ہفتہ تحقیق کی مناسبت سے نشست

واقعات کی تحقیق اور یادوں کو قلمبند کرنا

مریم رجبی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-01-06


ایرانی زبانی تاریخ کی سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، ہفتہ تحقیق اور ہنر انقلاب اسلامی کی مناسبت سے ایک خصوصی تحقیقاتی نشست"واقعہ کی تحقیق اور یادوں کا لکھنا"10 دسمبر 2017ء کو آرٹ گیلری کے سلمان ہراتی ہال میں منعقد ہوئی۔ اس نشست میں حجت الاسلام سعید فخر زادہ، محمد قاسمی پور اور جواد کامور بخشایش نے شرکت کی اوراپنی  رائے کا اظہار کیا۔

ابتداء میں مؤلف جواد کامور بخشایش نے کہا: "اس نشست کے منعقد کرنے کا مقصد چند اہم ابحاث ہیں جن کی کلیات، ثقافت و ہنر کی حدود میں تحقیق کے مسئلے سے آگاہی اور ثقافت و ہنر میں تحقیق کے دائرے  میں غفلت کا شکار زاویوں  سے مربوط ہیں،  اور یہ کہ ہنر انقلاب اسلامی ایک مستقل رجحان  کے عنوان سے پیش ہوسکتا ہے یا نہیں؟ لیکن آج کی خصوصی نشست  یادوں کی تحریر  اور خاص طور سے واقعہ کی تحقیق سے مربوط ہے۔ ہنر سے مربوط ادارہ  بھی یادوں  کی تحریر میں بانی  اور رہنما کے عنوان سے کئی سالوں سے انقلاب اسلامی اور دفاع مقدس کے بارے میں کامیاب آثار کی پیداوار سے یادوں کی تحریر کو فروغ دے رہا ہے۔

اگر ہم تحقیق کی تعریف کرنا چاہیں تو ہم کہیں گے تحقیق مجہول سے پردہ ہٹانے کیلئے ایک منظم حرکت ہے۔ آج کے دور میں علم ہر معاشرے  کیلئے اصلی جڑ اور بنیاد، اُس کی بلندی اور ترقی کا ذریعہ ہےاور یہ بلندی اور ترقی بھی مختلف تحقیقات کی انجام دہی کے مرہون منت ہے۔ ہمارے معاشرے میں تحقیق کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ لیبرل آرٹس کی فیلڈ  کہ جسے ہم  خصوصی طور پر اپنائے ہوئے ہیں، جہاں بھی تحقیق انجام دی گئی، وہ فضا، کامیاب فضا رہی ہے۔ ہم تحقیق کے ذریعے  انسانی علوم اور اپنے علاقائی علوم  کو وسیع کرکے ، علم کی سرحدوں کو بڑھا سکتے ہیں اور انشاء اللہ ایک دن وہ آئے گا  ہم دفاع مقدس کی ادبیات کو ان عمیق اور وسیع تحقیقات  کے ذریعے کہ جس کی بنیاد رکھی جائیگی اور اسے انجام دیا جائے گا، عالمی صورت دیں۔"

 

واقعہ، آسان اور ناممکن مقولہ

پھر کامور بخشایش نے دفتر ادبیات انقلاب اسلامی میں شعبہ زبانی تاریخ کے انچارج حجت الاسلام فخر زادہ  سے واقعہ کی کیفیت اور یادوں کی تحریر میں تحقیق کی کارکردگی کے بارے میں سوال کیا اور انھوں نے جواب دیا: واقعہ کا شمار اُس زمرہ میں ہوتا ہے جو آسان بھی ہو اور مشکل بھی؛ یعنی جب ہم واقعہ کا نام لیتے ہیں، کوئی بہت ہی سادہ سی چیز ہے، لیکن کام اور استعمال کی مرحلے میں بہت وسیع میدان ہے جس کیلئے بہت زیادہ تحقیقات کی ضرورت ہوتی ہے کہ جس کے بہت بڑے حصے کو  علمی تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے۔ واقعہ کیا ہے اور ہم  کس چیز کو واقعہ کہیں؟ کیا وہ چیز جو کہی اور لکھی جاتی ہے، وہ واقعہ ہے؟ اگر لوگوں نے جھوٹی باتیں کہی اور لکھی ہیں، جو چیز اُن کے ذہن میں ہے اگر وہ اس کی تحریف کردیں، کیا پھر بھی اُسے واقعہ کہیں گے؟اگر ہم تقسیم بندی کریں اور جو چیز بیان ہوئی ہے، اُسے واقعہ نہ کہیں بلکہ  ہم اُسے "بناوٹی" کہیں، ہم انہیں ایک دوسرے سے کیسے جدا کریں؟ حقیقت تک رسائی کیسے ہو؟ہم لوگوں کے ذہنوں میں تو نہیں ہیں کہ ہمیں پتہ چل جائے  کہ اُن کی باتیں حقیقت پر مبنی ہیں یا نہیں؟

دوسرا بہت اہم مقولہ یہ ہے کہ بنیادی طور پر واقعہ  کی نوع کیا ہے اور ہم کس چیز کو واقعہ کہتے ہیں؟ اور ان واقعات کے ذیل میں کیا چیزیں ہیں؟ یہ سب خود ایک تحقیق کے زمرے میں آتی ہیں اور ایک لمبی بحث ہے کہ جسے آپ کی خدمت میں فہرست کی صورت میں عرض کروں گا۔  سانچے کے لحاظ سے ہمارے پاس کچھ مکتوب واقعات ہیں اور  کچھ زبانی واقعات ؛ کیا مکتوب اور زبانی واقعات میں کوئی فرق ہے؟ اگر فرق ہے، کس دائرے میں ہے؟ مکتوب واقعات کے مصادیق کیا ہیں؟ آیا ایک صحافی کی لکھی رپورٹ یا کسی منظر  کے بارے میں بتانے کو ہم واقعہ  کہتے ہیں؟ کیا واقعات صرف اُس  چیز کا نام ہے جسے لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا ہے؟  فقط وہی واقعہ  ہے؟ یہ وہ ابحاث ہیں جن پر گفتگو ہونی چاہیے اور اس کا خود ایک وسیع میدان ہے۔ لیبرل آرٹس کی فیلڈ میں واقعہ کا مقام و مرتبہ ادبیات  میں بیان ہوتا ہے یا تاریخ یا سوشل سائنس میں؟کیا وہ واقعہ جو ادبیات کی فیلڈ میں مورد توجہ  ہے تاریخ میں مورد توجہ قرار پانے والے واقعہ سے  مختلف  ہے؟ وہ واقعہ جسے ہم تاریخ کی فیلڈ میں استعمال کرتے ہیں، اُس کی کیا خصوصیات ہونی چاہئیں  اور وہ واقعہ جسے ہم ادبیات میں استفادہ کرتے ہیں اُس میں کونسی خصوصیات ہونی چاہئیں؟ واقعہ کی بحث  عمومی فرہنگ (فرہنگ اجدادی) میں بھی درپیش ہے۔ بنیادی طور پر ہمارے لوگ واقعہ کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟ عمومی فرہنگ اور معاشرے کے عمومی مسائل میں واقعات  کیا تاثیر رکھتے ہیں؟یہ تاثیرات کتنی وسیع ہوسکتی ہیں؟ اور اُس طرف سے، کیا انسانوں کے واقعات عمومی فرہنگ سے متاثر ہیں؟ یہ ایسے موضوعات ہیں جن کے بارے میں تحقیق ہونی چاہئیے؛ یعنی واقعات کی فیلڈ میں اب تک جو کچھ جمع ہوا ہے اُن تمام آثار کا جائزہ لیا جائے۔ اب تک دس ہزار سے زیادہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور معلومات کا ایک انبار لگا ہوا ہے؛ بنیادی طور پر ادبیات کی فیلڈ میں ایک جدید ادبی اثر ایجاد  کردیا ہے؛  اس تاریخ اور اس حجم کا کمیت ، کیفیت   اور بہت زیادہ موضوع کے لحاظ سے  جائزہ لینے کیلئے اُن ابحاث کا محتاج ہے جو تحقیقی میدان میں کی جائیں۔ یہ واقعہ کے موضوع کی مختلف شاخیں ہیں کہ جس میں تحقیقی اوزار کے ساتھ داخل ہونا چاہیے اور ان کی تقسیم بندی کی جائے۔"

 

