ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح؛ آٹھواں حصہ

میں تیسری بار پوچھ رہا ہوں کہ کیا دلہن مجھے نکاح کے لئے اپنا وکیل مقرر کرتی ہیں؟؟؟

زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2020-02-22


فصل دوم
شادی

۱۲ فروردین [1]۱۳۵۹، جبکہ ہفت سین[2] کا دسترخوان بھی نہ بڑھا تھا کہ نکاح کا دسترخوان چن دیا گیا۔ مرد، صحنِ خانہ میں اور خواتین گھر کے دو بغل در بغل کمروں میں جمع تھیں کمروں کے درمیان کے دروازے کو کھول دیا گیا تھا تاکہ میری ہاں کی آواز سب سن سکیں۔ میں سر جھکائے قرآن پڑھنے میں مگن تھی۔ صحن سے نکاح خوان کی آواز آئی

-میں تیسری بار پوچھ رہا ہوں کہ کیا دلہن مجھے نکاح کے لئے اپنا وکیل مقرر کرتی ہیں؟؟؟

بالآخر میں نے وہ ہاں کہہ دی جس کے سب خلاف تھے۔ اور یوں صلوات اور شور کی صدا گونجی ۔ دلہا کو سیج پر بلایا گیا تاکہ شادی کی انگوٹھی پہنانے کی رسم ادا کی جائے اور تصویریں اتار لی جائیں۔ میں شرم سے پانی پانی ہوئی جاتی تھی۔ عجب اضطراب تھا کہ ہاتھوں پسینہ چھوٹا ہوا تھا۔ مجھ میں سر اٹھانے کی ہمت نہ تھی، مزے کی بات یہ کہ علی کا حال مجھ سے بھی پتلا تھا۔ بہت خاموشی کے ساتھ ہم نے ایک دوسرے کو انگوٹھیاں پہنا ئیں اور تصویریں بنائی گئیں۔ میری عمر صرف ۱۷ سال تھی اور علی ۲۳ سال کا۔ اب بھی جب شادی کی تصویریں دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ ہم شادی کے وقت کس قدر نو عمر تھے۔

مہمان کمرے میں ہمیں تنہا چھوڑ گئے تاکہ ہم باتیں کر سکیں۔ اچانک ایک بچہ کمرے میں داخل ہوا پیچھے پیچھے اس کی ماں اس کو پکڑنے دوڑی۔ ابھی اس بچہ کو پکڑا ہی تھا کہ ایک دوسرا بچہ کمرے میں در آیا اور اس کی ماں اس کو پکڑنے دوڑی۔ علی نے پردے کے قریب ہوکر آہستہ سے کہا کہ یہ دروازہ بند کر دیں۔اس کی بات مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ  ایک غصیلی صدا ابھری یہ کم بخت دروازہ بند نہیں ہوگا علی زرمندہ ہوکر اپنا سا منہ لے کر رہ گیا اور بے چینی سے پہلو بدلنے لگا پھر اٹھا اور عورتوں کو پردے کا کہہ کر صحن کا راہی ہوا۔

نکاح کی تقریب کے بعد علی کبھی کبھی ہمارے گھر آتا تھا۔ سچ ہے کہ میرا دل اس کے لئے بہت پریشان رہا کرتا تھا۔ جیسے ہی دروازے پر دستک ہوتی تو میں وہ پہلی ہستی ہوتی جس کے کانوں میں دستک کی صدا آتی ۔ صبح ہی سے منتظت ہوتی کان دستک پر دھرے ہوتی  کہ بھائیوں سے کہوں کہ کوئی دروازہ بجا رہا ہے اور وہ اٹھ کر دروازہ کھول دیں۔

-کیا کسی اور کو دستک سنائی نہیں دی؟ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔۔۔۔۔۔

