ماشاء اللہ آخوندی، مرتضی سرہنگی اور مسعود دہ نمکی کی یادیں

چیتوں کا مورچہ اور ہمیشہ نظر آنے والے استثنائات

مریم رجبی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-12-16


ایرانی اورل ہسٹری سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، دفاع مقدس کے  سلسلے میں یادوں بھری رات کا 286 واں پروگرام  جو اس کی پچیسویں سالگرہ کے موقع پر ہوا، یہ پروگرام 23 نومبر 2017، جمعرات کی شام، آرٹ گیلری کے سورہ ہال میں منعقد ہوا۔ اس تقریب میں محترم ماشاء اللہ آخوندی، مرتضی سرہنگی اور مسعودہ دہ نمکی نے دفاع مقدس کے دوران  پیش آنے والے اپنے واقعات کو بیان کیا۔

 

ہمارا مورچہ اور خطرناک ترین کام

پروگرام کے سب سے پہلے راوی سپاہ پاسداران مشہد کے یونٹوں میں بمب بلاسٹ یونٹ کے بانیوں میں سے تھے  جو امام رضا (ع) ڈویژن میں بھی اور پانچویں نصر ڈویژن میں بھی ، ان دو ڈیژنوں کے تمام شہید کمانڈروں کے ساتھ محاذ پر رہے ہیں؛ بابا نظر، شوشتری، برونسی، چراغ چی، خادم الشریعہ، ابو الفضل رفیعی وغیرہ اسی طرح کمانڈر مرتضی قربانی، کمانڈر قا آنی اور کمانڈر قالیباف  جیسے کمانڈروں کے ساتھ محاذ پر رہے ہیں۔ اس شخص کی خاصیت، ان دنوں کو فراموش نہ کرنا ہے، کیونکہ یہ اپنی یادوں کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں اور خود ان کے بقول"جو بھی جنگ میں شہید ہوتا، میں اُس کے دو یا تین پملفٹ حاصل کرلیتا اور گھر میں سنبھال کر رکھتا، جنگ کے بعد اُن کی تعداد  ہزاروں تک پہنچ گئی۔ ایسے دن آگئے کہ ہمارے گھر میں انہیں سنبھالنے کی جگہ نہیں تھی، لیکن میں اُن میں سے ایک کاغذ چھوڑنے پر تیار نہیں تھا۔" آج وہ پمفلٹ ایسے خیمے کی دیوار پر لگے ہوئے ہیں جہاں سالانہ ہزاروں لوگ آتے ہیں۔ حاجی ماشاء اللہ آخوندی جو اس وقت حرم امام علی رضا علیہ السلام کے خادم ہیں، پروگرام کے پہلے راوی تھے۔ انھوں نے کہا: " ہمارے مورچے کا نام، چیتوں کا مورچہ تھا، کیونکہ اُس میں کچھ ایسے شرارتی افراد موجود تھے جو ظاہری طور پر لا اُبالی اور بے نظم تھے۔ میں جنگ سے پہلے  ٹیکنیکی کاموں میں مصروف تھا۔ ہم گلی کوچوں میں رہنے والے بسیجی تھے اور ہم نے فوجی ٹریننگ نہیں کی ہوئی تھی۔ ہم ایک دن مورچے میں تھے اور درجہ حرارت 50 ڈگری تھا۔ ہم نے اپنی عقل کے مطابق زمین کھود کر پانی نکالا جو کھارا لیکن ٹھنڈا تھا۔ مورچے میں ہم سب باری باری ٹھنڈا ہونے کیلئے پانی کے اندر جاتے۔  شہید محمد حسن نظر نژاد (بابا نظر) نے پوچھا تم لوگوں نے کپڑے کیوں اُتارے ہوئے ہیں؟ انھوں نے بہت سے سوال کئے تاکہ پتہ چلے کس نے حکم دیا ہے اور ہم یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ یہ کام ہم نے خود انجام دیا ہے۔ اُس سے ایک دن پہلے ہم نے اسلحہ کھولنے اور بند کرنے کے مقابلہ میں شرکت کی،  وہ وقت پہنچا جب اسلحہ مکمل طور پر بند ہوجاتا ہے، شہید مہدی میرزائی (امام موسی بن جعفر (ع) بریگیڈ کے کمانڈر) نے خالی میگزین نکالا اور اُس کی جگہ بھرا ہوا میگزین لگا دیا، میں نے بھی فائر کردیا اور اُسی وقت جناب نظر نژاد مورچے میں داخل ہوئے۔ گولی اُن کے سر کے بالوں کو چھوتی ہوئی گزری، انھوں نے غصے سے کہا: خدا تم پر لعنت کرے، تم لوگ اس حد تک آگے بڑھ گئے ہو کہ مجھے گولی سے مارنا چاہتے ہوئے؟! میں نے کہا: جناب، آپ ابھی تک کہاں تھے؟ کب آئے؟ ہم ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے ہیں اور آپ کی قسمت کہ یہ حادثہ پیش آیا!

