھی کرنے لگا۔ کیونکہ جناب صدر ہاشمی خوزستان کے "وزارتِ ثقافت و اسلامی رہنمائی" کے سربراہ مقرر ہوگئے۔ ان کے جانے کے بعد میں مجبور ہوا کہ ریڈیو آبادان کی سربراہی قبول کروں۔

 


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3374



http://oral-history.ir/?page=post&id=9292