بہت خطرناک!

مترجم: ضمیر رضوی

2019-12-22


فروری (سن ۱۹۷۹) ہم میجر جرنل بید آبادی ( فوجی گورنر تبریز) کی گرفتاری کے بعد فوجی چھاؤنی سے باہر نکلے۔ اچانک ہماری نظر لوگوں کےاس ہجوم پر پڑی جن سے پورا ارتش روڈ بھرا ہوا تھا اور وه لوگ نعره لگا رہے تھے. ایک گھنٹہ پہلے جب ہم آئے تھے تو اتنا ہجوم نہیں تھا. لوگوں کے درمیان، سیاسی گروه اور حکومت مخالف گروه بھی تھے جیسے فدائیان خلق، مجاہدین خلق وغیره ، یہ سارے گروپ لوگوں کے درمیان نعره لگا رہے تھے: " فوج تحلیل ہونی چاہیے!..." " فوج تحلیل هونی چاهیے" جب میں نے یہ صورتحال دیکھی تو مجھے یقین هو گیا که یہ لوگ فوجی چھاؤنی پر حمله کریں گے اور فوجی دستے اور فوجی چھاؤنی کے گارڈز بھی اس صورتحال میں مزاحمت نہیں کریں گے، کیونکہ ہر کسی کو اپنی فکر تھی که کہیں وه لوگوں کے ہاتھ نہ لگ جائے۔ چونکہ میں نے چھاؤنی پر حملے کا بہت زیاده امکان دیکھا، اس لیے میں نے اپنے ساتھیوں میں سے ایک دو لوگوں کو آیت الله قاضی کی تلاش میں بھیجا تاکہ وه تشریف لائیں، شاید ان کی وجہ سے حالات کی کشیدگی کم ہوجائے. وه صاحب بھی بغیر تاخیر کے آگئے۔ میں نے انهیں چھاؤنی کی خطرناک صورتحال اور کمیونسٹ گروپوں کے نعروں سے آگاه کیا، انھوں نے فرمایا: " یہاں موجود لوگوں سے بات کرنے کے علاوه اور کوئی راستہ نہیں ہے، شاید یہ لوگ پرسکون ہوجائیں۔" پھر مجھے کہا : " تم ان لوگوں سے بات کرو، کوشش کرو کہ پرسکون ہوجائیں اور یہ فتنہ دب جائے!" میں نے اونچی آواز میں تقریر کرنا شروع کی اور کہا: " اے لوگو! بھائیو اور بہنو! ہم انقلاب لے آئے ہیں اور اس کے بعد ضروری هے کہ ہم خود معاشرے کے نظم و ضبط کے محافظ بنیں۔ ہمارے ملک کے پاس سب کچھ ہونا ضروری ہے تاکہ ہمارا ملک خوشحال بنے. دنیا میں کون سا ایسا ملک ہے جس کے پاس منظم اور باضابطہ فوج نہ ہو، قوم کی دفاعی پشت پناه، عوامی، وفادار اور آمادہ فوج ہوتی ہے۔ یہ نعره بہت خطرناک اور قومی سلامتی کے خلاف ہے جو کہتے ہیں: " فوج تحلیل ہونی چاہیے!" اگر فوج تحلیل ہوجائے تو اسلحہ، گولہ بارود اور فوجی ساز و سامان قوم کے دشمنوں اور نااهل لوگوں کے ہاتھوں میں چلا جائے گا، ایسے میں شہروں کا نظم و سکون اور ملک کی امنیت خطرے سے دوچار ہوجائے گا اور موقع کی تلاش میں رہنے والے افراد کا خطرہ بڑھ جائے گا اور حالات قابو سے باہر ہوجائیں گے۔ اور یہ مسئلہ ہماری قوم کے لئے سنگین نتائج کا حامل ہوگا. بہتر ہے کہ ہم ہوشیار رہیں ، دشمنوں اور موقع پرستوں سے دھوکہ نہ کھائیں۔ آج ہم نے فتح حاصل کرلی ہے. ہمیں تحفظ، امن، سلامتی اور قومی اتحاد کی اشد ضرورت ہے ورنہ شہیدوں کی تمام کوششیں، جدوجہد اور خون رائیگاں چلا جائے گا. " مختصر یہ کہ، میں نے موجوده حالات سے متاثر ہو کر اس موضوع پر ایک پرجوش تقریر کی اور لوگ پرسکون ہوگئے. لیکن کمیونسٹ، مجاہدین اور فدائیوں کے گروه اور دوسرے موقع پرست افراد جو بعد میں خلق مسلمان پارٹی سے نکلے، انھوں نے شور مچانا شروع کردیا اور پرسکون صورتحال کو درھم برهم کردیا. پھر انھوں نے ایک جوان، دلیر اور