پائلٹ ناصر ژیان کی یادوں کے ساتھ

ابتدائی شناخت سے لیکر آپریشن کی کمانڈ تک

زہرا ابو علی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-08-18


زہرا ابو علی نے پائلٹ ناصر زیان کے ساتھ گفتگو کی اور اُس کے کچھ حصے کو زبانی سائٹ کے  اختیار میں قرار دیا ہے۔ آپ ایوی ایشن کے ا س پائلٹ کے واقعات کو اُن  کے کمانڈر بننے سے لیکر  اُن کے شرکت کردہ آپریشنوں تک پڑھیں گے۔

 

آپ اپنے بارےمیں بتائیں

میں ریٹائرڈ پائلٹ سیکنڈ لیفٹیننٹ ناصر ژیان ہوں۔ میں سن ۱۹۴۷ء میں تہران میں پیدا ہوا۔ سن ۱۹۶۶ ء میں کیڈٹ اسکول میں داخلہ لیا۔ تین سال بعد سیکنڈ لیفٹیننٹ  کے درجے کے ساتھ میں نے یہاں سے پڑھائی مکمل کی اور  ۱۹۶۹ سے لیکر ۱۹۷۰ تک آرڈیننس کا ابتدائی دورہ بھی  کیا۔

آرڈیننس یعنی کیا؟

جنگی سامان، اسلحہ اور سپلائی کے مسئول کو آرڈیننس کہتے ہیں۔

 

آپ کس طرح  ایوی ایشن پائلٹ بنے؟

جب میں آرڈیننس کے اختتامی دورے میں تھا ایک دن اعلان کیا گیا جو افراد ایوی ایشن پائلٹ بننا چاہتے ہیں، وہ آکر اپنا نام لکھوا دیں۔  میں نے اپنا نام لکھوایا اور میڈیکل ٹیسٹوں میں بھی پاس ہوگا۔  سن ۱۹۷۰ء میں ابتدائی دورہ مکمل کرنے کے بعد، میں نے اپنی پہلی پائلٹ ٹریننگ، تہران کے قلعہ مرغی بیس میں فکسڈ ونگ جہاز کے ساتھ کہ اُس زمانے میں سسنا اور پایپر تھے، اپنی ٹریننگ کا آغاز کیا اور میں نے اس جہاز کے ساتھ تقریباً پچاس گھنٹے تک پرواز کی۔ اُس کے بعد پائلٹاستاد نے تشخیص دے لیا کہ میں اکیلے ہوائی جہاز کو اڑا سکتا ہوں۔ اُس کے بعد میں نے ہیلی کاپٹر چلانے کی ٹریننگ حاصل کی۔

 

آپ کی خلاء بانی کے استاد کون تھے؟

ہیلی کاپٹر کی ٹریننگ دینا انگریزوں کے ذمہ تھا۔ ایک دوآسٹریائی بھی تھے۔

 

آپ پائلٹ ٹریننگ کے بعد بیس کیمپ میں چلے گئے تھے؟

نہیں، پائلٹ ٹریننگ کے بعد ہمارے لیے انگلش کی کلاس رکھی گئی۔

 

کہاں؟

قدیمی باغ شاہ چھاؤنی جسے آج کل حُر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اُس کے بعد ہمیں مئی ۱۹۷۱ء میں یو ایچ ون اور ۲۰۶ ہیلی کاپٹرز کی ٹریننگ  حاصل  کرنے کیلئے جرمنی بھیج دیا گیا۔

 

کتنے عرصے کیلئے؟

ہم تقریبا سات مہینے  وہاں رہے۔ ہماری ٹریننگ کی مدت ختم ہوگئی تو ہم ایران واپس آگئے۔ اُس زمانے میں ابھی تک ایوی ایشن اتنے بڑے پیمانے پر نہیں تھا۔ اُس کا ایک بیس تہران میں تھا اور ایک اصفہان میں۔ ہمیں پائلٹکے عنوان سے اصفہان کے بیس پر بھیجا گیا۔ اگلے سال ہم خلاء بانوں کو فائرنگ کی ٹریننگ دینے کیلئے امریکہ سے ایک ٹیم اصفہان آئی۔ چونکہ اُس  زمانے میں ابھی تک ایوی ایشن ادارے کے پاس کوبرا ہیلی کاپٹر  نہیں آیا تھا لہذا انھوں نے یو ایچ ون ہیلی کاپٹروں کو مسلح کیا کہ اگر ضرورت پڑی تو اُس سے استفادہ کریں گے۔ اگلے سال میں نے تین لوگوں کے ساتھ مل کر خلاء بانی کا استاد بننے کی ٹریننگ حاصل کی۔ ہم رینجرز کے جیٹ ہیلی کاپٹروں کے پائلٹاستاد بن گئے اور معمولی وظائف انجام دینے لگے۔ یہاں تک کہ ایوی ایشن ادارہ آہستہ آہستہ  بہت وسیع ہوگیا۔ سن ۱۹۷۵ میں کہا گیا کہ کرمانشاہ میں بھی ایوی ایشن کی ایک بیس قائم ہونی چاہیے۔ کچھ افراد کو وہاں کیلئے منظم کیا۔ میں نے اُسی زمانے میں  آزمائشی پائلٹکا دورہ  گزارنے کیلئے امریکہ میں انگریزی زبان کا امتحان دیا۔

 

آزمائشی خلاء بان؟

مثلاً ایسا ہیلی کاپٹر جس میں کوئی نقص یا خرابی ہوگئی ہو اور اُس کی مرمت کروائی گئی ہو، تجربہ کار پائلٹآکر اُس کی آزمائش کرے اور دیکھے کہ اُس کا نقض دورہ ہوچکا ہے یا نہیں؟ میں سن  ۱۹۷۵ میں امریکہ گیا اور وہاں تقریباً چھ مہینے تک آزمائشی پائلٹ کی ٹریننگ حاصل کی پھر ایران واپس آگیا۔ چند دن تہران میں رہنے کے بعد ، کرمانشاہ چلا گیا۔

 

کس پوسٹ پر؟

ایئر لائن کمپنی کمانڈر۔

 

ایئر لائن سے آپ کی مراد کیا ہے؟

شناخت کرنے والا گروپ۔

 

ایوی ایشن کی چھاؤنیاں – البتہ میرا مقصد اُس کا پرواز کرنے والا سیکشن ہے – کن حصوں پر مشتمل تھیں؟

۲۱۴ ہیلی کاپٹروں کے ساتھ حملے والی بٹالین  اور  کوبرا ہیلی کاپٹروں کے ساتھ سنگل بٹالین تھی۔ اور ہر چھاؤنی میں ایک شناخت کرنے والا گروپ ہوتا اور ان گروپ کی اصلی ذمہ داری شناخت کے عنوان سے تنظیم کے چارٹ کی بنیاد پر ، شناخت با رزم مقرر تھی۔

 