ولی اللہ چراغ چی (پانچویں نصر ڈویژن کے جانشین اور مشہد کی سپاہ کے اولین کمانڈروں میں سے ایک)نے ہمیں شہید میرزائی کے ساتھ عراقیوں کے مائنز میدان میں بھیج دیا۔ ہم گئے اور ایک کیپسولی مائن نکال کر لے  آئے۔ ہم نے اب تک مائن نہیں دیکھی ہوئی تھیں، ہمیں صرف اُس کی ظاہری شکل کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ طے پایا کہ اُسے دوسرے ہیڈ کوارٹرز اور یونٹوں میں لے جائیں تاکہ وہ بھی دیکھیں کہ عراقی کون سی چیز استعمال کر رہے ہیں۔ ہم نے اُس مائن کو لانے کیلئے اپنی جان کی بازی لگا دی تھی، کیونکہ عراقی ہم سے دو میٹر کے فاصلے تک آگئے تھے۔ ہم مائن کو کمانڈر کی تحویل میں دینے سے پہلے اُس کا پوسٹ مارٹم کرنا چاہتے تھے۔ جب میں اُس کو مورچے کے اندر لایا، مجھ سے پوچھا گیا: یہ کیا ہے؟ میں نے کہا: مارٹر 60 ہے! کیونکہ اگر میں کہتا مائن ہے، سب فرار کر جاتے۔ تعجب سے پوچھنے لگے: یہ مارٹر 60 ہے؟! میں نے کہا: یہ نئی ساخت ہے، ظاہراً اسے ابھی اٹلی سے  خریدا ہے اور کسی نے اسے دیکھا نہیں ہے! ہم نے کیونکہ ٹیکنیکی کام کیا ہوا تھا، ہم اُسی ذہنیت کے ساتھ، مورچے میں آٹھ لوگ، صبح 9 سے گیارہ بجے تک چھینی ہتھوڑی سے اُس مائن کی باڈی پر مارتے اور اُسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوشش کرتے!کچھ لوگ  جو ہم سے سن و سال میں بڑے تھے، جیسے علی عامل، مورچے کے باہر دعا مانگتے اور اُنہیں اطمینان تھا کہ ہم آٹھ لوگ بہت جلد خدا کی بارگاہ میں پہنچ جائیں گے! اگر ابھی مجھ سے کہا جائے کہ ایک مائن کو ناکارہ بنادوں، تو مجھے کم سے کم بیس منٹ کا وقت صرف یہ سوچنے میں لگے گا کہ اس مسلح مائن کے ساتھ کیا کروں؟ لیکن جب خدا کچھ لوگ کو باقی رکھنا چاہے تو خطرناک ترین کام بھی اثر نہیں کرتے۔ ہم نے اُس دن جتنی بھی کوشش کی مائن کے اصلی حصے کو کھولنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ لوگ تھک چکے تھے اور انھوں نے مجھ سے چائے بنانے کا کہا۔ ہم ایسے علاقے میں تھے جہاں فقط  بجری تھی  اور پتھر اور کوئلے موجود نہیں تھے۔ ہمارے پاس ایک اینٹ تھی جسے سپاہی اپنے ساتھ کسی دوسرے مورچے میں لے گئے تھے اور میں خود ہی خود سوچنے لگا کہ ابھی مائن کھلی نہیں ہے، اُسے کیتلی کے نیچے رکھ کر اُس سے استفادہ کروں! ہم ہمیشہ اپنے گولہ بارود کے بکس کو توڑ دیتے اور آگ جلاتے تھے۔ میں نے ایک طرف ایک اینٹ اور دوسری طرف مائن کو رکھا۔ اُس کے بیچ میں آگ روشن کی اور کیتلی کو اُس کے اوپر رکھ دیا۔ جیسا کہ لوگوں کو چائے پیئے ہوئے کافی وقت ہوچکا تھا اور اُس دن چائے بنانے کی ذمہ داری میری تھی، میں نے اُن سے کہا پانچ منٹ میں آپ کیلئے چائے لاتا ہوں۔ اب میں نے کیتلی کے نیچے آگ روشن کی ہوئی تھی۔ میں مورچے کے اندر گیا اور میں جیسے ہی زمین پر بیٹھا، باہر سے زوردار دھماکے کی آواز آئی اور سب کچھ ضائع ہوگیا! میں نے لوگوں سے کہا: خدا تم پر لعنت کرے، ہم نے آگ جلائی، عراقیوں نے دھوئیں کو دیکھ لیا اور ہم پر فائر کیا! اٹھو، مورچے کو خالی کرو کہ ابھی مورچے کو بھی اُڑائیں گے۔ جہاں میں نے آگ جلائی تھی، وہ مورچے سے چار میٹر کے فاصلے پر تھی۔ لوگ بضد تھے کہ اگر آسمان بھی  نیچے آجائے، ہمیں تب بھی تم سے چائے پینی ہے۔ میں مورچے سے باہر گیا، دیکھا کیتلی نہیں ہے! میں مورچے میں واپس آیا اور لوگوں سے کہا کہ عراقیوں نے کیتلی کا نشانہ لیا ہے! لوگوں نے کہا: عراقی ٹینک نہیں مار سکتے، وہ کیتلی کو کیسے مار سکتے ہیں؟! احمد ملک نژاد ہمارے امام جماعت تھے اور جب بھی لڑائی ہوتی، وہ فیصلہ کرتے۔ وہ بھی آئے، دیکھا اور کہا: بالکل کیتلی پر لگا ہے۔ خلاصہ بیٹھک اور چائے  کی کہانی ختم اور ظہر کے قریب جناب ولی نے کسی کو ہمارے پاس ہمیں بلانے کیلئے بھیجا  تاکہ ہم مائن اُن کی تحویل میں دیں۔ میں  نے اُنہیں مائن کے ٹکڑے دیئے اور پورا ماجرا کہ ہم تین کلومیٹر عراقی سرزمین کے اندر  تک گئے اور پھر ہم نے مائن کے نیچے آگ جلائی ، عراقیوں نے اُس کے دھوئیں کو دیکھا  اور کیتلی کا نشانہ لگایا، سنایا۔ جناب ولی نے مہدی میرزائی سے بھی داستان کو سنا اور اُس نے بھی شروع سے پوری داستان سنائی کہ ہم کیسے عراقی سرحد ی علاقے میں داخل ہوئے  اور قریب تھا کہ عراقی ہمیں پکڑ لیتے اور ہم نے آیت "و جعلنا ۔۔۔" پڑھی وغیرہ، جناب ولی نے بہت تعجب سے پوچھا: تم نے مائن کو کیتلی کے نیچے رکھا تھا؟ میں نے کہا: جناب ولی، ہم نے صبح 9 سے 11 بجے تک ہتھوڑی سے اس کی باڈی پر چوٹیں لگائی ہیں، کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ جناب ولی نے پوچھا: اُس دھماکے کے بعد، عراقیوں نے دوبارہ بھی فائرنگ کی؟ میں نے کہا: نہیں، پہلےعراقیوں کی گولہ باری بند ہونے پر سیٹی کی آواز  آتی تھی، لیکن آج سیٹی کی آواز بھی نہیں آئی! جناب ولی نے کہا: تم نے آگ جلائی تھی اور مائن گرم ہوکر پھٹ گئی ہے، عراقیوں نے فائر نہیں کیا تھا۔ اگر مائن کے نچلے حصے کو ڈیڑھ سینٹی میٹر کھولا جائے، مائن پھٹ جاتی ہے اور اگر اُس کی 50 سے 70 میٹر تک پھیلی شعاع تک کوئی ہو، تو وہ دھماکے کی لہر سے ہی شہید ہوجاتا ہے اور اُس کی تمام اندرونی رگیں بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتی ہیں۔ خدا کس طرح مدد کرتا ہے؟ ہمیں کس چیز کو معجزہ کہنا چاہئیے؟ ہم دو گھنٹے تک خود اپنے ہاتھوں سے اس مائن  پر چوٹیں مارتے رہے اور اُس کا ڈیڑھ سینٹی میٹر حصہ نہیں کھلا اور دھماکہ نہیں ہوا۔ اگر ہمارے جوان خدا پر ایمان رکھیں اور تحمل کریں، خدا مدد کرتا ہے، جیسا کہ آج داعش کی ناک مٹی میں مل گئی۔ خدا پر عقیدہ، نماز شب، ظلم نہ کرنا، انفاق کرنا، انصاف سے کام لینا اور وہ ایمان جو جوانوں اور بسیجیوں کے دل میں تھا اُس نے انہیں قدرتمندوں کے مقابلہ میں کامیاب کردیا۔"

