تیسری ریجمنٹ: ایک عراقی قیدی ڈاکٹر کے واقعات – ساتویں قسط

مجتبیٰ الحسینی

مترجم: سید مبارک حسنین زیدی

2019-10-13


۹۔ ایران کے داخلی امور میں مداخلت

تشہیراتی اداروں نے، انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد  اس سلسلے میں تقسیم بندی کی جو تحریکیں اور جو آشوب گرانہ اقدامات ہوئے اُس کی خبریں اور رپورٹیں منتشر کیں۔ تشہیراتی ادارے اس بات کے پیش نظر کے ایران کو مختلف دھڑوں میں تقسیم کیا جائے " ایرانی قوم" کی جگہ "ایرانی قوموں" کی عبارت کو استعمال کرنے لگے۔ بعثی اس بات سے غافل تھے کہ اس کے باوجود عراق میں عرب، کرد اور ترکمن قومیں ایک ساتھ زندگی بسر کرتی تھیں اور انہیں عراق کی ایک واحد قوم  کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ البتہ مجھے یہ کہنا چاہیے انھوں نے اپنے آپ کو فراموشی میں مبتلا کرلیا تھا۔

دو ملکوں ایران اور عراق کے درمیان تعلقات اور روابط، عراق کے خوزستان میں تخریبی آپریشن میں شرکت کرنے کے بعد تاریکی اور کدورت میں بدل گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ خرم شہرمیں عراق کے قونصل خانے نے کچھ ایرانی الاصل عربوں کو  ایران کے اندر ایک تخریب کارانہ عمل کیلئے اکٹھا کیا تھا۔ دوسری طرف سے عراقی حکومت نے قاسملو کا ساتھ دینے والوں کی  حمایت کا اعلان کرتے ہوئے، سلیمانیہ کے علاقے میں موجود وہ چھاؤنی جو "برزان تکریتی" (صدام کے سوتیلے بھائی) – جو عراق کے انٹیلی جنس ادارے کا سربراہ تھا- کے زیر نظر کام کر رہی تھی، اُن کے اختیار میں قرار دیدی۔

کتاب کے اس حصے کی جمع بندی کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ جنگ، ایک ایسا منصوبہ تھا جو پہلے سے سپر پاورز کی ہمراہی اور ہم فکری میں طے ہوچکا تھا، خاص طور سے امریکا اور علاقے میں اُس کے زیر تسلط کام کرنے والی حکومتیں اور نیز برطرف ہونے والے شاہ کے باقی ماندہ حامیوں  نے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ جس کا ہدف، وہی ایران کی اسلامی حکومت کو ہٹانا  اور پہلے والی صورت حال کو واپس لانا تھا اور ایران میں اپنی پسند کا ایک نظام قائم کرنا تھا تاکہ اس طریقہ سے امریکا اور اسرائیل کے منافع کو حاصل کیا جاسکے؛ اگرچہ ظاہری طور پر یہ جنگ زمین اور پانی کے مطالبہ کو نظر میں رکھتے ہوئے مسلط کی گئی تھی۔

یہ ان واقعات کا خلاصہ تھا جب میں بغداد میں اپنی ایک سالہ سکونت کے دوران ان معاملات میں گرفتار تھا۔ ان واقعات کے رونما ہونے کے ساتھ کچھ دوسرے سیاسی اور اجتماعی رجحانات اور حوادث  بھی سامنے آئے کہ جنہوں نے چاہتے یا نا چاہتے ہوئے دو ملکوں کے کروڑوں افراد کی تقدیر پر اپنی اثر چھوڑا۔

مکمل شفقت سے لیکر موت کی چیخ و پکار تک

ٹریننگ حاصل کرنے والے ہسپتالوں میں ایک سال رہنے کے بعد، ۱۸ اگست سن ۱۹۸۰ والے دن، میں بغداد کے کرامہ ہسپتال میں اپنی غیر نظامی زندگی کو الوداع کہہ کر مشکلات اور محنتوں کی ٹرین میں سوار ہوگیا۔ میں نے سفید لباس جو پاکیزگی اور لوگوں کی دیکھ بھال کا لباس ہے کو اُتارا اور اُس کے بدلے خاکستری رنگ کا لباس پہن لیا جو بے رحمی اور کرختگی کی علامت ہے۔