شناخت با رزم سے آپ کی کیا مراد ہے؟

مثلاًیہ ہیلی کاپٹر آپریشن والے علاقے میں جائے اور دشمن کی جگہ کا پتہ لگائے کہ دشمن کی فوجیں کہاں ٹھہری ہوئی ہیں اور اگر پائلٹ اچھا خاصا تعلیم یافتہ ہو  تو وہ دشمن  کے اسلحے کی تعداد اور ماڈل  کے بارے میں بھی بتاتا ہے۔

 

پس دیکھ کر شناخت ہوتی تھی ، تصویر نہیں کھینچے تھے؟

نہیں، تصویر نہیں کھینچتے تھے۔ پائلٹ نے جو کچھ دیکھا ہوتا تھا وہ اُس کی بنیاد پر شناخت کی رپورٹ تیار کرتا تھا۔

 

شناخت کرنے والے گروپس کے ہیلی کاپٹر کس قسم کے ہوتے تھے؟

جیٹ رینجرز ہیلی کاپٹر۔ اس ہیلی کاپٹر میں پانچ افراد کی گنجائش ہوتی ہے۔

 

کیا اُسے ہتھیاروں سے لیس کیا ہوا تھا؟

ہاں، اس ہیلی کاپٹر کو دو بار دو طرح سے لیس کیا گیا۔ پہلی دفعہ اُس کے سائیڈ میں دو اسٹین گنیں لگائی گئیں کہ اگر ضرورت پڑے تو اُس سے فائرنگ کریں۔ ایک زمانے میں میزائل لگائے گئے  کہ ان میزائلوں کی اتنی ضرورت نہیں تھی اور یہ ہیلی کاپٹر کے کام کے نہیں تھے ، بعد میں انہیں ہٹا لیا گیا۔

 

آپ کتنے عرصے تک کرمانشاہ میں رہے؟

میں چھ مہینے تک وہاں رہا۔ میں اعلیٰ دورے کیلئے تبریز گیا اور سن ۱۹۷۷ میں  مجھے کپتان کی ڈگری کے ساتھ تہران چھاؤنی  کے ہیلی کاپٹر گروپ کا  کمانڈر بنا دیا گیا۔ اُن سالوں میں چند دفعہ میں ایوی ایشن کی طرف سے ڈیوٹی انجام دینے  عمان گیا۔  ظفار میں فوج کے پیدل یونٹ کو سپورٹ کرنے کی غرض سے  ایوی ایشن کی وہاں ڈیوٹی لگائی گئی تھی اور ہم صرف جیٹ رینجرز اور یو ایچ ون ہیلی کاپٹروں کو ظفار لے گئے تھے۔ یو ایچ ون کے کچھ ہیلی کاپٹروں کو راکٹوں سے مسلح کیا گیا تھا۔ ایوی ایشن نے دماوند آپریشن میں ظفار میں شرکت کی اسی وجہ سے اس کے فوجیوں کو ۹ مختلف گروپس میں  تقسیم کیا اور ہر گروپ کو تین مہینے کیلئے عمان بھیجا گیا۔ انقلاب کی کامیابی کے وقت جتنے بھی پائلٹوں کے پاس  کپتان کی  ڈگریاں تھیں ان سب نے دماوند آپریشن میں شرکت کی؛ بغیر کسی استثناء کے، آپ جس کا چاہیں حساب کرلیں۔

 

۱۰ فروری ۱۹۸۹ء کو آپ کہاں تھے؟

میں اُس کے اگلے دن اپنی گاڑی پر قلعہ مرغی ہیڈ کوارٹر میں واقع ایوی ایشن کی چھاؤنی گیا۔ میں جیسے ہی چھاؤنی کے گیٹ پر پہنچا، اچانک میں نے دیکھا کہ سات، آٹھ لوگ جنہوں نے اپنے چہروں کو موزوں سے چھپایا ہوا تھا، میری گاڑی کے گرد جمع ہوگئے۔ میں نے  کہا: "ارے بابا کیا ہوگیا ہے؟ آپ لوگ کون ہیں؟" میں جیسے ہی گاڑی سے نیچے اُترا۔ انھوں نے مجھے ہاتھوں پہ اٹھالیا اور چھاؤنی کے گرد گھمایا۔

 

نقاب پہنے ہوئے کون لوگ تھے؟

ایوی ایشن کا انقلابی اسٹاف تھا۔ وہ ایسے افراد کو گرفتار کرنا چاہتے تھے جو اُن کی نظر میں انقلاب کے حامی نہیں تھے۔

 

اُنھوں نے آپ کو گرفتار کیا؟

نہیں، مجھے تہران میں موجود ایوی ایشن چھاؤنی کا کمانڈر بنادیا۔ چھاؤنی میں حاج آقا باقر آشتیانی کے نام سے ایک مولانا صاحب تھے۔ انھوں نے اسٹاف سے کہا: یہ آج سے چھاؤنی کے کمانڈر ہیں اور انہیں تقریر کرنی چاہیے۔

 

آپ نے تقریر کی؟

ہاں!اُس کے بعد میں نے جاکر اُن لوگوں کو فون کیا جو پہلے چھاؤنی کے مسئول تھے ، میں نے اُن سے کہا: "آپ لوگ چھاؤنی میں واپس آجائیں! " لیکن کوئی بھی نہیں آیا۔ اُسی دن امام خمینی نے جرنل قرنی کو فوج کے اسٹاف کا سربراہ بنا دیا۔ جرنل قرنی نے ۲۹ بہمن کو پائلٹ بریگیڈئیر کیومرث ثقفی کو  جو انقلاب سے پہلے ایوی ایشن اسٹاف میں ڈپٹی سیکریٹری تھا، پورے ایوی ایشن ادارے کا کمانڈر بنا دیا، لیکن اسٹاف نے شور مچایا اور کہا: ہم نہیں چاہتے یہ ہمارا کمانڈر بنے۔ وہ طاغوت (پہلوی) کی حکومت   کے ہم پیالہ و ہم نوالہ لوگوں میں سے ہے۔ ثقفی چلا گیا۔ ایوی ایشن بغیر کمانڈر کے تھا۔ کسی ایک کو تو کمانڈر بننا تھا۔ ہم ایوی ایشن کے ہیڈ کوارٹر میں آئے جو باغ شاہ چھاؤنی میں تھا ، ہم نے وہاں ایک میٹنگ رکھی۔

 

میٹنگ میں کن کن لوگوں نے شرکت کی؟

کرنل سید محمود شاہرخ آذین، تھرڈ لیفٹیننٹ کریم عابدی، کرمانشاہ کی چھاؤنی سے  میجر لہراسبی، نظام علی کریمی  اور جناب ہمافری جو اوائل جنگ میں ہی شہید ہوگئے تھے۔ ہم لوگوں نے ایک ساتھ بیٹھ کر بات چیت کی کہ ایوی ایشن ادارے کیلئے کسی کمانڈر کا چناؤ  ہونا چاہیے۔ اسے بغیر کمانڈر کے نہیں چھوڑا جاسکتا۔ ایوی ایشن کے پرانے اسٹاف میں سے ایک کی سابقہ کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اُنہیں ایوی ایشن کا سربراہ منتخب کرلیا۔ ہم نے ایوی ایشن ادارے کیلئے پائلٹ کرنل اکبر رضانیا کو سربراہ کے طور پر منتخب کرلیا اور ہر کوئی اپنی ڈیوٹی انجام دینے کیلئے واپس چلا گیا۔

