یادوں بھری رات کا ۳۰۰ واں پروگرام (۱)

فرنٹ لائن کی طرف

مریم رجبی

مترجم: کنیز طیبہ

2019-03-30


ایرانی اورل ہسٹری سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۳۰۰  واں پروگرام، جمعرات کی شام، ۲۲ فروری ۲۰۱۹ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اس پروگرام میں مسعود قندی، حسین نوری اور اُن کی زوجہ نادیا مفتونی، عبد الحسین مختاباد اور عبد الحمید قدیریان نے ایران پر عراق کی مسلط کردہ جنگ کے دوران اپنے واقعات کو بیان کیا۔

۳۰۰ ویں یادوں بھری رات کے سب سے پہلے راوی کا تعلق تہران سے ہے جو  سن ۱۹۵۹ میں پیدا ہوئے۔ وہ عام طور سے انفرادی (اکیلے)  صورت میں دفاع مقدس کے محاذوں پر گئے  اور ایسا بہت کم ہوا کہ وہ گروپس کی صورت میں محاذ پر گئے ہوں۔ وہ محاذوں پر زیادہ تر لاجسٹک، تبلیغات، کمیونیکشن کے یونٹوں میں تھے اور وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اُن کی زندگی  کے شیرین ترین لمحات اُن سالوں سے مربوط ہیں جو انھوں نے محاذوں پر گزارے ہیں۔

مسعود قندی نے کہا: "جب جنگ شروع ہوئی، ایرانی لوگوں کے دلوں کا چین برباد ہوگیا تھا، اُن کے دل جنگی علاقوں میں لگے ہوئے تھے۔ بعض لوگ جاسکتے  تھے اور بعض لوگ ہماری طرح نہیں جاسکتے تھے۔ میں آرٹ گیلری میں کام کرتا تھا اور فنون و ہنر سے متعلق کام انجام دیتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ اگر میں کسی جگہ جاکر وہاں پر نام لکھوا کر صبر کروں کہ جب کچھ لوگ جمع ہوجائیں اور پھر اُس کے بعد مجھے محاذ پر لیکر جائیں، تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور میں اپنے کام سے پیچھے رہ جاؤں گا۔ میں نے سفارش سے کام لیا، اپنے ایک جاننے والے سے طے کرلیا اور ہم جنگی علاقے میں چلے گئے۔ انھوں نے کہا کہ فرنٹ لائن کی طرف چلتے ہیں۔ مجھ سے پوچھا کہ تم کون سی فیلڈ میں جانا چاہتے ہو؟ جہاں تک کہ مجھے کوئی معلومات نہیں تھی، میں نے کہا: جس طرح آپ بہتر سمجھیں۔ میں سوچ رہا تھا جیسا کہ میں آرٹ ورک کرتا ہوں، مجھے تبلیغات والے شعبے یا اس طرح کے کسی دوسرے شعبے میں لے جائیں گے۔ انھوں نے پوچھا: ہم مارشل انجینئرنگ میں چلیں؟ میں سوچنے لگا کہ مجھے کیا کام آتا ہے؟ البتہ مجھے نقشے بنانا آتے ہیں اور میں نے سوچا کہ شاید وہ مجھے نقشہ بنانے کیلئے اس شعبے میں لے جانا چاہتے ہیں۔

