تیسری ریجمنٹ: ایک عراقی قیدی ڈاکٹر کے واقعات – سترہویں قسط

مجتبیٰ الحسینی

مترجم: ضمیر رضوی

2020-02-18


فوجی ڈاکٹرز امدادی مرکز سے باری باری بیسویں بریگیڈ کے "پ"بیس جارہے تھے تاکہ طبی امداد میں ان کا بھی کچھ حصہ ہو۔ وه رضاکارانہ طور پر نہیں جا رہے تھے۔ اس طریقے سے انہیں مادی اور معنوی مراعات ملتی تھیں۔ جب بھی میں ان سے گفتگو کرتا تو وہ  "بعثیوں" کی کامیابیوں کا دم بھرتے تھے اور وطن پرستی، قربانی اور جانثاری کا دکھاوا کرتے تھے۔

نومبر سن 1980ء  کے آخر میں، میں دوسری بار بیسویں بریگیڈ کے "پ" بیس گیا۔ جب میں بیس میں داخل ہوا تو مجھے احساس ہوا که بیس کو پیچھے کرکے بنایا گیا ہے، کیونکہ ایرانی فورسز نے پانی کا رخ اس بیس کی طرف موڑ دیا تھا تاکہ شهر "اہواز" کو عراقی فورسز کے قبضے سے بچایا جاسکے۔ وہاں میں نے افسروں،  عہده داروں اور فوجیوں کی سرنگیں دیکھیں۔ یہ سرنگیں "اہواز-خرم شہر" ریلوے لائن کی پٹریوں، موٹی لکڑیوں اور وہاں کے بجلی کے کھمبوں اور حمید چھاؤنی سے چوری شده پتھروں اور ٹائلوں سے بنائی گئی تھیں۔ ہماری فورسز ان سرنگوں کو بنا کر توپوں کی شدید گولہ باری، فضائی حملوں اور دشمن کی جوابی کروائیوں سے محفوظ ہو چکی تھیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سرنگیں ہماری فورسز  کے لئے قبرستان جیسی بن گئیں۔ ہمیں روزانہ تین مرتبہ نماز کے وقت، کھلی ہوا میں سانس لینے اور رفع حاجت کا موقع ملتا۔  موت اور وحشت سے بھری ہوئی سرنگوں میں زندگی گزارنا مختلف طبقات کے فوجیوں کے حوصلوں پر بہت برا نفسیاتی اثر ڈال رہا تھا۔ لہذا ہر کوئی زخمی ہونے پر بہترین علاج کے لئے اور سکون کی گولیاں حاصل کرنے کے لئے مجھ سے دوستی کرنے کی کوششیں کر رہا تھا۔  در حقیقت ان حالات میں ڈاکٹر کی موجودگی، بے چین دلوں کو سکون دے سکتی تھی۔ میں ہمیشه شدید گولہ باری میں بھی ان کے ساتھ رہتا اور ایک سرنگ میں زندگی بسر کرتا۔ پولیٹیکل جوازی عہده دار اور فوجیوں کی حوصلہ افزائی کے انچارج کیپٹن"حسن" کو دوسروں سے زیاده حوصلے کی ضرورت تھی۔ وه توپ کے گولے یا مارٹر کے دھماکے کی آواز سنتے ہی چھپ جاتا۔ اس کی سرنگ ان  کھانے پینے کے سامان اور ان  کپڑوں سے بھری ہوئی تھی  جنہیں تحفے کے طور پر تقسیم کیا جانا تھا، لیکن معینہ ضابطوں سے قطع نظر وه جسے دل چاہتا اسے تحفے دیتا تھا۔

انہی دنوں فوج کے ایک کمانڈر نے اراده کیا کہ ہر زخمی فوجی اور عہدیدار کو پچاس دینار اور زخمی افسروں کو سو دینار عطیہ دے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اینٹی-آرمر دستے کا ایک فوجی سرنگ میں چھپ جاتا تھا اور توپوں کی گولہ باری کے وقت اپنے پیروں کو سرنگ سے باہر نکال لیتا تھا۔ اس کام سے اس کے دو مقاصد تھے۔ پہلا یہ کہ زخمی ہونے کی صورت میں پچاس دینار حاصل کرے اور دوسرا یہ کہ زخمی ہونے کے بہانے سے کچھ مہینوں کے لئے جنگ سے فرار ہو جائے۔ اب آپ دوسری فورسز کے جنگی حوصلوں کا اندازه لگا سکتے ہیں۔

اگرچہ میرے تعلقات دوسرے تمام افسروں کے ساتھ بہت محدود تھے لیکن ایک دن کیپٹن "حسین العوادی" نے مجھے رات کے کھانے کی دعوت دی۔

