تنہائی کے سال – پہلا حصّہ

رہائی پانے والے پائلٹ ہوشنگ شروین (شیروین) کے واقعات
کاوش: رضا بندہ خدا

2017-10-22


ہم اس ہفتہ سے "تنہائی کے سال: رہائی پانے والے پائلٹ ہوشنگ شروین کی دس سالہ قید کے واقعات" کا مطالعہ کریں گے۔ ان واقعات کو رضا بندہ خدا نے تالیف کیا ہے۔آرٹ گیلری کے ادبی دفتر اور ثقافتی مرکز نے "تنہائی کے سال" نامی کتاب کو سن ۱۹۹۶ء میں پہلی بار اس مجموعہ کی طرف سے ۳۶۲ ویں  تیار کردہ کتاب اور اس مجموعہ میں رہائی پانے والوں کی یادوں پر مشتمل اٹھاونویں کتاب کے عنوان سے شائع کیا۔

نکتہ

پائلٹ "شروین" نے ہم سب سے باتیں کی ہیں۔  ایک شیفتہ لکھاری کے عنوان سے میری بس یہی کوشش تھی کہ گفتار کی صداقت مکمل کمال کے ساتھ محفوظ ہوجائے۔ میرا دل چاہتا ہے جدوجہد کے اس حماسہ اور اعتماد کو زیادہ تر جوان افراد پڑھیں، سمجھیں اور فکر کریں۔

مبالغہ آرائی کے بغیر یہ کتاب،پورے دفاع مقدس کے عرصے اور حتی اُس کے بعد، حقیقی اور اسلامی معنوں میں ایران اسلامی کے ایک بہادر قیدی کا پیغام ہے۔

راوی قصہ نہیں سناتا اور وہ ہنری اور ادبی منظر کشی کے درپے نہیں ہوتا۔ شخصیت پردازی نہیں کرتا۔ وہ شاعر اور مؤلف نہیں اور وہ بننا بھی نہیں چاہتا۔ اُس نے کبھی چاہا ہی نہیں ہوتا کہ بات کرے؛ لیکن شاید اس سرزمین کے بیٹوں کو آگاہ کرنے کی فکر نے اُسے اس کام پہ راضی کردیا!

راوی، آپ کے احساسات کو بھڑکانا نہیں چاہتا یا کسی کی غیرت جگانے کیلئے کوئی بیہودہ بات نہیں کرتا شاید وہ ایسا تنہا جنگجو ہے جو مہربان اور پابند ہے، یا خدا کی ذات میں غرق ہے، گرفتار۔ ہوائیاں نہیں اُڑاتا، تعریف نہیں کرتا۔ صحیح بات بیان کرتا ہے اور کوئی شکل اور عمارت کھڑی کرنے کے چکر میں نہیں ہوتا۔

راوی انعام حاصل کرنے کیلئے مؤلف بننا نہیں چاہتا ؛ وہ اپنا پہلا انعام لے چکا ہے۔ وہ ادبیات میں نہیں الجھتا؛ بلکہ خود عشق، رنج و مصیبت اور  صبر و شکیبائی کا ادیب ہوتا ہے۔

اُس کی گفتگو اور زبان کو نہیں، اُس کی آرزو، ایمان اور دل کو دیکھو ...

رضا بندہ خدا

اپریل ۱۹۹۵ء

میں تیسری جماعت میں تھا جب تیز ہوا  کے جھونکے نے مجھے زندگی میں پہلی دفعہ موسم خزاں میں کسی ٹوٹے اور سوکھے پتے کی طرح لرزا دیا؛ والد کا سایہ سر سے جلدی اُٹھ جانا ہماری زندگی کے شیرازے کو بکھیر سکتا تھا؛ لیکن ماں تھیں جو مرد کی طرح ڈٹی رہیں۔

میرے والد جو بارہ سال کی عمر میں، "سیاھکل" سے تہران آگئے تھے، تنہا اور اجنبی تھے، انھوں نے بہت مشقت، کوشش اور حوصلے کے ساتھ فوج کے جنرل ڈاکٹر کی تعلیم حاصل کی ا ور زمینی افواج میں کپتان کے عہدے پر پہنچے؛  لیکن سکتہ نے اُنہیں زیادہ مہلت نہیں دی!

والدہ تھیں، میں اور میرے چار بہن بھائی اور فوجی کی ناکافی پینشن۔ ہم پانچوں فرزند، فداکاری اور رنجشیں سہنے پر  اپنی سیدہ والدہ کے قیامت تک قرضدار اور شکر گزار ہیں۔

چھوٹے سے ذہن کے ساتھ میرا دل چاہتا تھا – جس طرح بھی ہو – میں گھر والوں کی مدد کروں؛ لیکن والدہ، اس سے کہیں بلند تھیں کہ ہماری سختیوں کو تحمل نہ کرپاتی اور انھوں تن تنہا مقابلہ کیا؛ بغیر اس کے کہ کسی نے اُن کے گلے شکوے سنے ہوں۔ اُن کی اسی استقامت اور اُمیدواری نے میرے اندر اپنے گھرانے کی مدد کرنے کے شعلہ کو مزید بھڑکایا۔

