سید رضا صفوی سے گفتگو

دو سائن بورڈز کی کہانی

راضیہ رفیعی

مترجم: کنیز طیبہ

2019-06-13


آپ جس گفتگو کا مطالعہ کرنے جا رہے ہیں وہ انجمن خطاطی ایران کے رکن اور اس شعبے میں سب سے اعلیٰ رتبہ پر فائز اور اسی طرح سونے سے کام کرنے اور پینٹنگ وغیرہ کے استاد جناب سید رضا صفوی ہیں۔ ہم اس انٹرویو میں اُن کی زندگی اور اُن کے آثار کے بارے میں بیان کریں گے  اور اسی طرح حادثہ منا کے شہدا اور شہدائے مدافع حرم کی یاد میں بنائے جانے والے دو سائن بورڈ کا ذکر کریں گے جسے انھوں نے اور آرٹ گروپ نے مل کر بنایا ہے۔

آپ اپنے بارے میں بتائیں

میں سید رضا صفوی، سن ۱۹۵۸ میں تہران میں پیدا ہوا۔ میں نے بیرجند، مشہد اور تہران میں تعلیم حاصل کی اور صنعتی شریف یونیورسٹی سے الیکٹریکل انجینئرنگ  کے شعبے میں اپنی پڑھائی کو پایہ تکمیل  تک پہنچایا۔ میں نے آرٹ ورک کو تقریباً سولہ یا سترہ سال کی عمر سے بیرجند میں شروع کیا اور سن ۱۹۶۲  میں انجمن خطاطی ایران سے بھی ڈگری حاصل کرلی۔ میں تہران اور بیرجند میں پندرہ سال سے زیادہ انجمن خطاطی کا استاد رہا ہوں اور اُس کے بعد میں نے کچھ وجوہات کی بنا پر یہ کام چھوڑ دیا۔ تقریباً سترہ یا اٹھارہ سال پہلے میں نے سونے سے کام کرنے کو شروع کیا اور میرے آخری استاد کا نام استاد اخویین تھا۔ اُس کے بعد میں نے نستعلین، نسخ اور ثلث خط کو انجمن کے ہی اساتید سے سیکھا اور عربی خط کو عرب کے استادوں سے آزادنہ طور پر سیکھا۔

 

آپ نے سونے کے کام کو کس سے سیکھا؟ اور آپ کتنے سالوں سے اس کام کو سکھا رہے ہیں؟

میرے استاد، استاد آقا میری، استاد مہرگان اور استاد تاکستانی تھے کہ خاص طور سے میں نے اپنے سونے کے کام کیلئے اُن کی رہنمائی سے استفادہ کیا ہے۔ اُس کے بعد میں نے خطاطی اور طلا کاری کے کام کو سکھایا؛ خطاطی کا کام کرتے ہوئے بیس سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا اور طلا کاری کا کام دس پندرہ سالوں سے کر رہا ہوں۔ فی الحال میں کسی کو بھی کچھ نہیں سکھا رہا، صرف آرڈر پر اور وہ بھی بہت کم اپنی چاہت پر کام کرتا ہوں۔ اب وقت، ہمت اور مناسب حوصلہ نہیں رہا۔

 

آپ آج کل کس کام میں مصروف ہیں؟

ان آخری سات، آٹھ سالوں میں کلاسیک اندازمیں کام کرنے کے بجائے  میں نے کچھ آرٹ ورکس کو ایک ساتھ انجام دیا؛ خطاطی کو  پینٹنگ کے ساتھ، پینٹنگ کو خطاطی کے ساتھ، خطاطی کو دونوں انداز میں۔ میں نے آرٹ ورک کے مختلف انداز کا سرسری انداز میں مطالعہ کیا۔ میں نے کوشش کی ہے کہ کسی طرح انھیں ایرانی آرٹ ورک کے ساتھ پیش کروں؛ مثال کے طور پر، جیسے ایرانی خطاطی میں کوبیسم (cubism) اور فارسی خطاطی یا جیسے  اکسپرسیونیسم (یہ وہ طریقہ ہوتا ہے جس میں پینٹگ کرنے والے اپنی اندرونی کیفیت کو بیان کرتا ہے) کو پینٹنگ کے ساتھ پیش کرنا۔ میں سوچتا ہوں میں نے اس کام کو بہت تاخیر سے انجام دیا ہے۔

