یادوں بھری رات کا ۲۹۹ واں پرواگرام (۲)

سفر ہامون سے لیکر تکریت کیمپ تک

مریم رجبی

مترجم: کنیز طیبہ

2019-03-04


ایرانی اورل ہسٹری سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۹ واں پروگرام، جمعرات کی شام، ۲۴ جنوری ۲۰۱۹ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اس پروگرام میں علی دانش منفرد، ابراہیم اعتصام اور حجت الاسلام و المسلمین محمد جمشیدی نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کیلئے جدوجہد کرنے والے سالوں اور عراقی حکومت میں اسیری کے دوران اپنے واقعات کو بیان کیا۔آپ نے اس رپورٹ کے پہلے حصے میں سن ۱۳۵۷ میں ۲۱ جنوری سے  ۱۱ فروری تک جناب علی دانش منفرد  کے واقعات کو پڑھ لیا ہے۔

پروگرام کے دوسرے راوی جناب ابراہیم اعتصام تھے۔ انھوں نے کہا: "میں سن ۱۹۵۹ میں پیدا ہوا۔ جس سال انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا اُس سال میں ۱۹ سالہ جوان تھا، میں صوبہ سیستان و بلوچستان میں، افغانستان کی سرحدوں سے ملحق ایک شہر میں رہتا تھا ۔ میں اُس سال صوبہ کے مرکز میں واقع ایک ابتدائی اسکول کا طالب علم تھا کہ مظاہروں اور ریلیوں کی وجہ سے کبھی ہڑتال ہوتی تھی  جس کی وجہ سے کلاسیں نہیں ہوتی تھیں۔

میں اُس وقت جن حالات اور جغرافیائی لوکیشن میں موجود تھا، میرے ساتھ کچھ حادثات پیش آئے۔ سن ۱۹۷۱ اور ۱۹۷۲ کے تعلیمی سال  میں جب میں پانچویں کلاس میں تھا، سیستان میں خشک سالی آگئی۔ اُس سال پانی بند ہوگیا اور سیستان کے اکثر لوگ ہجرت کر گئے۔ ہم بھی تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ گئے۔ ہم لوگ جہاں زندگی گزارتے تھے وہاں ایک مکتب تھا، میرے والد صاحب مجھے مولوی صاحب کے پاس لے گئے اور میرا مکتب میں داخلہ کروا دیا۔ میں نے قرآن پڑھنا سیکھا۔ ہمارے محلے میں سیکنڈری اسکول نہیں تھا اور گرمیاں ختم ہوجانے کے بعد، میں تعلیم جاری رکھنے کیلئے شہر نہیں جاسکا۔ مولوی صاحب نے مجھے اپنے اسسٹنٹ کے طور پر رکھ لیا۔ یعنی میں گیارہ سال کی عمر میں معلم اور مکتب کا اسسٹنٹ بن گیا۔ مولوی صاحب مجھے میری زحمت کا حق بھی ادا کرتے تھے  اور سال کے آخری میں انھوں نے مجھے اجازت دیدی کہ تم خود بھی اپنا الگ سے ایک مکتب کھول سکتے ہو۔ قرآن کی برکت سے اُسی جگہ  سے، میری زبان پر معلم بننے کا مزہ چڑھ گیا اور یہ میری زندگی کے اچھے واقعات میں سے ایک تھا۔