 

آپ کب تک چھاؤنی کے کمانڈر رہے؟

انقلاب کی کامیابی کے بعد پانچ لوگوں کو بریگیڈکا درجہ ملا۔ اُن میں سے ایک کرنل اسکندر عمادی تھے جو کچھ عرصے بعد پورے ایوی ایشن کے کمانڈر بن گئے۔ جرنل عمادی کے ایوی ایشن ادارے کے کمانڈر انچیف بننے کے بعد میں نے اُنہیں فون کرکے کہا: جرنل ، ایک دن اسٹاف نے مجھے کندھوں پر اٹھا کر کہا تھا: تمہیں ہمارا کمانڈر بننا چاہیے اور ایک مولانا صاحب نے بھی آکر اس کام کی تائید کر  دی تھی۔ لیکن فوج کے سسٹم اور عہدوں کے تسلسل کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے کہ میں کمانڈر بنوں۔ چونکہ افسر حضرات مجھ سے زیادہ سینئر ہیں۔ انھوں نے کہا: تم خود بتاؤ میں تمہاری جگہ کسے کمانڈر بناؤں؟ میں نے کہا: میجر محمد افشار، بہت اچھے آدمی ہیں۔ بہتر ہوگا وہ کمانڈر بن جائیں۔ انہیں چھاؤنی کا کمانڈر بنا دیا گیا۔ میں دوبارہ ہیلی کاپٹر گروپ کا کمانڈر بن گیا۔

 

جرنل عمادی کب تک ایوی ایشن کے سربراہ رہے؟

اگست ۱۹۷۹ء میں جب سب سے پہلا مشن انجام پایا، جرنل عمادی ایوی ایشن چھوڑ کر چلے گئے اور اُن کی جگہ میجر گرانمایہ ایوی ایشن کے  کمانڈر انچیف بن گئے۔ ایک دن میجر گرانمایہ نے مجھے فون کیا اور کہا: فلاں صاحب کہہ رہے ہیں: ایوی ایشن کی آبرو خطرے میں۔ میں نے پوچھا: کیا ہوگیا ہے؟ انھوں نے کہا: آیت اللہ بہشتی نے مجھے فون کیا ہے، جہاد سبز – اُس وقت اس کا نام جہاد سا زندگی نہیں رکھا گیا تھا - کے بارہ کے قریب مرد اور خواتین  علم کوہ (کلاردشت اور طالقان کے پہاڑوں کے درمیان)کے پہاڑ پر گئے ہیں۔ پہاڑ کے اوپر سلفر معدن کے چشمے بھی ہیں۔ یہ افراد اُس علاقے کے بارے میں نہیں جانتے ہیں اگر اوپر چلے گئے، سلفر کی گیس میں پھنس جائیں گے۔ جناب بہشتی پریشان ہیں اور کہہ رہے ہیں یہ لوگ کھو گئے ہیں؛ جس طرح بھی ہو، آپ جائیں اور انہیں ڈھونڈ یں۔  

میں نے لیفٹیننٹ کریمی کے ساتھ پرواز کی جن کا تعلق طالقان سے تھے۔ ہم نے پہاڑ کی بلندی پر اُن لوگوں کو دیکھ لیا۔ ہم وہاں پر ہیلی کاپٹر نہیں اُتار سکتے تھے۔ موسم بھی مناسب نہیں تھا؛ ہم نیچے واپس آگئے۔ درجان نامی دیہات کے پاس اُترگئے۔ لوگ ہماری طرف بڑھے۔ ہم نے دیہات کے چوہدری کو سارے معاملے سے آگاہ کیا۔ اُس نے خچر بھیج کر اُن لوگوں کو پہاڑ کی بلندی سے نیچے بلوالیا۔ اُن کو نیچے لانے تک مغرب ہوچکی تھی۔ موسم بھی خراب ہوگیا تھا۔ ہم واپس نہیں جاسکے۔ اُس رات دیہات میں ایک شادی تھی۔ ہمیں بھی اُس تقریب میں دعوت دی گئی؛ ہم گئے۔ صبح جب ہم ہیلی کاپٹر پر سوار ہوئے، میں نے دیکھا وائرلیس پر سب مجھے آوازیں لگا رہے ہیں۔ گرانمایہ کی آواز سنائی دے رہی تھی جو بہت ہی پریشانی اور اضطراب کے حالت میں ہمیں پکار رہے تھے اور کہہ رہے تھے: "ہیلی کاپٹر نمبر ۔۔۔ جواب دو! " میں نے ہیلی کاپٹر کا نمبر بتایا۔ گرانمایہ نے کہا: ہماری جان نکال دی تھی! جب ہم قلعہ مرغی چھاؤنی میں اُترے، ہمارے قدموں میں بھیڑ  کو ذبح کیا گیا اور اُس کا خون ہیلی کاپٹر کے شیشے پر لگایا۔ ایوی ایشن کے کمانڈر نے کہا: جتنی مدت تم یہاں نہیں تھے، اس عرصے میں افواہ اُڑا دی تھی کہ یہ لوگ فرار کرکے عراق چلے گئے ہیں۔ اُس زمانے میں دوپہر دو بجے کی خبروں میں، فوج اپنی خبریں بیان کرتی تھی۔ اُس روز فوج کی خبروں میں اعلان کیا کہ پائلٹ ناصر ژیان کی مدد سے بارہ کوہ پیماؤں نے نجات حاصل کرلی۔

 

