ملتان کا مصلح؛ چوتھا حصہ
دعا کیجئے کہ یہ ہوائی جہاز صحیح و سالم اتر جائےزینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2019-11-12
دعا کیجئے کہ یہ ہوائی جہاز صحیح و سالم اتر جائے
بچے بھی اس سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے۔ ہم ہر سفر میں ہمیشہ ایک ساتھ رہے تھے۔ ایک ساتھ جاتے ایک ساتھ واپس پلٹتے بالکل لیلیٰ مجنوں کی طرح۔ اس بار بھی ہم ایک ساتھ ہی واپس پلٹ رہے تھے مگرنہ کوئی بات چیت تھی نہ ہنسی مذاق حتیٰ کہ ہوائی جہاز کا صحیح و سالم زمین پر اترنا بھی اب ہمارے لئے اہمیت کا حامل نہیں تھا۔ واقعاً علی کے بغیر کون سی چیز اہمت کی حامل ہو سکتی تھی؟ میرا دل چاہتا تھا کہ میں فریاد کروں علی سے التجاء کروں کہ اٹھو اور اپنے بچوں کو گود میں لو۔ محمد کو اپنے پیروں پر بیٹھا کر اس کے پیار سے کھیلو، مہدی کے سر پر سر رکھو اور جب تک وہ ہنس ہنس کر بےحال نہ ہوجائے اس سے دستبردار نہ ہو، اپنے سر کو فہیمہ کی گود میں رکھ دو تاکہ بیٹی باپ کے بالوں سے کھیلے۔ میرا دل کرتا تھا کہ علی کو چلا چلا کر صدائیں دوں ۔ لیکن اب مجھ میں اس کی سکت نہ تھی۔ تمام حرف میرے گلے میں گھٹ گئے تھے اور میں بولنے کی توانائی کھو چکی تھی۔
میری آواز بیٹھ گئی تھی ، جتنا بھی گرم پانی پئوں سود مند نہ تھا۔میرا ہمیشہ کا دستور یہی تھا کہ ہر احتجاج میں اس طرح نعرے لگایا کرتی تھی کہ میرے علاوہ کوئی اور احتجاج میں شریک ہی نہیں ہےجس کی وجہ سے ہر مارچ کے بعد میرا چند روز تک بند رہتا تھا اور مجھے گلے کا پورا زور لگا کر بولنا پڑتا تھا جس کے سبب میں مستقل گرم پانی پیتی تھی تاکہ حلق کی سوجن کچھ کم ہو۔ میں انقلابی ہونے کی اعزاز سے سرشار تھی اس لئے گلے کا بیٹھ جانا میرے لئے اہمیت نہیں رکھتا تھا ہر چند میرے گھر والے بالکل میرے برعکس تھے، وہ مجھ پر اعتراض کرتے تھے اور کہتے تھے یہ ضروری نہیں کہ اپنی جان جوکھوں میں ڈالو اور بیمار ہوجاو۔شاید وہ کسی حد تک درست کہتے تھے اور ان کے اعتراضات صرف اس دباو کی وجہ سے نہیں تھے جو میں خود پر لیتی تھی بلکہ اس دور کا تقاضہ تھا کیونکہ وہ تمام تر کام جو میں گھر سے باہر انجام دیتی تھی وہ ایک ۱۵ سالہ لڑکی کے لئے ، [1]۵۰ کی دہائی میں انجام دینا ثقافت کے خلاف تھا، نہ ہی ہمارےمحلہ ری کا دستور تھا نہ یہ بات پانچ غیرت مند بھائیوں کو بھاتی تھی۔ یہی وہ ایام تھے جب میری ماں نے پہلی بار میرے لئے سیاہ چادر سی تھی۔
ابھی مدرسہ سے گھر پہنچی ہی تھی ، گرمی سے بے حال تھی اور اپنے کوٹ ) مانتو( کے بٹن کھول رہی تھی ، مہمان کچھ دیر قبل ہی گھر سے رخصت ہوئے تھے اور ان کی چائے کی پیالیاں ابھی زمیں پر ہی پڑی تھیں۔ میں سینی لے آئی کہ پیالیاں اٹھا لے جاوں کہ اتنے میں ماں جی نے ایک کالا کپڑا ، جو ان کے لئے تحفے میں لایا گیا تھا، کمال بے رغبتی کے ساتھ زمیں پر پھینک دیا ۔ ان کے اس برتاو سے میں سمجھ گئی کہ ان کو یہ پسند نہیں آیا ہے ، میں نے سینی کو زمین پر رکھا اور وہ چادر اٹھا کر بہت شوق کے ساتھ اپنے سر پر ڈال لی اور خود کو دیواری آئینہ میں دیکھنے لگی۔ میں اپنے چہرے کو تھامے ہوئے تھی واہ کیا حسین منظر تھا میں اپنا منہ دائیں بائیں گھما کر دیکھنے لگی ، وہ چند بال جو چادر سےباہر جھانک رہے تھے ان کو اپنی انگلی کے ساتھ میں نے ماتھے سے ان کو چادر کے نیچے کر دیا۔میں نے اپنے چہرے کو اور مضبوطی سے تھام لیا میرا دل نہیں تھا کہ چادر کو سر سے اتار دوں ۔ میں چادر سر پر لئے چار زانو ہو کر ماں جی کی سامنے بیٹھ گئی یوں کہ چادر میرے چاروں طرف پھیل گئی اور میں نے ماں جی اصرار کرنا شروع کر دیا کہ وہ یہ چادر میرے لئے سی دیں ماں جی نے سینی میرے ہاتھ سے لی اور باورچی خانے کی راہ لی۔
[1] ۱۹۷۰ کی دہائی
صارفین کی تعداد: 3496
http://oral-history.ir/?page=post&id=8881