تحقیق کے تین مرحلے

آگے چل کر کامور بخشایش نے کہا:  تحقیق قدم بہ قدم انجام پانے والا عمل ہے جس کا مقصد معلومات کا جمع کرنا اور تجزیہ و تحلیل کرنا  اور اُس کا  اصلی مقصد ادراک کو بڑھانا ہے۔ اگر ہم واقعات لکھنے کی فیلڈ میں تحقیق کے طریقہ کار کا جائزہ  لینا چاہیں، تو مجھے کہنا پڑیگا  موضوع کی تلاش اور اُس موضوع کے مختلف پہلوؤں  کا جائزہ لینا ایک مرحلہ بہ مرحلہ حرکت ہے جس کی تحقیق کے دائرہ کار میں اپنی تعریف ہے؛ حقیقت میں اس تحقیقی عمل کیلئے تین مرحلے بیان ہوتے ہیں۔ تحقیق میں پہلا قدم سوال اٹھانے کا ہے؛ جب ہم ایک مجہول سے ایک معلوم تک پہنچنا چاہتے ہیں، ہم سوال کے ذریعے آگے بڑھتے ہیں۔ دوسرا قدم  اس موضوع اور سوال کے بارے میں  پہلے سے موجود اطلاعات کا جائزہ لینا؛ ہم دیکھیں کہ دوسروں نے ہم سے پہلے اس موضوع کے بارے میں کیا کام انجام دیئے ہیں اور اس سے کونسی علمی اور تحقیقی معلومات جمع ہوچکی ہیں۔ (ہماری علمی وضعیت کا جائزہ لینے کا ایک طریقہ اور یہ کہ علمی لحاظ سے ہم  دنیا میں کتنے مورد توجہ ہیں اور ہمارا مقام کہاں ہے، ہمارے مقالوں کی نسبت دیئے جانے والے ریفرنسوں کا معیار ہے۔ دراصل اس بات کے ذریعے  میں دنیا میں تحقیق کا مقام عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے مقالوں اور منابع کا جتنا زیادہ ریفرنس ہوگا، دنیا میں ہمارا علمی مرتبہ اُتنا اوپر جائے گا۔) تیسرا قدم کہی ہوئی باتوں اور معلومات کا جمع کرنا ہے تاکہ جواب تک پہنچا جائے۔ ایک محقق کا اصلی مقصد بھی تیسرا قدم ہے؛ اصل میں پہلا اور دوسرا قدم، تیسرے قدم تک پہنچنے کیلئے سیڑھی کی حیثیت رکھتے ہیں۔

واقعات لکھنے کے دائرہ کار میں جو چیز ایک سوال کے عنوان سے پیش ہوسکتی ہے، وہ موضوع کو حاصل کرنے کی کیفیت ہے۔ یادوں کی تحریر میں ایک مہم ترین نکتہ موضوع کو تلاش کرنا ہے جو انقلاب کی تاریخ اور دفاع مقدس کی تاریخ کے چھپے ہوئے پہلوؤں کو مدنظر رکھتا ہو؛ اس موضوع کو کچھ خصوصیات کا حامل ہونا چاہیے۔ جناب محمد قاسمی پور سے میرا سوال یہ ہے کہ ہم یادوں کی تحریر میں موضوعات کی کس شکل میں تعریف کرسکتے ہیں  اور کارکردگی کے لحاظ سے کون سے موضوعات ہمارے مدنظر ہوں،  اس نقطہ نظر سے کہ اس وقت یادوں کی تحریر کے دائرہ کار میں انقلاب اسلامی اور دفاع مقدس کی تاریخ نگاری میں باقی رہ جانے والے پہلوؤں کا موضوع کیا ہوسکتا ہے؟"

 

یادوں کی تحریر میں موضوع کا تعین

صوبوں میں ہنر سے مربوط ادارے کے مطالعات اور ثقافتی استحکام کے دفتر کے رئیس محمد قاسمی پور نے جواد کامور بخشایش کے سوال  کا جواب دیتے ہوئے کہا: "یادوں کی تحریر  کی بحث میں، کلمہ "سوژہ" (موضوع) میرے لئے مسئلہ ہے؛ کیونکہ اس میں لفظ "ژ" کا تلفظ کرنا بھی مشکل ہے، یادوں کی تحریر اور یادوں کی تحقیق بھی ایک انسانی امر ہے کہ ہم ایک انسان کے ذہن اور یاد پہ تمرکز کرتے ہیں اور "سوژہ" (موضوع) اُن کلمات میں سے  ہے جو زبردستی کسی معنی میں استعمال ہوتے ہیں؛ بالکل اُسی طرح جیسے ہمیں کلمہ "تذکر" اچھا نہیں لگتا  اور یہ بات کہنے کے ساتھ "میں تمہیں  ایک نکتہ کی طرف تذکر دلانا چاہتا ہوں" ہم چوکس ہوجاتے ہیں، لیکن اس بات کے سننے سے "میں تمہیں ایک نکتہ کو یاد دلانا چاہتا ہوں" ہمارے ذہن کی فضا تبدیل ہوجاتی ہے۔ میرے خیال میں "موضوع" کا لفظ "سوژہ" سے زیادہ  مناسب ہے ، اگر ہم مسئلہ کی طرف تھوڑا اعتقادی اور اندرونی لحاظ سے نگاہ کریں، تو بہتر ہوگا؛ البتہ ریسرچر، محقق  اور جستجو کرنے والے کی نگاہ سے اس موضوع کو عرض کروں گا۔ میں احساس کرتا ہوں کہ بعض اوقات موضوع کے انتخاب میں بہت زیادہ بے توجہی  رائج ہے؛  یعنی تحقیق کو جو فکر، سکون اور تدبر کا پیش منظر درکار ہوتا ہے اور جسے مشاہدہ اور مطالعہ پر مبنی ہونا چاہیے، وہ نہیں ہوتا اور جناب کامور نے کام کے ستونوں اور اُسے جاری رکھنے کیلئے جس راستہ کی تشریح کی ہے، موضوع انتخاب کرنے یا موضوع مشخص کرنے کے معاملے اور یادوں کی بحث میں کاملاً صدق کرتا ہے۔

ہم نے دیکھا ہے کہ افراد بغیر مطالعہ، زمانوں کی تاریخی معلومات ،جگہوں سے متعلق شناخت اور جس حدود میں حادثہ رونما ہوا ہے، کی طرف رجوع کئے بغیر انتخاب کی طرف ہاتھ بڑھا دیتے ہیں۔ بعض اوقات موضوع اور مضمون کے انتخاب میں انگیزے، اصلی اور بامقصد انگیزے نہیں ہوتے؛ موضوع کے انتخاب کی بحث کیلئے کچھ اخلاقی مبانی کی رعایت کرنی چاہیے۔ ہمیں بہت دھیان اور احتیاط سے موضوع کے انتخاب کی طرف قدم بڑھانا چاہیے  اور راستے کو اُسی اسلوب کے تحت قدم بہ قدم طے کرنا چاہیے جو تحقیق اور جستجو کیلئے ضروری ہے۔ میں نے ایسے موضوعات کو بہت دیکھا ہے جن پر تدبیر اور ماہرانہ نگاہ کے بغیر کام کیا گیا او ر اُنہیں لکھا اور ریکارڈ کیا گیا ، لیکن وہ ایک گوشے میں پڑے رہ گئے۔ میری نظر، یہ ہے کہ جو لوگ ان کاموں کو انجام دیتے ہیں چاہے ٹیم کی شکل میں چاہے افرادی صورت میں، اُنہیں اس کام کی ٹریننگ حاصل کرنی چاہیے  جس میں اُن کے لئے اخلاقی مبانی کے قضیے کی توصیف و تشریح دی جائے اور انتخاب کے طریقہ میں بھی اُن کی رہنمائی اور مدد کی جائے اور اس راہ میں انتخاب موضوع کو حتمی اور قطعی  صورت میں پالیں۔ میرا تجربہ اور میری رائے یہ ہے کہ انسانی مسائل کو انسانی اور گہری نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔ کامیاب ترین  یادوں کی تحقیقات، جمع کرنا، لکھنا، ریکارڈ کرنا اور اُن واقعات کی تحریر جو آخری دو تین دہائیوں میں ہمارے یہاں انجام پائی ہیں، وہ واقعات کو بیان کرنے والے اور ایسے محقق جو اس کام کو لکھتا اور ریکارڈ کرتا ہے کے درمیان ہمدلی، محبت  اور ہماہنگی کا نتیجہ ہے؛ یعنی مضبوط انٹرویو لینے والے مضبوط واقعہ بیان کرنے  والے  اور یادوں کی تحریر کی مضبوط محصولات جن کا ہم نے آخری دو سے تین دہائیوں میں  مشاہدہ کیا ہے، وہ واقعہ بیان کرنے والے اور واقعہ کی تحقیق کرنے والے کے درمیان اُنس اور قرابت کا نتیجہ ہے۔ جہاں بھی کام ، قرارداد اور آرڈر کی صورت میں ہوا، عام طور سے اُس میں آپ مطلوبہ خصوصیات اور مشخصات کو نہیں دیکھیں گے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یادوں کی تحقیق کیلئے ایک طرح کا ذاتی طریقہ  اور یادوں کا لکھنا ، ریکارڈ کرنا ، ان کو ممکنہ حد تک مورد تحقیق قرار دینا چاہیےاور اس سلسلے میں کامیاب لوگ آگے آئیں اور اپنے تجربات بیان کریں۔  اعتماد کرنے کا طریقہ، رکاوٹوں پر غلبہ پانے کا طریقہ، رابطہ برقرار کرنے کا طریقہ اور اس کام کیلئے ارتباطی مہارتوں کو ثقافت، عقائد اور ہمارے نظریات کے مطابق ہونا چاہیے۔ ہمارے معاشرے  میں اس فیلڈ سے مطابق موجود کام کا طریقہ اور وسائل زیادہ تر مغربی منابع سے لیا گیا ہے اور تعلیم کے وقت جن ہیڈنگوں کو بیان کیا جاتا ہے وہ بہت کلی ہوتی ہیں  اور اسے کبھی میدانی تحقیق کا سامنا نہیں ہوا۔ ہم لوگ مثلاً ارتباطی اور مباحثی مہارتوں کے زمرہ میں آنے والے چیزوں کو بیان کرتے ہیں، لیکن یہ مہارتیں اس قدر آزمائی ہوئی نہیں ہیں کہ ہم دیکھیں ہمارے کام کے موضوع میں واقعات اخذ کرنے کا پس منظر کتنا کامیاب اور فائدہ مند ہے۔ "