جس چیز کی ایرانی آرٹ ورک میں ضرورت تھی، وہ بیان میں بین الاقوامی جسارت اور ایک ایسی زبان کو تلاش کرنا ہے جو سب کی سمجھ میں آئے، اس طرح سے کہ فارسی خط سے صرف اشعار یا متون بیان کرنے کیلئے استفادہ نہ کیا ہو۔ اُس کام سے ملتا جلتا کام جو قاجار کے آخری ادوار میں خطاطی میں ریاضت کے ساتھ لکھنے والے انجام دیتے تھے، جیسے مرحوم میرزا غلام رضا۔ یہ لوگ کمپوزیشن (Composition) بنانے کیلئے نستعلیق سے استفادہ کرتے تھے اور میرے خیال میں یہی ان کا شاہکار تھا  اور حال حاضر میں اس طرح کا کام کم ہی نظر آیا ہے۔

کسی وقت مجھے ایرانی آرٹ ورک اور ایران سے باہر ہونے والے آرٹ کا مقایسہ کرتے ہوئے ایسا لگتا تھا کہ مثلاً جناب میرزا غلام رضا اصفہانی کے آثار کو خطاطی میں ریاضت کے ساتھ لکھنے والے کام کو بہت آسانی کے ساتھ آرٹ پینٹنگ جیسے جیکسن پولاک کے  کام کے ساتھ مقایسہ  کیا جاسکتاہے۔ اس کام کیلئے تھوڑے وقت، حوصلے، فہم، مطالعہ اور معلومات  کی ضرورت ہے اور یہ موضوع میرے لئے اور زیادہ دلچسپ ہوگیا۔ میں اس موضوع کے درپے ہوا۔ سونے کے پانی کے کام میں بھی اسی طرح۔

آپ اپنے آرٹ ورک اور اپنی تعلیم کے درمیان کیا رابطہ دیکھتےہیں؟

جی بندہ ایسا شخص ہے جس نے ریاضی کی تعلیم حاصل اور اُس کے بعد میں ٹیکنیکل ہوگیا اور بہت ہی زیادہ ٹیکنیکل  ہوگیا۔ عام طور سے ٹیکنیکل کام خشک ہوتا ہے، لیکن خدا کا شکر ہے کہ اُس کے ساتھ ساتھ یہ آرٹ ورک بھی تھا جو میری روح کو لطیف بنانے کا سبب بنا، لیکن میں اپنے آرٹ ورک کی صورت حال یا نتائج کو کبھی بھی اپنے یونیورسٹی کے کام کے ساتھ قابل مقائسہ نہیں سمجھتا۔ میری پوری زندگی آرٹ ورک میں ڈوبی ہوئی تھی اور ہے۔ میں نے اپنے اُس ٹیکنیکل کام سے ایک طرح سے اپنی زندگی گزارنے کیلئے استفادہ کیا ہے۔ اور کوئی فرق بھی نہیں پڑتا کہ میری زندگی کا پہیہ بجلی کا کام کرکے گھومے یا آرٹ ورک میں مشغول رہ کر، لیکن آرٹ ورک کے شعبے میں ایک جوش و ولولہ، حرارت اور ایسا عشق ہے جو فطری طور پر ٹیکنیکل فیلڈ میں نہیں ہے، مگر یہ کہ کوئی بہت ہی زیادہ اُس کی گہرائی میں جاکر مکینیکل یا الیکٹریکل فیلڈ میں آرٹ ورک کرے کہ وہ بھی ممکن ہے، جیسے بڑے بڑے سائنسدان بنتے ہیں۔ فی الحال میری زندگی آرٹ، موسیقی اور ادبیات میں غرق ہے۔

 