آپ کب تک تہران میں رہے؟

میں تہران میں ہی رہتا رہا ؛  یہاں تک کہ خط امام (رہ) کی پیروی کرنے والے طالب علموں نے ۴ نومبر کو، جاسوسی  کے اڈے کو فتح کرلیا۔ اس واقعہ کے بعد، ہمارے ملک میں موجود امریکا سے وابستہ لوگوں نے ہمیں نقصان پہنچانا شروع کردیا؛ جن میں سے ایک ہالینڈ کی ہیلی کاپٹر کمپنی بھی تھی۔ ہیلی کاپٹر والی یہ کمپنی آئل، گیس  اور ریڈیو – ٹیلی ویژن کمپنیوں کے کام انجام دیتی تھی۔  یہ لوگ ہیلی کاپٹر کے ذریعے، جن صعب العبور علاقوں میں آئل تھا وہاں پرواز کرتے  تھے۔ اُن کے چلے جانے کے بعد ، اُن صعب العبور والے علاقوں میں مرمت اور چیکنگ کے کام کو مشکل کا سامنا ہوا۔ جب پہلی دفعہ نماز جمعہ کا پروگرام ہواتو اُن کے ہیلی کاپٹر بھی ضبط ہوگئے اور اُس کی ویڈیو بنالی گئی تھی۔ وہ لوگ ہیلی کاپٹروں کو چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ ریڈیو – ٹیلی ویژن کے ریڈار جو پہاڑ کی چوٹی پر تھے، قدرتی حادثات یا سسٹم میں گڑبڑ ہونے کی وجہ سے اُن میں خرابی ہوجاتی، ایسے میں انجنیئروں کو جاکر پارٹس تبدیل کرنے کا کام انجام دینا چاہیے۔ لیکن کوئی نہیں تھی ، سارا کام بیٹھ گیا۔ ایوی ایشن والوں کو کہا گیا کہ کچھ پائلٹ جائیں اس کمپنی  کا سامان جمع کریں اور اُن کے کام انجام دیں۔ ایوی ایشن ، ساحلی پولیس،بحری اور بری افواج کی فضائیہ  کے سپاہیوں کا ایک گروپ تشکیل دیا گیا۔ لیکن پرواز کے قوانین کے لحاظ سے ہمیں ایک مشکل کا سامنا تھا۔ ایسا پائلٹ جو فوجی نہیں ہے، وہ جنگی طیارے کے ساتھ پرواز نہیں کرسکتا؛ چاہے وہ جتنا اچھا پائلٹ ہو اور اس کے برعکس ایک فوجی پائلٹ بھی ایک غیر جنگی طیارے یا ہیلی کاپٹر کے ساتھ پرواز نہیں کرسکتا۔ ہم فوجی تھے اور اُن کے ہیلی کاپٹر جنگی نہیں تھے۔

 

کس چیز میں فرق تھا؟

پرواز کرنے کے طریقے کے علاوہ، نمبروں سے بھی مربوط ہوتا ہے۔

 

نمبر کیا؟

وہ نمبر جو ہیلی کاپٹر کی باڈی پہ لکھتے ہیں۔ اگر آپ جنگی اور غیر جنگی طیاروں کو ملاحظہ کریں تو اُن پر کچھ حروف کے ساتھ جیسے آلفاجٹ اور یاک، پایا، سیرا، یونان کے لاتینی حروف، یونانی تلفظ کے ساتھ انگریزی حروف میں نمبر پڑے ہوئے ہیں۔ یہ غیر جنگی طیاروں سے مربوط ہے۔ تمام جنگی طیاروں کے نمبرز اعداد و ارقام کے ساتھ، جیسے ۵۵۸ ہوتے ہیں۔ چونکہ ہیلی کاپٹر جنگی نہیں تھے اور ہمارا تعلق فوج سے تھا تو ہمیں اُن مدارج کو طے کرنا چاہیے تھا۔ ہم نے جاکر اُس ملک کی ایئر لائن سے معاہدہ کیا۔ ہمیں تجاری پرواز کا لائسنس دیا گیا، ہم سے امتحان لیا گیا ، ہم ایسے ادارے میں گئے جس کا نام ساخہ تھا، ہم نے وہاں پرواز کی۔

 

ساخہ کس ادارے کا مخفف ہے؟

ہیلی کاپٹر کے ذریعے خدمت رسانی کا ادارہ۔  ہم ضروری مواقع پر خدمت رسانی کا کام انجام دیتے۔ یہاں تک کہ مسلط کردہ جنگ شروع ہوگئی۔ ہم سے کہا گیا کہ ساخہ کو چھوڑ کر واپس آجاؤ کہ جنگ شروع ہوگئی ہے اور اب جنگی علاقوں کی طرف جاؤ۔

 

آپ کے اوپر کیا ذمہ داری تھی؟

۲۴ ستمبر ۱۹۷۹ ء والے دن مجھ سے، محسن  [کہ ہم دونوں کے پاس کپتان کا درجہ تھا] اور میجر منوچہر رزمخواہ سے کہا گیا آپ لوگوں کو جنوب میں ایوی ایشن کا گروپ تشکیل دینا چاہیے۔ ہمارا گروپ وہ سب سے پہلا گروپ تھا جو جنگ پر جانا چاہتا تھا۔ ایوی ایشن کا ہیڈ کوارٹر حر چھاؤنی سے اٹھ کر زمینی افواج کے ہیڈ کوارٹر کے نزدیک آگیا۔ ہمارے لیے ایک راہداری بنائی گئی اور فوج میں موجود خواتین ٹائپ رائٹروں  کو لایا گیا  جنہوں نے ہمیں آئینہ، قرآن اور لوبان  کے ساتھ خدا حافظ کیا۔ ہم قرآن کے نیچے سے گزرے۔ لوبان سے کیا زبردست دھونی دے رہے تھے اور وہ لوگ کیا زبردست آنسو بہا رہے تھے۔ شاید اپنے دل میں سوچ رہے ہوں کہ اس وقت تو یہ لوگ جا رہے ہیں، کل یقیناً ان لوگوں کے جنازے واپس آئیں گے۔ جنگ کی داستان میرے لئے بہت دلچسپ تھی۔ ۲۴ ستمبر کو مغرب کے وقت ایک شنوک ہیلی کاپٹر کے ذریعے، جس کے پائلٹ بھی کپتان امیر طاہری تھے، ہمیں تہران سے  اصفہان لے جایا گیا۔ اُس سے اگلے دن ہم نے اصفہان سے مسجد سلیمان کی طرف پرواز کی اور مسجد سلیمان سے دزفول  کی طرف اور دزفول کی وحدتی چھاؤنی میں مستقر ہوگئے۔

 

کیا آپ سب لوگ ایک ہیلی کاپٹر سے دزفول گئے تھے یا ہر کسی نے الگ پرواز کی تھی؟

ہم مسجد سلیمان سے لیڈرنگ گروپ کو  ساتھ لیکر گئے تھے۔ چار جٹ رینجرز کی ٹولی، بارہ ۲۱۴ کی ٹولی اور بارہ کوبرا ہیلی کاپٹروں کی ٹولی کہ جن میں سے زیادہ  تر کا تعلق مسجد سلیمان گروپ سے تھا، ہم اُنہیں اپنے ساتھ لے گئے۔ بہت دلچسپ تھا۔ مسجد سلیمان بیس مکمل طور سے خالی ہوچکا تھا اور کسی کے بقول کوئی پرندہ وہاں موجود نہیں تھا۔ ہم تعینات ہونے والے سب سے پہلے گروپ تھے۔ بیس کے اوپر آسمان سے میری نظر جالیوں (آشیانہ ) پر پڑی۔ جنگی طیارے کہ جو بہت قیمتی ہوتے ہیں اور اُن کی اہمیت زیادہ ہوتی ہیں، انہیں کسی بھی قسم کے گزند سے محفوظ رہنا چاہیے۔ میں نے سنا ہوا تھا کہ کہا جاتا ہے کوئی چیز بھی ان جالیوں پر اثرنہیں کرتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم عراق نے کون سے اسلحے سے ایک جالی پر مارا تھا کہ اُس کے قوس کی مانند چھت تباہ اور اُس میں ایک بڑا سوراخ ہوگیا تھا ۔عراقی پائلٹ نے یا قسمت سے مار دیا تھا یا بہت حساب کتاب سے مارا تھا۔ میرے لئے دلچسپی کی بات یہ تھی کہ اُسے کس طرح بنایا گیا تھا  اور اُس میں کیا چیز کم یا زیادہ تھی!

