یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

مریم رجبی

مترجم: کنیز طیبہ

2019-02-16


 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایرانی اورل ہسٹری سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے اندیشہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اس تقریب میں مسعود نوری، عباس بوستانی، حسن اعرابی اور محسن صفائی  نے  دفاع حرم اور دفاع مقدس کے دوران اپنے واقعات کو بیان کیا۔

یہ شہداء ۔۔۔

اس پروگرام کے سب سے پہلے راوی مسعودی نوری تھے جو ۱۹ سال کی عمر میں دفاع مقدس کے محاذوں پر آگئے تھے۔ ۵۱ مہینے، یعنی چار سال سے زیادہ محاذ پر موجود رہے۔ وہ اس عرصے میں ۲۷ ویں محمد رسول اللہ (ص) ڈویژن  میں ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کے انچارج کے جانشین بھی تھے  اور جنگ ختم ہونے کے بعد انھوں نے تہران میں واقع بقیۃ اللہ (عج) ہسپتال میں  مینیجر کے عہدے پر اپنے کام کو جاری رکھا، وہ اس وقت ریٹائر ہوچکے ہیں اور ثقافتی کاموں میں مصروف ہیں۔ شہید محمد ابراہیم ہمت کے ساتھ محاذ پر جنگ لڑنا اُن کے افتخاروں میں سے ایک ہے۔ جناب مسعود نوری نے کہا: "جنگ کے آغاز پر جب ہمارے ملک پر ایک بڑی مصیبت آئی تھی، امام خمینی نے کہا کہ اگر ایک ملک میں صرف ایک شہر باقی رہ جائے، اُس شہر میں ایک محلہ ہو، اُس محلہ میں ایک گھر ہو اور اُس گھر میں ایک آدمی سے زیادہ کوئی نہ بچا ہو، اُس ایک آدمی کا بھی دفاع کرنا ضروری ہے۔ امام نے جنگ میں تمام لوگوں کی ذمہ داری کو مشخص کردیا جو اسلامی تشخص کا دفاع کرنا تھا۔ ہمارے مقابلے میں ایسا دشمن تھا جو سر سے لیکر پیر تک مسلح تھا۔

ہم ملک کے مغربی علاقے میں آپریشن کیلئے تیار ہو رہے تھے؛ بمو اور شیخ صالح کے علاقے کی پہاڑیوں کا سلسلہ  خرمال، سید صادق اور حلبچہ کے شہروں تک تھا اور یہ سلسلہ عراق کے علاقے سلیمانیہ تک جاری تھا۔ پہلے و الفجر آپریشن کے بعد کہ جس میں ہمیں ناکامی کا سامنا ہوا تھا، یہ طے پایا کہ   ایک اور آپریشن کا منصوبہ بنایا جائے جس میں کامیابی حاصل کی جائے۔ اس جگہ کے اردگرد پانچ سے چھ مہینے سے زیادہ کا عرصہ آپریشن کیلئے تیار ہونے کے ساتھ ساتھ معلومات اکٹھی کرنے والے کام میں لگ گیا۔ تمام یونٹس تیار ہوگئے۔

اسلام آباد اور کرمانشاہ کے درمیانی علاقے میں قلاجہ کی پہاڑیوں  پر ہمارا ایک کیمپ تھا۔ ۲۷ واں محمد رسول اللہ (ص) ڈویژن وہاں پر مستقر ہوا۔ سپاہیوں نے اس کوہستانی سنگین آپریشن میں شرکت کیلئے خود کو  تیار کرلیا ۔ اس آپریشن کے ایک مرحلے میں اور اُس آپریشن کے منصوبے میں طے تھا کہ جب ہمارے سپاہی مورد نظر علاقوں پر قبضہ کرلیں گے، ہم دشمن کے حملوں ، جوابی کاروائی اور علاقے کو واپس لینے کیلئے اقدام کرنے کی طرف سے مطمئن ہونے کیلئے  عراق کے دربندیخان ڈیم کے ایک حصے  کو توڑ دیں  اور ایک وسیع علاقہ پانی سے بھر جائے گا۔ ہم نے یہ کام کرنے کیلئے امام خمینی سے مسئلہ پوچھا تو انھوں نے پوچھا کہ اس ڈیم  کے ٹوٹنے کی وجہ سے علاقے میں جو پانی بھر جائے گا اُس سے لوگوں کو نقصان پہنچے گا؟ ہم نے کہا ہاں، دیہاتوں میں پانی بھر جائے گا اور  ہم کچھ کر بھی نہیں سکیں گے۔ امام نے کہا کہ اپنے آپریشن   کے منصوبے میں میں سے اس حصہ کو تبدیل کردو۔  ہم نے کہا اگر ہم یہ کام کریں گے تو ہم نے جو نقشہ کھینچا ہے وہ نوے فیصد ضائع ہوجائے گا۔ امام نے کہا کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن لوگوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔ یہ ایک دینی نظریہ اور تفکر ہے۔ جس کے مقابلے میں آپ ایک غیر دینی نظریئے صدام کی حکومت کو دیکھتے ہیں۔ امام نے اُس دن آپریشن کو کینسل کردیا اور وہ آپریشن سن  ۱۹۸۳ء سے  سن ۱۹۸۷ء- ۱۹۸۸ء تک ملتوی ہو گیا کہ دسواں و الفجر آپریشن اُسی علاقے میں انجام پایا اور ہم خرمال، سید صادق اور حلبچہ شہروں میں داخل ہوئے۔ جس وقت ہمارے سپاہی حلبچہ میں داخل ہوئے، وہاں کے لوگوں نے اُن کے شہر میں داخل ہونے کی وجہ سے ہمارے سپاہیوں کے سامنے قربانی کی اور خوشی کا اظہار کیا ۔ یہ استقبال کرنے کی کیا وجہ بنی تھی؟ دراصل یہ وہی دینی نظریہ ہے اور مقابلے میں، اُسی علاقے کی حکومت نے، وہاں کے لوگوں پر تجاوز کیا۔ ایک ہی وقت میں حلبچہ کے پانچ ہزار سے زائد لوگ مارے گئے۔ آپ امام اور دشمن کی نظر کے زاویے کو دیکھیں؟ ایسے دشمن کے مقابلے میں کس طرح مقابلہ کیا جاسکتا ہے ؟وہ مقابلہ جو ہمارے جوانوں اور سپاہیوں نے کیا۔ وہ آپریشن جو کینسل ہوگیا تھا، کانی مانگا کی پہاڑیوں پر ایک اور راستہ کھل گیا اور چوتھا و الفجر آپریشن انجام پایا۔