 

واحد وہ شخص جسے پتہ تھا ہم کس کام میں مصروف ہیں

دفاع مقدس کے سلسلے میں یادوں بھری رات کے 286 ویں پروگرام میں دوسرے راوی، ایسے شخص تھے جو سن  1988ء میں ہنر و فنون سیکشن میں  داخل ہوئے اور ادبی و مزاحمتی ہنر کے کام کو شروع کیا۔ اُن کے بہترین اور مخلص ترین دوست ہدایت اللہ بہبودی نے اُنہیں "ادیب مؤسس" کا نام دیا اور وہ آخری سالوں میں "انقلاب اسلامی کے ہنر و فنون میں نمایاں چہرے" کے عنوان سے متعارف ہوئے۔ مزاحمتی ہنر اور ادبی دفتر کے بانی جناب مرتضی سرہنگی نے کہا: "29 سال پہلے جب ہم ہنر و فنون سیکشن میں آئے، ہمارے ہاتھ میں ایک فائل تھی جس پر ہم نے لکھا ہوا تھا کہ کون سے کام انجام دینے چاہئیے۔ اُس سے پہلے میں جمہوری اسلامی اخبار میں جنگی صحافی تھا ، جیسا کہ جنگ ختم ہوچکی تھی، ہم چاہتے تھے کہ جنگ کے واقعات کو جمع کریں۔ ہم نے عراق میں موجود قیدیوں کے ایک حصے پر کام کیا ہوا تھا اور ابھی جو عراقی اسیر ایران میں ہیں، اُن پر کام کر رہے ہیں اور اُن سے رابطے میں ہیں۔