رات کو تقریباً بارہ یا ایک بجے کے قریب سپاہیوں سے کہا کہ سب چلنے کیلئے کھڑے ہوجائیں۔ ہمیں گاڑی میں سوار کیا گیا اور گاڑیاں بہت تیز رفتاری کے ساتھ لائٹیں بند کرکے چل رہی تھیں۔ جیسا کہ میرے ساتھ ایسی صورت حال پہلی دفعہ پیش  آئی تھی، مجھے بہت زیادہ تکلیف ہوئی اور میری کمر  میں درد ہونے لگا۔ اُس کے بعد کہا گیا کہ اب تھوڑا راستہ پیدل طے کرنا ہے۔ ہم لوگ چلے۔ ہم لوگ ایک جگہ پہنچ گئے اور ہمارے ہاتھوں میں بیلچے تھما دیئے گئے۔ ہم نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: یہ مارشل انجینئرنگ ہے! ہم کھدائی کیلئے مکینکل مشین نہیں لاسکتے، بہت زیادہ شور ہوتا ہے۔ ہمیں یہاں کھدائی کرکے ایک راستہ بنانا ہے تاکہ عراقی آپریشن نہیں کرسکیں اور سپاہی اس راستے سے گزر جائیں۔ ہم رات سے لیکر صبح تک کھدائی کرتے رہے۔ دس سے پندرہ منٹ آرام کرتے اور پھر  کام سے لگ جاتے۔ ہمیں کسی چیز کی کوئی خبر نہیں تھی اور ہم خیال کر رہے تھے کہ لاجسٹک یونٹ آئیگا اور کھانے لائے گا۔ دوپہر کے گیارہ بارہ بج گئے ، ہم نے دیکھا کہ کسی چیز کی کوئی خبر نہیں ہے۔ بھوک اور پیاس سے ہماری حالت بری تھی۔ خداوند متعال شہید چمران کے والد کی مغفرت کرے۔ اُ س سے پہلے، انھوں نے وہاں پر پانی کو روک کر رکھا ہوا تھا تاکہ عراقی ٹینک کیچڑ میں پھنس جائیں۔ وہ پانی جمع ہوکر ایک تالاب کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ ہم نے اُسی پانی سے اپنی پیاس بجھانے کی کوشش کی۔ البتہ حقیقت میں وہ پانی کھولتا ہوا پانی تھا۔ جب ہم ٹھنڈا پانی پینا چاہتے تھے تو سورج غروب ہونے کا انتظار کرتے تھے۔ ہم نے بہت دنوں تک ایسے ہی گزارا کیا۔ اُس علاقے میں بھی معمول یہ تھا کہ سپاہی جس کیمپ میں بھی  ہوتے، ہر صبح کو ایک پروگرام  ہوتا تھا، قرآن اور نغمہ پڑھا جاتا، اُس کے بعد ورزش کرتے تھے ، پھر ناشتہ کرنے کیلئے جاتے تھے۔ وہ افراد جو جنگی علاقے میں تھے، جب وہ ایک دوسرے سے ملتے تھے، اس شعر کو پڑھتے تھے: یہ کون لوگ ہیں؟ ایک دوسرے کے بھائی ہیں، محاذوں پر ایک مورچے میں ہیں اور جب یہ لوگ مارشل  انجینئرنگ کے افراد کو دیکھتے تھے، مذاق میں کہتے تھے: یہ کون  لوگ ہیں؟ ۔۔۔ محاذوں پر مقتنی ہیں! (مقنی – کنواں کھودنے والے) ہم ساتھیوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ جب صبح کا پروگرام ختم ہوجائے  اور جب ہم ورزش کرنے جانا چاہیں تو ہم ایک ایسی طرف جائیں جہاں ہمیں کوئی نہ دیکھے۔ ہم بقیہ افراد سے دور ہوئے، لیکن پھر بھی وہ لوگ پکار رہے ہوتے اور ہمارے لئے یہ شعر پڑھ رہے ہوتے۔ ہم کہتے کہ اگر ہم ٹیلے کے پیچھے بھی چلے جائیں، یہ لوگ پھر بھی ہمارے لیے یہ شعر پڑھیں گے۔"

مسعود قندی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: "میں جنگی علاقے میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد تہران آجاتا تھا اور آرٹ ورک  کو جاری رکھتا تھا اور اگر کوئی آپریشن ہونا ہوتا، تو افراد مجھے فون کرکے کہہ دیتے کہ آجاؤ اور انفرادی آنے کا دستور لیکر آنا۔ اکیلے جانے کیلئے جب سپاہی جانے کی اجازت لینے جاتے تھے، تو وہاں اُن سے پوچھا جاتا تھا: تم کیا کرتے ہو؟ وہ کہتے تھے: سنیپر چلانے والے ہیں اور جب ہم سے پوچھا جاتا، ہم کہتے : بیلچہ چلانے والے ہیں! میں نے اپنے جنگی علاقے کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں کچھ عرصے تک امام حسین (ع) ڈویژن کے افراد کے ساتھ اور اُس کے بعد تہران کے لوگوں کے ساتھ گیا۔ کچھ عرصے کیلئے میں مالک اشتر بٹالین کے ساتھ بھی گیا تاکہ مجھے کوئی نہ پہچانے۔ میں نے دیکھا کہ جو کوئی بھی میرے پاس سے گزرتا ہے، وہ پوچھتا ہے: جناب قندی آپ خیریت سے ہیں؟ میں انھیں پہلی دفعہ دیکھ رہا تھا، مجھے نہیں معلوم وہ لوگ مجھے کیسے جانتے تھے؟ رہنے دیں ، ایسا لگ رہا تھا کہ میرے مارشل انجینئر ہونے کی خبر ہر جگہ پھیل گئی تھی اور شاید وہ مجھے بیلچہ کے ساتھ دیکھتے تھے۔