 

کن لوگوں نے آپ کا استقبال کیا؟ آپ لوگ کہاں گئے؟

ہم بن بلائے مہمان کی طرح تھے۔ ہم ہیلی کاپٹر کے ساتھ پیڈ میں داخل ہوئے اور لینڈ کر گئے۔ ہم جیسے ہی اُترے، دزفول کے لوگوں کا ایک گروہ اور فضائی افواج کے کچھ فوجی جو انقلابی تھے اور جنہیں ڈیوٹی پر بلالیا گیا تھا، وہ لوگ آگئے اور ہمارے لئے گائے ذبح کی۔

 

ماشاء اللہ! آپ لوگ بن بلائے مہمان تھے  پھر بھی گائے ذبح کی؟!

ہمارا آنا لوگوں کے لئے اہم تھا۔ دزفول کی انقلاب اسلامی کمیٹی کے کچھ افراد نے ہمارے کھانے کی ذمہ داری اپنے ذمہ لے لی۔

 

دزفول میں آپ کا مشن کیا تھا اور آپ فوج کے کون سے گروپ سے رابطے میں تھے؟

ہم ابھی تو پہنچے تھے اور ہمیں نہیں معلوم تھا کہ دشمن کہاں ہے؟ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ہم علاقے سے واقف نہیں تھے۔ ہم صرف اصفہان سے آئے  ہوئے ۵۵ و ۴۴ توپخانہ گروپس سے ارتباط میں تھے جو دزفول میں ٹھہرے ہوئے تھے۔

 

توپخانوں کے گروپس کے کمانڈر کون لوگ تھے؟

کرنل وکیلی اور میجر جبل عاملی تھے۔ وہ ہم سے ہمیشہ یہی کہتے  آپ لوگ جائیں ، اطلاعات جمع کرکے آئیں اور ہمیں بتائیں  کہ دشمن کا توپخانہ کہاں ہے۔

 

اُن لوگوں کی خود اپنی وضعیت کیسی تھی؟

مجھے یاد ہے  اُن کا مستقر ہونا اصول اور ٹیکنیکی بنیادوں پر نہیں تھا۔ وہ آوارگی اور دربدری حالت میں تھے۔ وہ لوگ آکر مختلف جگہوں پر مستقر ہوگئے تھے۔

 

آپ کی ڈیوٹی دشمن کی شناخت کرنا تھی؟

کسی نے مجھ سے کہا نہیں تھا۔ میں آپریشن کا افسر تھا اور مجھے اس کام میں مہارت بھی حاصل تھی۔

 

آپ فوج کے علاوہ رضاکارانہ سپاہیوں سے بھی رابطے میں تھے؟

جی، ہمارا کچھ سپاہیوں سے رابطہ تھا  کہ اُس وقت میں نہیں جانتا تھا وہ بسیجی تھے یا کمیتہ کے افراد تھے۔ اُن میں سے ایک برادر غلام علی رشید علی نور تھا۔ وہ اپنے ساتھ پیچھے ٹانگنے والا ایک بیگ اور ایک پانی کا تھرماس  لیکر چھاؤنی  آجاتے۔ ہیلی کاپٹر کے پیڈ پر بیٹھ جاتے ، ہم اُنہیں لے جاکر سپتوں  اور دشت عباس کے پہاڑوں پر چھوڑ آتے۔ وہ روزانہ جن چیزوں کا مشاہدہ کرتے  اُنہیں لکھ لیتے ، ہم مغرب کے وقت جاکر اُنہیں واپس بھی لے آتے تھے۔ ہم نے بھی اپنا شناخت والا کام انجام دے لیا۔ سپتون کے جنوبی پہاڑوں سے اور سپتون اور دشت عباس کے درمیان موجود فاصلے میں، ہم نے اپنی نفوذی پروازوں کا آغاز کیا۔

 

آپ جیٹ رینجر کے ساتھ جاتے تھے؟

جیٹ رینجر اور دو کوبرا ہیلی کاپٹروں کے ساتھ جاتے تھے۔ ہم نے   چند پروازوں کے بعد ہر صورت میں عراق کے توپخانے کی جگہ کا پتہ لگالیا۔

کہاں؟

دشمن کے توپخانے شاوریہ، علی گرہ زرد اور بلتا کے ٹیلوں پر مستقر تھے۔ اتنا زیادہ فاصلہ بھی نہیں تھا اور وہ توپخانہ سے دزفول کو ہدف قرار دیتے تھے۔ یہ وہ پہلی جگہیں تھیں  جہاں ہم عراقی توپخانوں کی شناخت میں کامیاب ہوئے۔

 

یہ شناخت کس تاریخ کو  ہوئی تھی؟

۴ اکتوبر ۱۹۸۰ء کو ہوئی تھی۔

 