آپ کو کس طرح پتہ چلا کہ آپ خطاطی کے ہنر میں دلچسپی رکھتے ہیں؟

بیرجند میں میرے ایک استاد تھے جن کیلئے میں دعاگو ہوں۔ وہ پہلی اور دوسری کلاس میں ہمارے ڈرائنگ کے استاد تھے۔ جناب استاد قضائی، جو بہت ہی اچھی اور بہترین ڈرائنگ بناتے اور بہت ہی عظیم انسان تھے۔ میں اُن کا شاگرد تھا، ضمنا یہ بھی بتادوں کہ وہ اسکول میں  تقریباً تیس سال تک اعزازی طور پر استاد تھے۔ اُن کا پیشہ کچھ اور تھا، وہ اعزازی طور پر ڈرائنگ اور آرٹ کا سبق پڑھاتے تھے۔ ظاہراً انھوں نے میرے اندر کچھ ایسی چیزوں کا مشاہد ہ کیا کہ وہ ان چیزوں کو پروان چڑھانے لگے اور مجھے شوق دلاتے؛ پھر اس کے بعد ایسا ہوا کہ  وہ تنہائی میں، کیہان اور اطلاعات اخبار وغیرہ دے دیتے  اور میں اُن سے دیکھ دیکھ کر ڈرائنگ بناتا تھا اور ایسی دلچسپی کہ جس کا تعلق سیکھنے سے نہیں تھا لیکن انھوں نے اُس کو پروان چڑھایا۔ اُس کے بعد میں مشہد چلا گیا اور وہاں میں نے حرم امام رضا (ع) میں استاد مہدی زادہ کی شاگردی سے استفادہ کیا۔ اُس کے بعد آہستہ آہستہ میرے اندر خطاطی کا جذبہ پیدا ہوا۔ ایک چیز جو مجھ پر بہت زیادہ اثر انداز ہوئی وہ یہ تھی کہ  انھوں نے مجھے پہلی مرتبہ جو مشق کرنے کیلئے دی جب میں نے اُسے دیکھا، میں اُسے دیکھتے ہوئے یہ سوچ رہا تھا کہ مجھے اس طرح کی لکھائی تک پہنچنے  کیلئے چھ مہینے کا عرصہ لگے گا اور میں پہنچ جاؤں  گا۔ میں جتنا زیادہ لکھتا مجھے اتنا ہی  یہ احساس ہوتا کہ میں اس سے دور ہوتا جا رہا ہوں۔ ایک دفعہ تو مجھے باقاعدہ طور پر یہ احساس ہوا کہ  مجھے اس کیلئے ایک سال یا دوسال تک پریکٹس کرنی پڑے گی۔ یہی چیز، جس نے میرے اندر ایک پیاس کو بھڑکا دیا تھا کہ نہیں، بہت دور ہے اور میں کتنے سطحی انداز میں دیکھ رہا تھا۔ کچھ عرصہ تک تو میں نے لکھنا ہی چھوڑ دیا تھا، میں نے دو تین سالوں تک کام نہیں کیا۔ پھر مجھے احساس ہوا کہ نہیں، لکھے بغیر زندگی کرنا تو بالکل ممکن نہیں۔ اچھی لکھائی میں چھپا ہوا اور ایک بہت ہی عجیب جذبہ ہے  جس کا میں ڈرائنگ، موسیقی  اور دوسرے آرٹ ورک کے ساتھ مقایسہ نہیں کرسکتا کیونکہ اُس کا جذب کرنے کا پہلو بہت زیادہ ہے۔

 

کیا آیات کی لکھائی اور اشعار کی لکھائی ایک دوسرے سے مختلف ہے؟ اس بارے میں کوئی قاعدہ موجود ہے؟

