ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح؛ دسواں حصہ

اسلام نے بھی ہمیں یہی حکم دیا ہے۔ اگر دسترخوان سادہ ہو [پر تعیش نہ ہو] تو کیا یہ مہمان نوازی نہ ہوگی؟

زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2020-05-20


۲۳ فروردین ۱۳۶۰[1] سید مہدی نے دنیا میں قدم رکھا خدا کا شکر اس وقت تک علی واپس آ چکا تھا۔ صبح جب میں اسپتال گئی تھی اس کے بعد سے چھٹی تک میں نے علی کو نہیں دیکھا کیونکہ عورتوں کے وارڈ میں مردوں کا داخلہ ممنوع تھا۔ وہ پہلی منزل پر ہمارا منتظر تھا میں جانتی تھی کہ وہ علی کو گود میں لینے اور اس کو پیار کرنے کو بے قرار ہے مگر  نانی دادی سے پہلے علی کے لئے مہدی کا دیدار ممکن نہ تھا۔ اس نے سرگوشی میں میرا احوال پوچھا اور گاڑی کا دروازہ کھولا اور ہم نے سوار ہو کر گھر کی راہ لی۔ علی نے ایک نگاہ مجھ پر ڈالی اور گاڑی کے آئینے سے مہدی کو دیکھنے لگا۔ ہمارا بیٹا بالکل علی کی تصویر تھا۔ بالکل ایک صفحہ کے دو رخ۔ کالی  آنکھیں اور سیاہ نرم بال۔

ہم کرایہ دار تھے اور علی کی تنخواہ بہت تھوڑی۔ اب جبکہ ہم صاحب اولاد ہوچکے تھے تو مالی تنگی کا احساس اور زیادہ ہونے لگا تھا۔ علی نے مرکز بعثت کو الوداع کہہ دیا اور سپاہ کے ثقافتی شعبہ مِیں اپنی نئی نوکری شروع کی۔ مجھے پتا تھا کہ اس کے قدم یہاں بھی نہ ٹکیں گے۔ وہ بچوں کے ایک رسالہ اور انقلاب کے عہدہ داروں میں شامل ہوگیا۔ اس کی گھر سے غیر حاضری بہت بڑھ چکی تھی۔ یا وہ اپنے کام پر ہوتا یا ثقافتی امور کی بجا آوری اور عقیدتی کلاسوں کے  انعقاد سلسلے میں مورچہ پر ہوتا۔ اگر تہران میں ہوتا بھی تو اسپتالوں میں جنگی زخمیوں کی دیکھ بھال میں مصروف۔ میں تھی اور گھر کی ذمہ داریاں، خریداری اور بچے کا پالنا۔ رات گئے، تھکا ماندہ جب وہ گھر پلٹتا تو اکثر گاو تکیہ سے ٹیک لگائے کپڑے تبدیل کئے بغیر ہی سو جاتا۔ مہدی گھٹنیوں چلتا اس تک پہنچ جاتا اور جب تک میں اس تک پہنچتی وہ باپ کے سینہ پر سوار ہوکر اس کی داڑھی اور بالوں سے کھیل رہا ہوتا۔ علی بھی بیدار ہوجاتا اور اس کو گود میں لے کر بیٹھ جاتا۔ مہدی کوئی دو سال کا تھا کہ علی نے پھر سے نوکری بدل لی۔ وہ اس بار وزارتِ ثقافت کے شعبہ احیائے فکر اسلامی میں بھرتی ہوا۔ یہ بار بار کا نوکری بدلنا ہمارے شادی کے پہلے چار سال تک چلتا رہا وہ کہیں بھی ایک سال سے زیادہ نہ رکا جب بھی وہ دیکھتا کہ وہ انقلاب کی بطور احسن خدمت سے قاصر ہے وقت تلف کئے بغیر دوسری جگہ چلا جاتا یہاں تک کہ ادارہِ تبلیغات[2] کے بین الاقوامی شعبہ میں اس کو قرار نصیب ہوا کیونکہ یہاں کا کام اس کا من چاہا تھا اور وہ یہاں انقلاب اسلامی کی زیادہ بہتر خدمت انجام دے سکتا تھا۔