جب میں ان کی سرنگ میں گیا تو میری ملاقات انجینیئرنگ گروپس کے کمانڈر کیپٹن "ہاضم"، فرسٹ لیفٹیننٹ "عادل" اور دوسرے دو افسروں سے ہوئی۔  انھوں نے رات کے کھانے اور چائے کے بعد ایک بیگ کھولا اور اس میں سے کچھ رنگین میگزین نکالے اور ایک میگزین مجھے دیا۔ جب میں نے صفحے پلٹے تو دیکھا کہ  یہ سویڈن کا چھپا ہوا ایک شہوت انگیز میگزین تھا۔  میں بہت ناراض ہوا۔ میں نے مشہور آیت: "قتل الانسان ما اکفره" (سوره عبس آیت 17) پڑحی اور غصے سے کہا: "یہ کیا حال بنا رکھا ہے تم لوگوں نے اپنا؟ کیا تم میں سے کوئی جانتا ہے که وه کل تک زنده رہے گا؟ تم لوگ کسی بھی وقت مارے جاسکتے هو۔ روز قیامت تم لوگ کس طرح بارگاه الہی میں حاضر ہوگے؟

وه لوگ خاموش ہوگئے اور اپنے سروں کو جھکالیا، شاید انہیں مجھ سے ایسے ردعمل کی توقع نہیں تھی، کیونکہ یہ چیز ڈاکٹروں اور افسروں کی محفلوں میں ایک معمولی اور عام سی چیز سمجھی جاتی تھی۔ الوداع کہے بغیر میں سرنگ سے باہر چلا گیا اور اس کے بعد سے کبھی میرا ان سے ملنے کو دل نہیں چاہا۔ یہ کمانڈروں کا حال تھا۔ خیر!

ایرانیوں نے اگلے مورچوں پر شدید گولہ باری اور رات کے فضائی حملوں پر اکتفا نہیں کیا بلکہ گھات لگا کر اور  پٹرول مارشل آپریشنز انجام دے کر وه ہماری فوج کے پچھلے حصے اور مواصلاتی راستوں پر تیزی سے ضربیں لگا رہے تھے۔ وه لوگ عام طور پر دریائے کارون کو عبور کرنے اور اس کے بعد تقریباً چھ سے آٹھ کلومیٹر کا فاصلہ  طے کرنے کے بعد "اہواز-خرم شہر" کے اسٹریٹیجک روڈ تک پہنچتے اور سپلائی کاروانوں پر گھات لگا کر حملے کیا کرتے تھے۔

ایک دن ایران کے ایک جنگجو گروپ نے چھتیسویں بٹالین کے تیسرے بھاری گولہ بار توپخانے کو درانداز آپریشن کے ذریعے نشانہ بنایا اور گولہ بارود سے بھرے ایک ٹرک کی تباہی کے بعد ایک "ھونڈا" موٹرسائیکل  چھوڑ کر با حفاظت اپنے اڈوں پر واپس چلے گئے۔ یہ آپریشن زیاده وسیع نہ ہونے کے باوجود، فورسز کے خوف و حراس کا باعث بنا۔

مجھے یاد ہے کہ اس دن بیابان اپنی تمام تر وسعت کے باوجود ہمارے لیے تنگ ہوگیا تھا اور توپوں کے حملوں نے زمین کے ہر حصے کو خاک کے ڈھیر میں تبدیل کردیا، یہاں تک کہ بریگیڈ بیس اور پہلی ریجمنٹ کے اڈے بھی کچھ نہ کر سکے۔ علاقے کی تلاشی کے دوران، ایک ایرانی فرسٹ لیفٹیننٹ توپخانے سے اور اس کا ساتھی جو ایک تباه شده ٹرک کے بیچ میں، ہمارے چند کلومیٹر پیچھے سڑک کے کنارے چھپے ہوئے تھے، ان کی نشاندہی ہوگئی۔ انھوں نے ہم پر نظر رکھی ہوئی تھی اور فائرنگ کو ہمارے ٹھکانوں کی جانب رہنمائی کر رہے تھے۔ نشاندہی کے بعد ہمارے گشتی گروپس نے ان کو گھیرلیا، مگر انھوں نے ہتھیارنہیں ڈالے اور شہید ہونے تک لڑتے رہے۔  ہماری فورسز صرف ان کے گولہ بارود کو ہی بریگیڈ بیس تک منتقل کر پائیں۔

میں نے بریگیڈ بیس میں حادثات سے بھرے لگاتار پینتیس دن گزارے اور اس کے بعد فیلڈ میڈیکل یونٹ میں واپس آگیا۔ واپسی کے بعد میں سات دن کی چھٹی لے پایا اور موت کے مناظر اور تنگ و تاریک سرنگوں سے دور، گھر میں آرام کر پایا۔

جاری هے۔۔۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 2350



http://oral-history.ir/?page=post&id=9080