فوجیوں نے اُس  آپریشن کیلئے آمادہ رہنے پر تین چار مہینے سے زیادہ عرصے تک مشقیں کی ہوئی تھیں ۔ اگست کا آخری ہفتہ تھا۔ سپاہیوں نے آکر کہا: "ہم تین مہینوں سے تیار تھے ، اب تو چار مہینے گزر چکے ہیں  اور ابھی تک آپریشن نہیں ہوا۔ ہم واپس جانا چاہتے ہیں تاکہ ہم کم سے کم ستمبر میں ہونے والے اپنے امتحانوں میں تو  شریک ہوجائیں۔" شہید ہمت نے تمام یونٹس اور بٹالینز کے مسئولین کو بلایا اور اُن کی ذمہ داری لگائی کہ وہ لوگ افراد سے بات کریں اور انہیں رکنے کیلئے راضی کریں۔ اُن لوگوں کو روکنا چاہیے تھا تاکہ بعد والے آپریشن میں ہمیں فوجیوں کی کمی کا مسئلہ پیش نہ آئے۔ ہم نے اور باقی دوسری بٹالینز کے مسئولین نے بھی لوگوں سے بات کی۔ آخر میں اس طرح ہوا تھا کہ اگر کچھ لوگ جانے پر بضد ہیں، رات کے وقت بہت سکون کے ساتھ اُن کا حساب کتاب کیا جائے اور وہ لوگ چلیں جائیں تاکہ دوسرے افراد پر اثر نہ پڑے۔ ایک دن ظہر کی اذان سے پہلے تین جوان آئے کہ جنہوں نے اپنے بغل میں اپنی پڑھائی کی کتابیں دبائی ہوئی تھیں۔ انھوں نے کہا ہم اپنا حساب کرنا چاہتے ہیں، ہم نے پوچھا کہ آپ لوگ کس لیے واپس جانا چاہتے ہیں؟ انھوں نے کہا: "ہم آپریشن کیلئے آئے تھے اور ابھی تک  آپریشن نہیں  ہوا ہے، ہم واپس جانا چاہتے ہیں۔" ہم نے اُن سے بات چیت کی کہ ہم آپریشن کیلئے نہیں آئے ہیں، بلکہ اپنا وظیفہ انجام دینے آئے ہیں، ہم نے اُن سے پوچھا کہ آپ آپریشن کیلئے آئے تھے یا اپنا وظیفہ انجام دینے؟ انھوں نے کہا: "ہم اپنا وظیفہ انجام دینے آئے تھے، لیکن جب آپریشن نہیں ہو رہا ہے تو ہم کم سے کم جاکر اپنے ستمبر میں ہونے والے امتحانات میں شرکت کرلیں ۔" میں نے کہا: "آپ لوگ نہیں جائیں ، رک جائیں۔ شاید ذمہ داری یہی ہے کہ رک جائیں اور اگلے سال امتحان دے لیں۔" اُن میں سے ایک نے پوچھا: "اگر ہم رک جائیں تو کیا آپریشن ہوگا؟" میں نے کہا: "میں وعدہ نہیں کرتا کہ آپریشن ہوگا لیکن ذمہ داری یہ ہے کہ ہم رکے رہیں تاکہ اگر دشمن کسی اور جگہ سے داخل ہونا چاہے تو ہم اُس کے سامنے ڈٹ جائیں۔ ہمارا وظیفہ دفاع کرنا اور محاذ پر رہنا ہے اور ہمیں محاذوں کو خالی نہیں چھوڑنا چاہیے۔"انھوں نے حساب کی فائل مانگی۔ میں نے کہا اگر ہم تمہیں چھٹی دیدیں اور تم لوگ چلے جاؤتو تم لوگ پشیمان ہوگے۔ انھوں نے پوچھا: "یعنی آپریشن ہونا ہے  جو ہم پشیمان ہوں گے؟"میں نے کہا: " مجھے نہیں معلوم کہ آپریشن ہوگا یا نہیں ہوگا۔" میں نے اُنہیں جانے کیلئے فارم دیا اور کہا جاکر وضو کرکے نماز پڑھیں، بعد میں ایک دوسرے سے بات کریں گے۔ ہم نے وضو کیا اور نماز جماعت کی صف میں  بیٹھ گئے۔ شہید محمد خانی شہر دماوند میں گیلاوند کا رہنے والا تھا جو نماز کی صف میں میرے برابر میں بیٹھا ہوا تھا۔ وہ بہت ہی کم سن و سال کا تھا اور حتی اُس کے چہرے پر داڑھی یا مونچھ کا ایک بال بھی دکھائی نہیں دیتا۔ بہت ہی نڈر اور بہادر لڑکا تھا۔ اُس نے مجھ سے کہا میں نماز، دعائے ندبہ اور کسی دوسری  جگہ پر رو نہیں پاتا۔ سب لوگ روتے ہیں لیکن میں نہیں رو سکتا۔ جب نماز ختم ہوئی، تمام فوجی آخری سجدے میں گئے اور امیر المومنین (ع) کی مناجات "الھی قلبی محجوب و نفسی معیوب و ۔۔۔" کو پڑھا۔ جب سجدہ ختم ہوا، ہم نے دیکھا کہ محمد خانی کی  آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔ میں نے اُس کا کندھا دباکر کہا: "بھائی! التما س دعا۔ تم تو گریہ  کر رہے ہو؟" اُس نے کہا: "مجھے زیادہ چکر نہیں دو۔" میں نے پوچھا کیا ہوا ہے؟ اُس نے کہا میں تمہیں بعد میں بتاؤں گا۔ نماز کے بعد ہم اپنی جگہ اپنے خیمہ میں واپس آگئے۔ اُن تین لوگوں سے پوچھا: "بھائیوں آپ کا کیا ارادہ ہے، اگر جانا چاہتے ہیں تو جائیں لیکن اگر کل کو آپ نہ رکنے اور اپنی تکلیف ادا نہ کرنے پر پشیمان ہوئے تو پھر کیا کریں گے؟" انھوں نے کہا: " بھائی ہم سے زیادہ ذمہ داری کے بارے میں بات نہیں کرو۔" میں نے کہا انشاء اللہ آپریشن ہوگا۔ انھوں نے کہ  پھر آپ ہمیں کچھ منٹوں کیلئے آپس میں بات چیت کرنے دیں۔ ان تین افراد نے آپس میں بات کی اور جب وہ لوگ واپس آئے، انھوں نے جو فارم لیے تھے وہ ہمیں واپس کردیئے اور کہنےلگے ہمارا ارادہ بدل گیا ہے، ہم بٹالین میں واپس جا رہے ہیں۔ وہ لوگ بٹالین میں واپس آگئے اور ان تین بھائیوں  میں سے دو لوگ شہید ہوئے کہ جن کے جنازے بھی کانی مانگا کی پہاڑی پر رہ گئے۔ بعد میں، میں نے احمد خانی سے پوچھا تم کیوں رو رہے تھے؟اُس نے کہا ان تین لوگوں میں سے ایک سجدے کے اندر فارسی زبان میں دعا مانگ رہا تھا اور کہہ رہا تھا: "خدایا میں تجھ سے محبت کرتا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ تو بھی مجھ سے محبت کرتا ہے، اب جبکہ میں تجھ سے محبت کرتا ہوں اور تو بھی مجھ سے محبت کرتا ہے تو مجھے کس لیے شہادت کا درجہ عطا نہیں کرتا اور اپنے پاس نہیں بلاتا؟" یہ کمال معنویت ہے۔ میں اپنے یقین کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ شاید امیر المومنین (ع) کی دعا ان جوانوں کے کانوں تک نہ پہنچی تھی لیکن ایسا کیا ہوا کہ اُس کی زبان اپنے مولا کی زبان کی طرح ہوگئی؟ امیر المومنین (ع) فرماتے ہیں: "تو اس طرح ہے کہ میں تجھ سے محبت کرتا ہوں، پس تو مجھے اس طرح بنا دے جس طرح تو چاہتا ہے۔" اُس نے یہ والی بات کی اور شہید ہوگیا ، اس نے اپنی حقیقی معراج کو پالیا۔