 

تین طریقے

اس کے بعد کامور بخشایش نے کہا: طریقہ جانچنے کی فیلڈ میں تحقیقی طریقہ کار مختلف قسموں میں تقسیم ہوتے ہیں جن میں سے ایک قابل استفادہ تحقیقی طریقہ ہے اور ایک بنیادی طریقہ ہے۔ ہمیں بنیادی طریقہ کار کی طرف جانا چاہیے، کیونکہ یہ طریقہ علم کی زیادہ سرحدوں کو مدنظر رکھتا ہے۔ قابل استفادہ تحقیق کا طریقہ زیادہ تر روزانہ استعمال ہونے والی اور وقتی ابحاث کیلئے استعمال ہوتا ہے، لیکن یادوں کی تحریر کے سلسلے میں مجھے جس چیز کی تشویش ہے، یہ ہے  کہ یادوں کو لکھتے وقت، تحقیق کے طریقوں اور اصولوں کی بنیاد پر ہمیں کس شیوہ کو اپنانا چاہیے؟ ہمارے پاس تحقیق کا وضاحتی، وضاحتی – تجزیاتی اور تجزیاتی طریقہ ہے۔ تحقیق کا وضاحتی – تجزیاتی طریقہ کیفیت بیان کرنے کے ساتھ کیوں اور کیسے کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ میری نظر میں تحقیق کے دائرہ کار میں کیوں اور کیسے کا بیان بہت زیادہ  اہمیت رکھتا ہے، خاص طور سے یادوں کے لکھنے میں۔جیسا کہ ہمارا واقعہ ایک معیاری واقعہ ہو کہ کئی عرصوں بعد ہماری پیداواری اثر پر مختلف تحقیقات کا انجام دینا ممکن ہو، اس کے لئے ایک بہت ہی مضبوط اور قوی تحقیقی تاریخچہ ہو۔ اگر ہم تحقیق اور اپنے واقعہ کے متن کی پیداوار  کے عمل میں اُس کی کیفیت کے بیان کے ساتھ اُس کے کیوں اور کیسے کی طرف اشارہ کریں، تو ہم نے تحقیق کے وضاحتی – تجزیاتی اور وضاحتی – تحقیقی روش کو اپنایا ہے۔ انٹرویو شروع ہونے سے پہلے، گہری اور وسیع تحقیقات کو انجام دینے کے لئے یہ عمل لازمی ہے؛ یعنی ہمیں واقعات لکھنے کے عمل  کے مختلف مراحل میں تحقیق کا سامنا ہے اور تحقیق انجام دیئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ پہلا قدم موضوع کو مشخص کرنا اور انٹرویو لینے والے کا تحقیق سے متعلق موضوع کے مختلف زاویوں اور پہلوؤں پر مسلط ہونا ہے۔"

 

واقعہ اور ادبیات

کامور نے حجت الاسلام فخر زادہ سے سوال کیا کہ انٹرویو شروع ہونے سے پہلے یادوں کی تحریر کے عمل میں کیا چیز تحقیق کا کردار ادا کرسکتی  ہے  اور تحقیق، انٹرویو لینے والے یا تدوین کرنے والوں کو مورد نظر موضوع  پر مسلط ہونے، اُس کے راوی سے روبرو ہونے میں کس حد تک کردار ادا کرسکتی ہے؟ جناب فخر زادہ نے جواب میں کہا: "ہمیں شروع میں ایک بنیادی قانون بنالینا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ  کیا ضروری ہے کہ واقعات کی حقیقت کو  بالکل اُسی طرح ہونا چاہیے جس طرح پیش آئیں ہیں؟  یا حقیقت سے نزدیک ہوں؟ یا ضروری نہیں کہ تصدیق شدہ اور حقیقت پر مبنی ہوں اور اُس میں تخیلات بھی موجود ہوسکتے ہیں؟ آج ہمارا نقطہ نظر زیادہ تر ادبیات کے دائرے میں واقعہ کی بحث ہے اور جیسا کہ ہم ادبیات کی عینک سے واقعہ کو دیکھتے ہیں، ممکن ہے لوگوں کے ذہنوں میں  یہ گمان پیدا  ہو کہ ہم داستان اور شعر کی طرح  واقعہ میں بھی ذہنی خلاقیت سے استفادہ کرسکتے ہیں کہ جو خود اپنی جگہ ادبیات میں ایک اہم موضوع کا حامل ہے؟ذہنی خلاقیت، یعنی داستان  لکھنے میں ایسی چیز کو خلق کرتا ہے جس کا وجود نہیں اور اُس کے ساتھ آنے والی نسل  کیلئے ایک پیغام منتقل کرتا ہے کہ یہ کام بہت قیمتی ہے۔ یہ لکھنے والے کا ہنر ہے کہ ایک پیغام کو  کہ جسے ایک  ثقافتی شخصیت آنے والوں کیلئے منتقل  کرنا چاہتی ہے لیکن ایسا ممکن نہیں ہوتا اور وہ ایک جملہ میں ، بہت تیزی سے آنے والوں کیلئے منتقل کرتا ہے؛ جیسے ایمان، شجاعت اور ضمانت کہ انہیں داستان کی شکل میں بیان کرتا ہے اور قاری کی جان، دل اور روح میں اُتر جاتا ہے۔ داستان لکھنے والے نے ایک ذہنی داستان خلق کی اور یہ خلق اس قدر  خوبصورت ہے جو قابل یقین ہے  اور سامنے والا اسے قبول کرلیتا ہے اور لکھنے والے کا پیغام پہنچ جاتا ہے۔ یہ ایک قیمتی ہنر ہے اور ہمارے دین میں خلق کی مخالفت نہیں ہے اور قصہ اور داستان میں تخیلات سے استفادہ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ لیکن کیا اس وقت بھی جب واقعہ ادبیات کے زمرہ میں چلا گیا ہے، اس میں بھی تخیلات سے کام لینے کی اجازت ہے؟ اگر ہم اس بات کے قائل نہ ہوں اور کہیں کہ حتی اگر واقعات، ادبیات کے دائرے میں بھی استعمال ہوتے ہیں، تو ہمیں ادبیات دفاع مقدس اور انقلاب کی بحث میں، جو اہم اور قیمتی موضوع ہے، تخیل کو داخل ہونے نہیں دینا چاہیے، ایسے میں تحقیق کا مسئلہ تصدیق شدہ  اور سچی شکل اختیار کریگا۔

