تیسری ریجمنٹ: ایک عراقی قیدی ڈاکٹر کے واقعات – نویں قسط

مجتبیٰ الحسینی

مترجم: سید مبارک حسنین زیدی

2019-11-24


۲۵ ستمبر ۱۹۸۰ والے دن ہم ۲۰ ویں بریگیڈ کے کمانڈنگ ہیڈ کوارٹر کی مدد کرنے کیلئے ، ایک میڈیکل گروپ  کے ساتھ ڈاکٹر "نعیم عبد سلمان" کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ دوپہر ۴ بجے کا وقت تھا کہ ہم نے دو عدد چھ سیٹر گاڑیوں اور ایک فوجی جیپ جو رہنما کے عنوان سے تھی، کے ساتھ بارڈر کی طرف حرکت کی۔ ہم نے ناہموار اور گردغبار والے راستے کو طے کیا اور ۴۰ منٹ بعد بارڈر سے نزدیک ایک مقام پر پہنچ گئے۔ دو ملکوں کے درمیان موجود سرحدی پٹی سے ۳ کلومیٹر کے فاصلے پر میں نے حملہ کرنے والی افواج کے مستقر ہونے  کی علامتوں کا حملے سے پہلے مشاہدہ کیا۔علاقے سے گزرتے وقت، ہما را ایک زرھی  ستون سے سامنا ہوا۔ اس ستون کی وجہ  سے ایسا گاڑھا گرد و غبار چھا گیا تھا کہ ہم نے رہنما کو گم کردیا۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ کس طرف جانا ہے۔ یہاں تک کہ رات کا اندھیرا چھا گیا۔ ہم نے وہ رات بیابان میں گزارنے کا فیصلہ کرلیا، لیکن مچھروں نے ہمیں آرام اور سکون لینے نہیں دیا تھا۔ بہرحال کسی نہ کسی طرح ہم صبح کو واپس نشوہ گاؤں پہنچ گئے اور اُسی دن دوپہر کے وقت بریگیڈ ہیڈ کوارٹر سے ایک افسر آیا اور  وہ ہمیں اپنے ساتھ ہیڈ کوارٹر لے گیا۔ وہ موٹر سائیکل پر سوار تھا۔ ہم نے سرحدوں سے عبور کیا اور ہم بجری سے بنی ہوئی ایرانی سڑکوں پر آگئے۔ یہ سڑک ایرانی سرحدی چیک پوسٹ سے متصل تھی۔

میں اُس حال میں کہ موٹر سائیکل سوار رہنما کے پیچھے حرکت کر رہا تھا اور ایسے راستے سے گزر رہا تھا جو سرحدی پٹی کے ساتھ بنا ہوا تھا، یہ بات میرے لئے قابل یقین نہیں تھی کہ میں  نے اسلامی جمہوری ایران کی سرزمین پر قدم  رکھا ہے۔ میں نے عراق کے سرحدی راستوں پر فوجیوں کے مورچے، سنگین اسلحوں کے انبار اور سرحدی چیک پوسٹوں کو دیکھا ۔ میں اس بات کی طرف متوجہ ہوا کہ عراق نے کافی عرصہ پہلے سے، اپنی فوجوں کو اس علاقے میں – کہ بعد میں وہاں سے حملہ کو شروع کیا – متمرکز کیا ہوا تھا۔ یعنی عراق نے جنگ شروع ہونے سے پہلے جنگ کی تیاری کی ہوئی تھی۔ لیکن ایران کے سرحدی راستے پر صرف چند سرحدی چیک پوسٹیں  دکھائی دے رہی تھیں جو خوبصورت تھیں اور بجری سے بنی سڑک سے متصل تھیں۔ ان چیک پوسٹوں کے اطراف کی زمین پر فوجیوں کے مورچے، سنگین اسلحوں کے انبار  کی کوئی نشانی دکھائی نہیں دے رہی تھی، بلکہ صرف چار ٹینکوں کے ماڈل موجود تھے جنہیں کافی عرصہ پہلے حملہ کرنے والی ا فواج کے ذہن کو گمراہ کرنے کیلئے طلائیہ – کوشک ہائی وے پر سیمنٹ کے پلروں پر رکھا ہوا تھا۔ ان کے اوپر کچھ خاک تھی اور انہیں زنگ لگ چکا تھا۔ ان سب کے باوجود لوہے کے اس ٹکڑے نے حملے کے آغاز پر، حملہ کرنے والی افواج کو ڈرا دیا تھا۔

اس بات سے پتہ چل رہا ہے کہ ایران سرحدی علاقوں میں نظامی  اعتبار سے آمادہ نہیں تھا  حتی ایران کی ان علاقوں میں اپنی سرزمین کا دفاع کرنے کی آمادگی بھی نظر نہیں آرہی  تھی۔ میں نے خود دو فوجوں کے درمیان ایک واقعی جنگ کے آثار اور نشانیوں  کو مشاہدہ نہیں کیا۔ نہ کوئی جلا ہوا ٹینک نظر آرہا تھا ، نہ کوئی لاش اور نہ ہی  اہم جنگی مال  غنیمت، بلکہ کچھ منہدم چیک پوسٹیں  اور کچھ مقدار میں ہلکا پھلکا اسلحہ  نظر آرہا تھا جس سے لگ رہا تھا کہ یہ اسلحہ ایران کی سرحدی افواج سے ایک نا عادلانہ  جنگ سے عقب نشینی کرتے وقت مال غنیمت کے طور پر لیا گیا تھا۔