سپاہیوں کو پتہ تھا کہ میں آرٹ ورک کیا کرتا ہوں۔ میرا ایک دوست جو بٹالین کے تبلیغات شعبے میں تھااور اُسے ۲۷ ویں محمد رسول اللہ (ص) ڈویژن میں تبلیغات شعبے میں لے گئے تھے، وہ مجھے زبردستی ڈویژن کے تبلیغات شعبے میں لے گیا، چونکہ میں چاہتا تھا کہ میں بھی ہاتھوں میں کچھ اسلحہ اٹھاؤں تاکہ جب میں تہران واپس آؤں تو اپنے دوستوں کے سامنے اسٹائل مار سکوں۔ مہران کو آزاد کرانے والا آپریشن ہونے والا تھا اور ڈویژن کے تبلیغات شعبے میں مختلف طرح کے کام تھے۔ ایک سائن بورڈ پر لکھنے کا کام تھا۔ مثلاً لکھیں "فرنٹ لائن کی طرف"، "سپاہی، بسیجی، دلاور، سلامت رہو"، "مسکراؤ بسیجی"۔ آپریشن ہوا اور سپاہی چلے گئے۔ طے پایا کہ ہم بھی صبح ہوتے ہی سامان کو لوڈ کریں اور فرنٹ لائن پر جاکر انہیں لگائیں۔ ہم نے احسان رجبی، عادل دوان کشی اور تبلیغات شعبے کےدوسرے افراد کے ساتھ سوزوکی پر سامان لوڈ کیا اور چل پڑے۔ ہمارے ساتھ ایک خطاط تھا جو بہت ہی زبردست لکھتا تھا۔ اُس نے بہت خوبصورت لکھائی سے ایک بڑے سے سائن بورڈ پر لکھا تھا "مہران کو خدا نے آزاد کرایا"۔ ہم نے اُس سائن بورڈ کو مہران شہر میں داخلے کی جگہ گاڑ دیا اور امام خمینی کی تصاویر سے بنائے گئے کچھ فریم لگا دیئے۔ ہم نے شہر میں بھی کچھ ہاتھ سے لکھے ہوئے پلے کارڈ  نصب کردیئے۔ ہم ایسی جگہ پہنچ گئے کہ ہمیں نہیں پتہ تھا کہ کیا کرنا چاہیے۔ بہت زیادہ گرد و غبار اُڑ رہا تھا اور ہمیں ٹھہرنے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔  ہم نے ایک طرف  گاڑی کو چلتے ہوئے دیکھا۔ ہم نے سوچا کہ حتماً ہمارا راستہ اور صحیح راستہ یہی ہے۔ واقعاً صحیح بھی تھا۔ ہم چلتے گئے، چلتے گئے یہاں تک کہ ایک علاقے میں پہنچے جو عراقیوں کے اسلحہ جمع ہونے کی جگہ تھی۔ ہم نے دیکھا کہ ہمارے اپنے ہی سپاہیوں کی کچھ گاڑیاں وہاں ہیں۔ جب ہم وہاں پہنچے تو ہم نے محمد کوثری اور ڈویژن اسٹاف کے افراد اور کچھ فوجیوں کو دیکھا۔ انھوں نے ہم سے پوچھا: آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟  ہم نے کہا: ہم بھی آپ کی طرح، آپ لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ انھوں نے پوچھا: کہاں سے تعلق ہے؟ ہم نے کہا: ۲۷ ویں ڈویژن سے۔ انھوں نے کہا: کون سی بٹالین  سے ہیں؟ ہم نے کہا: تبلیغات ڈپارٹمنٹ سے۔ انھوں نے پوچھا: تو پھر یہاں کیا کر رہے ہیں؟ ہم نے کہا: ہم بھی دوسرے سپاہیوں کی طرح فرنٹ لائن پر آئے ہیں کہ کام کریں۔ انھوں نے کہا: آپ لوگ فوراً چلے جائیں!

