تیسری ریجمنٹ: ایک عراقی قیدی ڈاکٹر کے واقعات – چودہویں قسط

مجتبیٰ الحسینی

مترجم: ضمیر رضوی

2020-01-16


26 اکتوبر 1980ء کو میری بیسویں بریگیڈ کے"پ" بیس روانگی کا حکم جاری ہوا۔ ہم ایک فوجی پاکٹ ڈیوائس کے ساتھ روانہ ہوئے اور اس روڈ پر گاڑی چلائی جو حمید چھاؤنی سے ہوتا ہوا اهواز کی طرف جاتا تھا۔

میں تباه ہوچکے ریلوے اسٹیشن اور اس کے ساتھ موجود ریسٹورنٹ کو دیکھنے کے لئے کچھ دیر ٹھہر گیا۔

کچھ کلو میٹر کے بعد تباه ہوچکے "مایکروویو" اسٹیشن نے میرا دھیان اپنی طرف کھینچ لیا۔ بیس کلو میٹر بعد میں "پ" بیس پہنچ گیا۔ میں ہیڈ کوارٹر کی اکیلی خندق میں داخل ہوا جو دو حصوں میں تقسیم ہوتی تھی ایک کلینک اور دوسرا بریگیڈ کے سیکریٹری کا آفس۔ باقی لوگ ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کے نیچے مضبوط اڈوں میں زندگی گزار رہے تھے۔ زمینی اور ہوائی حملے اپنے عروج پر تھے۔ یه پہلی بار تھا جب مجھے حالت جنگ کا تجربه ہوا۔ میں نے ڈاکٹر "نعیم" سے اس جگہ کے میڈیکل اسسٹنٹ کے بارے میں پوچھا۔ انھوں نے کہا: " انٹیلی جنس ایجنٹ اسے گرفتار کرکے بصره لے گئےهیں۔"

ڈاکٹر "نعیم" ایک مذہبی انسان اور عمده اخلاق کے حامل تھےاور اسی وجہ سے میں ان سے بہت متاثر ہوا۔

کمانڈروں کے اڈے  اهواز-خرم شهر ہائی وے کے مشرق اور "سید طاهر" کے مزار کے جنوبی حصے میں واقع تھے۔ جنگجو فوجیں ہمارے سامنے تھیں اور ان کے سامنے جنگلات تھے جو مغرب میں روڈ اور "دب حردان" نامی گاؤں کے کنارے سے لے کرمشرق میں دریائے کارون کے ساحلوں تک پھیلے هوئے تھے۔

رات ہوئی، لیکن مجھے نیند نہیں آرہی تھی۔

ڈراؤنے خواب مجھے ایک لمحے کے لئے بھی سکون نہیں لینے دے رہے تھے۔ توپوں کی گھن گرج سے مجھے بہت چکر آرہے تھے۔ اگلے دن میڈیکل اسسٹنٹ نے مجھے بتایا که اسلامی فوجوں کی توپوں کے حملے صرف نماز کے وقت رکھتے ہیں۔ میں نے اپنے آپ سے کہا: سبحان الله... وه اپنے اس عمل سے ہمیں اسلام اور اسلامی بھائی چارے کی یاد دہانی کراتے ہیں۔ بہرحال میں نے خدا کا شکر ادا کیا۔ یه تھوڑا سا وقت نماز پڑھنے اور بارود کی بو سےخالی ہوا میں سانس لینے کا ایک موقع تھا۔  طلوع آفتاب کے وقت ہم عمارتوں، فیکٹری ٹاورز اور اهواز کے ریڈیو اسٹیشن کو دیکھ سکتے تھے۔ ایک افسر کہہ رہا تھا: " یہاں سے اهواز کا فاصلہ صرف 16 کلو میٹر ہے اور وه علاقے ٹینکوں کے حملوں کا نشانه بنتےهیں۔"

اگلے دن دوپہر میں کیپٹن "حسین العودی" میرے پاس آئے اور کہا: " بریگیڈ کمانڈر نے تمہیں ذمہ داری دی ہے که دس ٹینک بٹالین کے بیس جاؤ اور دوسرے دستے کے کمانڈر، کیپٹن"علاء" کا علاج کرو۔" میں نے اس سے کہا: "میں نہیں جاؤں گا!"