شہید اسماعیل معینیان سیکنڈری اسکول میں کیمسٹری کے استاد تھے۔ ہمارا کیمپ ایسے علاقے میں تھا کہ ایک دو دفعہ منافقین اور کوملہ پارٹی کے لوگ آئے ، چھپ کر حملہ کیا اور ہمارے لیے کچھ مسائل ایجاد کئے؛ اسی وجہ سے ہم رات کے وقت نگہبانی  کرتے تھے۔ اُس رات، میں ایک دوسرے شخص کے ساتھ ڈیوٹی پر تھاکہ اچانک ہمیں خس خس کی آواز سنائی دی۔ ہم نے جاکر دیکھا تو ایک آدمی خیمے کے اطراف میں چکر لگا رہا تھا۔ ہم نے قریب جاکر دیکھا تو شہید اسماعیل معینیان ہیں۔  میں نے ان سے پوچھا کہ کیا کر رہے ہیں؟ انھوں نے کہا: "یہاں بچھو اور مکڑی آتی ہیں اور خیمے کے اندر گھس کر لوگوں کو تکلیف دیتی ہیں۔"انھوں نے مورچے سے باہر ایک چھوٹا سا کمرہ بنایا ہوا تھا اور وہاں لالٹین جلائی ہوئی تھی تاکہ اگر کوئی مکڑی یا بچھو خیمے کے اندر جانا چاہے تو اُسے پکڑلیں یا روک لیں۔ سردی بہت بڑھ گئی تھی، میں نے دیکھا کہ وہ لڑکوں کے خیمے کے اندر گئے اور اُنہیں کمبل اوڑھایا۔ میں اُن سے کہتا کہ آپ جاکر سوجائیں تو وہ جواب میں کہتے کہ یہ لڑکے بہت چھوٹی عمر کے ہیں، یہ اپنے پیروں سے کمبل کو ہٹا دیتے ہیں اور بیمار پڑ جاتے ہیں۔ یہ ایک فوجی کا شفیقانہ اور اخلاقی رویہ تھا۔ میں آہستہ آہستہ اسماعیل کے قریب ہوتا چلا گیا۔ وہ افراد کا خیال رکھنے کے علاوہ، خیمے کے اندر تمام کاموں کو بھی انجام دیتے تھے۔ افراد بتایا کرتے تھے کہ وہ آدھی رات کو اٹھ جاتے اور ہمارے جوتوں پر پالش کیا کرتے تھے۔