میں نے ہسپتال کو اپنے گھر جان کے قصد سے ترک کیا  اور اپنے گھر والوں اور رشتہ داروں کے ساتھ دو دن  اور راتیں گزارنے کے بعد، ۲۰ اگست والے دن  اپنی ڈیوٹی کا سرٹیفکیٹ اپنے ہاتھوں میں لئے، بغداد میں واقع افسروں کے احتیاط کالج کی طرف روانہ ہوا۔ چند دنوں بعد ناموں کا اعلان ہوا اور میں ایک سپاہی ڈاکٹر کے عنوان سے الرشید نظامی ہسپتال کے میڈیکل کالج میں بھیجا گیا۔ عراق کی بعث پارٹی میں ممبر شپ نہ ہونے کی وجہ سےمیں نے احتیاط کالج میں شرکت نہیں کی۔ اس کے باوجود کہ میں اس بات پر بہت خوش تھا لیکن عراق اور ایران کے تعلقات میں کدورت آجانے، سرحدوں پر ہونے والی جھڑپیں اور خانقین اور مندلی – کہ جس کی خبریں اور رپورٹیں لوگوں تک پہنچ رہی تھیں-  کے علاقے میں توپخانہ کے حملوں نے مجھ پر خوف اور پریشانی کی حالت کو مسلط کردیا تھا۔ اس مدت میں، میں نے خانقین ہسپتال میں کام کرنے والے ایک ڈاکٹر سے ملاقات کی۔ انھوں نے ان حملوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "عراقی فوج خانقین شہر میں مستقر توپ خانے کے وسیلے سے قصر شیرین کے شہر کو مورد ہدف قرار دینا چاہتی ہے  اور جس زمانے میں ایرانی، عراقی توپخانے کے حملوں  کا جواب دینے کیلئے کوئی اقدام کریں گے، توپ کے گولے خانقین کے علاقے سے مارے جائیں گے۔"

در اصل عراقی حکومت نے ان گولہ باری سے ایک بہت بڑے حملے کے زمینہ کو فراہم کیا۔ ان حادثات اور واقعات کے تسلسل میں، ایران کی نوخیز حکومت کے خلاف تبلیغاتی حملات میں بھی شدت سے اضافہ ہوا اور رعب و دھمکی کی حدک تک پہنچا۔ حتی اُن دنوں میں خود صدام  نے اُن سرحدی علاقوں کا دورہ کیا  اور حالانکہ وہ دوربین کے ذریعے ایرانی سرزمینوں کا نظارہ کر رہا تھا، ٹیلی ویژن کی اسکرین پر ظاہر ہوتا ہے۔ عراق کے تبلیغاتی چینلز نے ان گولے باری سے مربوط رپورٹیں منتشر کرکے کوشش کی کہ لوگوں کے کینہ اور عداوت کو ایران اور اس ملک کی حکومت کی نسبت بھڑکائیں۔

میڈیکل کالج میں دو ہفتے رہنے کے بعد میں فوج میں پیش آنے والے مسائل سے واقف ہوگیا تھا۔ ہمارا گروپ چند دانتوں کے ڈاکٹروں اور دوائی بنانے والوں سے مل کر بنا تھا۔ ۴ ستمبر ۱۹۸۰ والے دن بغداد کے ریڈیو نے ایک فوجی بیان نشر کرتے ہوئے  اعلان کیا: عراقی فوجیوں نے "سیف سعد"، "ھیلہ"، "خضر" اور "زین القوس" کے علاقے جو ایران کے اختیار میں تھے، انہیں آزاد کرالیا ہے۔