اگلے سال میں شہر گیا اور میں نے اسکول میں اپنی پڑھائی کے سلسلے کو شروع کیا۔ سن ۱۹۷۵ کی گرمیوں میں قم سے ایک جوان مولانا صاحب ہمارے گاؤں اور محلے میں تشریف لائے۔ اُن کا نام حاج شیخ حسین مہدی زادہ تھا۔ وہ بہت فعال تھے، وہ تفریح سفر پر لے جاتے، نمائش اور تھیٹر کے گروپ تشکیل دیتے تھے۔ سیستان میں کسی کو تفریح سفر کا معنی  بھی نہیں پتہ تھا۔ طے پایا کہ اس جمعرات اور جمعہ کو ہم لوگ ان مولانا صاحب کے ساتھ ہامون جھیل کے سفرپر جائیں۔ اس جھیل کے بیچ میں ایک جزیرہ اور وہاں بلند مقام پر ایک مزار تھا۔ جمعرات کو دوپہر کے بعد ہمیں ٹریکٹر سے وصل ایک گاڑی پر بٹھا دیا گیا اور ہم رات کو وہاں پہنچ گئے۔ صبح ہم پہاڑ کے اوپر گئے۔ پہاڑ کے اوپر ایک ٹاور بنا ہوا تھا جس کے نیچے لکھا ہوا تھا: "خدا، شاہ، وطن"۔ مولانا صاحب نے ہمیں بٹھایا اور باتیں کرنا شروع کردیں۔ انھوں نے شروع میں خدا کی صفات اور اُس کے لطف و کرم  کے بارے میں بتایا اور اُس کے بعد شاہ کے بارے میں بات کی۔ ہم تقریباً بیس لوگ تھے اور وہ دن میری اور وہاں پر موجود دوسرے افراد  کی زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ تھا ۔ انھوں نے شاہ کا تعارف کروانے کیلئے قرآن سے استفادہ کیا۔ شروع میں انھوں نے فرعون اور نمرود  اور اس کے تسلسل میں انھوں نے کہا خدا کا طریقہ کار یہ رہا ہے کہ وہ ظالموں کا سر انجام نابودی کے ساتھ کرتا ہے، شاہ کا سر انجام بھی نابودی ہے۔ انھوں نے وہاں امام خمینی (رہ) کا نام لیا۔ ہم وہاں پر تبدیل ہوگئے اور جب ہم پہاڑ سے نیچے آئے تو ایک نئے انسان بن چکے تھے۔ انھوں نے وہاں پر ایک تحریک کی بنیاد ڈال دی تھی۔ اس گروپ میں موجود کچھ افراد اسی راستے پر باقی رہے اور کئی سالوں بعد دفاع مقدس کے محاذوں پر نبرد آزما ہوئے اور جام شہادت نوش کیا۔ خدا نے توفیق دی اور میں نے واقعات سے بھری کتاب "بہ سمت پرواز" کہ جس میں اُنہی دنوں کے واقعات کا ایک حصہ  ہے، پیام آزادگان فاؤنڈیشن کی کوشش سے زیور طبع سے آراستہ کی۔ اُس مٹھاس کے مدنظر جس کا مزہ میری زبان نے گیارہ سال کی عمر میں معلم بننے پر چکھا تھا اور شاید اُس تنخواہ  کی مٹھاس جو مولانا صاحب مجھے دی تھی، میں  اس بات کے درپے تھا کہ کیا ہوسکتا ہے کہ میں جلدی سے استاد بن جاؤں؟ میں نے امتحان دیا اور ٹیچرز ٹریننگ کورس کیا۔ میں سن ۱۹۷۹ء میں معلم بن گیا اور میں نے ایران اور افغانستان کے سرحدی علاقے میں موجود ایک گاؤں میں معلم کی ذمہ داری قبول کرلی۔ معلم بننے کے اُسی پہلے سال اور جب میں بیس سال کا تھا، ایک رات مولانا صاحب مجھ سے ملنے آئے، ایک رات میں بھی اُن سے ملنے کیلئے گیا۔ انھوں نے واقعاً یقین کرلیا تھا کہ میں معلم بن گیا ہوں اور تنخواہ لے رہا ہوں تو اب مجھے اپنی زندگی کے سفر کو شروع کرنا چاہیے۔ میں نے بیس سال کی عمر میں شادی کرلی اور یہ بھی خدا کی نعمتوں میں سے ایک ہے کہ جس کا میں شکر ادا کرتا ہوں۔ آخری دفعہ جب مجھے اُسی معلم کے عنوان سے محاذ پر جانے کی توفیق نصیب ہوئی، اُس وقت میرے تین فرزند تھے۔ جتنا رہائی پانے والوں، فدا کاروں اور شہداء کو یاد کیا گیا ہے، اتنا اُن لوگوں کو یاد نہیں کیا گیا جنہوں نے ہمارے جانے کیلئے ماحول فراہم کیا ، ہمارے والدوں، ماؤں اور بیویوں کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ میں آخری دفعہ محاذ پر جانے سے پہلے، اپنی بیوی کے ساتھ شہداء کے مزار پر گیا اور میں نے اُسے ہر حادثہ کیلئے تیار کیا۔ خدا نے ان اسیر ہونے والوں اور شہداء کی بیویوں کو کتنی ہمت و طاقت عطا کی تھی؟ میں تین بچوں کے ساتھ کہ سب سے بڑا چھ سال کا تھا، اسیر اور گمشدہ ہوگیا۔ جس عرصے میں، میں نہیں تھا، اس دوران مختلف داستانیں  اور حادثات  رونما ہوئے تھے۔ جب پیام آزادگان فاؤنڈیشن میں میری کتاب پر تنقید و اعتراض کرنے والی نشست منعقد ہوئی، جس استاد نے اس کتاب پر تنقید کی، اس نے مجھ پر اعتراض کیا؛ کہ کتاب میں میری بیوی موجود نہیں۔ میری بیوی میں اس وقت بھی اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ اس کتاب کا ایک صفحہ پڑھ لے۔