آپ نے کس کو اس بات کی اطلاع دی تھی؟

برادر کلاہدوز اور اُس شخص کو جس نے خود کو ڈاکٹر چمران کا جانشین متعارف کروایا تھا، انھوں نے آکر کہا کہ ہم جنگی علاقے میں جانا چاہتے ہیں، جاکر دیکھیں کیا خبر ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ اُنہیں ہیلی کاپٹر پر سوار کیا اور ہم نے اُنہی دو کوبرا  ہیلی کاپٹروں کے ساتھ پرواز کی۔ انھوں نے نقشے سے جائزہ لیا کہ وہ جگہیں جہاں ریت اور بجری تھی، وہاں پیادہ اور زرہی فوجیوں کو مستقر نہیں کیا جاسکتا۔ ہم نے اپنا سفر جاری رکھا یہاں تک کہ کسی گاڑی سے منعکس ہوکر دور سے سورج کی شعاعیں ہماری آنکھوں پر پڑی۔ ہم نے دقت سے دیکھا تو اُس میں لمبا سا انٹینا بھی لگا ہوا تھا۔ گاڑیوں میں بھی بہت طاقتور ریڈار لگے ہوئے تھے۔ میں نے کلاہدوز سے کہا: مجھے پرواز کرنے میں بھلائی نہیں لگ رہی۔ ہم چل کر  دھنہ نامی دیہات  میں لینڈ کر جاتے ہیں۔ پھر ہمیں نقشہ سے پتہ چلا یہ وادی رقابیہ کا علاقہ ہے۔ ہم وہاں اُتر گئے۔ اُس کے شروع میں ایک کنواں تھا جہاں سے چرواہے آکر پانی نکالتے تھے اور اپنے گوسفندوں کو پانی دیتے تھے۔ ہم نے علاقے کی شناخت  کا کام انجام دیا۔ پتہ چلا عراق کا چوتھا اور پانچواں زرہی ڈویژن اطراف میں مستقر ہے۔  ہم واپس آگئے۔ ہم نے راستے کو ذہن نشین کرلیا تھا۔ ہم مسلسل اورمعین وقت پر دو کوبرا ہیلی کاپٹروں اور ایک جیٹ رینجرز کے ساتھ جاتے وہاں دشمن کی حرکات کو مشاہدہ کرتے۔ یہاں تک کہ ہمیں پتہ چل گیا کہ اس ڈویژن کا سپلائی اور سپورٹ یونٹ دشت شیخ قندی میں مستقر ہے۔ ایک دن جب ہم شناخت کیلئے گئے ہوئے تھے، ہم نے دور سے گرد و خاک دیکھی۔ میں نے اپنے معاون پائلٹ، اسسٹنٹ لیفٹیننٹ ارگاسی سے کہا: "وہ گرد و خاک کیسی ہے؟" اُس نے کہا: "میرے خیال سے بھیڑوں کے ریوڑ کی گرد و خاک ہے۔" میں آگے بڑھا اور  دو کوبرا  کی ٹولی کہ جس میں سے ایک کا پائلٹ احمد دار رس اور دوسرے کا تقوی زادہ تھا، مزید  آگے  بڑھے۔ میں نے دیکھا عراقی فوج  کی روسی ماڈل کی غول پیکر  گاڑیوں کی ایک لمبی لائن  تھی، جس پر میزائل رکھتے تھے  اور وہ اطراف  کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ وہ لوگ وہاں سے شہر دزفول پر میزائل مارتے تھے۔ میں نے اپنے آپ سے کہا اب  ہم ان کا کیا کریں؟ اچانک میرے ذہن میں آیا، وہ کام جو بھیڑیا ریوڑ  کے ساتھ کرتا ہے ،  ریوڑ کے کچھ حصوں کو بقیہ سے جدا کر دیتا ہے۔ ہمیں بھی اس ٹیکنک کو عملی جامہ پہنانا چاہیے تھا۔ میں نے کوبرا کے پائلٹوں سے کہا: میں آخری گاڑی کو ان سے الگ کر رہا ہوں۔ دشمن کی گاڑی نے موڑ کاٹا اور پوری رفتار سے بڑھی۔ ہم نے بھی موڑ کاٹا۔ جب مجھے اطمینان ہوگیا کہ باقی گاڑیاں جا چکی ہیں تو پھر میں اُس کی طرف بڑھا۔ اسی لحظہ میں نے دیکھا کہ ڈرائیور نے گاڑی سے باہر چھلانگ لگائی ہے اور خود کو کسی جھاڑی کے نیچے چھپا لیا ہے۔  میں نے کوبرا کے پائلٹوں سے کہا تم میرے اوپر چکر لگاؤ۔ میں نے ارگاسی سے کہا: "دقت سے سنو میں تم سے کیا کہہ رہا ہوں۔ میں اس جھاڑی کے قریب جاکر اُتر جاؤں گا۔ ہیلی کاپٹر بھی فل آرپی اِم پہ [یعنی ہیلی کاپٹر کا انجن  پوری رفتار کے ساتھ] ہے، تم  تیس سیکند بعد  اس کی پرواز کو کم کردینا تاکہ میں اُسے دیکھ لوں۔ میرا ہدف یہ تھا کہ وہ گرد و خاک اُڑائے تاکہ وہ اپنی طرف سے کوئی عکس العمل نہ دکھا سکے۔ میں ایک لمحے میں انجن کی رفتار کو کم کروں گا اور تم اُسی لمحے اسٹیرنگ کو پکڑ لو گے تاکہ میں ہیلی کاپٹر سے نیچے کود جاؤں۔" اُس زمانے میں ہم بلٹ پروف جیکٹ پہنا کرتے تھے، بہت بھاری چیز ہوتی تھی؛ ہم زیادہ تر اُس کو پہننے سے کتراتے تھے۔ ہم گولی کھانے  کیلئے راضی تھے  لیکن اُسے پہنے پر نہیں۔ میں نے اُس دن پہنی ہوئی تھی۔ میں زور سے چیختے ہوئے نیچے کودا۔ اُس کے پاس ایک کلاشنکوف تھی۔ میں نے اُس کی گردن پر ایک مکا مارا۔ وہ سیکنڈ سارجنٹ تھا۔ اُس نے اپنے ہاتھ اوپر اٹھالیے۔ میں نے اُس کا اسلحہ اٹھا کر پیچھے رکھ لیا۔ میں نے اُسے ہیلی کاپٹر میں سوار کیا۔ ہمارے پاس اُس کا ہاتھ باندھنے کیلئے کوئی چیز نہیں تھی۔  ہم جن کپڑوں سے ہیلی کاپٹر کی صفائی کرتے تھے میں نے اُسی سے اُس کی آنکھوں پر پٹی باندھی  اور اُس کے ہاتھوں کو بھی کرسی کے پیچھے باندھ دیا۔ میں نے ارگاسی سے کہا: "تم کوئی کام نہیں کرنا۔ تم  پیچھے بیٹھ جاؤ اور قیدی کو اپنی سیٹ پر بٹھادو۔ بیٹھے بیٹھے اُس کی گردن میں ہاتھ ڈال کر پکڑلو کہ ہم اُسے لے جاکر چھاؤنی  والوں کے حوالے کردیں۔"

 

احتمالاً یہ دشمن کا سب سے پہلا قیدی ہوگا؟

واقعاً  وہ سب سے پہلا قیدی تھا۔ اُس دن تمام افواج کا کمانڈر بنی صدر دزفول آیا ہوا تھا۔ جب اُسے سارے قضیے کا پتہ چلا اور عراقی قیدی کو بھی لایا گیا، اُس نے اپنے مخصوص لہجے کے ساتھ مبارک باد دی۔ کرنل سید محمود شاہرخ آذین [جنہیں مسئولین نے انتخاب کیا تھا] اُس زمانے میں بنی صدر کے مشاور تھے اور ہر جگہ اُن کے ساتھ رہتے تھے۔ بنی صدر نے کرنل آذین سے کہا: "جناب آذین  ان کی قدر دانی کی جائے۔  کہا جائے کہ انہیں دس ہزار ڈالر دیئے جائیں!" میں نے کہا: ڈاکٹر صاحب مجھے پیسے نہیں چاہیے،  میں چاہتا ہوں باقاعدہ طور پر مجھے اس قیدی کا اسلحہ تحفہ میں دیا جائے۔ اسلحہ کا نمبر ٹائپ کرنے کیلئے دیا گیا اور انھوں نے تائید کردی کہ پائلٹ کیپٹن ناصر ژیان نے عراقی قیدی پکڑا ہے، ہم نے اُنہیں اُسی قیدی کا اسلحہ  بطور تحفہ دیا ہے۔ میں بنی صدر کے ہٹائے جانے کے کچھ عرصے بعد اسلحہ  کا لائسنس لینے گیا تو مجھے مشکل کا سامنا ہوا۔ میں نے کہا: یہ اسلحہ آپ کو ہی مبارک ہو، مجھے نہیں چاہیے۔