اگر کوئی، کسی ایک فرد کے واقعات کو جمع کرنا چاہتا ہے، اگر وہ واقعات بیان کرنے والے کی طرف سے دیئے گئے موضوع پر مسلط نہ ہو، وہ بہت آرام سے مسائل  کو چھوڑ کر گزر سکتا ہے اور حقائق کو نہ دیکھے اور اُن کا مقایسہ نہ کرے؛ مثلاً اسلحوں کے استعمال  میں کہ اُن ایام میں سپاہی مذاق کرتے تھے اور کہتے تھے ہم نے  دشمن کی طرف ریوالور تانی اور اُس پر برسٹ مار دیا! کم سے کم یہ تو مسلم ہے کہ ریوالور میں برسٹ نہیں ہوتا۔ یہ حقیقت کے خلاف بالکل واضح سی بات ہے کہ معلومات نہ ہونے کی وجہ سے قاری اُس پر یقین کرلیتا ہے۔ جب جنگ کے مسائل اور حوادث زیادہ پیچیدہ ہوتے ہیں،  اُس شخص کو کم سے کم دشمن کے حرکت کے طریقہ  کا پتہ ہو اور یہ مہارت ہونی چاہیے کہ  دشمن کس قسم کا ہے۔ بہت ساری فلمیں جو بنائی گئی ہیں اور ہمارے سینماوں  پر آچکی ہیں،  حقیقی نہیں ہیں؛ دشمن پرحملہ  کا طریقہ ، دشمن کا رویہ، ہم پر دشمن کا ہم حملہ اور دشمن کے دفاع کرنے کا طریقہ۔ انہیں سینما کی دنیا میں نمایاں اور ظاہر ہونے کی اجازت ہے، لیکن واقعات کے سلسلے میں ان غلطیوں کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ لہذا ضروری ہے کہ اُس موضوع کے بارے میں تحقیق کی جائے۔ جب موضوع بیان ہوجائے، اُس موضوع کے بارے میں فعلاً ہمارے معاشرے میں جو منابع موجود ہیں، جیسے شائع ہونے والی کتابیں، صاحب آراء شخصیات جو موجود ہیں، ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ مثال کے طور پر ایک دوست جو واقعات لکھنے میں  با صلاحیت ہے، اُس نے جنگ کے ڈاکٹروں کی یادیں لکھنے کا کام شروع کیا۔ جب کتاب مکمل ہوئی، ہم نے اُس ڈاکٹر سے رجوع کیا جو جنگ میں موجود تھا، اُس ڈاکٹر نے کہا،  کتاب بہت اچھی ہے لیکن اُس میں میڈیکل کی باتوں سے وابستہ کچھ نہیں۔ کیا وجہ تھی؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایسا شخص انٹرویو لے رہا تھا، جسے میڈیکل موضوعات پر تسلط حاصل نہیں تھا کہ وہ اپنے خصوصی سوالات  کے ذریعے میڈیکل کے عمیق مسائل میں وارد ہوتا اور بحث عمومی واقعات سے مختلف ہوتی۔ پس یہاں ضروری ہے کہ ہم اُس فیلڈ میں کتابیں، منابع اور صاحب آراء شخصیات کو ڈھونڈیں تاکہ کام شروع کرنے سے پہلے ، جزئیات، پہلوؤں اور کام کی گہرائی کے بارے میں جان لیں۔ اس بات کیلئے ضروری ہے کہ ایسے افراد بھی جو  واقعات لکھنے کے کام میں آنا چاہتے ہیں، موضوع کی اہمیت کو درک کریں اور مربوط اداروں کو بھی پتا ہونا چاہیے کہ جب کسی کام کے لیے سرمایہ لگا رہے ہیں، ابتدائی تحقیقات انجام پانی چاہیے تاکہ انٹرویو کا ماحول فراہم ہو۔ اگر ایسا ہوگیا، ہم مزید گہرے، سنجیدہ اور خصوصی حصے میں داخل ہوجائیں گے اور ہمیں اچھے نتائج حاصل ہوں گے۔ چونکہ جب تجربات اور معلومات جمع ہوتے ہیں، تو اُن سے بعد والی تحقیقات میں تجربہ اور تھیوری کے طور پر اور پھر اُن سے ایک نئے علم کے طور پر استفادہ کیا جاسکتا ہے۔"

پھر کامور بخشایش نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: "واقعات  کا تاریخ اور ادبیات سے فرق کی بحث بہت وسیع ہے  اور میرا عقیدہ ہے کہ واقعہ، ایک علیحدہ ہنر ہے جو ادبیات سے بھی اور تاریخ سے بھی کافی فائدہ اٹھاتا ہے تاکہ اپنی حقیقت کو شکل دے ۔ نشست کے موضوع پر توجہ کرتے ہوئے، ہم واقعہ کی ایک جہت کا جائزہ لیں گے اور وہ واقعات میں تحقیق ہے  جو  مستند کرنے اور تاریخ لکھنے سے مربوط ہوتی ہے۔ اس نقطہ نظر کے ساتھ، میں اپنے سوال کو جناب قاسمی پور سے  اس طرح پوچھوں گا کہ وہ واقعات میں دستاویزی مقام کی طرف اشارہ  کریں۔ چونکہ ہم ہر حال میں واقعات سے متعلق مختلف طرح کی جو کتابیں  تیار کریں گے، بعض کتابوں میں نقل روایت میں اسناد کی طرف زیادہ توجہ ہو تی ہے  اور بعض میں کم توجہ ہوتی  ہے۔ اس طرف اشارہ کریں کہ کیا ہمارے پاس واقعات لکھنے کی فیلڈ  میں دستاویزات کے بارے میں کوئی مشخص معیار ہے یا نہیں؟"

اس حصے میں نشست میں حاضر افراد میں سے ایک، عباس رئیسی بیدگلی نے کہا: "ہمارے پاس دفاع مقدس کے ابھی بھی ایسے سپاہی  ہیں جو جنگ کے دوران اپنے اور اپنے دوستوں کے واقعات  کو بطور شفاف بیان کرسکتے ہیں۔ ہماری فلمیں دفاع مقدس کے اصلی واقعات سے بہت دور ہیں اور یہی وہ جگہ ہے جہاں تخیلات اور تصدیق شدہ باتوں کی بحث سامنے آتی ہے۔ ہمارا دفاع مقدس اتنا خود کفیل ہے کہ اُس میں تخیلات کی ضرورت نہیں۔"

کامور نے بھی اس بارے میں کہا: "آپ جس نکتہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں وہ اس نشست کا اصلی موضوع ہے کہ ہم مختلف تاریخی موضوعات پر جتنی تحقیق کریں  اور تحقیق کو سنجیدہ لیں، وہ آثار جو ہماری ادبیات میں شائع ہوتے ہیں، چاہے وہ فلمیں ہوں ، چاہے وہ  تھیٹر ہوں اور مختلف ہنر میں دوسرے کاموںمیں اصلاح کی بہتر صلاحیت ہوگی۔ مطالب بھی اس قدر زیادہ ہیں کہ تخیل کی ضرورت نہیں۔ ہماری سنجیدہ بحث بھی یہی ہے کہ ہم  واقعات کی پیداوار میں کس طرح حوالہ جات  کو  ایک حد تک  منظم اور قوی  طور پر داخل کرسکتے ہیں کہ واقعات ایک قوی تحقیق کی بنیاد پر تشکیل پائیں اور بعد میں اعلیٰ آثار کی پیداوار کیلئے  خام صورت اختیار کر جائیں اور فلموں، سریالوں اور مختلف ٹی وی مجموعہ سے لیکر تھیڑ پر چھا جائیں۔"

 

راوی کی پہچان اور دستاویزات

اس کے بعد جناب قاسمی پور نے کئے جانے والے سوال کے جواب میں کہا: "جناب رئیسی کی گفتگو میں واقعات تحریر کرنے کی بحث پر سینما کی تاثیر کی طرف اشارہ ہوا۔ سینما، داستانی اور افسانوی سینما کے عنوان سے واقعات بیان کرنے کے طریقہ کار پر بہت مؤثر رہا ہے اور کچھ جگہوں پر واقعاً سینما میں واقعات کے کچھ حصوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔ ان تعریفوں کے بہت سےنقصانات ہیں۔ مثال کے طور پر "دا" جیسی کتاب واقعات کی فیلڈ میں مشخص ہوئی ہے۔ میں نے کچھ یونیورسٹیوں کے چند تعلیمی مقالوں(تھسیس) کو دیکھا ہے جن کا عنوان "دا ناول پر تنقید و جائزہ" ہے۔ ہدایت دینے والا استاد، دو مشورے دینے والے استاد کی موجودگی میں انھوں نے اچھے نمبر بھی حاصل کئے ہیں، لیکن پورا کام ناول کے عنوان سے مورد تنقید قرار پایا ہے۔ اس طرف سے بھی بہت سے ایسے موارد، محقق، واقعہ لکھنے والے یا واقعہ بنانے والے کا، واقعہ  اور تاریخ کے رابطہ سے بے خبر ہونا ہے۔