موٹر سائیکل پر سوار رہنما سڑک پر دوڑا چلا جا رہا تھا اور میں ایک ایمبولنس پر بیٹھا جسے جنگ شروع ہونے سے چند مہینے  پہلے خریدا گیا تھا، اُس کے پیچھے حرکت کر رہا تھا۔ میں نے رہنما سے پوچھا: "کیا حقیقت میں یہ ایرانی سرزمین ہے؟ کیا ہم راستہ تو نہیں بھٹک گئے؟ پس محاذ پر معرکہ آرائی کے دوران فرنٹ لائن پر رہنے والے دستے کہاں ہیں؟"

رہنما کے لبوں پر مسکراہٹ آئی اور اُس نے کہا: "مجھے اطمینان ہے کہ ہم صحیح راستے پر آئے ہیں۔ یہ تمام علاقے جہاں پر دس کلومیٹر کے فاصلے سے روبرو مقابلہ  ہوتا ہے، ان علاقوں کو ہماری افواج نے آزاد کرالیا ہے۔"

ہم اپنے راستے پر چلتے رہے۔ خوف اور پریشانی مجھے ایک لمحے کیلئے سکون لینے نہیں دے رہے تھے۔ ہم شام کو ۵ بجے شہابی نامی چیک پوسٹ پہنچے۔ اس چیک پوسٹ کے نزدیک، "ب" بریگیڈ کا ہیڈکوارٹر، اسٹاف کے سیکنڈ کرنل "عدنان" کی کمانڈ میں مستقر تھا۔ ہمیں دور سے ٹینکوں کے گولے برسانے کی آواز آرہی تھی۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد، اُس دہشت ناک صحرا پر  تاریکی نے اپنا سایہ پھیلا دیا۔

۲۶ ستمبر ۱۹۸۰ کو رات ۹ بجے میرے پاس دو زخمی سپاہیوں کو لیکر آئے۔ میں نے اُن کا علاج اور دیکھ بھال کی۔ انھوں نے ہمیں خبر دی کہ ہماری افواج نے حمید چھاؤنی پر قبضہ کرلیا ہے، خرم شہر – اہواز ہائے وے کو بند کردیا ہے اور اس وقت اہواز کی طرف پیش قدمی کر رہی ہیں۔  میں جو چیز سن رہا تھا مجھے اس پر یقین  نہیں آرہا تھا۔ خدایا پس یہ ایرانی کہاں ہیں؟ وہ فوج کہ جس کے  وجود پر شاہ فخر کیا کرتا تھا، کہاں ہے؟ میرے لئے بہت ہی غم کی بات تھی کہ میں دیکھ رہا تھا ہماری فوجیں، صرف چار دنوں کے اندر تقریباً ۷۰ سے ۸۰ کلومیٹر ایران کے اندر نفوذ کرچکی ہیں۔  ۲۷ ستمبر کی صبح سویرے صحرا کے وسط میں حرکت کرنے کا حکم صادر ہوا۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ ہمیں کس طرف کھینچ رہے ہیں۔ آدھا گھنٹہ گزرنے کے بعد ہم "جفیر" چیک پوسٹ پر پہنچے۔ اس چیک پوسٹ کے اطراف میں مٹی سے بنے ۱۲ گھر  موجود تھے۔ ان میں سے بعض میں ایرانی عرب گھرانے رہتے تھے۔ یہ گاؤں ایک دو راہےپر تھا جو شہر ہویزہ اور حمید چھاؤنی پر جاکر ختم ہوتا تھا۔

ہم نے تھوڑی دیر ایسے درختوں کے سایہ میں استراحت کی جن کے اطراف میں تین کنوئیں موجود تھے۔ جیسا کہ ہمارا کھانا اور پینے کا پانی ختم ہوچکا تھا، ہم اُن کنوؤں کا کھارا پانی پینے پر مجبور تھے۔ خالی اورویران گھر، وحشتناک اور غم انگیز منظر پیش کر رہے تھے۔ کوئی اُن میں داخل ہونے کی جرائت نہیں کر رہا تھا۔ اس سے ہٹ کر وہاں پر موجود کتے بھی گھروں کی نگہبانی کر رہے تھے۔ ہم نے آہستہ آہستہ مشرق کی طرف حرکت کی، یہاں تک کہ رات ۱۱ بجے، صحرائے برہوت کے وسط میں ستون  نے حرکت کرنا بند کردی اوروہیں ٹھہر گیا۔ میں نے اور ڈاکٹر "نعیم" نے ابھی تک ستون کے کمانڈر سے ملاقات نہیں کی تھی۔ اُن لمحات میں وہ واحد چیز جو میرے لئے اہمیت کی حامل تھی ایک حرکت کرنے والے میڈیکل یونٹ تھا۔

