یادوں بھری رات کا ۳۰۰ واں پروگرام (۲)

جناب نوری اور محترمہ مفتونی کی آب بیتی

مریم رجبی

مترجم: کنیز طیبہ

2019-04-14


ایرانی اورل ہسٹری سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۳۰۰  واں پروگرام، جمعرات کی شام، ۲۲ فروری ۲۰۱۹ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اس پروگرام میں مسعود قندی، حسین نوری اور اُن کی زوجہ نادیا مفتونی، عبد الحسین مختاباد اور عبد الحمید قدیریان نے ایران پر عراق کی مسلط کردہ جنگ کے دوران اپنے واقعات کو بیان کیا۔ آپ اس رپورٹ کے پہلے حصے میں جناب مسعودی قندی  کے واقعات کو پڑھ چکے ہیں۔

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کے ۳۰۰ویں پروگرام کے دوسرے راوی کی زندگی کے مختلف پہلو ہیں۔ اُن کی ولادت، اُن کی نوجوانی کا زمانہ  اور اُن کا مصوری میں دلچسپی لینے کا آغازمشہد میں ہوا۔ اُس کے بعد وہ تہران چلے گئے اور انقلاب سے پہلے سیاسی حالات سے جڑ گئے۔ اُن کی زندگی کا دوسرا پہلو اُس زمانے سے مربوط ہے جس میں انھوں نے سیاسی سرگرمیوں  میں حصہ لیا۔ ان کی سیاسی سرگرمیاں ثقافت و ہنر سے منسلک ہوگئیں۔ اُن کی زندگی کا ایک اورپہلو اُس زمانے سے مربوط ہے جب وہ شریف انڈسٹریل یونیورسٹی میں گئے اور وہاں پر اُن کی ایک خاتون سے آشنائی ہوئی۔ اُن کی صلاحیتوں کا بعد والا پہلو مصوری،  تالیف، ڈرامہ اسکرپٹ لکھنا، ٹی وی اور سینما پر ہدایت کاری، ڈاکومنٹری وغیرہ کے دئراہ کار میں ہے، لیکن وہ کام جس سے وہ پوری دنیا میں مشہور ہوگئے، وہ ڈنمارک میں کارٹون بنانے والے کے مقابلے میں ردّ عمل کا اظہار ہے کہ جس نے رحمت للعالمین حضرت محمد (ص) کی شان میں گستاخی کی ۔ ۳۰۰ ویں یادوں بھری رات کے دوسرے راوی نے فروری سن ۲۰۰۶ میں عالمی شہرت پائی اور ملکی و غیر ملکی ٹی وی پر مسلسل اُس فداکار کی تصویر دکھائی جا رہی تھی کہ اس کے باوجود جس کے ہاتھوں میں مصوری کرنے کی ہمت نہیں تھی، اُس نے قلم کو منہ سے پکڑ کر، تہران میں موجود ڈنمارک  سفارت خانے کے سامنے حضرت مریم (س) کی ایک تصویر بنائی۔ انھوں نے پوری دنیا کے سامنے اپنے اعتراض کا اس طرح  سے اظہار کیا۔