 

آپ کس لئے اُس کا اسلحہ رکھنا چاہتے تھے؟

میں ایک مسلح شخص کو خالی ہاتھوں سے گرفتار کرکے لایا تھا۔ میں چاہتا تھا خاندانی افتخار اور وراثت کے عنوان سے اُسے سنبھال کر رکھوں تاکہ میرے بچے افتخار کریں اور کہیں یہ اسلحہ کہ جس کا لائسنس ہے ہمارے والد یا دادا نے  جنگ میں کسی قیدی سے لیا تھا۔ اور اس لئے کہ میں جب بھی اُس پر  نگاہ ڈالوں تو مجھے  جنگ کے دوران کے واقعات یاد آجائیں۔

 

اُس قیدی سے معلومات حاصل کرلی گئی تھیں؟

ہاں۔ جاننے کی دلچسپ بات یہ ہے ، اُس نے تفتیش کرنے والے کو بتایا تھا کہ ہر جمعرات کو اُس علاقے میں بغداد سے گلوکار، میوزیکل گروپ اور رقاصائیں  آتی ہیں اور ہمارے لیے محفل سجاتے ہیں۔ ہم نے منصوبہ بنایا اور کہا جیسا کہ ہر جمعرات کو وہ اس کام میں مصروف ہوتے ہیں اور آدھی رات تک بیدار رہتے ہیں ہم جمعہ کی صبح اُن پر حملہ کر دیتے ہیں۔ ہم علی الصبح تین کوبرا ہیلی کاپٹروں کے ساتھ پرواز کر گئے۔ ہم ہمیشہ دو کوبرا کی جوڑی کے ساتھ جاتے تھے، لیکن اس دفعہ ہم نے ایک کا اضافہ کرلیا کہ جس کے پائلٹ  کیپٹن فراشی تھے۔  جنہوں نے بعد میں اپنا خاندانی نام تبدیل کرکے بہزادی رکھ لیا۔ ایوی ایشن ادارے کو بھی چھوڑ دیا۔ قالین کی ایک مشہور کمپنی کے مالک ہیں۔

 

اُن کا تعلق کرمانشاہ چھاؤنی سے تھا؟

نہیں، وہ مسجد سلیمان چھاؤنی سے ہمارے ساتھ آئے تھے۔   صبح سویرے  کا وقت تھا جب ہم دزفول سے اُڑ کر کلہ قندی کے علاقے میں گئے۔ تقوی زادہ ایک بہادر اور شجاع پائلٹ تھا۔ میں نے اُس سے کہا: تم کیا دیکھ رہے ہو؟ اُس نے کہا: کچھ نہیں! میں نے کہا: یہاں بیچ میں ایک راکٹ مارو۔ جیسے ہی اُس نے راکٹ مارا، گلوکارائیں اور رقاصائیں شہد کی مکھی کی طرح باہر نکلے۔ اُس زمانے میں مجھے ایک سال کیلئے سینئر بنایا گیا تھا اور میں میجر ہوگیا تھا۔ تقوی زادہ نے کہا: میجر صاحب ان لوگوں کو ماروں؟میں نے کہا: مجھے کیا پتہ ماریں یا نہیں ماریں! بالآخر وہ لوگ دشمن کے علاقے میں ہیں۔ وہ دشمن کا لاجسٹک ایریا ہے تھا  اور وہاں سے رات کو دزفول کے بے دفاع لوگوں پر میزائل مارے جاتے تھے۔

اُسی ۴ اکتوبر ۱۹۸۰ والے دن ہم شوش گئے۔ شوش میں ایک قلعہ ہے۔ توپخانے کا واچ مین ایک لیفٹیننٹ تھا۔ میں اُسے اس قلعہ میں لے جاتا۔ وہ اوپر سے کرخہ نہر کی تہہ  تک دیکھ لیتا۔ کرخہ نہر کے کنارے ریت اور بجری کے ٹرک خالی کئے گئے تھے۔ اس ریت اور بجری کے ٹیلوں کے پیچھے، میں نے دس سے پندرہ لوگوں کو کھڑے ہوئے دیکھا۔ میں اُن کے پاس لینڈ کر گیا۔ میں نے معاون پائلٹ سے کہا جاکر دیکھو یہ کون لوگ ہیں؟ کس لئے آئے ہیں؟ اُن میں سے ایک کے ہاتھ میں شکاری بندوق تھی ،  کچھ دوسروں کے ہاتھ میں گرز تھے۔ ایک شخص نے بھالا اٹھایا ہوا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ فی الحال ہمارے پاس جو چیز ہے ، بس یہی ہے۔ ہم اس لئے آئے ہیں تاکہ جہاں تک ہوسکتا ہے ہم خود اپنا دفاع کریں۔ میں نے کہا  جب تک یہ فکر باقی ہے اور جب تک ہمارے پاس ایسے باغیرت اور جوش و ولولے والے افراد موجود ہیں، انشاء اللہ ہم شکست نہیں کھائیں گے۔

 

آپ ساخہ میں کب تک رہے؟

سن ۸۱ کے ستمبر تک  ساخہ میں رہا۔ ستمبر کے آخر میں، میں کرمانشاہ میں موجود ایوی ایشن چھاؤنی میں چھاؤنی کے ڈپٹی سیکریٹری کے عنوان سے منتقل ہوگیا۔ انقلاب کے بعد کرمانشاہ کا نام قہر مان (ہیروز کا شہر) شاہ رکھ دیا اور پھر باختران۔ کچھ عرصہ بعد دوبارہ کرمانشاہ ہوگیا۔ ہمارے زیادہ تر ڈاکومنٹس اور سوابق کا اندراج باختران کے نام سے  ہوا ہے۔ کچھ عرصہ بعد مجھے میجر کے درجہ سے کرمانشاہ کی ایوی ایشن چھاؤنی کا کمانڈر بنا دیا گیا۔

 

کرمانشاہ میں ایوی ایشن کی چھاؤنی کون سے علاقوں کی امنیت کو برقرار رکھتی تھی؟

کرمانشاہ میں ایوی ایشن کے گروپس کو ملک کے تمام مغربی علاقوں میں امنیت برقرار رکھنی تھی۔

 

کیا ایوی ایشن کے دوسرے گروپس کی بھی ملک کے مغربی علاقوں میں ڈیوٹی لگائی گئی تھی؟

نہیں؛ ایوی ایشن کا کوئی گروپ مغربی علاقے میں نہیں آتا تھا۔ کرمانشاہ میں ایوی ایشن کی چھاؤنی  تین علاقوں وادی قوچعلی، ابوذر چھاؤنی اور سنندج کے ۲۸ ویں ڈویژن میں ٹھہری ہوئی تھی۔

 