ہمارے پاس چند قسم کے کام تھے، پہلا یہ کہ بچوں اور نوجوانوں کے بڑے ہونے سے پہلے، جنگ کے زمانے کے واقعات اُن سے حاصل کرلیں اور ہم نے اس کام کو انجام دے لیا۔ داود غفار زادگان اور محمد رضا بایرامی نے خطوط کی زحمت اٹھائی۔ خطوط کی مقدار چند بوریوں کے برابر تھی۔ "شب ہای بمباران" نامی کتاب کی 17 جلدوں پر اشاعت کی، جو لوگوں کے واقعات پر مشتمل ہے۔

کام کے آغاز میں ہمیں جس مشکل کا سامنا تھا وہ یہ تھی کہ سپاہی اپنے واقعات کو نہیں لکھتے تھے اور کہتے تھے ایک کام تھا جو ہم نے انجام دیا اور اب ختم ہوچکا ہے۔ پھر ہم نے سوچا کہ اگر اپنے بارے میں کچھ نہیں بتا رہے تو شاید اپنے کمانڈروں کے بارے میں بتائیں۔ شاید ہماری جنگ وہ واحد جنگ ہو جس میں کمانڈر کو پسند کیا جاتا ہو۔ اگر دوسری جنگوں کے آثار کا مطالعہ کریں، آپ ملاحظہ کریں گے کہ سپاہی اپنے کمانڈر سے نفرت کرتا ہے، کیونکہ وہ کہتا ہے یہ بالآخر مجھے قتل کروا کے رہے گا۔ ہم نے "میرے کمانڈر" کے نام سے ایک تحریری مقابلہ رکھا کہ اُس کی بھی دو یا تین جلدوں پر کتاب بن گئی۔ ایک اور آئیڈیا اس سوال کی صورت میں تھا کہ "اب تو جنگ ختم ہوچکی ہے، اگر آپ محاذ پر چلے جاتے، تو کیا کام کرتے؟" اُس کی بھی کم حجم کی تین جلدی کتاب  شائع ہوئی۔ ہمارا آخری پروگرام یہ تھا کہ ایک چراغ روشن کرکے ایسا کام کریں کہ سپاہیں جمع ہوں اور اپنے واقعات بیان کریں۔ ہمیں شک تھا کہ اس کام کا فائدہ ہوگا یا نہیں اور دوسری طرف سے ہمیں تجربہ بھی کم تھا۔ واحد وہ شخص جسے پتہ تھا کہ ہنر و فنون سیکشن میں ہم کس کام میں مصروف ہیں، مرتضی آوینی تھے۔ تمام کام، صرف ہمارا کام نہیں ہے، 27 ویں حضرت رسول (ص) ڈویژن کے افراد نے دفتر کو کندھوں پر اٹھایا اور اُسے بلند کیا۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ یادوں بھری رات کا آئیڈیا کامیاب ہوگا یا نہیں؟ ایک دن ہدایت اللہ بہبودی اور علی رضا کمری نے کہا کہ یادوں بھری رات شعروں بھری رات کی محفل کی طرح ہے، اور اس میں ادبی عنصر پایا جاتا ہے؛ اس کام کو انجام دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ یادوں بھری رات کے تیسرے پروگرام میں، مرتضی آوینی تشریف لائے اور ہم نے بات کی۔ شہید آوینی نے کہا: محمد حسین قدمی نامی میرا ایک دوستی ہے جو صحافی ہے جو آپ کی مدد کرسکتا ہے۔ جناب قدمی تشریف لائے اور ہم نے ایک دوسرے سے بات چیت کی۔ آج 25 سال ہوگئے ہیں کہ جناب قدمی مکمل صداقت و سچائی کے ساتھ اس کام کو انجام دینے میں مصروف ہیں۔ ایک بار مجھے بوسنیا دعوت دی گئی اور جب ہم نے اُن سے کہا کہ ہر مہینے کی پہلی جمعرات کو  زمانہ جنگ کے سپاہی ایک محفل میں جمع ہوتے ہیں اور اپنے واقعات کو بیان کرتےہیں، اُنہیں یقین نہیں آیا۔ اگر بوسنیا میں جنگ کے زمانے کے واقعات لکھنا چاہیں، عدالت اُنہیں جنگی جرم میں مبتلا ہونے کے عنوان سے کٹھرے میں لے آتی ہے۔ وہاں آپ کو لکھنے کا حق نہیں ہے۔ میں بوسنیا سے ایک کتاب لایا تاکہ یہاں ترجمہ ہونے کے بعد چھپے، اُس کتاب میں خواتین نے جن دردناک واقعات کا ذکر کیا ہے، یہاں تو اُنہیں اصلاً چھاپا نہیں جاسکتا۔ ہم ایک دفعہ روس کے سفر پہ گئے، ماسکو میں جنگی مصنفوں کی انجمن کے پاس گئے۔ وہاں ایک باغ تھا، ہمارے سامنے جتنے بھی  لوگ بیٹھے ہوئے تھے ، وہ سن و سال میں ہم سے بڑے تھے۔ انجمن کا سربراہ نہیں تھا اور وہ ایک گھنٹہ تاخیر سے آیا۔ جب اُس کی ٹوپی اور شال ہٹائی گئی تو اُس کے آدھے سینے پر میڈل سجے ہوئے تھے۔ اُس نے ہم سے کہا میں دل کا مریض ہوں اور ہسپتال میں ایڈمٹ ہوں اور اُس نے ہم سے ملاقات کرنے کیلئے ہاسپٹل سے دو گھنٹے کی چھٹی لی ہے۔ اُس نے کہا کہ میں نے آپ کی جنگ کے بارے میں پڑھا ہے اور اُس نے اپنی  گفتگو کے دوران مہران اور آبادان کا نام بھی لیا۔ ہماری گفتگو کے آخر میں انجمن کے سربراہ نے ایک ایسا جملہ کہا جو میرے لئے سبق تھا؛ اُس نے کہا روس اپنی جنگی ادبیات کے بغیر صرف ایک وسیع سرزمین ہے او ر اس کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ وہ اپنی تمام شناخت کو اپنی جنگی ادبیات میں سمجھتے ہیں۔