داؤد صالِحی جو پروگرام کے میزبان تھے، انھوں نے جناب حسین نوری سے پوچھا: "آپ کو ساواک نے کیسے گرفتار کیا؟" جناب نوری نے جواب میں کہا: "اس کے پیچھے پوری داستان ہے۔ میں نےسابقہ فرح اکیڈمی میں جو اشرف پہلوی اور ساواک کے زیر نظر تھی، وہاں  انسانی حقوق سے متعلق سیاسی طنز و مزاح پر مبنی ڈرامہ اسکرپٹ لکھا۔ وہاں پر پولیس کیڈٹ کالج اور تھانے کے افسروں کی حکمرانی تھی  اور وہ ہمیں بادشاہی جشنوں کیلئے تیاری کرواتے  تھے۔ اُن جشنوں میں پولیس گارڈ اور بادشاہی گارڈ، شاہ اور اُس کے مہمانوں کے سامنے گروپ کی صورت میں ورزشیں، نمائشی حرکات اور کراٹے اور اس طرح کے دوسرے کام انجام دیتے تھے۔ ہم نے تقریباً چار مہینے تک دباؤ اور زور زبردستی کو برداشت کیا۔ بعض دفعہ ہمارے ساتھ فوجیوں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا اور انھوں نے بڑے آرام سے اس کا نام لازمی ورزشیں رکھا ہوا تھا۔ شاہ اوراُس کے مہمانوں کے سامنے پانچ منٹ جانے کیلئے  ہماری حیثیت غلاموں کی طرح ہوچکی تھی۔ جسم اس طرح ٹوٹ جاتا تھا اور اتنی مشکلات کا سامنا تھا کہ میں وہ ڈرامہ اسکرپٹ لکھنے پر مجبورا ہوگیا اور مجھے اُس کی وجہ سے قید، اذیت اور شکنجے دیئے گئے۔ ایک سیکنڈ لیفٹیننٹ تھا جو ظالم اور غصیلا انسان تھااور وہ اسی وجہ سے وہاں آیا تھا۔ وہ شروع سے ہی بہت بدتمیزی سے پیش آتا تھا اور لوگوں پر دباؤ ڈالتا تھا۔ اُسے جوڈو کراٹے آتے تھے ، وہ سب کو ایک ساتھ اذیت و شکنجے دیتا تھا۔ لوگوں نے چیخ و پکار مچائی اور فرار کر گئے۔ میں اصلی لوگوں میں سے تھا۔ کچھ لوگوں نے شکنجوں کے دباؤ میں آکر میرا نام لے لیا کہ میں اصلی لوگوں میں سے ہوں اور میں نے ہی باقی دوسرے افراد کا اُکسایا تھا۔ مجھے اور کچھ دوسرے لوگوں کو پکڑ لیا گیا۔ پہلے تو وہیں پر (اکیڈمی) شکنجے دیئے۔وہ سیکنڈ لیفٹیننٹ پولیس تھانے کے ایک افسر کے ساتھ جو لمبے چوڑے ہیکل والا تھا، ہمیں صبح سے رات تک ایک نیکر میں سورج کے سامنے  ڈامر پر کھڑا رکھتا تھا اور ہمیں پانی بھی نہیں دیتے تھے۔ جب ہم بے حال ہوجاتے تو ہمیں تار  اور ڈنڈی سے مارتے۔ ہمیں ذہنی تکلیف پہنچاتے۔ جب ہم بے حال ہوجاتے، ہمیں نزدیک سے اُن کے قدموں کی آواز آنے لگتی اور وہ اچانک ہماری گدّی اور گردن پر لات مارتے۔ دوبارہ ہمارے پاس سے گزرتے، ہم سوچتے کہ وہ ماریں گے اس لئے ہم اپنے جسم کو اکڑا لیتے تھے، لیکن وہ نہیں مارتے اور واپس آتے وقت جب ہم سوچتے کہ اس دفعہ نہیں ماریں گے، مار دیتے تھے۔ یہاں تک کہ اگر ہمیں شہد کی مکھی بھی کاٹ لیتی تو ہمیں ہلنے کی اجازت نہیں تھی۔ بعض افراد جن میں طاقت نہیں تھی وہ پانی نہ ملنے اور دھوپ کی گرمائی سے بیہوش ہوجاتے ، وہ منہ کے بل زمین پر گر پڑتے تھے  اور اُن کے دانت ٹوٹ جاتے۔ہم اس قدر چوکنے کھڑے ہوتے تھے کہ ہمارے ہاتھ اکڑ جاتے تھے اور ہم گرتے وقت اپنے ہاتھوں سے سہارا نہیں لے سکتے تھے۔ دوسرا مرحلہ اور زیادہ وحشت ناک تھا۔ ہمارے سروں کو  رنگ کی بالٹی میں ڈال دیا اور ہمیں رنگ والے اسٹور میں لٹا دیا؛ جہاں رنگ اور تھنر کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ بہت وحشت ناک طریقے سے مارتے تھے۔ اُنہیں اب مجھ سے کوئی اُمید نہیں رہی تھی ورنہ مجھے جیل تک جانا پڑتا۔