دنیا میں یہ رسم  پڑگئی ہے کہ ہم قرآنی آیات اور احادیث کو کوفی ، نسخ اور ثلث خط کے ساتھ لکھیں اور کبھی کبھار عربی کے ایک دو اور خط۔ اشعار اور ادبی اگر اُن میں غزلیہ رجحان نہ پایا جاتا ہو تو اُسے خط نستعلیق سے لکھتےہیں اور اگر گاڑھی غزلیہ  شاعری ہو تو ٹوٹے نستعلیق خط سے لکھتےہیں۔ یہ رسم پڑ چکی ہے اور بہت سے خطاطی کرنے والے اس چیز کی رعایت کرتے ہیں، لوگوں کو بھی اس چیز کے دیکھنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ مثلاً اگر آپ حافظ کے اشعار کو نستعلیق کے ساتھ لکھیں تو ایسا لگا کہ آپ نے اشعار کا گلا گھونٹ دیا ہے، اگر آپ خط نسخ کے ساتھ لکھیں تو ایسا ہے کہ آپ نے  اُس کو غارت ہی کر دیا ہے، اگر خط ثلث کے ساتھ لکھیں تو مجھ میں تو اُس کو پڑھنے کا حوصلہ نہیں ہے، لیکن جب  ٹوٹے نستعلیق خط کے ساتھ لکھا جاتا ہے  تو ایسا لگتا ہے جیسے ظاہری اور باطنی رجحان کی رعایت ہوئی ہے  اور ایک خطاط اس چیز کو بڑی آسانی سے بیان کرسکتا ہے۔ مثلاً مسجد اور دوسری جگہوں پر لگے ہوئے کتیبوں پر جو دس میٹر دور سے نظر آتے ہیں، اُس پر لمبے اور کھڑے ثلث خط سے لکھنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ دوسرے تمام خطوط کے ساتھ کسی نہ کسی چیز کا مسئلہ رہتا ہے۔

 

قرآن کا ترجمہ کیسے لکھتے ہیں؟

قرآن کے ترجمہ کو بہت واضح ہونا چاہیے۔ اُس کے واضح ہونے کی وجہ سے ضروری ہے کہ واضح خطوط سے لکھا جائے جو یا نستعلیق ہے یا نسخ۔ البتہ یہ چیز ہماری فارسی زبان کیلئے ہے، جبکہ عربوں کیلئے واضح حالت میں لکھنے کیلئے خط رقعی بھی موجود ہے جو بہت ہی سادہ اور واضح خط ہے؛ کوئی حرف کسی دوسرے حرف سے جا بجا نہیں ہوتا، لیکن ٹوٹے نستعلیق میں کبھی تین حرفوں کو ایک طرح سے لکھتے ہیں  اور اس میں اس چیز کا دھیان رکھا جاتا ہے کہ آپ نے قلم کے وزن کو کس طرف گرایا ہے۔ اس کیلئے پھر ماہر کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ اس میں کسی قسم کی غلطی کا امکان نہیں، بہت بہتر ہوتا ہے کہ واضح خطوط سے استفادہ کیا جائے جو نسخ اور نستعلیق ہیں۔

 

کچھ اپنی نمائش گاہوں کے بارے میں بتائیں؟

تقریباً بیس سے پچیس تک میری انفرادی نمائش گاہیں لگی ہیں اور تقریباً دس سے پندرہ کے قریب اجتماعی نمائشگاہیں۔ باقاعدہ طور پر شاید میرے ہزار کے قریب اثر ہیں جو میرے کام کے دوران فریم ہوئے ہیں ۔ ان میں سے زیادہ تر میرے پاس نہیں۔ اُن  میں سے بعض کے بارے میں مجھے نہیں پتہ کہ وہ کہاں ہیں اور حتی بعض کی تصاویر بھی میرے پاس نہیں ہیں۔ اُس زمانے میں معمولاً تصویر نہیں بنائی جاتی تھیں  اور یادگاری کے طور پر رکھنے کی بھی عادت نہیں تھی۔ چونکہ وہ زمانہ سیکھنے کا زمانہ تھا، اور کام کو اس انداز میں نہیں دیکھتے تھے۔ ان آثار کو سنبھال کر نہیں رکھا گیا لیکن الحمد اللہ ہر جگہ منتشر ہوئے ہیں۔ اب ہم کبھی کہیں جاتے ہیں تو ہمیں کوئی کام دکھایا جاتا ہے اور کہتے ہیں آپ نے یہ کام فلاں جگہ انجام دیا تھا، ہم نے خریدا تھا یا ہمیں کسی نے تحفے میں دیا تھا، یہی کافی ہے۔

 

ملک سے باہر بھی آپ کی نمائشگاہ لگی ہے؟

جی ہاں میں اپنے کاموں کو کچھ جگہوں پر لیکر گیا ہوں۔

 