 

جب آپ مورچے کے اندر اور جنگی سپاہیوں کے درمیان جاتے ہیں۔۔۔

دفاع مقدس کے سلسلے میں یادوں بھری رات کے 286 ویں پروگرام میں تیسرے راوی، مصنف اور ہدایت کار مسعود دہ نمکی تھے۔ انھوں نے کہا: "میں نے حال ہی میں "آدم باش" کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی ہے؛ جیسا کہ اُس کے عنوان سے پتہ چلتا ہے، طنز بھی ہے اور اشارہ (کنایہ) بھی ہے اور مختلف نظر رکھتی ہے۔ شاید ہمارے مسائل کا ایک حصہ اس طرح کا ہو کہ ہم بہت سے جنگی واقعات کو کلی نظر سے دیکھتے ہوں؛ مراکز، کمانڈرز اور جنگی راستے، لیکن جب آپ مورچے کے اندر اور جنگی سپاہیوں کے درمیان جاتے ہیں، تو آپ کو پتہ چلے گا کہ جو چیز دکھائی گئی ہے، اُس سے بہت مختلف ہے۔ اگر کچھ چیزیں مورچوں کے اندر اور سینہ بہ سینہ بیان ہوئی ہوں تو اُنہیں ایسے رد عمل کا سامنا ہوتا ہے کہ کہا جاتا ہے یہ تحریف شدہ باتیں ہیں۔ جب میں نے "اخراجی ہا" (1) فلم بنائی تو مجھے  پتہ چلا کہ فلم کے خلاف حکم ناموں کو جمع کر رہے ہیں تاکہ فلم کی نمائش نہ ہوسکے، جبکہ "اخراجی ہا" کے بعد کتنی کتابیں چھپی اور پھر ہمیں پتہ چلا کہ جنگ میں کتنے اخراجی (اضافی) تھے اور ہر کوئی کم از کم اپنی گلی میں ایک آدمی کو تو جانتا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بہت سے واقعات جب کتاب یا تحریر کی شکل میں ہوں، اچھے لگتے ہیں، لیکن جب اُن کی فلم بنائی جاتی ہے، تو اُس پر انگشت نمائی ہوتی ہے۔"