یہ واقعات سن ۱۹۷۱ اور زیادہ تر سن ۱۹۷۲ کے ہیں۔ میں بچپن سے ہی ڈرائنگ بناتا تھا۔ میں ان واقعات سے پہلے جمناسٹک کیا کرتا تھا اور میں اس کام میں بہت ماہر تھا۔ آکروبیٹک (Acrobatic) حرکات انجام دیتا تھا۔ جب مجھ سے میرے دونوں ہاتھوں کی ہمت اور طاقت چھن گئی تو میں نے مصوری کے کام کو چھوڑا نہیں۔ میں گھٹنے کی مدد سے تصویریں بناتا تھا۔ میں بہت کوشش کرتا تھا تاکہ کسی نہ کسی طرح ایک چیز بنالوں۔ ایک دفعہ میں بہت بڑے بورڈ پر ایک تصویر بنا رہا تھا۔ میں بار بار اپنے ہاتھ کو اوپر اٹھاتا اور وہ گر جاتا۔ میں نے پوری کوشش کرلی لیکن اپنے ہاتھ کو اوپر اٹھا کر نہیں رکھ سکا۔ میں مستقل اپنے آپ سے کہے جا رہا تھا: "ارادہ کرو، ارادہ کرو ۔۔۔"مصوری میں پہلے ڈیزائن کو پینسل سے بناتے ہیں اور اگر پسند آجائے تو پھر رنگ کرنا شروع کرتے ہیں، لیکن میں اگر پینسل کو منھ سے پکڑتا تو میری آنکھوں میں تکلیف ہوتی، اسی وجہ سے میں ابتداء سے ہی رنگ سے کام کرنا شروع کرتا ہوں اور پھر میرے لیے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں کل سے جزء کی طرف جاؤں یا جزء سے کل کی طرف جاؤں۔ میں اوائل میں کسی بلندی یا ویل چیئر پر ڈیزائن بناسکتا تھا، لیکن آہستہ آہستہ میرا توازن کم ہوگیااور اچانک مجھے چکر آنے لگ جاتے اور میں گر جاتا۔ ہمیشہ میرے ساتھ ایک آدمی ہوتا تھا تاکہ اگر میرا توازن خراب ہو تو وہ مجھے سنبھال لے۔ کبھی کبھار اُسے مجھ تک پہنچنے میں دیر ہوجاتی تو میں زمین پر گر جاتا اور مجھے کہیں نہ کہیں چوٹ لگ جاتی۔ اساتید جانتے ہیں کہ تصویر بناتے وقت، کچھ دفعہ برش مارنے کے بعد، پیچھے جاکر دیکھنا چاہیے کہ اُس کے رنگ کی ترکیب کیسی ہے  اور تصویر کے دوسرے حصوں سے اُس کا تناسب کیسا ہے؟ میں تصویر بناتے وقت کبھی بورڈ کو برعکس کردیتا ہوں تاکہ آسانی سے اُس کے تمام حصوں کو دیکھ سکوں۔ مجھ سے مصوری کرنے والے بعض احباب پوچھتے ہیں کہ تم کس طرح یہ کام کرلیتے ہو؟ اس طرح تو ہر چیز گڑبڑا جاتی ہے؟ میرا یہ کام اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ میں نے ہنر کو انتخاب نہیں کیا بلکہ ہنر نے میرا انتخاب کیا ہے۔ اس ہنر نے مجھ سے میرے دن و رات  لے لئے اور لے رہا ہے تاکہ میں بیکار نہ رہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں کیسے اس سے چھٹکارا پا سکتا ہوں! اُس بڑے بورڈ پر تصویر بناتے ہوئے میں نے خود کو پیچھے ہٹایا اور کام پر ایک نگاہ ڈالی۔ میں نے دیکھا کہ ہر چیز اپنی جگہ پر  ہے، لیکن اچانک مجھے اپنے جبڑے میں شدید درد کا احساس ہوا۔ میں نے اپنے جبڑے کے درد کو کم کرنے کیلئے منھ کھولا تو مجھے ایک آواز آئی۔ میں نے دیکھا کہ کوئی چیز میرے پیروں پر گری ہے۔  مجھے اُس وقت احساس ہوا کہ میں نے برش کو بے اختیار دانتوں سے پکڑلیا تھا؛ بالکل اُس وقت کی طرح جب میں ہاتھوں سے کام کرتا تھا۔ میں نے بورڈ کو مکمل کیا  اور اس طرح میں نے منھ سے کام کرنا شروع کیا۔ اِس وقت بھی میرے ہاتھ اور پیروں کی انگلیاں بے حس ہیں  اور یہ بے حسی آہستہ آہستہ میرے جسم کے اوپری حصے کی طرف بھی بڑھ رہی ہے۔ میں بہت کم چیزوں کو حس کرتا ہوں۔ میرے بدن کا وہ حصہ جو سب سے زیادہ حس کرتا ہے، وہ میری دائیں آنکھ کے اطراف کا حصہ ہے۔ میرے مغز کی دائیں طرف ہمیشہ درد رہتا ہے اور اگر کبھی یہ درد نہ ہو، مجھے تعجب ہوتا ہے، اس طرح سے کہ مجھے اس درد سے اپنے جسم کی سلامتی کا پتہ چلتا ہے۔"