نویں کلاس کا رزلٹ حاصل کرنے کے بعد، میں اکیڈمی کے ٹیکسٹائل اور رنگ کرنے کے شعبے میں چلا گیا تاکہ میں پڑھائی کے ساتھ کام سیکھ لوں۔ گرمیوں میں کام کیلئے مجھے دھاگوں کی ریل کے کارخانے بھیجا گیا اور میری زندگی کا خوبصورت ترین دن آگیا؛ جس دن میں نے اپنی پوری تنخواہ ماں کے ہاتھوں پر رکھ دی، اُن کی آنکھوں میں آنسو آئے اور انھوں نے مجھے پیار کیا۔

میں نے اکیڈمی کے دورے کو پہلے گریڈ سے پاس کیا اور دھاگوں کے کارخانوں "مقدم"، اس کے بعد "فخر ایران" اور "چیت سازی ری" میں مصروف ہوگیا۔

مجھے کچھ عرصے بعد احساس ہوا یہ پیشہ ، میری طبیعت اور میرے وجود کے جوش و خروش سے سازگار نہیں؛ یا میں خود کو اس میں ڈھال نہیں سکتا۔ اصل میں، کمپنی کے مالک کے نزدیک میری حیثیت صرف ایک پڑھے لکھے ملازم سے زیادہ نہیں تھی اور یہی چیز مجھے آزار دے رہی تھی۔ خدانخواستہ ایسا نہیں ہے کہ میں زحمت کرنے والے مزدور طبقے کو بے اہمیت سمجھوں!

میں نے ریاضی کے شعبے میں داخلہ لیا اور راتوں کو کام کرنے کے ساتھ، اُسی سال ریاضی میں میٹرک کرلیا۔ مجھے اعتراف کرنا چاہیے کہ وہ زمانہ بغیر کسی مبالغہ آرائی کے میری زندگی کا سخت ترین دور تھا۔

اپنے ایک رشتہ دار – جو خود پائلٹ تھے – کی مہربانی اور ہدایات سے میں فضائی افواج میں بھرتی ہوگیا۔ اچھا ہوگا اگر میں یہ کہہ دوں کہ میرا سب سے بڑا انگیزہ، گھر والوں کا ساتھ دینے کیلئے بہترین درآمد تھا، لیکن میرے اندر یہ احساس تھا کہ میں اپنے پسندیدہ پیشے کو اپنی مرضی اور معیار کے مطابق دیکھوں۔

میں بیس سال کی عمر میں پائلٹ کالج میں داخل ہوا۔ اُڑنے کی حس جیسا شوق، میرے اندر موجود توانائی کو مزید بڑھا دیتا، بلوغ اور جوانی میری شجاعت اور جسارت کو بھی بڑھا رہی تھی۔ اب میں پرندوں کے پر مارنے کو کسی اور نگاہ سے دیکھ رہا تھا۔

میں نے اپنی ٹریننگ کا ابتدائی دورہ ایران میں اور پائلٹ بننے کا مکمل  دورہ امریکا میں کامیابی سے گزارا اور تین سال پڑھائی کے بعد سن ۱۹۷۰ء میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کے درجے کے ساتھ"مہر آباد" میں ڈیوٹی انجام دینے لگ گیا۔ اگر آپ پائلٹ ہوں، جب آسمان کی شدت میں راستہ طے کر رہے ہوں، اُس وقت آپ خدا کی شاندار بے انتہا عظمت کا تھوڑا سا مشاہدہ کرسکتے ہیں ، بہت تھوڑا!

ڈیوٹی اور ٹرانسفر، حکم ہے اور وظیفہ انجام دینا بھی واجب۔ شیراز، ہمدان، بوشہر؛ مگر کسی میں کوئی فرق ہے؟ میں خوشحال تھا کہ میں اپنی ماں کو کچھ تو خوش کرسکا؛ میرے لئے اُن کی دعا سے بڑھ کر کون سی چیز قیمتی ہے؟

۱۹۷۸ء میں آنے والے انقلاب نے بہت سے چیزوں کو بدل دیا؛ کمانڈروں کو، شاہ کی پرستش کو اور سب سے بڑھ کر، امریکا کی رعیت اور غلامی کو۔ ۱۹۷۸ء کے انقلاب نے اسلام کو زندہ کردیا اور اسلام نے ہمیں۔ مجھے اعتراف کرنا چاہیے – بہت سے لوگوں کی طرح –  نہ میں اسلام کو صحیح سے جانتا تھا اور نہ "امام" کو۔ میں شکرانہ بجالانے کو کبھی فراموش نہیں کروں گا۔

انقلاب کے ایک سال بعد میں نے شادی کرلی۔ چند سال کام اور دن رات کی زحمات کے بعد، میری زوجہ "مہری" کی محبت، بردباری اور عشق نے میری ساری تھکاوٹ کو دھو ڈالا اور میری زندگی کو شاداب کردیا۔