ہم کانی مانگا کے علاقے میں چوتھے و الفجر آپریشن کیلئے تیار ہو رہے تھے جو عراق کے شہر ماووت کے ساتھ تھا۔ تیار رہنے کا دستور آیا اور تمام بٹالینز چلی گئیں۔ تمام چھٹیوں کو کینسل کردیا گیا تاکہ لوگ آپریشن پہ جائیں۔ پوری بٹالین خالی ہوچکی تھی اور ہم بھی جانے کیلئے اپنے کاموں کو انجام دینے میں مصروف تھے۔ اُس موقع پر ایک شخص آیا اور اُس نے مجھے آواز دی۔ میں نے واپس آکر دیکھا تو بلال بٹالین کے ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کے مسئول سید فرج اللہ علیان تھے۔ ہماری ہر بٹالین میں ۱۸ امدادی کارکن، ایک ہیلتھ انچارج اور ایک جانشین ہوتا تھا۔ انھوں نے مجھ  سے کہا کیا تم مجھے تہران جانے کیلئے ۴۸ گھنٹے کی چھٹی دے سکتے ہو ؟ میں سیکیورٹی کے حوالے سے پریشان تھا۔ میں نے اُن سے پوچھا آپ نے اپنی بٹالین کے انچارج کو بتایا ہے؟ انھوں نے کہا: نہیں۔ میں نے کہا: "جائیں جاکر اپنی بٹالین کے انچارج سےبات کریں ، اگر انھوں نے اجازت دیدی تو چلے جائیں۔" انھوں نے کہا شاید وہ اجازت نہ دیں۔ میں نے کہا اگر انھوں نے اجازت نہیں دی تو میں آپ کو چھٹی نہیں دے سکتا ہوں۔  انھوں نے کہا تمہیں خدا کا واسطہ مجھے جانے دو۔ میں نے پوچھا آپ کے اتنا اصرار کرنے کی کیا وجہ ہے؟ انھوں نے کہا کل اسکول کھلنے کا پہلا دن ہے۔ میں سالوں سے اپنے بچے کے اسکول جانے کے دن کا انتظار کر رہا ہوں ۔ میں چاہتا ہوں کہ جاؤں اور اُسے اسکول  تک چھوڑ کر آؤں اور پھر واپس آجاؤں۔ میں نے کہا جائیں اور واپس آجائیے گا۔ وہ چلے گئے۔ ہم مریوان میں تھے اور اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ اچانک کوئی پیچھے سے آیا اور کہا بھائی سلام! میں نے پلٹ کر دیکھا تو سید علیان ہیں۔ میں نے اُن سےپوچھا آپ گئے ؟ انھوں نے کہا ہاں۔ میں نے پوچھا کیسا رہا؟ انھوں نے کہا: "مزہ آگیا، بہت لذت بخش منظر تھا۔" چوتھا و الفجر آپریشن شروع ہوا  اور جناب علیان کانی مانگا کی پہاڑیوں پر شہید ہوگئے۔ جب فتح المبین آپریشن ہوا، امام نے کہا آپ بہادروں نے کتنا عظیم کام کیا ہے۔ ہماری تمام فتوحات کے فاتح اپنی جان کی بازی لگانے والے جوان ہیں کہ جنہوں نے الٰہی وظیفہ کی انجام دہی میں اپنی تمام خواہشات کو چھوڑ دیا۔ یہ جوان تمام فتوحات کے فاتح تھے۔ وہ جوان جس نے اپنی آرزؤں کو پس پشت ڈال دیا۔

ہم چوتھے و الفجر آپریشن کیلئے مریوان میں مستقر ہوچکے تھے۔ آپریشن شروع ہوچکا تھا اور بٹالین نے دشمن کی صفوف پر حملہ کردیا تھا، اب دشمن کی صفوں پر حملہ کرنے کی باری حبیب ابن مظاہر بٹالین کی تھی۔ مغربین کی اذان کا وقت قریب تھا کہ شہید احمد یاوری  نے مجھے پکارا۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ کیا تمہاری بٹالین آگے نہیں چلی گئی؟ انھوں نے کہا ہاں لیکن مجھے نیند آگئی تھی اور جب میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ تمام بٹالینز جا چکی ہیں۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ افراد ایک نہر کے کنارے غسل کر رہے ہیں۔ میں نے آگے بڑھ کر اُن سےپوچھا کہ کیا کر رہے ہو؟ انھوں نے کہا ہم غسل شہادت کر رہے ہیں۔ میں نے خواب میں اپنے کپڑوں کو اتارا، تاکہ میں بھی غسل شہادت کروں کہ میری آنکھ کھل گئی۔ میں اٹھا تو دیکھا خیمہ میں کوئی بھی نہیں ہے۔ اسٹور کے انچارج جو ایک ضعیف شخص تھے انھوں نے کہا کہ سب لوگوں کو گئے ہوئے تین گھنٹے ہوچکے ہیں۔ میں نہر کے کنارے گیا اور اس کے باوجود کہ پانی ٹھنڈا تھا، میں نے غسل کیا اور  آگیا۔ طے پایا کہ ہم صبح ہی صبح جاکر لوگوں سے ملحق ہوجائیں گے۔ ہم نے رات ساتھ گزاری اور بہت ساری باتیں کی اور کچھ دوسرے ساتھیوں کے ساتھ کشتی لڑی۔ وہ اُس رات بہت پریشان تھا اور مسلسل کہہ رہا تھا مجھے ڈر ہے کہ  کہیں میں اُن سےپیچھے نہ رہ جاؤں۔ اگلے دن ہم نے شہید یاوری سے خدا حافظی کی اور وہ کانی مانگا کی پہاڑیوں پر حبیب بٹالین سے ملحق ہوگیا۔ وہ وہاں پر شہید ہوگئے اور سن ۱۹۹۴ء میں اُن کا جنازہ واپس آیا۔ وہ کس مقام پر پہنچ چکے تھے کہ اُن کے سامنے دنیا کی کوئی حیثیت نہیں رہی تھی؟"