پروگرام کے میزبان نے محترمہ نادیا مفتونی سے پوچھا کہ "سچ میں آپ نے حسین نوری سے شادی کی درخواست کی تھی؟" جناب نوری نے کہا: "مجھے دل ہی دل میں ان سے عشق ہوگیا تھا  اور میں دل ہی دل میں ان سے شادی کی درخواست کرچکا تھا۔۔۔" محترمہ مفتونی نے بھی کہا: "ان کے دل میں کیا گزر رہا تھا مجھے اس بارے میں کوئی خبر نہیں تھی۔" انھوں نے مزید کہا: "سن ۱۹۷۹ میں جب انقلاب آیا، میں ساتویں کلاس میں تھی۔ میں نے سن ۱۹۸۳ء میں انٹر کیا اور شریف انڈسٹریل یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور  وہاں میں نے اپلائیڈ فزکس پڑھی۔ میں نے جناب نوری  کو سن ۱۹۸۴ میں اتفاق سے ایک پروگرام میں دیکھا جب وہ گفتگو کر رہے تھے۔ بس اُسی دن سے ۔۔۔ میرے گھر والے حزب اللٰہی  اور انقلاب کے حامی تھے۔ میرا اپنی پڑھائی کو جاری رکھنے اور ماہر فزکس بننے کا بہت دل چاہتا تھا ؛ اسی وجہ سے میں نہیں چاہتی تھی کہ ہماری شادی اس طرح سے ہو لیکن وہ مجھے اتنے اچھے لگے تھے کہ جب میں نے انہیں دوسری دفعہ دیکھا، میں نے وہیں شریف انڈسٹریل یونیورسٹی میں اُن سے درخواست کی  اگر آپ مجھے اس  قابل سمجھتے ہیں تو مجھے اپنے ساتھ زندگی گزارنے کیلئے قبول کرلیں۔ حتی مجھے یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ وہ کنوارے ہیں یا شادی شدہ ہیں، میں نے سوچا اگر وہ شادی شدہ ہوں گے تو مجھے بتا دیں گے۔ مجھے یونیورسٹی کے دوسرے افراد سے اُن کے کنوارے یا شادی شدہ ہونے کے بارے میں پوچھتے ہوئے شرم آرہی تھی، اس لئے میں نے خود اُن سے پوچھنا بہتر سمجھا۔ میں نے اُن سے درخواست کی اور انھوں نے شکر کا سجدہ کیا۔ باقی باتوں کو کاٹ رہی ہوں اور ہم آج کی بات کرتے ہیں کہ ہمارے دو نواسے ہیں ۔۔۔"