نقل قول (حوالہ جات) کی بحث میں کوئی شک نہیں ہے، حتی پہلا سوال کہ جس کا جواب حجت الاسلام و المسلمین جناب فخر زادہ نے دیا، ہمیں قابل توجہ حصے کو حتی  مالی اور وقتی استعداد کو تحقیق، مطالعہ   اور ابتدائی تحقیقات پر صرف کرنا چاہیے، اس سے پہلے کہ  واقعہ بیان کرنے والے فرد سے ہمارا سامنا ہو، ہمارے پاس موضوع سے متعلق صحیح اور دقیق معلومات، واقعات کی گہرائی، حدود  اور راوی کے زمانے کی باتیں  ہونی چاہیے۔ یہاں پر ہم دستاویزی (ڈاکومنٹری)سینما سے مدد لے سکتےہیں۔  دستاویزی سینما  میں مشہور ہے  کہ کہا جاتا ہے فلم بنانے سے پہلے اپنے 80 فیصد بجٹ کو تحقیق پر خرچ کردو اور اگر تم نے اچھی تحقیق کی ہوگی ، انفراسٹرکچر (ڈھانچے) کو پہچان لیاہوگا اور موضوع کا تجزیہ کرلیا ہوگا،  تو بیس فیصد بچے ہوئے بجٹ سے اچھی فلم بنا سکتے ہو۔ بہرحال ہمارے پاس واقعہ میں راوی ہوتا ہے اور راوی کی شناخت ہوتی ہے۔ واقعہ اخذ کرنے سے پہلے راوی کی شناخت کا کام اس کے دوران اور اس کے بعد ہونا چاہیے۔ ہم سند (حوالہ)کی  مالک تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ واقعہ ظاہر ہونے والا امر نہیں ہے اور عملی طور پر لوگوں کے قلب میں داخل ہونا ہے،  وہاں لوگوں نے اپنی دلی کیفیات بیان کرنی ہیں، ہمیں نہیں پتہ کہ اندر کیا چیز موجود ہے۔  دعوی ہے کہ کچھ شواہد اور قرائن ہیں، لیکن عملی طور پر ایک آن لائن تحقیق ہے اور ہم ایک لحظہ میں راوی کے ساتھ اُس کے اندر کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں۔

یہ جو زیادہ تر آدمی ، اپنے واقعات کو  بیرونی طرز کا بناتا ہے، ہمیشہ باہر کی باتیں بتا رہا ہوتا  ہے اور اُن چیزوں کو نقل کر رہا ہوتا ہے جو ہم نے کتابوں میں پڑھی  یا مطبوعات میں دیکھی  ہوتی ہیں، نتیجہ یہ ہے کہ ہم نے راوی کی پہچان میں دقت نہیں کی  اور واقعہ بیان کرنے والے کے اندر داخل ہونے کے رمز اور کوڈ کو نہیں جانتے کہ اُس کے ذہن کی گہرائیوں اور یادوں سے  چمٹی معلومات کو نکالیں۔ بہت سی مثالوں میں ایسا ہوا ہے۔ بہرحال راوی کے پاس باتیں ہیں اور ہم نے مشہور تعبیر "العہدہ علی الراوی" (ذمہ داری راوی کی ہے) کو حتماً سنا ہے۔ موضوع کی بڑی ذمہ داری راوی پر ہے؛ لیکن واقعہ لینے میں،  جو چیز  بیان ہوئی ہے اُس کے صحیح  و سالم ہونے پر جو اقدام کیا گیا ہے ہمیں اس پر اطمینان ہونا چاہیے، قدرت کی جڑ، علم اور ابتدائی تحقیقات واقعہ اخذ کرنے والے کے پاس ہے اور وہ  صحیح فیصلہ کرنے والا ہے۔ واقعات لکھنے میں حوالہ  جات کا  مضبوط عمل دخل ہے  اور بہرحال ہماری تاریخ کا ایک قابل توجہ حصہ راویوں کے مشاہدات کی بنیاد پر ثبت ہوا ہے۔ سعدی آسمانوں اور نفسوں  کی سیر کرکے چالیس سال بعد  آکر گلستان لکھتا ہے، یہاں پر ہمیں چونکہ ایک حقیقت پسند  اور صالح شخص کا سامنا ہے، کسی کو شک نہیں ہوتا کہ جب سعدی ایک حکایت میں کہتا ہے میں ایک رات کیش (ایران میں ایک جزیرہ)میں تھا، وہ غلطی سے اُس جزیرہ کو جزیرہ خارک یا کوئی اور جزیرہ سمجھتا ہے۔ زمان اور مکان کے مختصات کو بالکل صحیح بیان کرتا ہے۔ میں یہ احساس کرتا ہوں کہ اگر مضبوط اور پڑھے لکھے واقعہ لکھنے والے راویوں کے روبرو ہوں  اور ہمارے روایت کرنے والے کی گفتگو بالکل دقیق اور علمی ہو اور واقعات لکھنے کیلئے دقیق طریقہ طے کریں،  ہم اُمید کرسکتےہیں کہ جمع ہوئے واقعات، اچھا دستاویزی مقام حاصل کرلیں گے اور سندی اعتبار سے اُن سے استفادہ کیا جائیگا  اور اُن علمی و تحقیقی منابعوں میں شمار ہوگا۔ عصر حاضر میں ہونے والے واقعات اور وہ چیز جو انقلاب اسلامی کی حدود اور اُس کے کئی سالوں بعد  رونما ہوئی ہے، یہ قضیہ کوئی مشکل کام نہیں ہوسکتا۔