بھائی اس وقت اور پھر سیخ پا ہوجاتے جب دروازہ کھولنے پر علی کا مسکراتا ہوا چہرہ ان کے سامنے ہوتا۔میں بے چینی کے عالم میں کمرے سے نکل کر باورچی خانے کو اپنی پناہ گاہ بنا لیتی اور رہ جاتے علی اور میرے پانچ بھائی۔ وہ گاو تکیہ سے ٹیک لگا کر سر جھکا کر بیٹھ جاتا اور میرے بھائی اس کے گرد گھیرا ڈال لیتے۔ میں بھی اپنی ماں سے نظریں بچا کن آنکھیوں سے علی کو دیکھتی رہتی۔ بعض اوقات علی ایسے وقت گھر آتا جب والد صاحب بندر عباس سے گھر آئے ہوئے ہوتے۔ اس وقت ماحول خوشگوار ہوتا تھا اور ہنسی مذاق کی باتیں بھی ہوتیں۔ ایسے میں میرے بھی پر نکل آتے تھے اور میں بہانے بہانے سے کمرے اور باورچی خانے کے چکر کاٹتی پھرتی۔ شادی کے بعد نکاح کے ان ایام میں بھائیوں کا رویہ جب یاد کرتی ہوں تو ہنسی آجاتی ہے۔

ایک دوپہر سب گھر والوں کو کسی کام سے باہر جانا تھا میں نے موقع غنیمت جان کر معصومہ کے ذریعے علی کو شام کے وقت گھر بلا بھیجا۔ سب جا چکے تھے گھر خالی تھا، طاقچہ پر دھرے آئینہ میں میں اپنی صورت  سنوارنے لگی۔ دروازے پر دستک ہوئی میں خوشی خوشی دروازے کی طرف دوڑی دروازہ کھولا تو نظر پڑا کہ علی سراسیمہ  دروازے پر کھڑا ہے ۔ دروازہ کھلتے وہ صحن میں در آیا اور جلدی سے پوچھا کہ کیا ہوا میں نے بے اعتنائی کے ساتھ جواب دیا

-کچھ بھی نہیں بس گھر خالی تھا سوچا تم سے مل کر دو دکھ کی دو سکھ کی کر لوں اور بس۔

علی کا وہ پریشان چہرہ بھلائے نہیں بھولتا وہ سمجھ رہا تھا کہ شاید ہماری شادی پر بن آئی ہے اور اب نکاح ٹوٹنے کے در پر ہے۔ میرے جواب پر وہ مسکرا دیا اور اس کی جان میں جان آئی۔ خوف اور پریشانی کی پرچھائیاں اس کے چہرے سے رفو ہو گئیں اور مجھے ایسے دیکھنے لگا جیسے میرا شکریہ ادا کر رہا ہو۔ وہ ہمارے نکاح کے ایام کا خوبصورت ترین دن تھا۔ ہم صحن کے بیچوں بیچ حوض کے کنارے بیٹھے تھےمیں جانتی تھی کہ اب ایسا دن کبھی نہ آئے گا میں ان لمحات کو محفوظ کر لینا چاہتی تھی ، بڑے بھائی کا کیمرہ ان کی الماری میں موجود تھا مگر کس میں تاب تھی کہ ان کے سامان کو چھو بھی سکے؟ ایک آدھ گھنٹہ بعد علی تو چلا گیا مگر ایک یادگار تصویر کی کسک  ساری زندگی کے لئے میرے دل میں رہ گئی۔ زیادہ عرصہ نہ گذرا تھا یہی کوئی نکاح کو تین چار مہینے ہوئے ہونگے کہ گرمیوں کے موسم میں میری رخصتی ہوئی اوریوں میری اور علی کی نئی زندگی کا آغاز ہوا۔

 

[1] یکم اپریل ۱۹۸۰

[2] ایرانیوں کی عید نوروز کی ایک رسم ہے جس کا نام ہفت سین ہے جس میں تحویل شمس کے وقت دسترخوان پر سین سے شروع ہونے والی سات چیزیں برکت کے لئے چن دی جاتی ہیں



 
صارفین کی تعداد: 3235



http://oral-history.ir/?page=post&id=9086