فاتحین کی بٹالین

یادوں بھری رات کے ۲۹۸ ویں پروگرام میں دوسرے راوی عباس بوستانی تھے۔ وہ  آٹھ نومبر ۱۹۶۹ء میں پیدا ہوئے اور سن ۱۹۸۴ء میں اپنے شناختی کارڈ میں ہاتھ سے تبدیلی کرکے دفاع مقدس کے محاذوں پر گئے۔ انھوں نے و الفجر ۸، بیت المقدس ۲ اور مرصاد جیسے آپریشنوں میں شرکت کی۔ جناب عباس بوستانی نے کہا: "میں سن ۲۰۱۵ء میں فاتحین کی خدمت میں تھا۔ میں ۲۰۱۵ء میں ہونے والے محرم میں شام (Syria) میں حاضر تھا لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر آپریشنز جاری رکھنے کیلئے وہاں رک نہیں سکا۔ ہم نے نو محرم کو ہونے والے آپریشن میں شرکت کی اور شام کے ایک گاؤں میں دفاعی پوزیشن اختیار کی اور پھر تہران واپس آگئے۔ شام بھیجے جانے کیلئے، رضا کارانہ طور پر فوجی کیمپوں اور مستقل مشقوں میں شرکت کی جاتی اور وہاں بھیجا جانا اتنا آسان نہیں تھا۔ ایسا بہت مشکل سے ہوتا تھا کہ کسی ساتھی کو یہ توفیق نصیب ہوجائے اور وہ مدافعین حرم میں شامل ہوجائے۔ ہم لوگ جب سے واپس آئے تھے، دوبارہ جانے کیلئے کوئی راستہ نکالنا  میں اِدھر اُدھر بھٹک رہے تھے یہاں تک کہ ہمیں پتہ چلا اسلام شہر فتح کرنے والے افراد جانا چاہ رہے ہیں۔ اسلام شہر فتح کرنے والی بٹالین کی خصوصیت یہ تھی کہ اُس میں کسی ایک علاقے کے سپاہی نہیں تھے۔ ہم متعدد افراد ایک ساتھ جمع ہوئے۔ ہمارا صرف ایک اجتماعی کام اور دار الخلافہ میں ایک چھاؤنی تھی جس سے ہمارے جانے کی تائید ہونی تھی اور وہ بھی چھاؤنی میں حاضر ہونا تھا کہ تمام یونٹس جس طرح آپریشن کرنا تھا وہ وہاں پر اُس کی نمائش دکھائیں تاکہ جانے کیلئے اجازت ملے۔ خدا کا شکر کہ ہمارے افراد اُس چھاؤنی میں حاضر ہوگئے اور دو سخت اور ٹھندی راتیں گزاریں اور یہ چیز ان کاموں کا مقدمہ بنی جو ہمیں شامات، حلب اور خان طومان میں تھے۔ اس سے پہلے ہمارے افراد نے ایک منظم اور مرتب کام لیکن بہت سخت کام انجام دیا تھا؛ انھوں نے ایک چھوٹے سے علاقے کو فتح کیا تھا جس کا نام قلعجیہ تھا  جو دشمن کے دل میں ایک تیر کی مانند تھا۔ علاقے کے اردگرد کا علاقہ دشمن کے اختیار میں تھااور یہ نقطہ خان طومان میں گندم کے انبار کے سامنے تھا۔ وہاں پر سپاہیوں کا موجود ہونا، بٹالین کے خاص ہونے کی ایک دوسرے پہلو سے منظر کشی کر رہا تھا ۔ جب وہ لوگ وہاں موجود تھے، انھوں نے کوئی فوجی  حرکت نہیں کی اور دشمن پر گولیاں نہیں برسائیں۔ دشمن کے رعب میں اضافہ ہوگیا تھا کیونکہ وہ اپنے آپ سے کہہ رہے تھے کہ ہم لوگوں کی طرف سے کوئی حرکت کیوں نہیں ہورہی۔