سیستان و بلوچستان کی ۴۰۹ ویں سید الشہدا (ع) بٹالین، جناب حاج سلیمانی کی کمانڈ میں شلمچہ  کے محاذ پر دشمن کے سامنے مستقر تھی۔ ہمارے پیچھے پانی تھا اور سامنے سے دشمن اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ آگیا تھا۔ میں گروپس کے کمانڈر کا وائرلیس آپریٹر تھا۔ جب میرے اسیر ہونے کا واقعہ پیش آیا، دشمن بہت جلدی ہم تک پہنچ گیا تھا اور ہم دشمن کے بیچوں بیچ تھے۔ بٹالین کے  بہت کم فوجی عقب نشینی کرنے میں کامیاب ہوسکے تھے۔ اچھی خاصی تعداد شہید ہوچکی تھی اور کچھ لوگ زخمی اور معذور اور کچھ لوگوں کے نصیب میں اسیری لکھی تھی۔ فوج کی ایک بٹالین سے صرف ۱۷ لوگ واپس لوٹے تھے اور اُن لوگوں کو گھروں میں واپس جانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ سب کے گھر والے راستوں پر آنکھیں لگائے بیٹھے تھے۔ کچھ لوگ گئے اور گھر والوں کو ہمت دلائی۔ جب میری غیر موجودگی میں گھر پر مہمان آتے تھے، میرا بیچ والا بیٹا علی، لوگوں کے سامنے نہیں آتا تھا۔ دروازے کے پیچھے سے کان لگا کر سنتا تھا کہ جو مہمان آیا ہے وہ میرے والد کی کیا خبر لایا ہے۔ جب ہم آزاد ہوئے، دو دن ریکوری ہاؤس میں رہنے کے بعد، کرمانشاہ سے ہوائی جہاز کے ذریعے کرمان گئے اور پھر زاہدان پہنچے۔ میرے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالا گیا۔ گھر والوں کیلئے ایک خاص جگہ کو مدنظر رکھا گیا تھا اور مجھے اُسی سمت میں لے گئے تھے۔ میں نے نظر دوڑائی مجھے کہیں بھی اپنے گھر والے نظر نہیں آئے۔ چونکہ اسیری کی مدت میں مجھے اُن کی کوئی خبر نہیں تھی ، اُس لمحہ میرے ذہن میں بہت سے خیالات آئے۔ میرے لئے ختم قرآن کی نشست رکھی گئی تھی۔ جمعرات  کو مغرب سے لیکر جمعہ تک افرادبہت خوش ہوتے تھے، اس وجہ سے کہ اُن کے گھر والوں کی طرف سے اُن کیلئے قرآن پڑھنے کی نشست ہوتی ہے اور نیا ز بانٹی جاتی ہے۔ ہماری بٹالین کی صورت حال اتنی بری تھی کہ کوئی بھی یہ گمان نہیں کر رہا تھا کہ ہم زندہ بچ گئے ہوں گے۔ وہاں پر جب میں اپنے گھر والوں کا منتظر تھا کسی نے میرے پاس آکر پوچھا: اس وقت جب آپ اپنے گھر والوں  کے پاس ہیں، آپ کو کیسا محسوس ہو رہا ہے؟ اُس لمحہ میرے ذہن میں صرف جو چیز آئی، یہ آیت تھی: " ولنبلونکم بشیء من‌الخوف والجوع و نقص من‌ الاموال و الانفس و الثمرات و بشر الصابرین " میں اپنے آپ سے کہہ رہا تھا کہ کیا کوئی حادثہ پیش آگیا ہے جو میرے گھر والوں میں سے کوئی نہیں آیا ہے؟ بھائی؟ بچے؟ والد؟ والدہ؟ لیکن وہ لوگ نکل چکے تھے اور راستے میں کچھ مسائل کھڑے ہوگئے تھے  جس کی وجہ سے وہ دیر سے پہنچے۔ ایئر پورٹ پر بھی لوگ کا بہت رش تھا جس کی وجہ سے راستے بند ہوگئے تھے۔