اسی وقت ایک مارٹر آکر گرا اور گولہ بارود سے بھری گاڑی کے ٹائر میں آگ لگ گئی۔ ایک ساتھی جن کا نام جناب طھماسبی تھا انھوں نے چھلانگ لگائی اور گاڑی کو پر امن جگہ پر لے گئے اور ہم نے ٹائر کی آگ کو بجھا دیا۔ ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر ہم گاڑی سے باہر نکلیں تو ہم  پر گولے برسائیں گے۔ ہم لوگوں نے  ہاتھوں میں ایک بیلچہ اور سائن بورڈ پکڑے ہوئے لائن سے چلنا شروع کیا؛ ایک علاقے میں جو ٹینکوں کا علاقہ تھا، وہاں ایک طرف سڑک تھی اور دوسری طرف ٹیلے تھے۔ ہم سوچ رہے تھے کہ ہمارے سامنے سڑک ہے اور انصار بٹالین کا ستون بھی آگے ہے۔ ہم نے اپنے آپ سے کہا کہ جب ہم یہاں سے گزر رہے ہیں تو اس سڑک پر سائن بورڈ لگاتے ہوئے چلتے ہیں۔ ہم نے سڑک پر اور ۲۷ ویں لشکر کی فرنٹ لائن کی طرف سائن بورڈ لگائے۔ ہم نے طے کیا کہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر سائن بورڈ نہیں لگائیں گے، کہیں کم نہ پڑ جائیں۔ گولی چلنے کی آواز آ رہی تھی  اور کبھی کبھار گولیاں ہمارے کان کے برابر میں سے گزرتیں، لیکن ہم بے فکر تھے۔ ہم نے بیلچوں کو اپنے کندھوں پر رکھا ہوا تھا اور چلے جا رہے تھے کہ اچانک ایک گولی میرے بیلچے پر لگی  اور میرے کان میں ایک زوردار آواز گونجی۔ میں نے کہا: یہ لوگ تو ہمیں مار رہے ہیں، مورچوں کے اس طرف چلتے ہیں۔ ہم نے جاکر دیکھا تو سپاہیوں نے ٹیلوں کے اس طرف مورچے لئے ہوئے تھے؛ یعنی ہم اس سے پہلے عراقیوں کی طرف جا رہے تھے۔ ہم نے کہا: خدا کا شکر ہے، مارشل انجینئرنگ نے ہمیں نجات دلا دی۔ بیلچے پر گولی لگنے سے ہمیں پتہ چلا کہ ہم دوسری طرف جا رہے ہیں۔"

جناب قندی نے اپنے آخری واقعہ کو اس طرح سے بیان کیا: " میں خرم شہر کی آزادی والے آپریشن میں لاجسٹک یونٹ کا ڈرائیور تھا۔ طے پایا تھا  کہ خرم شہر کے سپاہی اراک کے سپاہیوں سے مل جائیں گے اور جیسا کہ وہ لوگ شہر کو پہچانتے تھے، وہ خرم شہر کے داخل ہونے والے راستوں پر سپاہیوں کی رہنمائی کریں تاکہ وہ آسانی سے پیش قدمی کرسکیں۔ چونکہ میں لاجسٹک کا ڈرائیور تھا، میں نے سوچا کہ ہم اسلحہ وغیرہ لیکر جائیں گے۔ آپریشنوں میں ڈرائیورز غذا کے علاوہ فوجی ساز و سامان بھی لیکر جاتے تھے۔ جب سپاہی آکر ملحق ہوگئے، مجھ سے کہا گیا کہ ہمیں تمہاری ضرورت نہیں ہے۔ میں نے کہا: اس وقت، میں اس بیابان میں کہاں جاؤں؟ اسی صورت حال میں، میں نے خرم شہر کے رہنے والے جناب محسن راستانی کو دیکھا۔ وہ میرے دوست اور بہت بہترین فوٹو گرافر تھے۔ انھوں نے پوچھا کہ میں کس لئے آیا ہوں؟ میں نے کہا: میں لاجسٹک ڈپارٹمنٹ کے فوجیوں میں سے ہوں۔ میں نے بھی اُن سے پوچھا کہ وہ کس لئے آئے ہیں؟ انھوں نے بتایا کہ وہ تصویریں بنانے کیلئے آئے ہیں۔ انھوں نے کہا: اب تم کیا کرنا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: مجھ سے تو کہا گیا ہے کہ تمہاری ضرورت نہیں ہے؛ فوجیوں کا ردّ و بدل ہوگیا ہے۔ انھوں نے کہا: پس آجاؤ ہم ساتھ چلتے ہیں۔ میرے پاس فوٹوگرافی کا ایک بیگ ہے اور ایک کیمرہ بھی ہے۔ تم تصویریں کھینچنا اور میں ویڈیو بناؤں گا۔ میں مان گیا۔ اُس رات آپریشن ہوا اور میں اُن کے ساتھ چلا گیا۔