آدھے گھنٹے بعد اچانک سے دو ایرانی لڑاکا طیارے جو ظاہراً عراق کی طرف سے آرہے تھے وہ آرام سے ہمارے اوپر سے گزر گئے۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ اُن میں سے ایک طیارہ واپس آیا اور اُس نے ہمارے سروں پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ ستون کے افراد اِدھر اُدھر پھیل گئے اور ہم ہراساں ہوکر زمین پر لیٹ گئے۔ خوش قسمتی سے اُس طیارے میں میزائل نہیں تھے اور ہم نے معجزانہ طور پر حتمی موت سے نجات حاصل کرلی۔ ابھی ہم نے سکون کا سانس نہیں لیا تھا  کہ دوبارہ وہی لڑاکا طیارہ ایک عقاب  کی طرح ہم پر حملہ آور ہوا۔ اس دفعہ میں نے سوچا کہ اب تو ہماری موت یقینی ہے۔ تمام افراد کسی مقصد کا تعین کئے بغیر فرار کرنے لگے تاکہ کوئی جائے پناہ ڈھونڈ یں اور گولیاں برسانے والے سے محفوظ رہیں۔ وہ وسیع اور پھیلا ہوا صحرا ہمارے لئے بہت محدود ہوگیا تھا۔ اچانک میں نے "گون" نامی ایک جھاڑی دیکھی جو ۳۰ سینٹی میٹر بلند تھی۔ میں نے خود کو اُس کے پیچھے چھپالیا۔ میں نے اُن وحشت ناک حالات میں کہ جس کی مثال اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھی تھی، امام حسین (ع) سے توسل کیا۔ مجھے پیغمبر اکرم (ص) کی وہ حدیث آئی کہ فرماتے ہیں: "تندرستی اور امن دو ایسی نعمتیں جنہیں پہچانا نہیں گیا۔" میں اپنے دل دھڑکنے کی آواز جو ہر لمحہ بڑھتی جا رہی تھی، آرام سے سن رہا تھا۔ میری آنکھیں حملہ کرنے والے طیارے کے اُس حصے پر گڑھی ہوئی تھیں جہاں سے وہ آگ کی گولیاں برسا رہا تھا۔ یہاں تک کہ وہ طیارہ اُس علاقے سے نکل گیا۔ ہم اُسی طرح زمین پر لیٹے ہوئے تھے۔  کوئی بھی اٹھنے کی جرائت نہیں کر رہا تھا۔ جب ہم مطمئن ہوگئے کہ اب ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے، ہم سب اپنی جگہوں سے کھڑے ہوگئے۔ ہم اس بات پر کہ ہم نے موت سے صحیح و سالم حالت میں نجات حاصل کرلی تھی، بہت خوش تھے۔ میں نے بارگاہ الٰہی میں دعا کیلئے ہاتھ بلند کئے اور کہا: پروردگار! تو ہماری حالت کو سمجھتا ہے۔ تو خود ہی ہمیں اس مصیبت سے نجات دلا! اُس دن ہمارے پاس تین اینٹی ایئر کرافٹ گنیں تھیں۔ لیکن اُسے چلانے والے ہر دفعہ فرار کرجاتے۔ صرف ایک سپاہی  اینٹی ایئر کرافٹ کے پیچھے کھڑا رہتا اور وہ بھی خوف کے مارے غلط نشانے پر گولیاں چلا رہا تھا۔

ہم دوپہر ایک بجے تک اُسی علاقے میں رہے۔ بھوک کی شدت کی وجہ سے ہم میں حرکت کرنے کی سکت نہیں تھی۔ صرف کھارے پانی پر گزارا کر رہے تھے۔ اسی وقت سپاہیوں کا کھانا لیکر آنے والے گاڑی پہنچ گئی، لیکن وہ لوگ اپنے حصے میں سے ہمیں دینے پر راضی نہیں ہوئے، کیونکہ ہم اُن کے یونٹ کا حصہ نہیں تھا! انھوں نے ہم سے کہا: "آپ لوگ دوسرے فوجی یونٹ سے ہیں۔" حالانکہ ہم اور وہ لوگ ایک ہی فوج سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کے باوجود کہ وہ لوگ جانتے تھے کہ ہماری دسترس میں کوئی اور کھانا نہیں ہے؛ وہ اس بات پر زور دے رہے تھے کہ ہم لوگوں کو اپنے سے جدا کردیں۔ جب ہم نے معاملات کے بارے میں پوچھ گچھ کی، تو ہمیں پتہ چلا کہ یہ افسروں کا مخصوص کھانا ہے جسے وہ اپنے مخصوص باورچی خانے میں بناتے ہیں۔

جاری ہے ۔۔۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3172



http://oral-history.ir/?page=post&id=8896