حسین نوری نے نادیا مفتونی سے آشنا ہونے کے بارے میں بتایا: "جب میں تہران آیا تھا، تعلیمی اداروں، یونیورسٹیوں، آرٹ شعبے اور دوسرے اداروں کے ساتھ کام کرتا تھا۔ شریف یونیورسٹی کے ثقافتی گروپ نے مجھے یونیورسٹی میں دعوت دی تھی۔ میں طالب علموں کے فرہنگی کاموں کا جائزہ لیتا تھا؛ فلم اسکرپٹ، ڈرامہ اسکرپٹ، مصوری اور میں ہر کسی کیلئے کچھ باتیں لکھ دیتا، کبھی خود اُن سے بات کرتا  اور  اُنھیں اُن کے کام کے منفی اورمثبت پہلوؤں کے بارے میں بتاتا۔ میں نے اپنی بیوی کو شروع میں نہیں دیکھا تھا،  اُس نے ایک ڈرامہ اسکرپٹ لکھا تھا۔ جب میں نے وہ اسکرپٹ پڑھا تو مجھے احساس ہوا کہ میری  اور اِس اسکرپٹ لکھنے والے کی روح ایک دوسرے سے کتنی ملتی ہے۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ میں نے خود لکھا ہے۔ جیسا کہ اُس نے بتایا، اُس نے مجھ سے شادی کی درخواست کی اور میں نے شکر کا سجدہ کیا۔ بعد میں، میں نے اپنے آپ سے کہا: "تم کیا چیز ہو؟ تم کون ہوتے ہو جو ایک پاکیزہ اور معصوم لڑکی کو اس وحشت ناک صورت حال میں اپنا اسیر بنانا چاہتے ہو؟ تمہاری آواز نہیں نکلتی، ہفتہ میں کئی مرتبہ تمہیں سانس کا مسئلہ پیش آتا ہے، مصنوعی سانس کے ذریعے تم اُس دنیا سے واپس آتے ہواور تمہاری کئی اندرونی چوٹوں سے خون رِستا ہے۔ تم اس لڑکی کے ساتھ یہ کیا کرنا چاہتے ہو؟" میں نے سوچا کہ مجھے اپنے علاقے میں واپس چلے جانا چاہیے تاکہ ایسا کوئی واقعہ ہی پیش نہ آئے۔ ثقافتی گروپ کے افراد کہتے کہ آپ ان محترمہ کو ان کے کام کے بارے میں بتائیں  اور میں ہمیشہ اِدھر اُدھر کی بات کرجاتا، میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ اس طرف آئے۔ وہ مجھ سے کہتے کہ تم صرف اُس کیلئے ایک سطر لکھ دو  اور بتادو کہ اُس کا کام اچھا ہے یا برا ہے؟ میں اُن سے کہتا کہ میں اپنے شہر میں واپس جانا چاہتا ہوں ، وہ سمجھ گئے کہ  اس بات سے کچھ بہار کی خوشبو آرہی ہے۔ میں ۱۵ سال تک مشہد میں رہا اور شکنجہ ہونے کے دو تین سال بعد میں اپنی ماں کے پاس "تربت جام" چلا گیا۔ میری والدہ نرس تھیں اور تربت جام منتقل ہوچکی تھیں۔ میں نے اُن سے کہا کہ میں اپنے شہر واپس جانا چاہتا ہوں، انھوں نے کہا کم سے کم خدا حافظی کرنے تو آؤ۔ وہ لوگ مجھے اُس سے ملانا چاہتے تھے۔ میں اُن کے نقشے کو سمجھ گیا، میں نے کہا میں جمعرات کو آؤں گا، چونکہ جمعرات کو یونیورسٹی کی چھٹی ہوتی تھی۔ اُنھوں نے کہا نہیں بدھ کو آؤ، سب ایک ساتھ مل کر بیٹھیں گے۔ میں نے کہا: جمعرات کو آؤں گا۔ وہ لوگ مان گئے، لیکن انھوں نے اُس کو بتا دیا کہ میں جمعرات کو خدا حافظی کرنے آ رہا ہوں۔ میں جیسے ہی وہاں پہنچا، معشوق کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوا۔ میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ وہ شاعر بھی تھی۔ میں نے کہا میں نے چھ مصرعے کہے ہیں اور ہر مصرعے کا دوسرا مصرعہ نہیں کہہ سکا ہوں، کیا تم اُن کے دوسرے مصرعے کہہ سکتی ہو؟ میں نے اُن شعروں میں اُس سے اپنی وابستگی کا اظہار بھی کردیا تھا  اور یہ بھی کہہ دیا تھا کہ میری زندگی وحشت ناک ہے اور تمہیں اس کام سے صرف نظر کرلینا چاہیے۔"