کیا انھیں قبول کیا گیا؟

کہا تو تھا کہ بہت اچھا کام تھا لیکن فروش  بہت کم رہی تھی۔

 

شہدائے منا کہ نام سے آپ کا ایک آرٹ ورک ہے جو خانہ خدا کے زائرین کے ساتھ پیش آنے والے دردناک حادثہ  کے بعد ان عزیزوں کیلئے ایک یادگاری کے عنوان سے وجود میں آیا۔ شہدائے منا کیلئے وہ سائن بورڈ آپ نے آرڈر پر بنایا تھا؟

جی ہاں، حادثہ منا کے سات یا آٹھ مہینے بعد مشہد میں باغوں کی تنظیم  کے جنرل مینیجر کے ذریعہ اس سائن بورڈ کا آرڈر دیا گیا۔ خالص حالت میں اس کام کے ابعاد  پانچ میٹرمیں دومیٹر   اور اس میں تین حصے ہیں۔ کام کا زمینہ مخلوط (composite)ہے کہ ایک کام پر دوسرا کام ہوا ہے اور اُس کے بعد اُس کام پر ہاتھ سے کام کیا گیا ہے۔

کچھ اس کام کے بارے میں بتائیں؟

سائن بورڈکی دائیں طرف سے شکستہ نستعلیق خط کے ساتھ کلمہ بنی آدم کچھ نقطوں کے ساتھ آرہے ہیں، یعنی آپ کام کے  وسط میں کچھ نقطوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اُس کے بعد کلمہ بنی آدم ایک مشتاق حجم کی صورت میں شروع ہوتا ہے؛ ہم نے کوشش کی ہے اس شوق کو رقص کرتے ٹوٹے نستعلیق خط  سے ظاہر کریں کہ جیسے وہ ہر چیز سے بے بہرہ دوڑے چلے آرہے ہیں۔ شروع میں ہم نے انھیں گہرے رنگوں میں رکھا ہے اور پھر آہستہ آہستہ ان کا رنگ ہلکے رنگ میں تبدیل ہو رہا ہے  اور اس تبدیلی کو دکھانے کا مقصد یہ ہے کہ یہ لوگ کعبہ کا طواف کرنے آرہے ہیں  اور جیسے ہی آہستہ آہستہ کعبہ کے نزدیک ہوتے جاتےہیں اپنا رنگ تبدیل کرتے جاتے ہیں  اور لکھائی کا خط بھی نستعلیق میں  تبدیل ہوجاتا ہے، اُن کا ٹوٹے خط سے فرق یہ ہے کہ وہ زیادہ مرتب اور منظم  ہیں  اور حدود میں ہیں؛ یعنی وہ جیسے ہی حج کے پروگرام میں شرکت کرنے آتے ہیں وہ لاپرواہی اور بے توجہی  کو ترک کردیتے ہیں اور باقاعدہ طور سے ایک حدود میں آجاتے ہیں۔  کام کے اس حصے کیلئے خط نستعلیق سب سے بہترین انتخاب تھا، چونکہ وہ بہت ہی محکم اور فریم والے خط سے معروف ہے۔ ہمیں خط نستعلیق میں اندازوں کو خراب کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اور خطاطی کے معاملے میں ایسا صرف خط نستعلیق سے مربوط ہے، ایسی قیود اور حدود کی طرح جو ایک احرام باندھنے والے کے ساتھ ہوتی ہیں  اور اس کیلئے بہت سی پابندیاں ہوتی ہیں۔  حتی ایسا خط ثلث میں نہیں جو کہ اسلامی خطوط میں ایک محکم ترین خط ہے۔ دوسرے مرحلے کہ جس میں خانہ کعبہ ابعادی شکل کے ساتھ موجود ہے۔ اب جو افراد خانہ کعبہ کے گرد طواف کر رہے ہیں اُن کی ظاہری شکلیں ایک جیسی ہیں اور وہ سب خط ثلث کے الف کی طرح ہوگئے ہیں، لیکن مختلف اندازوں کے ساتھ اور سب کا رنگ بھی سفید ہے۔ دوسرے الفاظ میں، شکل، ظاہر اور ایک فریم میں ہیں۔ اس طواف میں ایک لطیف نکتہ ہے اور وہ بھی یہ ہے کہ  ان الفوں کے اندازے ایک دوسرے سے فرق کرتے ہیں، کوئی باریک ہے کوئی تھوڑا چوڑا ہے، آگے پیچھے ہیں اور یہ ایک طرح اور ایک لائن میں ہونے کا کنایہ ہے، یعنی وہ جو کعبہ کے نزدیک ہے  وہ کعبہ سے دور ہونے والے سے کوئی فرق نہیں رکھتا۔ ہم یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ اس ماحول نے کسی کو استثنا قرار نہیں دیا ہے۔ جب یہ طواف ختم ہوا، یہ آہستہ آہستہ حاجی بننے کے عمل میں داخل ہوگئے۔ یہاں کے بعد اُن پر کلمہ حاجی صدق کرتا اور وہ حاجی بن گئے ہیں۔ ہم تصویر میں کچھ کچھ "ح" اور کلمہ "حاجی" کی علامت دیکھ رہے ہیں۔ ہم "الف" دیکھ رہے ہیں  اور یہ بھی گاڑھی شکل میں ہے۔ ہم نے حاجی کی "ی" کو برعکس بنایا ہے تاکہ معنی دار ہوجائے۔ اس معنی میں کہ جو شخص حاجی بنا ہے، اُس کے ایک پہلو میں وسعت پیدا ہوگئی ہے اور ہم نے اس چیز کو دکھانے کی کوشش کی ہے؛ یعنی "ح"، "الف" اور "ج" اپنی جگہ پر ہیں، لیکن یہ "ی" جو حاجی بننے کے آخر میں ہے، یہ لمبی ہوگئی اور کھچ گئی ہے اور اس راستے میں زیادہ جھکاؤ حاصل کرلیا ہے؛ یہ اس بات کا بہت ہی لطیف کنایہ ہے کہ ایک طرف سے وہ ازل سے نزدیک ہوا اور دوسری طرف سے ابد سے  اور ہم نے اس "ی" کو اپنے اختیار سے لمبا بنایا ہے، جبکہ خاص قاعدہ اور نقطہ لگانے  کا قانون موجود ہے، لیکن ثلث خط میں ہمارے ہاتھ کھلے ہیں اور اس کام کو انجام دیا جاسکتا ہے۔ ہم نے تیسرے حصے میں حادثے کو ایک جلوے سے پیش کیا  اور کلمہ "حاجی" کو ایسے پر حجم انداز میں  سامنے لائے ہیں کہ جس کا بیک گراؤنڈ لال ہے، جو خون کا نشان ہے۔ البتہ وہاں پر زیادہ تر لوگ دم گھٹنے کی وجہ سے مرے تھے اور ہم نے کوشش کی ہے کہ اسے کسی طرح کلمہ شہادت سے ملا دیں  جس کا نشان خون اور رنگ لال ہے۔ کام کے آخر میں بھی لال رنگ کو چھڑکا گیا ہے، خون کے ایک قطرہ کی طرح، کیونکہ ہمارے نظریہ کے مطابق یہ حادثہ اُس جگہ کے انتظام کو کنٹرول کرنے والوں کی بے نظمی اور لاپرواہی کی وجہ سے پیش آیا ہے۔ بہرحال آخر میں روحیں سفید پرندوں کی شکل میں پرواز کرتی ہیں جو حادثے کے آخر میں دکھایا گیا ہے۔ یہ روحیں دوبارہ سائن بورڈ کی طرف پلٹتی ہیں جو کعبہ ہے اور نورانی ہے اور جسے واضح رنگ سے دکھایا گیا ہے۔ اس واپس لوٹنے میں بھی ایک لطیف نکتہ ہے؛ ہمارے عقیدے کے مطابق پاکیزہ روحیں اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہیں اور ہم نے اس اصل کی طرف لوٹنے کو کعبے کی طرف پرواز کرتے ہوئے دکھایا ہے۔ میرے شہر کا رہنے والا ایک باشندہ جو میرا دوست بھی تھا وہ بھی اس حادثہ میں موجود تھا اور مجھے پتہ چلا ہے کہ ان کے اپنے اعمال ختم ہوگئے تھے وہ صرف مدد کرنے کیلئے واپس گئے تھے اور پھر کبھی واپس نہیں آئے۔