اس کے باوجود کہ ہم بہت سی روایتوں اور تعریفوں کو واقعیت کے خلاف دیکھتے ہیں جو ہماری حالیہ تاریخ میں داخل ہوگئیں اور ہماری آنکھوں کے سامنے وہ  روایتیں کتابوں میں شائع ہوگئیں، ہم مطالعے اور تحقیق کے ذریعے اُن کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ مثالوں میں سے ایک مثال  جسے دلچسپی رکھنے والے جستجو کے ذریعے دیکھ سکتے ہیں، زیادہ تر وہ لوگ جو مسلط کردہ جنگ کے آغاز سے واقعات سنانے آتے ہیں، سن 1980ء  کا حوالہ لیکر آتے ہیں کہ جنگ شروع ہونے سے چند دن پہلے، صدام ٹی وی کیمروں کے سامنے آیا اور سن 1975ء والی قرار داد کو پھاڑ دیا اور 22 ستمبر کو جنگ بھی شروع ہوگئی۔اگر آپ اُن لوگوں سے پوچھیں کہ آپ نے اس واقعہ کو کہاں دیکھا؟ کون سا زمانہ تھا؟ ٹی وی کا کون سا چینل تھا؟ اُن میں سے زیادہ تر  بے خبر ہیں اور اُن کے پاس کہنے کو کچھ نہیں؛ چونکہ سن 1980ء میں  کسی بھی ٹی وی اسکرین نے ایسا کچھ نہیں دکھایا تھا۔ دوسری طرف سے ڈش وغیرہ کا امکان نہیں  تھا۔ ہمارے واقعات لکھنے کے دائرہ کار میں پایا جانے والا ایک نمونہ جو اپنے مقدمات کے ساتھ غلط ہے، یہ موضوع ہے۔ صدام کا تختہ اُلٹنے کے بعد، ہمارے ٹی وی ادارے کی ٹیم جستجو کرنے گئی اور عراق کے ٹی وی اداروں میں اس فلم کو ڈھونڈا کہ اس جیسی فلم وہاں نہیں تھی۔ "من زندہ ام" (میں زندہ ہوں) نامی کتاب میں راوی اپنی اسیری کے آغاز کے بارے میں بیان کرتا ہے کہ نومبر 1980ء تھا۔ اُنہیں ابھی ابھی پکڑا گیا تھا اور اُن کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے  اور وہ لوگ انتظار کر رہے تھے کہ گاڑی آکر اُنہیں لے جائے۔ اُس نے لکھا کہ میں  نے ڈاکٹر بیگدلی سے کہا اُس فلم  کو مدنظر رکھتے ہوئے جو میں نے آبادان میں دیکھی اور بصرہ کے ٹی وی نے دکھایا،  جب صدام قرار داد کو پھاڑ رہا تھا ، مجھے پتہ تھا کہ یہ جنگ بہت اوپر تک جائے گی؛ جبکہ یہ فلم اصلاً دکھائی ہی نہیں گئی۔ آخری چند سالوں میں ایک  ملکی دستاویزی چینل نے ایک چھپے ہوئے چہرے کا ہاتھ دکھایا جو کاغذ پھاڑ رہا ہے  اور اُس ہاتھ کو صدام کی تصویر کے ساتھ چپکا دیا ہے۔ بہت سے لوگوں نے اس ڈاکومنٹری کو دیکھا ہے اور گمان کرلیا کہ صدام یہ کام انجام دے رہا ہے۔ قرار دادِ 1975ء الجزائر  اس وقت عراق کے وزارت خارجہ میں ہے۔ اُس دن  صدام سخت لہجے اور غصے میں تقریر کرتا ہے اور اُس تقریر میں وہ مستقل اپنے ہاتھ کو ہلا رہا ہے، لیکن قرار داد پھاڑنے والی روایت بالکل غلط ہے۔ واقعات لکھنے والے اور وہ افراد جو سامنے بیٹھتے تھے، اُن کی تاریخی صلاحیتیں، تسلط  اور اُن کا میڈیا کے منابع پر  عبور کم تھا، یا اُن باتوں کی سچائی کو ثابت کرنے کیلئے وہ لوگ تصدیق کے مرحلے میں وارد نہیں ہوئے۔ اس ماجرے کی ایک داخلی  (ملکی) مثال مسلط کردہ جنگ شروع ہونے کے ایک دن بعد امام کا پیغام ہے۔ میں نے خود کچھ لوگوں سے گفتگو کی اور اُن سب نے کہا ، ہم نے دیکھا کہ امام آئے، دشمن کی تحقیر کی اور کہا ایک دیوانہ آیا اور پتھر پھینک  کر چلا گیا۔ یہ بات، 23 ستمبر، 1980ء والے دن ایران کے ریڈیو سے پڑھا جانا والا پیغام ہے اور اُس کی کوئی تصویر موجود نہیں، لیکن کچھ عرصے بعد، لوگوں نے اس بات کو اپنے ذہن میں فرض کرلیا۔ شاید اُن لوگوں کا حقیقت کے خلاف کہنے کا ارادہ نہ ہو، لیکن اس طرح کے تصورات جو وقت گزرنے کے ساتھ ذہن میں بیٹھ جاتے ہیں، میں اُسے زیادہ دیکھتا ہوں۔ ایک مشہور مثال حوالے کے لحاظ سے، جس کا کام مشکل (معاملہ خراب ہوسکتا ہے)ہوجائے گا یہ ہے کہ 18 جولائی 1988ء والے دن، دوپہر کے دو بجے، قرارداد 598 کو قبول کرنے کا، قومی خبروں میں اعلان ہوا۔ یہ خبر محاذوں میں پھیلی اور بہت زیادہ ردّعمل ظاہر ہوا۔ دو دن بعد، دو بجے کی خبروں میں، امام کا پیغام اور زہر کا پیالہ پینے والی عبارت نشر ہوئی جو بہت سے سپاہیوں کو پرسکون کرنے کا باعث بنی  کہ محاذوں پر اس موضوع کا تجزیہ کرنا اور اسے ہضم کرنا اُن کیلئے مشکل تھا۔ اگر آج اُن محترم رہائی پانے والوں سے بات کی جائے  کہ ذرائع ابلاغ کی محدودیت  کے باوجود زندانوں میں اُن تک خبر پہنچ گئی  تھی، وہ ان دو واقعات کا نچوڑ اس طرح نکالیں گے کہ 18 جولائی کی خبروں میں یہ خبر آئی اور ہم نہیں جانتے تھے کہ کیا کریں اور حضرت امام کے پیغام نے ہمارے سلگتے وجود پر پانی کا کام کیا تھا؛  وہ اُن  48 گھنٹوں  اور اُن دو دنوں  کے فاصلے  کے بارےمیں نہیں کہہ  سکتے۔ حقیقت میں اس فاصلہ نے چھلانگ لگائی اور وہ لوگ احساس کرتے ہیں کہ یہ (دو) واقعات ایک دن میں رونما ہوئے ہیں۔ ہمارے پاس حوالوں کے لحاظ سے، ریکارڈ یا لکھی ہوئی باتیں بہت زیادہ ہیں، حتی بہت سے سپاہی جو محاذ پر تھے وہ بھی یہی بات کرتے ہیں اور اُن کیلئے بھی یہ فاصلہ نہیں تھا، لیکن مؤرخین کیلئے حوالہ کے ساتھ ثبت ہوا ہے  کہ پہلا واقعہ 18 جولائی کی دوپہر دو بجے اور دوسرا واقعہ  20 جولائی کودوپہر دو بجے  رونما ہوا ہے۔ اخبارات بھی اس واقعہ پر سند ہیں۔"

 

حوالوں کے منفی نکات کی تشخیص

کامور بخشایش نے بھی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: "جناب آقای محسن مطلق، ہمارے ملک کے بہترین مصنف، ملک سے باہر ہمارے سپاہیوں میں سے ایک شہید محمد حسین نیری کی زندگی پر کتاب کی تدوین کے سلسلے میں اُنہیں مختلف انٹرویوز کا سامنا ہوا کہ جن سے پتہ چلتا تھا کہ جناب نیری افغانستان میں بہشت زہرا جیسے ایک قبرستان میں دفن ہیں اور اس بات کو اُن کے تمام ساتھیوں نے جو افغانستان میں اُن کے ساتھ تھے اور ایران واپس آچکے تھے، روایت کیا تھا۔ یہ کتاب اپنی تدوین کے مراحل گزار چکی تھی اور شائع ہونے والی تھی اور اگر شائع ہوجاتی، ایک مجہول اُسی صورت میں مجہول باقی رہتا۔ اُن ہی دنوں میں  ڈاکومنٹری بنانے والے کچھ افراد افغانستان گئے  اور شہید نیری کی زندگی پر بہت ہی قوی حوالوں پر مشتمل کام کیا۔ وہاں پر  جناب نیری کے  ساتھ لڑنے والے بہت سے افغانی ساتھیوں  سے پتہ چلا کہ  طالبان ایک پہاڑ کی بلندی پر، جناب نیزی پر پٹرول چھڑک کر اُنہیں آگ لگا دیتے ہیں اور اُنہیں وہیں پر دفن بھی کردیتے ہیں۔  میں ان باتوں سے واقعات لکھنے میں  حوالوں  کی اہمیت اور حوالوں کے منفی نکات کی تشخیص  بیان کرنا چاہتا ہوں۔ واقعات لکھنے میں ہمارے حوالے، تحقیق اور ابتدائی تحقیق جتنے زیادہ قوی ہوں گے، فطری سی بات ہے کہ  واقعات کی کتابوں میں اُتنی ہی کم تاریخی غلطیاں ہوں گی۔ حقیقت امر یہ ہے کہ جب واقعہ لکھنے کا عمل راوی کے زاویہ سے پیش ہوتا ہے، اُس میں چند  اہم آفتیں نمایاں اور آشکار ہیں؛ اُن آفتوں میں سے ایک، راوی کا خود کو اہم سمجھنا ہے۔ چونکہ راوی کو وہ مقام حاصل ہے کہ جب اُس سے سوال پوچھا جاتا ہے اور وہ اپنے مقام سے احسان جتلانے(احسان جتلانا اُس برے معنی میں نہیں) کے ساتھ کہ حقیقت میں مخاطب،خود وہ ہے، واقعات روای اور اُس کی میں  کے گرد  گھومتے ہیں اور  یہ خود کو اہم سمجھنا ، کچھ افراد کے واقعات  جمع کرنے کے عمل میں محقق کو غلطی اور دشواری میں مبتلا کرتا ہے۔ بعض لوگ بھی فطری بڑائی  رکھنے کی وجہ سے،  تاریخ پر منفی اثرات وارد کرتے ہیں  اور اُنہیں پسند نہیں ہوتا کہ وہ روایت بیان کرتے وقت لوگوں کے ناموں کو استعمال کریں  اور ایسے راویوں کے واقعات میں اصلی افراد کا کردار  نا معلوم اور  پوشیدہ رہ جاتا ہے  اور جب کتابوں کی جلدیں شائع ہوتی ہیں، ایک واقعہ کی نا معلوم اور نامجہول  باتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔"