انھوں نے مزید کہا: "میرے والد شاہ کے زمانے میں پولیس تھے۔ وہ اپنے نظامی حکم کے اتنے پابند تھے کہ جب ہم چھوٹے  تھے، اگر ٹی وی پر شاہ کی تصویر آجاتی، ہمیں کھڑے ہوکر سلیوٹ مارنا پڑتا ، اور وہ ہمیں ایک تومان دیتے۔ میرے نانا تبریز کے عارفوں میں سے ایک تھے، اس طرح سے کہ اگر لوگوں کو شفا چاہئے ہوتی تو اُن کے پاس جاتے تھے؛ وہ دعا کرتے اور لوگ صحیح ہوجاتے۔ عجیب تھا کہ انھوں نے اپنی بیٹی ایک پولیس والے کو دیدی تھی۔ میرےوالد فارس کےرہنے والے تھے اور اُنہیں ترکی کا حتی  ایک لفظ بھی نہیں آتاتھا اور انھوں ایسی خاتون سے  شادی  کی تھی جو فارسی کا ایک لفظ بھی نہیں جانتی تھی! گھر میں ترکی میں بات کرنا ممنوع تھا۔ میرے نانا نے میرا نام علی رضا رکھا اور میرے والدجو شاہ کے زمانے کے روشن فکر انسان تھے وہ نہیں مانے اور انھوں نے کہا کہ میرا نام مسعود ہونا چاہئیے۔ اُس زمانے میں میرے ہاتھوں پر کیل محاسے نکلے ہوئے تھے اور ایک ایسی مشین آئی ہوئی تھی جو انہیں جلا کر ختم کردیتی تھی۔ میری ماں نے  میرے والد سے اجازت چاہی کہ مجھے ایک رات ڈاکٹر کے پاس لے جائے،لیکن  میرے والد ان چیزوں کو نہیں مانتے تھے۔ ان کا مذہب پہ اس طرح کا اعتقاد تھا کہ بقول میری والدہ  کہ وہ بلند آواز سے اُس وقت نماز پڑ ھتے تھے جب مہینے کا آخر ہوتا یا اُن کے پاس پیسے نہیں ہوتے، جب مہینے کا وسط ہوتا تو درمیانی آواز میں نماز پڑھتے اور جب وہ ہلکی آواز میں یا حتی نماز ہی نہیں پڑھتے وہ مہینے کا آغاز ہوتا اور اُن کے پاس پیسے ہوتے! ان کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ دوسرے پولیس والوں کی طرح رشوت نہیں لیتے تھے۔ ہم کرایہ کے گھر میں رہتے تھے اور جب ہم تبریز سے تہران آئے، ہمارا ایک منزلہ گھر تھا۔ اُسے دو منزلہ گھر بنانے کیلئے بیس سال کا عرصہ لگا! میرے والد کو جب بھی تنخواہ ملتی ، وہ اینٹوں کی ایک لائن چن دیتے اور اُن کے مزدور بھی ہم تھے۔ ہم آذربائیجان کے ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں گھومتے رہتے اور مزے کی بات یہ تھی، وہ کسی شہر کے تھانے کے انچارج بن گئے تھے اور  اپنا ٹرانسفر ایسے گاؤں میں کر والیا جہاں انقلاب کی خبر ہی نہ ہو اور لوگوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ہماری قسمت، ہم اُس گاؤں کے امام جماعت کے کرایہ دار ہوگئے۔ وہ پولیس والا جسے موجودہ حالات کا محافظ ہونا چاہئے، وہ وہاں کے انقلابی امام جماعت کا کرایہ دار ہوگیا!جس زمانے میں انقلاب کامیاب ہو رہا تھا، لوگ ہمارے گھر کے باہر نعرے  لکھ جاتے اور وہ امام جماعت ، صبح انہیں صاف کردیتے کہ میرے والد ناراض نہ ہوں۔ جب انقلابیوں کو پکڑنا چاہتے تھے، میرے والد گھر والوں کو پہلے سے بتا دیتے کہ وہ آنے والے ہیں تاکہ امام جماعت چھپ جائیں۔ جب انقلاب کامیاب ہوا، اِدھر اُدھر پولیس والوں کو پکڑا جانے لگا، یہ مولانا صاحب فوج کی جیپ میں سوار ہوتے، ہمیں اسکول اور ہمارے والد کو تھانے تک  پہنچاتے تاکہ لوگ تجاوز نہ کریں، یہ اختلافات نمائش ہے، لیکن میں نے دیکھا بعض لوگ کہتے ہیں کہ دہ نمکی نے دفاع مقدس کے حق میں ظلم کیا ہے اور استثنائی چیزوں کو لایا ہے۔ میں نے یہ تو نہیں کہا کہ پوری جنگ اس طرح کی تھی، میرا کہنا ہے کہ پوری بٹالین میں ایک آدمی اس طرح کا تھا، دوسری طرف  سے کچھ ایسے استثنائی موار د ہیں  جو ہمیشہ دیکھنے میں آتے ہیں۔

انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا اور ہم تہران آگئے۔ میرے والد نے پہلے دن ہی مجھ سے کہا: اپنا وظیفہ معین کرو، یا مسجد یا گھر۔ میں نے کہا: مسجد اور انھوں نےاُسی سال 1978 یا 1979سے،  مجھ سے بات نہیں کی اور میرا خرچہ نہیں اٹھایا۔ کہا: خود جاکر کام کرو اور اپنا خرچہ اٹھاؤ۔ میں اُس عمر میں فخر الدین حجازی کی نقل اُتارتا تھا۔ مجھے اِدھر اُدھر جہاں تقریر ہوتی، لے جاتے۔ میں اس بات سے مطمئن تھا کہ میرے والد مجھے نہیں دیکھ رہے اور انہیں نہیں پتہ کہ میں کیا کام کرتا ہوں۔ مجھے ایک جگہ تقریر کیلئے لے گئے، مجھ سے تقریر کا متن گم ہوگیا اور میں بدیہی تقریر کرنے پر مجبور ہوا۔ میں صبح میں اسکول جاتا تھا اور ظہر کے بعد ایک تندور پر کام کرتا تھا تاکہ اپنے مدرسہ کا خرچہ نکال سکوں۔ میں معمول کے مطابق آٹا گوندھ رہا تھا ، میں نے دیکھا کہ لوگ میرے سر کے اوپر رکھے بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کو دیکھ رہے ہیں۔میں نے بھی نگاہ ڈالی تو دیکھا میری بدقسمتی سے، وہی پروگرام چل رہا تھا جس میں، میں تھا۔ میں اُس رات اپنے والد کے خوف سے  گھر نہیں گیا اور گلیوں میں ٹہلتا رہا۔ خدا کا شکر ہے کہ میرے چچا نے بھی وہ پروگرام دیکھا تھا اور انھوں نے میرے والد سے بات کی اور وہ رات خیریت سے گزر گئی۔