ہم نے ایک پل سے عبور کیا اور میری حالت ایسی تھی کہ میں کسی غیبی امداد کا انتظار کر رہا تھا۔ بادل آئے اور چاند کی روشنی ماند پڑ گئی۔ اندھیرا چھا گیا اور بارش شروع ہوگئی۔ ہم لوگ ایک ستون میں چل رہے تھے۔ مسلسل کہہ رہے تھے بیٹھ جائیں۔ ہم پندرہ منٹ کیلئے بیٹھ جاتے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ راستہ کو کھولنا چاہ رہے ہیں۔ راستے میں میرا پاؤں کسی تار میں پھنس جاتا ہے۔ میں نے کئی بار تاروں سے اپنے پیر کو چھڑایا، لیکن اُن کی تعداد بہت زیادہ تھی، میں نے کوئی توجہ نہیں دی اور کہا کہ انھیں اپنے پیروں سے کھینچ لوں گا۔ اسی موقع پر اچانک جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ محسن راستانی نے کہا: میں ستون کے آگے جاتا ہوں تاکہ جاکر دیکھوں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ وہ چلا گیا اور جھڑپیں شدید ہوگئیں۔ سپاہی دشت میں نگہبانی کرنے والوں کی طرح چلتے ہوئے گئے۔ میں بھی چل پڑا۔ چند دنوں تک نہ محسن مجھے مل سکا اور نہ ہی وہ مجھے ڈھونڈ سکا۔ مختلف ڈویژنوں اور بٹالینز کے سپاہی آپس میں گڈمڈ ہوچکے تھے۔ جس راستے پر جھڑپ ہوئی تھی، اُس راستے پر ہماری طرف ٹریسر گولیاں بہت آ رہی تھیں۔ میں دیکھ رہا تھا کہ یہ گولیاں ہوا میں واپس پلٹ رہی ہیں! میرے لیے ایک سوال تھا کہ یہ گولیاں کس چیز سے ٹکرا کر واپس پلٹ رہی ہیں؟ میں سوچ رہا تھا کہ حتماً کوئی ٹینک ہے، لیکن ہم تو ٹینک لیکر نہیں گئے تھے۔ اگر کوئی ٹینک ہوتا بھی تو گولیوں کو واپس پلٹنا نہیں چاہیے تھا بلکہ اوپر کی طرف جانا چاہیے تھا۔ میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ کسی نے پوچھا: تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ تمہارا اسلحہ کہاں ہے؟ تم کس لئے آئے ہو؟ میں نے کہا: فوٹوگرافی کیلئے آیا ہوں۔ اُس نے کہا: تمہارا کیمرہ کہاں ہے؟ میں نے کہا: میرے ساتھی کے پاس ہے۔ حالانکہ وہ چلا گیا تھا اور مجھے بھی جانا چاہیے تھا، لیکن نہ میں اُسے ڈھونڈ پا رہا تھا اور نہ وہ مجھے۔

جب ہم اہواز ، خرم شہر ہائی وے پر پہنچے، دوپہر کے ایک یا دو بج رہے تھے۔ ہم سب تھکے ہوئے تھے۔ ہمارے سامنے کسی قلعہ کی دیوار کی مانند دس میٹر کا ایک ٹیلہ تھا۔ خرم شہر کے سپاہی ہائی پر گئے تاکہ ٹیلے کے اوپر سے گزر کر دوسری طرف جائیں۔ وہ ہائی وے کے اوپر گئے تو عراقیوں نے اُن کی طرف فائرنگ کردی۔ ایسے میں، میں نے فوج کے ایک سپاہی کو دیکھا جو کسی پروانے کی طرح اِدھر سے اُدھر جا رہا تھا، چونکہ عراقی نزدیک تھے۔ وہ خراب گاڑی کو  دوسری گاڑی سے کھینچ  رہا تھا اور اکیلے ہی کوشش کر رہا تھا کہ وسائل اور اُن کی لوکیشن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عراقی ٹینکوں کو اڑا دے۔ اس منظر نے میری پوری توجہ کو اپنی طرف مبذول کرلیا تھا ۔ اُس حالت میں کہ جب ٹینک جوابی کاروائی کر رہے تھے اور بہت شدت سے گولے برسا رہے تھے، وہ اُن کا مقابلہ کرنا اپنی ذمہ داری سمجھ رہا تھا۔ فوج کے سپاہیوں اور بقول امام خمینی "امام زمانہ (عج) کے سپاہیوں" کی قدر کو پہچانیں۔"


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 2836



http://oral-history.ir/?page=post&id=8466