زبان دراز خاتون کو جو بظاہر فدایان خلق کے جنگجوؤں میں سے تھی ، اپنے سروں سے بلند کیا. اس نے ہنگامہ آرائی اور اپنے کمیونسٹی گروپوں کو مشتعل کرنا شروع کردیا، اس نے بھرپو رگستاخانہ لہجہ اور اونچی آواز میں کہا: " اے عزیز لوگو! اے دوستو! اے ساتھیو، اس آدمی کی ساری باتیں بیکار ہیں، یہ لوگ شاه کی حکومت کے فائدے کیلئے صورتحال کو قابو میں رکھنا چاہتے ہیں، ان باتوں سے بیوقوف نہ بنیں! ہمیں خود فوج سنبھالنی ہوگی اور ان قاتل اور عوام مخالف مجرموں کو چھاؤنی سے باہر نکالنا ہوگا. اسلحه عوام کی ملکیت ہے اور اسے عوام، عوام کی بهادر اولادوں اور ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہونا چاہیے تاکہ دشمن، لوگوں اور لوگوں کی بهادر اولادوں کو مارنے میں اس کا غلط استعمال نہ کریں!..." اس خاتون نے اس مضمون سے ملتی جلتی اور بہت اشتعال انگیز الفاظ کے ساتھ گفتگو کی اور صورتحال خراب ہوگئی، اس طرح که اس پر قابو پانا ناممکن ہوگیا۔۔۔ مذکوره گروپس دروازوں اور دیواروں کے ذریعے چھاؤنی کے اندر گھس گئے۔ بہت سارے جوان، عام لوگ، انقلابی اور انقلاب مخالف لوگ بھی ان میں شامل تھے۔ اور میں بعض لوگوں کو پہچانتا بھی تھا ۔۔۔ اس طرح اسلحہ لوگوں کے ہاتھوں میں آگیا! وہی اسلحہ بعد میں مجاہدین خلق، فدائیوں اور خلق مسلمان پارٹی کے پاس چلا گیا۔ ہم نے اپنے انقلابی افراد کے توسط سے تمام مسجدوں کو پیغام بھجوایا که اگر لوگوں کے ہاتھ میں کوئی اسلحہ دیکھیں تو ان سے لے کر جمع کروادیں۔ اس طرح کچھ لٹی هوئی بندوقیں اور ہتھیار جمع کرلیے گئے اور جو لوگ دھوکے باز نہیں تھے ، وه لے آئے اور جمع کرادیا، لیکن مجاہدین اور فدائیوں سمیت بائیں بازو اور کمیونسٹ گروپوں نے، نہیں دیا تو نہیں دیا۔ اس کے بعد سے تقریباً ایک مہینے تک تبریز کا آسمان گولیوں کی فائرنگ کی آواز سے گونجتا رہا۔ بعض ساواک کے لوگ، بعض انقلاب مخالف، بعض کمیونسٹ اور بعض موقع پرست لوگ تھے کہ جنہیں اسلحہ اچھا لگتا تھااور چونکہ وہ اپنے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں دیکھتے تھے دل کھول کر فائرنگ کرتے!۔۔۔۔ اور وه انقلاب مخالف لوگ جو ان دنوں بعض مراکز جیسے ریڈیو ٹیلیویژن کے ادارے ، بینکوں، ہسپتالوں وغیره پر حملے کرتےتھے، ان کے پاس وہی اسلحہ ہوتا تھا؛ عجیب حالات تھے. وہ ہتھیار جنہیں مسجد کے ذریعے جمع کیا گیا تھا ہم نے اسے انقلاب کمیٹی کی فورسز کے حوالے کردیا جس کے تقریباً ۳۶۰۰ افراد ممبر تھے۔ اگرچه اس معامله میں اتنے حساب کتاب کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ اس صورتحال میں ہم صرف رسید کی ایک پرچی لیتے تھے اور بندوق ان کے حوالے کردیتے تھے۔ یقیناً انقلابی معاشرے کے حالات کا تقاضا اس کے علاوه کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا تھا اور یقیناً ان حالات میں کوئی دوس را راستہ بھی نہیں تھا؛ بہرحال انقلابی افواج کا ہتھیار اٹھانا ضروری تھا تاکه حالات کو قابو کریں۔

22bahman.ir
 
صارفین کی تعداد: 2358



http://oral-history.ir/?page=post&id=8964