ہم جس زمانے میں اسکول جاتے تھے، لڑکوں کے درمیان ہر پارٹی کے لوگ موجود ہوتے تھے۔  جب مجاہدین خلق تنظیم نے مسلح جنگ کا آغاز کیا، جو لوگ ایک ہی اسکول  میں پرھتے تھے، وہ ایک دوسرے کے مقابلے میں آگئے۔ میں اُن سے بحث کرنے کیلئے شہید مطہری اور شریعتی کی کتابوں کو پڑھا کرتا تھا، حتی مجھے یاد ہے میں گھر سے اسکول تک، تسبیح کی طرح، کلمہ اگزیسٹانسیالیسم کو تکرار کرتا، تاکہ بحث کے دوران ان دو الفاط کو استعمال کرسکوں۔ تہران کے شرقی علاقےمیں منافقوں کے نظریات اور آیڈیالوجی کا انچارج ہمارے سیکنڈری اسکول کا لڑکا تھا اور وہ اتنا بھرا ہوا تھا کہ اُسے انچارج بنا دیا تھا۔ جس زمانے میں مسلح جنگ کا آغاز ہوا، اسکول کے سامنے قتل و غارت گری شروع ہوئی، سب کو مار ر ہے تھے۔ ایک دفعہ میں اسکول  سے دیر سے باہر نکلا اور میں نے  اسٹین گن سے ہونے والی فائرنگ کی آواز سنی۔ میں نے سوچا کہ اسکول کے امام جماعت کو مارا ہے۔ میں نے خوف کے مارے بستے اور اسکول کے یونیفارم کے ساتھ پانی کی نالی میں چھلانگ لگائی اور چھپ گیا، جب میں نے اپنا سر اٹھایا تو دیکھا ہر طرف گرد و غبار ہے اور میرے اوپر والی دیوار میں بھی جگہ جگہ سوارخ  ہوگئے ہیں۔ وہ لوگ ایک گیارہ بارہ سالہ بچے کو مارنا چاہتے تھے۔ میری زبان بند ہوچکی تھی اور میں محلے کی اصلی مسجد تک بھاگا۔ جب میں پہنچا تو دیکھا کہ کمیٹی کے افراد وہاں کھڑے ہیں۔ میں نے لکنت کی حالت میں اُنہیں پورا واقعہ سنایا، انہیں یقین نہیں آیا اور وہ ہنسنے لگے۔ اگلے دن جب میں اسکول گیا، میں نے دیکھا کہ منافقین  کا نظریاتی انچارج اسکول میں ہے، لیکن اُن کی پارٹی کے بہت سے لوگ نہیں آئے تھے اور وہ لوگ سڑکوں پر قتل و غارت گری میں مصروف تھے۔ اس واقعہ کو چند سال گزر گئے۔ میں محاذ پر چلا گیا اور پھر میں نے اُس نظریاتی انچارج کو بھی سن  1986ء اور کربلائے پانچ آپریشن سے پہلے تک نہیں دیکھا۔ بٹالینز میں فوجی نہیں تھے، لوگوں میں سے کچھ افراد فلانی انجمن میں جانا چاہتے تھے، اُس شخص سے یہ کہنے کہ بجائے کہ بٹالین میں آؤ! ہمارا کمانڈر ہمیں چھٹی دیتا تاکہ ہم اپنی مسجدوں میں جاکر دوسرے افراد سے کہیں کہ محاذ پر آئیں۔ یہ بھی جنگ کی غربتوں میں سے ایک ہے کہ ایک اقلیت جنگ لڑتی ہے اور ایک اکثریت زندگی کرتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ ہم مسجد میں آئے اور ہم نے دوسروں سے کہا کہ بھئی محاذ پر چلو۔ سب نے مجھ سے کہا تمہیں محاذ پر گئے ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے نہیں اور تم نصیحت کرنے لگے۔ میں مسجد سے روتا ہوا باہر نکلا اور اُس مسجد میں گیا جہاں چند سال پہلے فائرنگ کے بعد گیا تھا۔ جب میں اندر داخل ہوا، میں نے دیکھا مسجد میں اندھیرا ہے اور ایک شخص مناجات کرنے میں مصروف ہے۔ جب میں نے اس کی طرف دیکھا تو مجھے پتہ چلا یہ تو وہی منافقین کا نظریاتی انچارج ہے اور یہ کل محاذ پر جانا چاہتا ہے! میں خود سے سوچنے لگا کہ ہمارے ایسے آپریشنز بھی تھے جس میں منافقین نے ہماری مخبری کی ہے اور ایک منافق کے عنوان سے اُسے وہاں کیا کام ہوسکتا ہے؟ میں   سوچ میں پڑ گیا کہ اعلیٰ حکام کو اس کی خبر دوں یا اس کے نورانی  چہرے اور عرفانی اور بدلنے والی حالت پر یقین کرلوں؟ بالآخر میں نے اپنے دل کی بات مانی اور اُس کے تبدیل ہونے پر یقین کرلیا۔ کربلائے پانچ آپریشن میں تین راستوں پر شہادت ہوئی تھی۔ بہت ہی دشوار دن تھے اور ہم حمزہ بٹالین میں 70 یا 80 لوگ ، جو ایک ساتھ تھے ، دس راتوں کے بعد تقریباً 9 افراد واپس پلٹے۔ چونکہ میں کئی دفعہ زخمی ہوچکا تھا اور کئی دفعہ دھماکوں کی لہر کی لپیٹ میں آچکا تھا، میں چل نہیں  سکتا تھا، میں زمین پر چاروں ہاتھ پیر سے چل رہا تھا۔ مجھے پیچھے بھیجنے کیلئے گولہ بارود سے بھری ایک گاڑی میں ڈال دیا ۔ وہ گاڑی موت کے سہ راہ پر خراب ہوگئی۔ ہماری گاڑی کے آس پاس چند گولے لگے۔ اچانک ایک گولہ گاڑی کے پچھلے حصہ پر لگا اور گاڑی کا نچلا حصہ ہوا میں اُڑ کر زمین پر گرا اور گاڑی اسٹارٹ ہوکر چل پڑی۔ ہم مچھلیوں کی جھیل تک پہنچے اور پھر ہمیں کشتی میں سوار کردیا گیا۔ اوپر سے طیارے گولے برسا رہے تھے، لیکن پھر بھی ہم پہنچ گئے اور ہمیں تہران جانے کیلئے ایک بس میں بٹھا دیا گیا ۔ جب میں بس میں سوار ہوا ، میں نے دیکھا  کچھ لوگ بس کے پچھلے حصے میں گوگوش نغمہ گا رہے  ہیں، بس کی دوسری طرف بیٹھے کچھ لوگ  آہنگران کا نوحہ پڑھ رہے ہیں۔ میں بس کے آگے والے حصے کی طرف آیا اور دیکھا کہ دو لوگ ایک ساتھ بیٹھے ہیں اور اُن میں سے ایک وائرلیس پر بات کر رہا ہے ۔ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ دھماکوں کی لہروں کی وجہ سے ان سب کے حواس باختہ ہیں، پھر اُس نے خود میرا ہاتھ پکڑا اور کہا: آؤ میرے مورچے میں چلتے ہیں! وہ خود بھی حواس باختہ تھا۔ بہرحال اُس گاڑی نے اندیمشک سے تہران کے چودہ گھنٹے والے راستے کو آٹھ گھنٹے میں طے کیا، یعنی میں بس میں موت کے سہ را ہ سے زیادہ  ڈر گیا تھا!جب میں اپنی گلی میں آیا، میں نے گلی کے شروع میں اپنے اُسی دوست کا  پمفلٹ دیکھا جو تہران کے مشرقی علاقے میں منافقین کی تنظیم کا نظریاتی انچارج تھا۔ وہ کربلائے پانچ آپریشن میں شہید ہوگئے تھے۔"