جب ہمیں اجازت مل گئی، تو افراد کو بھیجے جانے کا مسئلہ چھڑ گیا۔ جانے کیلئے جن لوگوں کو انتخاب ہونا ہوتا ہے، وہ شروع سے ہی مشخص ہوتے ہیں اور کام کہیں سے رک جاتا ہے۔ کچھ ایسے افراد جو شروع سے تھے، اُنہیں کاٹ دیا گیا اور وہ لوگ جو بالکل بھی نہیں تھے، وہ آگئے۔ ان ناموں کو حضرت زینب (س) کے لطف و کرم سے تائید ہونا تھا۔ جب کیمرہ مین کا کیمرہ بھیجے جانے والے اس ستون کو دکھاتا ہے تو وہ جس کسی سے بھی انٹرویو لینا چاتا ہے تو سب لوگ مہدی قاضی خانی کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ہماری بٹالین سے سب سے پہلے جدا ہونے والے شخص مہدی تھے۔ اُس نے تین بچوں کے ساتھ دل کو تمام دنیاوی چاہتوں سے ہٹا لیا تھا۔ جناب مہدی کی ایک خصوصیت اُن کا ہشاش بشاش اور خندہ پیشانی سے پیش آنا تھا اور وہ ماحول کو بالکل بدل کر رکھ دیتے؛ خاص طور سے اُس وقت جب لوگ چھاؤنی میں تھے  اور اس وجہ سے کہ انھوں نے مختلف کورس کئے ہوئے تھے، اُن کیلئے ٹریننگ کے مراحل بہت تکلیف دہ اور ٹریننگ دینے والی چھاؤنیوں میں  کام کرنا بہت سخت ہوچکا تھا۔ ۲۶ نومبر ۲۰۱۵ء ، بسیج قائم ہونے والے دن، وہ بھیجنے والا دن تھا۔ جمعہ کا دن تھا اور ایسے افراد کا شام روانہ ہونے کا دن کہ جو عشق و محبت کے ساتھ حضرت زینب (س) کے حرم کو دیکھنے کے مشتاق تھے۔ لوگ کہتے تھے کہ امیر سیاوشی نے حضرت زینب (س) کے حرم میں لگے نارنگی کے درخت سے ، ایک عدد نارنگی توڑ کر کھائی  اور ہم وہاں سے حضرت سکینہ (س) کے حرم کی طرف گئے۔ ہم نے اپنے دل کو وہاں سے ہٹا لیا اور ہم شہر حلب کی طرف گئے جہاں رہنا ہماری ذمہ داری تھی۔ کچھ پوچھ رہے تھے حلب کیوں؟ وہاں تو حرم نہیں ہے؟ لیکن ہر وہ جگہ جہاں حرم کے دفاع کیلئے خون بہے، وہ جگہ قابل احترام ہے۔ دمشق میں داخل ہونے کے بعد سپاہیوں نے پہلی رات حلب کے اطراف میں موجود چھاؤنی میں گزاری۔ وہ جگہ دو کوھہ میں دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح کی چھاؤنی تھی۔ اُس کے بعد ہم خانات کے علاقے میں رہے ، اُس کے بعد الحاضر شہر میں؛ وہ جگہ شام کی افواج اور وہاں مستقر ہونے والے فوجیوں کیلئے اہم جگہ شمار ہوتی تھی اور بعد میں خان طومان یا العیس یا دمشق و حلب کی بین الاقوامی شاہراہ کی طرف کی جانے والی حرکات کیلئے حیاتی جگہ تھی۔

سب لوگوں میں سے ایک شخص جو ہمارے کمرے میں تھا اور جسے شہادت نصیب ہوئی، وہ قاضی خانی  تھا۔ شہید قاضی خانی وہی سرگرمیاں جو تہران میں انجام دیتے تھے، شام میں بھی انجام دیتے۔ ہم میں سب سے زیادہ خوشحال رہنے والا اسماعیل کریمی تھا، لیکن وہ صاحب بصیرت تھا۔ عراق میں تکفیریوں کے ساتھ ہونے والی جنگ میں بھی موجود تھا۔ وہ  فاطمیون کے نام سے مشہور سپاہیوں سے  بہت مانوس تھے۔ انھوں نے اپنی شہادت سے ایک رات قبل اپنے اضافی کپڑے انہیں دیدیئے۔ ایک رات کو رات کے کھانے کیلئے تھوڑا سا گوشت دیا گیا تھا تاکہ کباب بنائے جائیں۔ اسماعیل نے تجویز دی کے فاطمیون کے سپاہیوں کے ساتھ کھاتے ہیں۔ ہم اُن کے پاس گئے اور آگ کے گرد بیٹھے۔ کھانا کھایا گیا۔ کھانے کے بعد شعر پڑھے گئے ، شہید کریمی نے بہت زیادہ دلچسپی کا اظہار کیا اور اُن کے شعروں کو کاپی میں لکھا۔

جس رات ہمیں خان طومان جانے کیلئے کہا گیا، وہ حملے والی رات تھی۔ دفاع مقدس کے افراد کے پاس اُس رات کے بہت سے واقعات ہیں۔ میں اور اسماعیل کمرے میں تھے اور ہم رات کا کھانا، کھانا چاہ رہے تھے۔ اسماعیل اس آپریشن سے خوش تھا۔ ہمارے گروپ میں شہادت کیلئے سب سے زیادہ بے قرار امیر لطفی۔  سب سے زیادہ مضبوط ارادے والے حمید رضا اسد اللھی ۔  سب سے زیادہ منتظر محسن فرامرزی اور سب سے محتاج عباس علی علی زادہ تھے۔ اور ہم میں سے سب سے زیادہ مشتاق داؤد جوانمرد اور سب سے شیدائی امیر سیاوشی تھے۔ ہم نے آخری الوداع اس جگہ پر کیا جہاں ہم نے سپاہیوں کے ساتھ، امام حسین علیہ السلام کیلئے مجلس برپا کی تھی۔"