 

آپ کا ایک اور آرٹ ورک "شہدائے مدافع حرم" کے نام سے مشہد کے بہشت رضا قبرستان میں موجود ہے۔ برائے مہربانی کچھ اس کام کے بارے میں بتائیں؟

حادثہ منا والے کام کے بعد بہشت رضا (ع) میں شہدائے مدافع حرم  کے کام کی تجویز دی گئی اور ہم سے کہا گیا کہ "شہدائے منا" والا جیسا کوئی سائن بورڈ ہونا چاہیے۔ ہم سے کہا گیا کہ کچھ مخصوص راتوں میں یہاں پروگرام منعقد ہوتے ہیں اور سب لوگ جمع ہوتے ہیں، ہم یہاں پر ایک یادگاری تصویر لگا کر ان عزیزوں کی تسلی خاطر کیلئے کچھ کام انجام دینا چاہیے۔ وہ چاہ رہے تھے کہ منا والے سائن بورڈ کی طرح کا کام ہو،  یعنی اُنہی چیزوں کو نمایاں کرکے پیش کیا جائے اور ایسا میٹریل استعمال کیا جائے جو پانی، سورج، برفباری اور بارش و ہوا سے بچا کر رکھےاور اُس کیلئے خصوصی میٹریل ہونا چاہیے جو زیادہ عرصہ تک چلنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

یہ سائن بورڈ بھی دو حصے میں بنا ہے، تاکہ اس میں موضوعی پیش منظر بھی انجام پائے اور زمانے کو بھی الگ الگ پیش کیا جائے۔ اس کے مختلف پردے تھے جو زمانے کے لحاظ سے مختلف زمانوں سےمربوط تھے اور ایک ساتھ ملے ہوئے اور ایک خط میں نہیں تھے، ضمنا یہ کہ اس کام کو اتنی مضبوطی اور پائیداری سے انجام پانا تھا کہ شدید ہوا چلنے  کی صورت میں ہوا سائن بورڈ سے عبور کر جائے۔ ہم نے اس خصوصیت کو جمع کیا کہ آخر میں دو ٹکڑوں یعنی پانچ میٹر میں دو میٹر (پانچ میٹر لمبائی اور دو میٹر چوڑائی)کے ابعاد کے ساتھ بنایا۔ کام کی دائیں طرف صحرائے کربلا اور حادثہ کربلا سے مربوط کام ہے اور ہاں البتہ عصر عاشورا سے مربوط؛ وہ خیمے جنہیں آگ لگی ہوئی ہے یا جو جل رہے ہیں اور گرد و خاک میں اٹے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کام کے دائیں طرف سے دھواں اٹھتا ہوا دیکھ رہے ہیں کہ نخلستان اور خیمے رنگوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اور آپ ایسے خیموں کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ جو حالانکہ جل رہے ہیں  لیکن پھر بھی ان کے دو پر نکل آئے ہیں جو اُن کے روح کی پرواز کرنے کی علامت ہے۔ اس حصے میں ایک لطیف نکتہ ہے؛ یہ کہ ہم نے اُس دن کے آسمان کو کچھ خون آلود اور لال رنگ کا دکھایا ہے  اور بادلوں کو بھی دکھایا گیا ہے۔ ان بادلوں سے خیموں کے اوپر بہت لطیف بارش ہو رہی ہے جنہوں نے لال رنگ کی حالت اپنائی ہوئی ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ آسمان رو رہا ہے۔ اسی حصے میں "یاحسین (ع)" کا پرچم ہے اور "یا زینب (س)" کا پرچم ہے کہ انھوں نے چاہا کہ دونوں پرچموں کو سائن بورڈ کی دائیں طرف لہلہلاتے ہوئے دکھائیں۔