 

واقعات  میں دیکھی اور اَن دیکھی باتیں

کامور بخشایس نے حجت الاسلام فخر زادہ سے تحقیق کی نگاہ سے واقعات کے منفی نکات کی تشخیص کے بارے میں پوچھا اور انھوں نے اس کے جواب میں کہا: " اس سے پہلے کہ منفی نکات کی تشخیص کے بارے میں بیان کریں، میرے خیال سے تقریباً 12 ہزار  کتابیں  دفاع مقدس  سے اور سات یا آٹھ ہزار کتابیں انقلاب اسلامی سے متعلق شائع ہوچکی ہیں اور جرائت کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اُن میں 70 سے 80 فیصد کا رجحان  واقعہ کی طرف ہے۔  ہماری جنگی اور انقلابی تاریخ کی بھاری مقدار واقعات پر مبنی ہے۔ اتنی مقدار میں جو کتابیں اب تک شائع ہوچکی ہیں، ان کا جائزہ لینا چاہیے کہ کیا واقعی  ہم نے ان واقعات میں انقلاب اسلامی اور دفاع مقدس کے تمام پہلوؤں کو بیان کیا ہے؟ کوئی چیز رہ تو نہیں گئی؟ کوئی ایسا حصہ تو نہیں جس پر توجہ نہ دی گئی ہو؟ ان سوالوں  کے جواب تحقیق سے حاصل ہوں گے۔  جب ہم نے ایک حصے یا ایک موضوع جیسے دفاع مقدس کے واقعات پر اچھی طرح کام کرلیا، اُس کا نتیجہ بھی نکلا۔ مثال کے طور پر جنگ میں سپاہیوں کی خصوصیات اور کردار کے دائرے میں، ہم نے کتاب چھاپی۔  اگر ہم اندازہ لگانا چاہیں، ہم نے جو واقعات پرنٹ کئے ہیں اُن میں 80 فیصد سے زیادہ جنگ میں سپاہیوں کے کردار کے بارے میں ہیں۔ یا دسیوں ملین رسیدیں، دسیوں ملیارد تومان سے زیادہ سرمایہ اس سلسلے میں ہونی والی تحقیق اور جستجو پر لگے گا اور اُن کو جمع کرنے اور تقسیم کرنے کے بعد، ہم دیکھیں کہ کن موضوعات کو بیان کیا گیا ہے، لیکن کتاب کی فیلڈ میں یہ کام انجام پایا، اگرچہ ہم ابھی محتوا کی تشخیص کے مرحلے تک نہیں پہنچے۔ میرے خیال میں ہمارے پاس ابھی صرف ایک سطحی اعداد و شمار ہے اور ہم ابھی کتاب کے محتوا کی تشخیص میں داخل نہیں ہوئے،  لیکن کتابوں کی یہی مقدار جو تولید ہوئی ہے، معاشرے میں اثر رکھتی ہے۔ جب ہم معاشرے میں لوگوں سے سوال کرتے ہیں کہ آپ سپاہیوں کے کردار کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ ہم دیکھتے ہیں کہ زیادہ تر لوگ اپنے ذہنوں میں سپاہیوں کے بارے میں مثبت اور آئیڈیل سوچ  رکھتے ہیں  اور کسی کو اُن جوانمردوں کی نیت ، ایثار اور قربانی کی نسبت کوئی شک نہیں؛ کیوں نہیں ہے؟ چونکہ واقعات کی شائع ہونے والی یہی مقدار، معاشرے میں یہ یقین ایجاد کرنے میں کامیاب رہی ہے۔

میں انقلاب کے واقعات کے بارے میں بھی  کہوں کہ ایک ہم ایک نشست میں مقام معظم رہبری آیت اللہ خامنہ ای کی خدمت میں تھے، کتابوں میں جو کچھ شائع کیا ہے، پہلو ی حکومت میں شکنجے دینے کے موضوع کو بیان کیا ہے۔ شاید وہ کتابیں جو  انقلاب کے واقعات کے بارے میں  چھپی ہیں، اُن میں 70 سے زیادہ  کتابوں میں شکنجے کے پہلو کو بیان کیا گیا ہے، شکنجے کے موضوع کو اتنا زیادہ بیان کرنا، یہ چیز باعث بنی کہ جب معاشرے میں لوگوں سے  پوچھتے ہیں کہ  کیا پہلوی حکومت میں شکنجہ کے بارے میں آپ کو کوئی شبہ یا ابہام ہے؟ سب کہیں گے ہمیں یقین ، ہم  مانتے ہیں کہ پہلوی زمانہ حکومت میں شکنجے موجود تھے۔ حضرت عالی نے کہا کہ آپ نے کام کیا ہے ، اچھا کام بھی کیا ہے اور  مؤثر بھی رہا، اس کی علامت یہ ہے کہ ملک سے باہر ساواک کے ایجنٹ (میں سمجھ گیا کہ اُن کی مراد پرویز ثابتی ہے) اپنی مخفی گاہ سے باہر آئے۔ پرویز ثابتی انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد فرار کرگیا۔ وہ ساواک ادارے کا جنرل منیجر تھا  کہ تمام شکنجے اُس کے زیر نظر تھے۔ وہ بھاگنے کے بعد چھپ گیا اور کہیں بھی اس کا پتہ نہیں چلا۔ اُس کے بارے میں خبریں آئیں کہ وہ موساد سے مل گیا ہے، لیکن شکنجے کی بحث کے بارے میں اتنی زیادہ کتابیں شائع ہوئیں کہ نہ صرف ہمارے معاشرے میں، بلکہ وہاں بھی اُس پر انگلی اٹھائی گئی اور وہ مجبور ہوا کہ اپنی مخفی گاہ سے باہر آئے اور خود کو سامنے لائے اور "در دامگہ حادثہ" نامی کتاب، واقعات بیان کرنے سے رونما ہونے والی فضا کے جواب میں شائع کرے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے دوسرے حصوں میں بھی اس وسعت کو ایجاد کیا ہے؟  کیا ہم منصوبہ بندی اور سوچ کے ساتھ یاد داشتیں لکھنے اور واقعات جمع کرنے میں کوئی اقدام کر رہے ہیں؟  معاشرے میں موجود ضرورتوں کی بنیاد پر اور جو ہمارے اہداف اور منصوبہ بندیاں ہیں اُن کی بنیاد  پر، کیا ہم  آگے بڑھ رہے ہیں؟ ہم بہت زیادہ قلبی لگاؤ اور مل کر آگے بڑھ رہے ہیں، یہ طریقہ اور روش، اس کی اپنی اہمیت ہے، لیکن بہتر ہوگا کہ منصوبہ بندی کے ساتھ ہو۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اب ہم پہلوی حکومت  میں ہونے والے شکنجوں، اذیتوں ، دباؤ اور دفاع مقدس میں سپاہیوں کے کردار کے موضوع  پر بات نہ کریں، لیکن ہم کیوں نہیں جنگ میں بہترین منیجمنٹ کے پہلو کو زیادہ اُجاگر نہیں کرتے؟ جنگ میں منیجمنٹ کے موضوع پر جو کتابیں موجود ہیں ، بہت نادر اور کم ہیں۔ یہ کم تعداد، معاشرے میں اُس صحیح ذہنیت کو  اُجاگر نہیں کرسکی کہ ہم جنگ میں صحیح منیجمنٹ رکھتے تھے یا نہیں۔ کیا ہم نے جنگ میں بغیر منصوبہ بندی کے عمل کیا اور کیا وہ لوگ پڑھے لکھے نہیں تھے، ایسے ہی کام شروع کردیا، وہ فیصلے کرتے تھے کیا اُن کے فیصلے پانی کی طرح ہوتے تھے؟ کوئی علمی قانون نہیں تھا اور کوئی نظامی (فوجی) کام انجام نہیں پایا؟یا تدبیر اور منصوبہ کے ساتھ تھا؟ اگر تدبیر اور منصوبہ بندی کے ساتھ تھا، اُس کی مثال کہاں  ہے؟ اس کام کیلئے ضروری ہے کہ ہمارے یاد داشت لکھنے والے دوست  ضروری موضوعات کی شناخت کے ساتھ جسے معاشرے میں بیان  کیا جائے، اس کام کی سمت قدم بڑھائیں۔ جو آثار اب تک شائع ہوئے ہیں اُن میں تحقیق کے منفی نکات کی تشخیص میں سے ایک ، یہ ہے کہ ہماری رہنمائی نہیں کی گئی ہے  کہ ہم نے جو اگلا قدم اٹھانا ہے ، وہ کس طرف اٹھانا ہے اور ہم کن موضوعات کی تلاش میں نکلیں؟"