اس نے کہا: " ایسا هے تو تم بریگیڈ کمانڈر سے رابطہ کرو۔"

میں بریگیڈ کمانڈر کے پاس گیا۔ اس نے ایک ٹینک کے نیچے پناه لی ہوئی تھی۔ اور تین افسر اس کی حفاظت کر رہے تھے۔ اس نے پوچھا: "کیوں نہیں جارہے؟"

میں نے جواب دیا: " پہلی بات تو یہ کہ میں ڈاکٹر ہوں اور فوجی قانون کے مطابق ضروری ہے که زخمی کو میرے پاس لایا جائے، نه که میں زخمی کے پاس جاؤں۔ دوسرا یہ کہ ڈاکٹر خندق میں تمام سهولیات اور فنی آلات کے ساتھ اپنا فرض ادا کر سکتا ہے۔ اور یہ علاقہ میزائل اور توپوں کے حملوں کی وجہ سے بہت خطرناک ہے، اور میرا جانا یعنی یقینی موت۔ ہو سکتا ہے کہ ڈرائیور اور ایمبولینس تباه ہوجائیں۔"

وه ایک لمحہ کے لئے خاموش ہوا پھر بولا:" ڈرو نہیں کیپٹن علاء کو یہاں لانا ممکن نهیں۔"

میں نے اس سے کہا: "میں نهیں ڈرتا اور اس بات کی دلیل یہ ہے کہ مسلسل گولہ باری کے باوجود بھی میں بیس میں موجود ہوں۔ یہ تم ہو جو ٹینک کے نیچے چجپے ہوئے ہو۔"

وه بہت غصہ ہوا اور کہنے لگا:" جانتے ہو کس سے بات کر رہے هو؟"

میں نے کہا:"ہاں جانتا ہوں۔"

وه بولا:" میں چاہوں تو تمہارے ہاتھ باندھ کر تمہیں کمانڈر کے پاس بھیج سکتا ہوں تاکہ تمہاری موت کا حکم صادر کردے۔ تم حکم کی نافرمانی کر رہے ہو۔ میری بات مانو حکم کی تعمیل کرو اور فورا روانه ہوجاؤ۔"

میں غمگین حالت میں اپنی خندق میں لوٹ آیا. کچھ دیر بعد کیپٹن"حسین العوادی" خندق میں آئے اور مجھے مشوره دیا که میں چلا جاؤں اور حکم کی تعمیل کروں ورنہ میرا برا وقت آسکتا ہے۔ میں نے کہا:" میں جانے کے لئے تیار ہوں لیکن مجھے ایک رہنما کی ضرورت ہے۔"

انھوں نے رہنما ڈھونڈا مگر کوئی نهیں ملا۔

سچ تو یہ ہے کہ کوئی بھی ہمارے ساتھ چلنے کو تیار نہیں تھا، کیونکہ سب کو موت نظر آرہی تھی۔  آخرکار شام کے سات بجے ایک فوجی ہمارے ساتھ جانے کے لئے راضی  ہوگیا اور پھر ہم ایک ساتھ اگلی لائنز کی جانب روانه ہوئے۔  وہاں مجھے کچھ پتا نهیں چل رہا تھا کہ گولیاں کس طرف سے آرہی ہیں۔ میں بٹالین کے بیس میں داخل ہوا اور کیپٹن کو دیکھا که زمین پر لیٹے هوئے ہیں۔ میں نے  فوراً انهیں ایمبولینس میں ڈالا اور بریگیڈ کے بیس لوٹ آیا۔ جب خندق کے اندر میں نے اس کا معائنه کیا تو مجھے ہمت  کی کمی کے  علاوه کچھ نہیں ملا۔اسی وجہ سے میں چاہتا تھا که اسے فرنٹ لائن سے پیچھے بھیج دوں۔