مہری، میرے وجود کا آدھا حصہ بن چکی تھی اور یہ احساس – کہ گھر میں کوئی بے چینی سے سے میرا منتظر ہے – مجھے شاد  اور پابند کردیتا۔ ہم بوشہر کی جان لیوا مرطوب گرمی کو خلیج فارس کے ساحل پر  سورج غروب ہونے کے خوبصورت منظر کے سکون میں بھلا دیتےاور گیسٹ ہاؤس میں دوستوں کی محبت، مہربانی اور تعاون سے سے زندگی گزارتے تھے۔ اُن دنوں کے اپنے واقعات – اگرچہ زیادہ نہیں ہیں – لیکن ہمارے ذہنوں میں باقی ہیں۔

سن ۱۹۸۰ کی گرمیوں کے شروع میں، ہمدان کی شاہرخی چھاؤنی – شہید نوژہ -  منتقل ہوا ، ایسا نوژہ بغاوت کے وقت ہوا!

اس خیانت کا مزہ میرے لئے بہت کڑوا تھا، مجھے یہ بات کہنی چاہیے کہ میں زیادہ تر جن لوگوں کو پہچانتا تھا، وہ کسی نہ کسی طرح اس بغاوت والے معاملے میں شریک تھے؛ زیادہ تر یا تو مغرب زدہ تھا یا "ساواک" سے گٹھ جوڑ کرلیا تھا اور بعض لوگ ذہنی عدم توازن میں دوچار تھے! میرے خیال سے اُن سب کی وجہ مشترک، اسلام سے دوری تھی، یا انقلاب سے پہلے اُن کے کاموں کی پول پٹی کھل جانے کا خوف، یا پیسے اور عہدے کے جھانسے میں آجانا؛ البتہ وہ ظاہر میں واقعی وطن پرست اور ایران کے عاشق تھے!اُن میں سے بعض افراد جو اصلی محرک تھے، انھوں نے اپنی خیانت کی سزا پالی اور حلقہ دار پر آویزاں ہوئے اور کسی نے بھی اُن کے جنازے پر آنسو نہیں بہائے۔

انہی دنوں خداوند متعال نے میری زندگی کی مٹھاس کو دوبالا کردیا اور میری بیٹی "آزادہ" کی ولادت نے ہمارے گھر کی فضا میں ایک نئی خوشبو بکھیر دی۔

میں نے ستمبر کے مہینے میں چند دنوں کی چھٹی لے لی اور کچھ کاموں جیسے ہسپتال کے بلوں کی ادائیگی، بیٹی کا برتھ سرٹیفیکیٹ بنوانا، ماں کی دست بوسی وغیرہ تہران آیا۔ ہر چیز صحیح اور معمول کے مطابق تھی۔

گرمیوں کے آخری ایام میں،میں  ایک دن شام کو اپنی گاڑی لینے کیلئے ورکشاپ کی طرف جا رہا تھا۔ اچانک ایسے دھماکے کی آواز – کہ جس میں زمین لرزنے کا احساس ہوتا ہو – نے ماحول کو خوفناک بنا دیا! شاید کسی کبوتر کا دل بند ہوگیا ہو یا ماں کے رحموں میں موجود بچوں کی سانس بند ہوگئی ہو، لوگوں کی آنکھوں میں خوف سے زیادہ تعجب تھا!انقلاب کی روح نے وحشت کو دلوں سے نکال دیا تھا۔

مکینک استاد نے – غصے اور متاثرہ لہجے میں – کہا: "مہر آباد ایئرپورٹ پر بمباری کی گئی ہے!"

-  میرے خیال سے نہیں!

مجھے یقین نہیں آیا؛کس احمق کے دماغ میں یہ خیال آیا ہے کہ وہ بمباری سے اپنا کام نکال سکتا ہے؟ اپنوں کا کام ہے، یا غیروں گا؟

میں نے چھاؤنی فون کیا۔ بتایا گیا: "عراقی طیاروں نے حملہ کیا ہے ..."

مجھے ابھی بھی یقین نہیں آرہا تھا؛ عراق"! اُسے خود پتہ ہے کہ وہ ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتا تو پھر کیسے...؟!

سوچ و بچار میں پڑنے کی جگہ نہیں تھی؛ میں فوراً اپنی بیوی اور چھوٹی آزادہ کے ساتھ ہمدان کی طرف  روانہ ہوا۔ میرے کام کی ذمہ داری، میرے ضمیر کو کھا رہی تھی، لیکن میں نے اپنی بیوی کی حالت کی وجہ اور خاص طور سے وہ ابھی ماں بنی تھی،  کچھ نہیں کہا۔ "ابھی "جنگ" ، یعنی ایک حقیقی جنگ کے نام سے میرے ذہن میں کچھ نہیں تھا؛ یہاں تک کہ ہم ہمدان پہنچ گئے۔

جاری ہے ...


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3691



http://oral-history.ir/?page=post&id=7403