رسول، ۲۸، مجتبیٰ ۔۔۔

پروگرام کے تیسرے راوی حسن اعرابی تھے۔ انھوں نے کہا: "ہم حرم کا دفاع کرنے والے نہیں تھے، حضرت زینب (س) ہمارا دفاع کر رہی تھیں۔ ہم نے قلعجیہ والے علاقے کو حاصل کرلیا۔ ہم ایسی جگہ پر تھے کہ جہاں تمام سمت سے، ہر رات کو ہماری طرف فائرنگ ہوتی۔ ساتویں رات تھی جب ہم سے کہا گیا کہ تازہ دم فوجی پہنچ گئے ہیں، جو لوگ جنگی علاقے میں ہیں وہ پیچھے چلے جائیں تاکہ نئے فوجی آجائیں۔ ان حالات میں ہمارے ایک دوست حسن فرمانی نے مجھے میرے عرفی نام "شرافت" سے پکارا اور کہا: "شرافت، شرافت، سجاد؟" میں نے کہا سن رہا ہوں۔ اُس نے کہا ایک شخص جس  کا نام مرتضی ہے وہ آگے آنا چاہتا ہے۔ مرتضیٰ واقعاً ایک بہت ہی اچھا اور پیارا سپاہی تھا۔  میں نے کہا نہیں ہوسکتا اُس سے کہو وہیں پیچھے رہے۔ اُس نے دوبارہ کہا کہ مرتضی اصرار کر رہا ہے۔ میں نہیں مانا۔ آخر میں حسن فرمانی نے وائرلیس مرتضی کو تھمایا اور خود چلا گیا۔ مرتضی نے بلند آواز میں کہا: "جس وقت تمام ساتھی آگے ہیں، میں کس طرح پیچھے رہ سکتا ہوں؟ میں حضرت زینب (س) کے حرم کے دفاع کیلئے آیا ہوں۔" میں اس کے اصرار سے چڑ گیا لیکن میں مانا نہیں۔ اُس نے کہا میں آگے آرہا ہوں اور لائن کاٹ دی۔ ایک گھنٹے بعد جناب مرتضی، حسن فرمانی کے ساتھ ٹویوٹا پر بیٹھ کر آگئے۔ مجھے غصے آگیا اور میں نے پوچھا تم کس لیے آگے آئے ہو؟ اُس نے کہا لوگ یہاں پر دفاع کر رہے ہیں، میں کس طرح پیچھے رہ جاؤں؟ اُسی رات ہم پر حملہ ہوا۔ حالات بحرانی تھے۔ ۱۳ لوگوں نے قلعجیہ کالونی کو حاصل کرلیا تھا۔ ہمارے کمانڈر محمد بھمنی نے کہا کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ میں جاؤں اور تم یہاں کے تمام حالات کو کنٹرول میں رکھو؟ میں نے بہادری سے کہا ہاں، تم جاؤ۔ محمد چلا گیا اور ابھی دو منٹ نہیں ہوئے تھے کہ کسی کے قدموں کی آواز آئی۔ میں ڈر کے مارے کچھ پڑھنے لگا۔ ایک آدمی نے پیچھے سے آکر مجھے پکڑ لیا۔ میں چلّایا اور پوچھا تم کون ہو؟ اُس نے کہا: "میں ہوں، مرتضی!"

محمد واپس آگیا اور اُس نے کہا کہ آج ۲۸ صفر کی شب ، رسول اللہ (ص) کی رحلت اور امام حسن مجتبیٰ (ع) کی شہادت کی شب ہے، آج کی رات کا نام رکھ لو تاکہ جب لوگ نگہبانی دے رہے ہوں تو ہمیں دھوکہ نہ ہو۔ میں نے کہا رات کا نام "رسول، ۲۸، مجتبیٰ" رکھ لیتے  ہیں۔ محمد آدھی رات کو باہر چلا گیا اور ہمارے نگہبان نے اُنہیں دیکھا نہیں۔ جب وہ واپس آئے، نگہبان چلّاتے ہوئے کہنے لگا اپنے ہاتھوں کو اپنے سر پر رکھ لو اور کوئی حرکت نہیں کرنا، اگر تم ہم میں سے ہو تو رات کا نام بتاؤ۔ نگہبان اصرار کر رہا تھا کہ رات کا نام بتاؤ اور وہ کہہ رہا تھا: "بھائی مجھے نہیں پتہ رات کا نام کیا ہے، آج ۲۸ صفر کی رات ہے۔ پیغمبر (ص) کی رحلت اور امام حسن (ع) کی شہادت ہے۔ وہ چلّا رہے تھے اور کہہ رہے تھے مجھے نہیں پتہ رات کا نام کیا ہے، میں محمد بھمنی ہوں، تمہارا کمانڈر ہوں۔ آخر میں نگہبان نے اُنہیں پہچان لیا۔ جب وہ قریب آئے تو انھوں نے نگہبان سے اٹھک بیٹھک کروائی۔"