لیکن چونکہ بریگیڈ کمانڈر اس غدار افسر کی ذهنیت سے واقف تھا اس نے اصرار کیا میں اس کے ساتھ جاؤں تاکه وه محاذ سے فرار نه ہوجائے۔

دن گزرنے کے ساتھ ساتھ میں زمین کے اندر کی زندگی اور گولیوں اور بموں کے درمیان پیش آنے والے واقعات کے ساتھ مانوس ہو گیا تھا۔  اور ایک دلچسپ بات یہ تھی که ایک گائے اور اس کا بچھڑا بھی ہمارے ساتھ زندگی گزار رہے تھے۔ دن بھر چرنے میں مصروف رہتے اور غروب آفتاب کے وقت خندقوں کے نزدیک لوٹ آتے۔  بعض فوجی انهیں کھانا دیتے اور ان کا دودھ استعمال کرتے تھے۔ 

اسی دوران ایک دن، ایک شور اٹھا۔ میں اڈے سے باہر نکلا تو دیکھا که دو فوجی بچھڑے کو پکڑے ہوئے ہیں اور اس کا سر کاٹنا چاہتے ہیں۔ میں نے مداخلت کی اور ان کے ہاتھوں سے بچھڑے کو چھڑا لیا۔ دو دن بعد ہمارے چارپائے دوست ایک خوزستانی عرب کو نصیب ہوگئے جو ہمارے آرمی انٹیلی جنس یونٹ کے ساتھ تعاون کرتا تھا اور بدلے میں بھاری رقم وصول کرتا تھا۔ وه بریگیڈ انٹیلی جنس آفیسر، میجر جرنل"عبد القادر"  کے پاس آتا جاتا رہتا اور پیسوں کے بدلے اُسے ایرانیوں کے بارے میں معلومات دیتا رهتا۔ اس کے پاس ایک پک اپ ٹرک تھا اور وه لوگوں کے مویشیوں کو ٹرک میں ڈالتا اور بصره لے جا کر بیچ دیتا۔ اور اس بات سے ہمارا آرمی انٹیلی جنس یونٹ بخوبی واقف تھا۔ کاش میرے پاس طاقت هوتی تو میں اس کا سر تن سے جدا کر پاتا۔

ان دنوں ساده لباس میں کچھ مسلح افراد، بریگیڈ بیس میں آتے جاتے تھے۔ میں سمجھ گیا کہ یہ"سعودی لبریشن فرنٹ" کے عناصر ہیں۔ اس تنظیم کو بعثیوں نے قائم کیا تھا، اور اس تنظیم کا مشن عراقی حکومت کے فائدے کے لئے تخریب کاری اور سرچ آپریشنز انجام دینا تھا اور یه تنظیم عربوں اور عرب نژاد کے تحفظ کے لبادے میں تھی۔

بریگیڈ بیس میں تین ہفتے گزارنے کے بعد میں "نشوه" گاؤں لوٹ آیا۔ وہیں  میں نے تین دن کی پہلی چھٹی لی اور گھر والوں سے ملنے گیا۔ میری والده اور بھائی نے نم آنکھوں اور غمگین دلوں کے ساتھ میرا استقبال کیا۔ ان کی حالت بہت افسوسناک تھی، اس لیے که ان کے پاس کھانا پکانے اور غسل خانے کو روشن کرنے لیے تیل اور گیس نہیں تھی۔ اکثر، بجلی نہیں ہوتی تھی اور لوگ پرانے زمانے کی طرح، لکڑیاں جلا کر کهانا پکاتے تھے۔ حکمران کی دهشت کے باوجود لوگوں میں سیاسی لطیفے عام تھے۔  بچے سب سے زیاده ہمت والے لوگ تھے۔ اور اس نعرے کے ساتھ فوجیوں کا استقبال کرتے تھے: "اے سعد، اے ہمارےدادا.... ہمارے پاس نہ گیس ہے نہ تیل" سعد سے مراد وہی سعد ابن وقاص تھا جس پر بعثی لوگ دن رات قادسیہ کا بہادر ہونے کے عنوان سے فخر کرتے تھے۔

جاری هے۔۔۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3290



http://oral-history.ir/?page=post&id=9016