 

واقعات لکھنے کیلئے نقشہ کا ضروری ہونا

کامور بخشایش نے حجت الاسلام فخرزادہ کی باتوں کو مکمل کرتے ہوئے کہا: "میرے خیال سے یہ موضوع  یونیورسٹیوں اور تحقیقاتی مراکز کے درمیان  رابطوں کی ضرورت سے متعلق ہے کہ یاد داشت کے آثار سے مربوط موضوعات ، یونیورسٹیوں کی تحقیقات کا محور بھی قرار پائیں اور الحمد للہ چند سالوں سے یہ کام شروع ہوچکا ہے اور یاد داشت سے متعلق بہت سے   بننے والے آثار، اکیڈمک طریقہ کار پر مورد توجہ اور تحقیق قرار پائے ہیں اور مقالوں اور یونیورسٹی کے تھسیز میں بہت سے مختلف موضوعات پر تحقیق ہورہی ہے۔ میں اس نکتہ کو بھی بیان کرنا چاہتا ہوں کہ ملک کے ثقافتی بجٹ میں تحقیق کا کتنا کوٹا ہےاور کتنی مورد توجہ ہے؟ اس بات کے پیش نظر کے تحقیق بہت بہت وقت لیتی ہے  اس کے ساتھ  بہت زیادہ سرمایہ بھی لگتا ہے، میرےخیال سے واقعات لکھنے کے دائرہ کار میں تحقیقی کام کیلئے نقشہ کا ہونا  بہت ضروری ہے؛ تمام اہداف و مقاصد اعلیٰ اور دفاع مقدس کی خدمت میں ہیں، لیکن طولانی مدت میں بہت سی آفتیں ہمارے سامنے آئیں گی  کہ قاعدتاً بعض کم مدت کی آفتیں، متوازی کام کو ظاہر کرتی ہیں جو کبھی خود کو دکھاتی ہیں اور مراکز اور ادارہ جات، کسی خاص موضوع یا گزینہ کو مدنظر قرار دیتے ہیں اور مرکز سے رابطہ میں نہ ہونے والے کسی دوسرے ادارے میں یہ تحقیق انجام پاتی ہے اور آخر میں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی دوسرا مرکز اور ادارہ بھی اس موضوع پر کام کر رہا ہے۔ انقلاب اور دفاع مقدس سے متعلق ایک منظم واقعات لکھنے والے کام کیلئے ایک نقشہ راہ کا ہونا ضروری ہے کہ میں اُمید کرتا ہوں کہ انقلاب اسلامی کی چالیسویں سالگرہ کے موقع پر، اس سے متعلق نقشہ راہ اور نقشہ علمی ڈیزائن ہو اور واقعات لکھنے کے دائرہ کار میں پیدا ہونے والے آثار دوسرے آثار کی طرح، منظم ہوجائیں۔"

اس کے بعد حجت الاسلام فخر زادہ نے کہا: "ہم نے اپنے معاشرے اور ثقافت اور حتی دوسرے معاشروں میں  ان واقعات لکھنے کی تاثیر کے بارے میں بحث نہیں کی ہے۔ ترکی میں ادبیات سے متعلق ایک سیمینار ہوا تھا کہ جناب کامور نے ایک مقالہ وہاں بھیجا تھا۔ میں واقعہ اور دفاع مقدس کی ادبیات کی اہمیت اور پہلوؤں کو بیان کرنے کیلئے جناب کامور سے درخواست کروں گا کہ  سیمینار میں اپنا مقالہ پیش کرنے کے بعد سیمینار میں شرکت کرنے والے  محققین کے رد عمل کے بارے میں بتائیں۔"

کامور بخشایش نے کہا: "ترکی میں جنگ اور ثقافت" نامی ایک سیمینار منعقد ہوا کہ میں نے اپنی موجودہ معلومات کی بنیاد پر، اس سیمینار کیلئے ایک مقالہ ارسال کیا اور اُس میں، میں نے اسیروں سے متعلق 500 خطوط کے تجزیہ کی روش پر تحقیق کی تھی۔ انھوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور میرے رہنے کا خرچہ اٹھایا اور ہم نے اُس ملک کا سفر کیا۔ بہرحال اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ ترکی میں تحقیق کی اہمیت زیادہ اور بہتر ہے۔ ترکی کی ثقافتی مشاورت نے، کچھ آثار کے نام جو دفاع مقدس اور انقلاب اسلامی سے مربوط ہیں، ایک لسٹ میں جسے "ٹاپ لسٹ" کے نام سے پیش کیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ان آثار کا ترجمہ ہوگا۔ اُن میں سے ایک کتاب، "آن بیست و سہ نفر" (وہ تیئیس افراد) اور دوسری "عباس دست طلا" (عباس سونے کا ہاتھ) اور دوسری کچھ کتابیں تھیں جو ترکی زبان میں ترجمہ ہوچکی تھیں۔ وہاں دنیا کے بیس ممالک سے افراد موجود تھے۔ دفاع مقدس کی ادبیات کا موضوع اُن کیلئے بہت جذابیت رکھتا تھا اور وہ لوگ بہت شوق اور توجہ کے ساتھ میرے مقالے کو سن رہے تھے اور وہاں کے حالات کے پیش نظر کہ اگر کوئی مقالہ مورد توجہ قرار پائے، تو اُسے بعد والے پینل میں بھی پیش کیا جائے اور کچھ سوالات پوچھے جائیں، میرا مقالہ بھی اُن مقالات میں شامل تھا اور بعد والے پینل میں سوالات  مجھ سے شروع ہوئے۔ مترجم سوالوں کا ترجمہ کر رہا تھا اور نکتہ یہ تھا کہ ایران میں اتنا بڑا واقعہ رونما ہوا ہے اور ایرانیوں نے  اپنی آگاہی اور فراست کے ساتھ ، جنگی حادثہ سے ایک نئی ادبیات کو جنم دیا تھا۔ وہ لوگ مائل تھے کہ دفاع مقدس کی ادبیات سے متعلق مزید آثار  اُن کے اختیار میں ہوں۔ جب میں نے 23 افراد  کا قصہ، ہمارے اسیروں کی داستان اور اعداد و شمار کو پیش کیا، تو سیمینار میں موجود بہت سے اساتید، مفکرین اور صاحب نظروں کی دلچسپی دیکھنے والی تھی اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ عالمی معاشرہ ہمارے دفاع مقدس کی ادبیات کو جاننے کیلئے کس قدر پیاسا ہے اور ہمیں اپنی ادبیات کو عالمی بنانے کیلئے ایک طولانی راستہ طے کرنا ہے۔ اس وقت ہم میں اتنی طاقت اور صلاحیت ہے کہ ہم اپنے بہت سے آثار کو تیزی کے ساتھ دوسری زبانوں میں ترجمہ کریں  اور دوسرے ممالک میں اُن کے شائع ہونے اور پھیلانے کا عمل ہمارے ہاتھ میں ہو، لیکن یہ کاروائی اور طریقہ بہت سستی کے ساتھ انجام پا رہا ہے۔ جو کتابیں میں ساتھ لیکر گیا تھا، وہ کم تھیں، اور  زیادہ کا تقاضا ہوا ہے، اسی وجہ سے دوبارہ رابطہ برقرار ہوا  اور میں اب آہستہ آہستہ دفاع مقدس کے آثار کو مختلف ممالک میں اُن مفکرین کیلئے ارسال کر رہا ہوں اور میں اُمید کرتاہوں کہ ایک دن وہ آئے گا جب یہ ساری کتابیں دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوجائیں گی اور ہمارے دفاع مقدس کی حقیقت دنیا کے تمام لوگوں پر آشکار ہوجائے گی۔ اُس سیمینار کے آخری پروگرام میں شیار 143 فلم دکھائی گئی جو دفاع مقدس کے سینما میں انتظار کے مفہوم پر اشارہ کر رہی تھی۔ سب افراد چاہ رہے تھے کہ اس فلم  کی اسکرین کے نیچے انگلش یا ترکی زبان میں لکھا ہوتا، تاکہ اُنہیں پتہ چل جائے کہ پوری فلم کا موضوع کیا ہے،  لیکن افسوس کے ساتھ ایسا نہیں ہوا تھا اور میرے خیال میں ہم نے اس بارے میں کمزوری دکھائی ہے۔"


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 5013



http://oral-history.ir/?page=post&id=7572