یہی کہ وہ اس ادارہ میں کام سے مطمئن تھا میری آسودگی کا باعث تھی۔ لیکن اس نئے کام کی نئی نئی ذمہ داریاں تھیں وہ بھی ایسی کہ کبھی علی ہفتوں گھر نہ پلٹتا۔ اس کی سرگرمیوں کا آغاز ہوتے ہی حالات بہت بدل گئے۔ اس سے پہلے بھی علی کے پاس گھر کے کاموں کے لئے وقت نہ ہوتا تھا مگر میں خوش تھی کہ وہ رات کو گھر تو آجاتا ہے اور یہ احساس کہ میں تنہا نہیں ہوں میرے اطمینان کو کافی تھا لیکن اب تو اس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہ تھا کہ میں ایک چھوٹے بچے کے ساتھ گھر میں اکیلے زندگی گذاروں اور علی کی دوری کو برداشت کروں۔ جب کبھی ادارے کے غیر ملکی مہمان ایران آتے تو علی چند روز ان کے ساتھ ہوٹل میں ہی ہوتا تاکہ ان کے کام بخوبی انجام دئیے جا سکیں۔ مہمان ہوٹل استقلال میں ہوتے اور ہمارا گھر  محلہ سیزدہ آبان میں۔ علی کے پاس کوئی ایسی سواری بھی نہ تھِی کہ با آسانی  آمد و رفت ہو سکے اس لئے وہ چند تک گھر  آنے سے قاصر رہتا۔ ایسے دنوں میں جب علی گھر پر نہ تھا مجھے مجبوراً گھر بدلنا اب گھر کا سامان اٹھا لے جانا تھا اور میں اکیلی وہ تو شکر کے اس موقع پر میرے بھائیوں نے بڑا ساتھ دیا۔

مہدی نے سارا دن مامووں کے ساتھ اتنی شیطانیاں کی تھیں کہ اب رات ہوتے ہی سو گیا تھا۔ سارے بھائی گرد میں اٹے، تھکے ماندے  ایک کونے میں چائے کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ گھر کی بالکنی چولھا اور فریج لگانے سے باورچی خانہ میں تبدیل ہوگئی تھی۔ گاوں تکیوں پر تکونا سفید کپڑا ڈال دیا تھا۔ بیڈ تو پہلی بار کی شفٹنگ میں ہی بیچ دیا تھا۔ برابر برابر کے کمروں کا درمیانی دروازہ کھول دیا تھا میں نے پورے گھر کا جائزہ لیا سب کچھ سلیقہ سے سج چکا  تھا، صرف ایک علی کی کمی تھی۔  چائے کی کیتلی کو جوش آیا اور قل قل کی آواز کے ہمراہ ہی صحن کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور علی گھر میں داخل ہوا ۔ بھائیوں اور علی کے ہنسی مذاق کی آوازیں آنے لگیں۔ وہ تمام کام نمٹنے کے بعد آیا تھا اور اب سب سر جوڑے بیٹھے تھے۔

ابھی ہم پوری طرح شفٹ بھی نہ ہوئے تھے کہ علی کا ایک دوست ایک رات ہمارے گھر آیا یہ علی کے ساتھ کام کرنے والا ایک ہندوستانی تھا۔ گھر میں داخلے کا راستہ بالکنی یعنی باورچی خانے سے ہوکر جاتا تھا۔ علی نے اپنے مہمان کو باورچی خانے درمیان سے گذارا اور اندر لے گیا میں سب باتوں سے بے خبر لوبیا پلاو پکانے میں مصروف تھی۔ ذرا متوجہ ہوئی تو علی کو کھینچ کر کنارے لے گئی اور شکایت کی۔

-مجھے بتائے بغیر مہمان کیوں لے کر آئے؟

میں سوچ رہی تھی کہ ہماری بے عزتی ہو گئی ہے۔ مہمان کے لئے کوئی اچھا کھانا بنانا چاہئے تھا۔ میری حالت خراب تھی اور ہمیشہ کی طرح مسکرا رہا تھا۔

-اسلام نے بھی ہمیں یہی حکم دیا ہے۔ اگر دسترخوان سادہ ہو [پر تعیش نہ ہو] تو کیا یہ مہمان نوازی نہ ہوگی؟

 

[1] ۱۲، اپریل ۱۹۸۱

[2] سازمان تبلیغات



 
صارفین کی تعداد: 3194



http://oral-history.ir/?page=post&id=9228