حسین نوری اور نادیا مفتونی کے درمیان جو شعروں کا تبادلہ ہواتھا،  اس طرح سے تھا:نوری: " میرے زخمی جسم کو تم سے لگاؤ ہے بہت" مفتونی: "تیرے ایماں  کی صلابت پرجھکاؤ ہے بہت" نوری: " طے کرو گی کس طرح  درد و الم کا یہ سفر؟" مفتونی: "عاشقوں کے شعر    پھیلائیں گے خوشیوں کی خبر" نوری:" زندگی میری بلاؤں میں گھری ہے سوچ لو؟" مفتونی: "کربلا کی خاک اپنا لوں گی بس تم  جان لو" نوری: " گر فنا کی موج تم کو گھیر لے گرداب میں ؟" مفتونی: "ڈوب جاؤں گی میں تیرے عشق کے سیلاب میں" نوری:" وہ سبب کیا ہے جو میری بن رہی ہو ھم سفر؟" مفتونی: "سب پہ حاوی تیرا ایماں تو یقیں کرلے اگر" نوری: " سوچ میری ، میرا باطن جانتی ہو تم بھلا؟" مفتونی: "جانتا ہے میرا خالق  تیرا باطن باخدا"

میزبان نے محترمہ نادیہ مفتونی سے پوچھا کہ آپ کا حق مہر کتناہے؟ انھوں نے جواب میں کہا: "میرا حق مہر خاک کربلا کی ایک سجدہ گاہ ہے۔" حسین نوری بھی بولے:"میں نے حق مہر کیلئے مختلف تجاویز رکھیں لیکن وہ نہیں مانی، حتی شام اور کربلا کی زیارت کو بھی قبول نہیں کیا۔ ۳۵ سال ہونے کو آرہے ہیں اور ہمارے کسی دوست، جاننے والے اور بچوں نے بھی نہیں دیکھا کہ اُس نے مجھے کبھی "تم" کہہ کر بلایا ہو۔ وہ رات میں کئی مرتبہ نیند سے بیدار ہوتی ہے اور میری حالت اور گردے کی تکلیف  کی وجہ سے مجھے پانی پلاتی ہے۔ وہ آج بھی اُسی طرح میری عاشق ہے اور میرا احترام کرتی ہے۔ کسی نے بھی ہماری زندگی میں کوئی منفی پہلو نہیں دیکھا۔ جہاں بھی ہمیں تقریر کرنے کیلئے بلایا جاتا ہے، ہم کسی کو نصیحت نہیں کرتے۔ ہم اپنی زندگی اور اپنے واقعات کو بیان کرتے ہیں۔ حتی ہم نے اپنے بچوں سے بھی کچھ نہیں کہا۔ ہم نے اُن سے کہہ دیا کہ آپ دنیا کے جس کونے سے بھی چاہیں اپنے شریک حیات کا انتخاب کرسکتے ہیں، ہم آپ کے ماں باپ ہیں، اگر ہماری طرح بننا چاہتے ہو تو بن جاؤ، نہیں چاہتے تو نہیں  بنو، تم لوگوں کی اپنی زندگی اور تقدیر ہے۔ میں ایک ایسا ناول لکھ رہا ہوں جو میری والدہ کی پیدائش سے پہلے سے لیکر میری زندگی تک کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ میں نے شروع سے لیکر اپنے چھ سال کے ہونے تک  جو واقعات لکھے ہیں، مجھے اُس میں تقریباً تین سال کا عرصہ لگا ہے۔"


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 2990



http://oral-history.ir/?page=post&id=8484