جب ہم دوسرے حصے میں داخل ہوتے ہیں، حضرت زینب (س) کے حرم کا صحن  ہے اس کے بعد اندر کا ہال  اور ہم جتنا تصویر کی دائیں طرف نزدیک ہوں گے حرم کے داخلی دروازے کے قریب ہوں گے اُس کے بعد حضرت کے روضہ کا گنبد اور پھر حرم سے گزرنے کے بعد  کچھ آگ لگی ہوئی ہے اور شعلہ اور پرندے جو ارواح کی علامت ہے وہ اوپر کی طرف جارہے ہیں۔ آرڈر دینے والے کی تجویز کے مطابق؛ ہم نے اندر کے ہال کو کچھ حذف کیا  اور اُس کی جگہ بند مٹھی کی علامت لگائی جو وہاں کے مدافعین کی عکاسی کر رہی ہے اور حرم کے اوپر والے حصے میں وہی آسمان والا منظر اور بادل جو ایک طرح سے حرم کے گنبد کے اوپر سے گزر رہے ہیں۔ آخر میں کام اُسی بیان شدہ میٹریل کے ساتھ کیا گیا۔ پینٹنگ بنانے میں نسبتاً خطاطی سے زیادہ کام ہوتا ہے اور سائن بورڈ میں نمایاں صورت میں خط معلی کے ساتھ لکھا ہوا ہے "کل یوم عاشورا و کل ارض کربلا"۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ "کل ارض کربلا" کو زمین کے نزدیک پیش کریں جو زمین کی طرف اشارہ ہے اور "کل یوم عاشورا" کو آسمان کی طرف، چونکہ اس میں زمانے کی طرف اشارہ ہے۔ سائن بورڈ پر عبارتیں بھی لکھی ہوئی ہیں، جن میں سے حضرت زینب کے حرم کے بالائی حصے  کی عبارت۔ یہ قابل توجہ عبارت ہے، کیونکہ امام شافعی کی ہے۔

 

آخر میں اگر کوئی نکتہ ہے تو بیان کیجئے؟

ایک طرح سے فقط شکر گزار ہیں اور ہم اس کا حق بھی ادا نہیں کرسکتے اور مجھے یقین ہے کہ خداوند متعال نے مجھے میری لیاقت سے زیادہ نوازا ہے اور اس کا کرم شامل حال ہے اور زیادہ ہے۔ اگر خدا ہماری لیاقت کے مطابق ہمیں عطا کرتا تو حالات بہت برے ہوتے۔ لیکن کچھ ظاہری مسائل ہوتےہیں کہ جبری طور پر پیش آتے ہیں اور کبھی انسان کی فضول حرکتوں کی وجہ سے، لیکن کلی طور پر جس طرح بھی دیکھا جائے کوئی شکوہ و شکایت نہیں ہے، صرف اور صرف شکر ہے۔ لیکن میں خلاصتاً یہ بات کہہ دوں کہ ہنر مند افراد  بے توقع، گوشہ اختیار کرنے والے،  بے ضرر اور فائدہ مند ہیں۔ ایک ہنرمند کبھی کھار ایک منسٹری کا کام انجام دے سکتا ہے  اور عہدیداران اور مسئولین نے اس بات کو دنیا کے مختلف کرات پر تجربہ کیا ہے۔ آرٹ ورک سے مربوط پروگرام اور تقریبات ایک دن میں ختم ہوجاتے ہیں، لیکن فکر اور ہنر کبھی ختم نہیں ہوتا۔ جب کسی ہنر مند کا کوئی آرٹ ورک سامنے آتا ہے، وہ آرٹ ورک اپنے مخاطبین اور دیکھنے والے سے ہمیشہ بات کرنے میں مشغول ہوتا ہے اور اپنے بنانے والے کی باتوں کو اس تک منتقل کر رہا ہوتا ہے، ہنرمند اپنے آرٹ ورک میں زندہ ہے اور کم خرچے والا، کم خطرے والا اور زیادہ اثر رکھنے والا ایک مطلب ایک آرٹ ورک میں بہت اچھی طرح بیان ہوسکتا ہے۔ ایسا معاشرہ کامیاب ہوتا ہے جو اپنے ہنرمندوں کے تخلیات فائدہ اٹھاتا ہے۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3847



http://oral-history.ir/?page=post&id=8599