جناب اعرابی نے اپنی جاری رکھتے ہوئے کہا: "میں شہید مہدی قاضی خانی کے سرہانے تھا۔ بہت ہی سرد دن تھا۔ اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ تمہاری زندگی کا بدترین دن کون سا تھا؟ میں کہوں گاخان طومان کا غروب تھا۔ ہم نے مہدی کو تین پہیوں والی گاڑی پر سوار کیا اور بہت بدبختی کے ساتھ دشمن کی فائرنگ رینج سے باہر نکالا۔ ہم خان طومان میں ۱۲ گھنٹوں تک محاصرے میں پھنسے رہے ۔ ہمارے شہداء کے اجسام دو دن سے زمین پرپڑے ہوئے تھے۔ میں امیر حسین، حاجی نصیری اور علی اتفاقی کے ساتھ تھا۔ ہم نے ہر شہید کے پیروں پر رسی باندھی ہوئی تاکہ اُنہیں پیچھے کی طرف کھینچ سکیں۔ سب سے پہلے جس شہید کو پیچھے لائے وہ امیر سیاوشی تھے۔ دوسرے شخص شہید اسماعیل کریمی تھے؛ اُس کے بعد شام کا ایک شہید  اور ایک شہید عراق کے تھے۔ شہید اسد اللہی ہمارے گروپ کی دائیں طرف تھے ، وہ ایک گڑھے میں گرے ہوئے تھے کہ ہم اُنہیں نہیں لاسکتے تھے۔ میں آخر میں ایک دوسرے فرد کے ساتھ گڑھے کے اندر گیا۔ دشمن ہماری طرف بری طرح گولیاں برسا رہا تھا۔ میں نے حمید اسد اللہی کو گلے سے لگایا، اُسے پیار کیا اور کہا: "بھول نہ جانا۔ ہم نے ایک دوسرے سے وعدہ کیا ہے کہ ہم میں سے جو بھی پہلے چلا جائے، وہ دوسرے کی شفاعت کرے گا۔"مجھے بہت افسوس ہو رہا تھا کہ اس آپریشن میں میرے حصے میں ایک گولی بھی نہیں آئی ؟ ہم نے وہیں پر حمید کے پیروں میں رسی باندھی تاکہ اُنہیں کھینچ کر ایک پر امن جگہ پر لے جائیں، لیکن اچانک میرے پہلو پر گولی  لگی۔ میرے ساتھی نے مجھ سے پوچھا کیا تم کھڑے ہوسکتے ہو؟ میں نے کہا ہاں اور اُسی وقت جیسے ہی ہم نے حمید کو کھڑا کیا، مجھے ایک اور گولی لگی۔ ایک اور ساتھی کو بلایا گیا اور اُس کی مدد سے حمید کے جنازے کو ایک پر امن جگہ لے گئے۔ میں زمین پر گرا ہوا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اب مجھ میں ہلنے کی صلاحیت نہیں۔ شہید محسن فرامرزی نے کہا میں حسن کو پیچھے لے جا رہا ہوں۔ محسن نے  مجھے پیچھے لے جانے کیلئے ایک دوسرے شخص کے ساتھ مجھے اپنے کندھے پر ڈالا۔ ابھی ہم دس میٹر نہیں چلے ہوں گے کہ میرے ہاتھ پر گولی لگی۔ جیسے ہی محسن نے پوچھا بھائی کیا ہوا ہے؟ وہ منہ کے بل زمین پر گرے۔ بہت ہی کٹھن اور دشوار دن تھا۔ محسن نے امام رضا (ع) کو پکارا اور کہا کیا آپ نے خود نہیں کہا کہ میں تین مرتبہ تمہارے سرہانے آؤں گا؟ آئیے اور مجھے اپنے ساتھ لے جائیے۔ ہم دونوں کا خون بہہ رہا تھا اور ہم سڑک پر پڑے ہوئے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے میں امام رضا (ع) کے پاس جانا چاہتا ہوں اور میں بہت خوش ہوں۔ بعد میں بتایا گیا محسن بھی امام رضا (ع) کا مہمان بن گیا ہے۔ مدافعین حرم دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح جوانمرد، با وقار، نفیس اور خود دار ہیں۔"

آخری نماز

یادوں بھری رات کے آخری راوی حجت الاسلام محسن صفائی تھے۔ انھوں نے کہا: "میری شہید اسد اللہی سے قلعجیہ کی فتح میں جان پہچان ہوئی۔ وہ اپنی پڑھائی اور ظاہری طور پر کلف لگے کپڑوں کے برخلاف مضبوط دل کے مالک تھے۔ اسی وجہ سے اُنہیں انٹیلی جنس اور معلومات حاصل کرنے والی ٹیم میں رکھا گیا اور عربی زبان پر عبور حاصل ہونے کی وجہ سے وہ مترجم بھی تھے۔ خان طومان میں ہونے و الا آپریشن ہفتہ کی رات میں تھا۔ ہم نے اُس رات قرآن کھولا تو سورہ ہود کی ۸۲ ویں آیت سامنے آئی جو کسی قوم پر عذاب نازل ہونے والی آیت تھی اور ہمیں پتہ تھا کہ کچھ ہونے والا ہے۔ اُس رات ہمارا کام کینسل (ملتوی) ہوگیا۔ ہم صبح کے وقت آرام کر رہے تھے کہ بتایا گیا کچھ افراد درگیر ہوئے ہیں اور بالکل آیت کی طرح ہوا ہے۔ خان طومان کے مستحکم ترین قلعہ کو خداوند متعال نے ۳۰ سے ۴۰ آدمیوں کے ساتھ بالکل آرام سے مقاومت و جدوجہد کرنے والوں کو ہدیہ کے طور پردیا۔ گندم کے انبار کے پیچھے کچھ جھڑپیں ہوئی اور کریمی، سیاوشی اور کچھ شام اور عراق کے سپاہی شہید ہوئے۔ ہم دیوار کے پیچھے آئے۔ اذان ہونے والی تھی، میں نے تیمم کرکے نماز پڑھنے کیلئے قبلہ کی طرف رُخ کیا۔ میرے برابر میں حمید رضا اسد اللھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم گھٹنوں کو بغل میں دبائے بیٹھے ہوئے تھے اور ہماری طرف فائرنگ ہو رہی تھی۔ وہ حمید رضا کا مورچہ تھا۔ جب میں نے تیمم کرنے کیلئے اپنا رُخ قبلہ کی طرف کیا، میرے برابر میں ایک مارٹر آکر گرا اور اُس کا ایک ٹکڑا حمید رضا کی شہ رگ پر لگا۔ ہم نے حمید رضا کو زمین پر لٹا دیا، میں نے اُن کے جوتے اُتارے اور ایک شخص قرآن پڑ ھ رہا تھا۔ میں نے حمید رضا سے کہا تم نے تو تیمم کرلیا تھا اور تم آمادہ بھی ہو، کوئی ذکر کہو جو تمہارے اول وقت نماز پڑھنے میں شمار ہوجائے۔ اُن کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں، انھوں نے کیا ذکر پڑھا میں اس بات کی طرف متوجہ نہیں ہوسکا اور پھر وہ شہید ہوگئے۔"

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 7603



http://oral-history.ir/?page=post&id=8385