آپ کا سب سے طاقتور گروپ کون سے علاقے میں مستقر تھا؟

وادی قوچعلی میں؛ ہمیشہ کم سے کم تین عدد کوبرا، سہ عدد ۲۱۴ اور ایک عدد جیٹ رینجر وہاں مستقر رہتے تھے۔ جب میں کمانڈر بنا، سب سے پہلی چیز جس کا مجھے خیال آیا، یہ تھی کہ میں آپریشن والے علاقوں کا دورہ کروں۔ میری تشخیص یہ تھی کہ ہمیں سرپل ذھاب میں  گروپ رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

 

کیوں؟

اس وجہ سے کہ امنیت اور چھپنے کیلئے کوئی مناسب جگی نہیں تھی۔ ایک دفعہ کی بمباری سے تمام ہیلی کاپٹرز نابود ہوجاتے۔ میں نے کہا: ہم پرندوں کی ہلاکت کے وسائل کیوں رکھیں، جب بھی ہمارے ذمہ ڈیوٹی لگائی جائے گی، ہم چھاؤنی سے چلے جائیں گے جہاں ہر طرح کے وسائل موجود ہیں۔ جیسے خوارزم یا ذوالفقار آپریشن، ہم قلاجہ میں جو ۸۱ ویں زرہی ڈویژن کا ہید کوارٹر تھا، وہاں مستقر ہو گئے۔

 

۸۱ ویں زرہی ڈویژن کا کمانڈر کون تھا؟

سرہنگ اسماعیل سہرابی تھے۔ ایک کنٹینر جس میں ضرورت کی تمام چیزیں موجود تھیں ہم اُسے کرمانشاہ کی ایوی ایشن چھاؤنی سے قلاجہ میں لے گئے۔ کرمانشاہ میں ایوی ایشن کا پہلا جنگی گروپ موجود تھا اور اس ادارے کو اُس  کی ضرورت کی چیزوں کے مطابق مرتب کیا گیا تھا۔ میں نے کہا ایوی ایشن  کے عزت اور آبرو کو باقی رکھنے کیلئے اس کنٹینر کو قلاجہ میں ڈویژن کے ہیڈ کوارٹر لے جاؤ اور میں نے شہید آسیائی  کو قلاجہ میں اپنے سے رابطہ رکھنے کا افسر بنا دیا۔

 

وہ اُس زمانے میں کرمانشاہ میں ڈیوٹی انجام  دے رہے تھے؟

ہاں۔ شہید آسیائی رُکن سہ کے سربراہ اور کرمانشاہ کے رہنے والے تھے۔ میں نے کہا تم خود وہاں جاؤ، ہیڈ کوارٹر والوں سے ہماہنگی کرو اور اُن کے ساتھ رابطے میں رہو۔ گذشتہ زمانے میں، جب ایوی ایشن ادارے کو بڑھانے اور وسعت دینے کا فیصلہ کیا گیا، اُس کیلئے ایک دفتری جدول کی تجویز دی گئی ، جسے منظور کرلیا گیا۔ دفتری جدول کی بنیاد پر طے پایا، کرمانشاہ کے فوجی گروپ، مسجد سلیمان کے فوجی گروپ، کرمان کے فوجی گروپ اور اصفہان کے عمومی سپورٹ گروپ، اصفہان میں ایوی ایشن کا ٹریننگ سنٹر اور تہران میں طیاروں کی بٹالین یا چھاؤنی کی بنیاد ڈالی جائے اور اس کی بنیاد پر ایوی ایشن نے چھاؤنیوں کیلئے ساز سامان کی خریداری کی؛ ہیلی کاپٹر اور اُس کے وسائل کی خریداری سے لیکر پٹرول کی گاڑیوں وغیرہ تک۔

 

کرمانشاہ کیوں سب سے پہلا گروپ تھا؟

جب  ہم کمانڈنگ اسٹاف کی ٹریننگ حاصل کر رہے تھے، ہمیشہ ایک فرضی دشمن ہماری پڑھائی کا حصہ ہوتا تھا اور اُس وقت عراق  کو فرضی دشمن سمجھا جاتا تھا۔ اس وجہ سے کہا گیا تھا سب سے پہلے کرمانشاہ میں ایوی ایشن کا گروپ مستقر ہو اور اُسے تمام وسائل دیئے جائیں  تا کہ اگر ملک کے  غرب سے کسی خطرے کا سامنا ہو تو کرمانشاہ میں موجود ایوی ایشن اپنے ذمہ داریوں کو انجام دے سکے۔

 

لیکن ہماری عراق سے مشترکہ سرحد  کا سلسلہ ملک کے جنوب تک  جاری ہے …

شاید  اس وجہ سے ہو کہ ۹۲ واں زرہی ڈویژن  عراق سے مقابلہ کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ضمنا مسجد سلیمان کا زرہی گروپ بھی بہت تیزی کے ساتھ اپنے مشنز کو انجام دے سکتا تھا۔

 

خوارزم آپریشن کے بارے میں بتائیے؟

میرے کمانڈر بننے کے بعد، ذوالفقار یا خوارزم آپریشن پہلا آپریشن تھا۔ میں نے پائلٹ ساتھیوں کو ہیڈ کوارٹر کی مسجد میں جمع کیا اور کہا: ذوالفقار یا خوارزم آپریشن کیلئے  [جو ۸ جنوری ۱۹۸۱ء کو انجام پایا] ۸۱ ویں زرھی ڈویژن کی دو بٹالین   کے ساتھ ایل خزل کے قبائل اور ساحلی پولیس تعاون کر رہے ہیں تاکہ صالح آباد کے غرب میں واقع میمک کے پہاڑوں کو واپس لیا جائے۔ میجر یحیی شمشادیان (جو ۷ اکتوبر ۱۹۸۲ء کو سومار کے علاقے میں شہید ہوگئے)نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور کرمانشاہی لہجے میں کہا: ہم چاہتے ہیں ہمارا کمانڈر ایسا شخص بنے جو آپریشن   میں بھی ہمارے ساتھ ہو۔ میں نے کہا: انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا، آپ پریشان نہیں ہوں۔ اُس کے بعد ہم جاکر آپریشن کیلئے قوچعلی وادی میں مستقر ہوگئے۔ اس آپریشن میں شمشادیان کوبرا ہیلی کاپٹر کے ساتھ تھا اور ہمارے پاس ایک اژدر نظری نام کا اسسٹنٹ لیفٹیننٹ تھا  جو کوبرا ماوریک کا پائلٹ تھا اور جیٹ رینجرز کے ساتھ مل کر ہم نے آپریشن میں شرکت کی اور واپس آگئے۔ میں نے آپریشن کے بعد کہا: جناب شمشادیان آپ راضی ہوگئے کہ آپ کمانڈر فقط کرمانشاہ میں نہیں رہا؟ انہوں نے سر ہلایا اور مسکرا دیئے۔ میری کمانڈ کو مضبوط کرنے کیلئے یہ پہلا قدم بہت اچھا رہا۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3512



http://oral-history.ir/?page=post&id=7999