اس فوجی واقعہ کے ساتھ، ایک اہم سیاسی  اتفاق یعنی سن ۱۹۷۵ میں ہونے والی الجزائر قرار داد جو دو ملکوں کے درمیان منعقد ہوئی تھی، لغو ہوگئی۔ قابل ذکر ہے کہ اُس سال یہ قرار داد منعقد ہونے سے، عراقی حکومت اور برطرف ہونے والے شاہ کی حکومت کے درمیان پائے جانے والے سرحدی اور سیاسی اختلافات ختم ہوگئے تھے۔ عراقی ٹیلی ویژن نے عراقی قومی اسمبلی کی ایک سفارشی نشست دکھائی اور خود صدام نے اس نشست میں شرکت کی اور ایک تقریر کرتے ہوئے کہ جس میں ایرانی حکومت پر تنقید اور اعتراض کیا تھا، الجزائر  قرارداد منعقد ہونے کے وقت کی شرائط کی  وضاحت دی اور اُسے عراق کے حق میں ظلم سمجھا۔ صدام نے اپنی تقریر کے آخر میں، مذکورہ قرار داد کو لغو قرار دیا اور اسٹیج پر کھڑے ہوکر اُسے پھاڑ دیا۔ اُس دن قومی اسمبلی کے افراد کی طرف سے ایک مضحکہ خیز عمل انجام دیا گیا۔ وہ لوگ جو خود کو لوگوں کا حقیقی نمائندہ سمجھتے تھے، انھوں نے یہ عبارت "ہماری نظر میں ۱۹۷۵ والی قرارد ۔۔۔" سنتے ہی – جو صدام کی زبان سے جاری ہوئی تھی – اُس کیلئے تالیاں بجائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ صدام یہ کہنا چاہتا تھا: "ہم ۱۹۷۵ کی قرار کو لغو سمجھتے ہیں" لیکن وہاں پر موجود لوگوں نے اُسے یہ موقع نہیں دیا کہ وہ "لغو" کا جملہ زبان پر لائے۔ یہ اس بات کی علامت ہےبعثی حکومت کی طرف سے مسلط ہونے والے نمائندے پہلے سے اس فیصلے سے مطلع تھے اور اُن کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ ٹیلی ویژن کے کیمرے کے سامنے اپنے رہبر کیلئے احساسات کا اظہار کریں۔ پتہ چلتا ہے جس طرح ۱۹۷۵ والی قرارداد  کے منعقد ہونے کے وقت عراقی لوگوں کی چاہت اور عقیدے کو نظر میں نہیں رکھا گیا تھا، اُس کے لغو کرنے کا فیصلہ بھی عام لوگوں کے ارادے اور رغبت سے نہیں تھا۔ ہمیں پتہ ہے کہ یہ قرار داد، ایک بین الاقوامی قرار داد کے طور پر اقوام متحدہ میں ثبت ہوئی ہے  اور کسی ایک طرف کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ واسطہ بننے والے ملک یعنی الجزائر اور اقوام متحدہ سے رابطہ کیئے بغیر اُسے زیر پا قرار دے۔ بہتر ہوگا کہ اس نکتہ کی طرف اشارہ کروں کہ صدام نے ایران کے عراق کے داخلی مسائل میں سرحدی اختلاف اور مداخلت کو  بیان نہیں کیا، بلکہ اس قرار داد کو اس بہانے سے کہ عراق کے حقوق کو پورا نہیں کرتی، لغو کردیا۔ صدام کے دوسرے دعووں کی طرح اس مسئلہ میں بھی یہ بات بالکل اس کے دعوے کے برخلاف تھی کہ ایران کی طرف سے ۱۹۷۵ قرار داد کو توڑنے کی وجہ سے وہ یکطرفہ طور پر قرار داد  لغو کرنے پر مجبور ہوا ہے۔

مجھے یاد ہے شاہ اور صدام کی ملاقات جو الجزائر میں ہوئی تھی اور جو دونوں طرفین کی صلح پر اختتام ہوئی تھی، عراق کے نشرو اشاعتی چینلز نے اس قرار داد ہونے کو "رفیق صدام حسین" کے ہاتھوں ایک قومی اور ملی  پیشرفت جانا تھا اور اسی طرح کردوں کے قضیے کا حل اور ایران کے ساتھ سرحدی  اختلافات کے عادلانہ طور پر خاتمہ  کو الجزائر قرار داد کا نتیجہ قرار دیا تھا۔ عراق کی مظلوم عوام جسے قرار داد کے مفاد کی  کوئی معلومات نہیں تھی  اور نہ ہی اُس کے منعقد  ہونے کے وقت کی شرائط سے آگاہی رکھتی تھی، وہ رقص کرنے اور پیر پٹخنے لگی۔ اُس زمانے میں، عام لوگوں کیلئے یہ بات اہم تھی کہ شمال کی جنگ ختم ہوگئی ہے اور خون کی ندیاں خشک ہوگئی ہیں۔

جاری ہے ۔۔۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3272



http://oral-history.ir/?page=post&id=8835