دفاع مقدس کے سلسلے میں یادوں بھری رات کے 286 ویں پروگرام میں، شہید مرتضی آوینی کے بارے میں "انحصار ورثہ" نامی ڈاکومنٹری کے ایک  حصے کو دکھایا گیا۔ اس ڈاکومنٹری میں بتایا گیا ہے کہ وہ کون تھے اور کس طرح اُن کے اندر تبدیلی آئی اور بالآخر وہ کیسی شخصیت میں تبدیل ہوگئے۔ یادوں بھری رات کے اس پروگرام میں، اس ڈاکومنٹری کے ہدایت کار محمد علی شعبانی کا شکریہ ادا کیا گیا۔ جناب شعبانی نے کہا: "میں تین معزز شخصیات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں، جنہوں نے میری زندگی پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ پہلے محمد رضا آقاسی تھے کہ میں بچپن میں اُن کے  نغمے گایا کرتا اور اُن نغمے سے مجھے نسبی شہرت حاصل ہوئی اور مجھے ہمیشہ یہ ڈر لگا رہتا تھا کہ میری اس پرفارمنس کو جناب آقاسی دیکھ لیں۔ دوسرے جناب محمد حسین قدمی ہیں  جنہوں نے احسان کیا اور مجھے یادوں بھری رات کے پروگرام میں دعوت دی۔ میں اُس زمانے میں بہت چھوٹا تھا جب یادوں بھری رات کے پروگرام میں آیا اور نغمہ گایا، اس طرح سے کہ میں اسٹیج پر رکھے ڈائس کے سامنے کھڑا ہوا تاکہ نظر آؤں۔ تیسرے جناب مرتضی آوینی ہیں جو ہماری نسل کی گردن پر حق رکھتے ہیں۔ "

دفاع مقدس کے سلسلے میں یادوں بھری رات کا ۲۸6 واں پروگرام، ثقافتی تحقیق، مطالعات اور پائیدار ادب کے مرکز اور ادبی اور مزاحمتی فن کے مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام،23 نومبر ۲۰۱۷ء کو  آرٹ گیلری کے سورہ آڈیٹوریم  میں منعقد ہوا۔ اگلا پروگرام ۲۸ دسمبر کو منعقد ہوگا۔

 


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3693



http://oral-history.ir/?page=post&id=7532