بغداد کے انٹیلی جنس سیکیورٹی کے زندان میں، اُن ۲۶ سے ۲۷ دنوں تک کہ جب ہم اسیروں کو وہاں پر رکھا ہوا تھا، میں نے دیکھا کہ ایک بعثی تار سے، جوتے سے اور جس سے مار سکتا تھا، وہ اسیروں کی درگت بنا رہا تھا۔ وہ قیدیوں کے دونوں ہاتھوں کو پکڑتا اور اپنے گرد گھما کر انہیں دیوار کی طرف پھینک دیتا۔ ایک سپاہی تار سے مار کھانے والے مرحلے میں فرار  کر گیا تھا۔ بعد میں اُن لوگوں نے کہا کہ اپنی اپنی قمیضیں اُتارو تاکہ پتہ چلے کس نے تار سے مار کھائی ہے اور کس نے نہیں کھائی ہے۔ جب دیکھا کہ اُس نے مار نہیں کھائی ہے تو اُس پر دس افراد پل پڑے اور اُس کی درگت بنا دی۔ سنگدلی اور بے رحمی کی انتہا یہ ہوئی  کہ ایک بعثی نے اُس سپاہی کے بازو پر کاٹ لیا ، حتی اس کے جسم سے گوشت کا ٹکڑا  الگ ہو گیا۔ اُس بعثی کے دانتوں سے کاٹنے کا نشان ابھی تک اُس سپاہی کے ہاتھ پر موجود ہے  اورہمیں آج پتہ چل رہا ہے کہ بعثی اور داعش ایک ہی جنس کے لوگ ہیں۔ ہم ۱۲ ویں تکریت کیمپ میں ۴۵۰۰ لوگ تھے، شہر تکریت کے اطراف میں تھے۔ ہر مہینے ہم سب لوگوں کی گنتی ہوتی تھی۔ رجسٹر میں میرا نام جو ثبت تھا "ابراہیم، علی، حسین، اعتصام" تھا۔ آخری دن جب ہم وہاں تھے، ۵۰۰ افراد کے نام پکارے گئے اور انہیں کیمپ کے دوسرے حصے میں لے گئے۔ اُنہیں ایک عراقی فوجی لباس اور ایک جوڑی جوتے دیئے گئے۔ حسن رفسنجانی کو اسیری کے دوران اُس کے فیملی نام کی وجہ سے، ایک مرحلے میں  تار سے ۳۰۰ دفعہ مارا گیا۔ اسیری کے پہلے چھ مہینے میں افراد صبح شام  تار سے پٹتے تھے اور وہ جدوجہد اور استقامت کا مظاہرہ کرتے تھے۔"

جناب اعتصام نے اپنی بیانات کے آخر میں کہا: "اُس زمانے (جدوجہد کا زمانہ) میں ساواک نے جناب مہدی زادہ کو گرفتار کرلیا تھا اور اُنہیں دو سال تک زندان میں رکھا تھا۔ وہ انقلاب کی کامیابی کے قریب آزاد ہوئے۔ اسیری سے واپس آنے کے بعد میرا اُن سے ملنے کو بہت دل چاہ رہا تھا۔ میں اپنی آزادی کے دو ہفتے بعد امام خمینی کے حرم کی زیارت کرنے اور پھر قم گیا اور وہاں  سے ہم مشہد کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں، ہم مغربین کی نماز کیلئے دامغان میں روکے۔ حاج حسین مہدی زادہ، دامغان کے رہنے والے تھے۔ میں نے وہاں کے مومنین سے اُن کے بارے میں پوچھا  تو وہ لوگ مجھے اُن کے گھر کے دروازے تک لے گئے، لیکن وہ گھر پر نہیں تھے۔ مولانا صاحب سپاہ کے ساتھی جنگی علاقوں کی طرف گئے ہوئے تھے۔ میں نے اُنہیں فون کیا اور خلاصہ یہ کہ پھر سے ہمارا رابطہ برقرار ہوگیا۔ جب میں نے اُنہیں دیکھا تو وہ بہت ڈھل چکے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ مولویت اور انقلابی کاموں  کے علاوہ کھیتی باڑی بھی کرتے ہیں، وہ ابھی تک اُسی انقلابی سوچ و فکر  کے ساتھ نظام اور انقلاب کی اقدار کی حفاظت کرتے ہیں۔"

جاری ہے

 

 


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 2870



http://oral-history.ir/?page=post&id=8425