" کتاب کی زبانی تاریخ" کی بیسویں نشست کے میزبان مطبوعات زوّار کے انچارج تھے

والد کے پیشے کو جاری رکھنے کی مشکلات

مریم رجبی

2017-10-18


ایرانی اورل ہسٹری سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، " کتاب کی زبانی تاریخ" کی نشستوں کے دوسرے سلسلہ کی بیسویں نشست،  پیر کی صبح، مورخہ ۲۸ اگست ۲۰۱۷ء کو  مؤلف اور محقق  ہمت نصر اللہ حدادی کی کوششوں اور مطبوعات زوّار کے انچارج جناب حضور علی زوّار کی موجودگی میں خانہ کتاب فاؤنڈیشن کے اہل قلم سرا میں منعقد ہوئی۔

میری والدہ کی دیرینہ آرزو تھی کہ اشاعت کا کام جاری رہے

انھوں نے کہا: "میں یکم جنوری ۱۹۵۵ء کو شاہراہ ایران پر عین الدولہ نامی محلہ میں پیدا ہوا۔ میں نے پرائمری کا عرصہ "آیندہ روشن" نامی اسکول میں اور سیکنڈری کی مدت "خوارزمی" اسکول میں گزاری اور سن ۱۹۷۸ء میں ریاضی میں ڈپلومہ کا سرٹیفیکٹ حاصل کیا۔ میں اسکول کے زمانے میں جک لندن کی کتابیں اور جاسوسی اور پولیس کی کتابیں پڑھتا تھا۔ جولائی ۱۹۷۸ء، عین انقلاب کے شور و غوغا والے زمانے میں، میں امریکا چلا گیا اور وہاں پر میں نے جیٹ طیاروں کی موٹر اور اسٹرکچر  کی مرمت اور اُس کی دیکھ بھال  کے موضوع کی تعلیم حاصل کی۔  میں اپنی پڑھائی ختم ہونے کے بعد ایک امریکی کمپنی میں لگ گیا۔ ہم تین بھائی ہیں جن کے شناختی کارڈ پر نام یہ ہیں: حسن، محمد اور علی، لیکن گھر میں ہمیں بابک، شہرام اور اردشیر کہہ کر بلایا جاتا ہے۔ میں اپنے گھر کا سب سے بڑا فرزند ہوں۔ میرا ایک بھائی ایران کے اسٹاک ایکسچینج میں شیئرز خریدنے اور بیچنے میں مصروف ہے، دوسرا امریکا میں ہے۔ میں نے سن ۱۹۹۳ء میں شادی کی۔"

علی زوّار نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: "مجھے امریکا جانے کا شوق نہیں تھا، جیسا کہ میرے دادا اور نانا دونوں کا پرنٹنگ پریس تھا اور ہم جس زمانے میں اپنے نانا کے پاس مشہد جاتے تھے، جب پرنٹنگ پریس میں کھیلا کرتے تھے، میرا دل چاہتا تھا میں یہاں بھی ایک چاپخانہ بناؤں۔ حتی میں چاپخانہ خریدنے کیلئے اُس کی قرار داد کے امضاء کے معاملے تک پہنچ گیا تھا، لیکن میرے والد گویا تمام باتوں سے آگاہ تھے اور وہ چاہتے تھے کہ میں ایک یا دو سالوں کیلئے امریکا جاکر لینگویج سیکھو، پھر واپس آجاؤں۔ میں سترہ سال تک امریکا میں رہا۔ البتہ جوانی میں میرا دل باربر (نائی ) بننے کا بھی چاہتا تھا  اور جب میں امریکا گیا، مجھے باورچی بننے کا شوق اٹھا، حتی میں نے کوکنگ کورس کے لئے اپنا نام بھی لکھوالیا تھا، لیکن جیسا کہ میں کمپنی میں لگ چکا تھا، اب اُسے جاری نہیں رکھ سکتا تھا۔"

انھوں نے کہا: "میرے والد صاحب کا ۴ مارچ سن ۱۹۹۲ میں انتقال ہوگیا۔ جب میرے والد کا انتقال ہوا، میں اپنے بھائیوں کے ساتھ ایران واپس آگیا اور طے تھا کہ ہم اپنی زندگی کو سمیٹ سماٹ کر دوبارہ امریکا کا رُخ کریں، لیکن جیسا کہ کوئی بھی پرنٹنگ پریس خریدنے کیلئے تیار نہیں تھا، ہم واپس نہیں جا سکے۔ جس وقت ہم واپس لوٹے تھے، میرے والد کی کتابوں کے انبار میں صرف آٹھ کتابوں کے عناوین موجود تھے، من جملہ سیمین بھبھانی کی کتابوں کا مجموعہ، "فرہنگ لغات و تعبیرات مثنوی"، "سفرنامہ ناصر خسرو" اور بنیامین اسپوک کی "تغذیہ و تربیت کودک" (بچے کی غذا اور تربیت)۔ میرے والد چاہتے تو ہر سال رہی معیری کی کتاب "سایہ عمر" کے دس ہزار نسخے بیچ سکتے تھے، لیکن انھوں نے اسے پرنٹ نہیں کیا ، وہ زیادہ تر پہلی والی کتابوں کی طباعت میں دلچسپی رکھتے تھے۔ میرے والد صاحب شاید حساب کتاب میں کمزور تھے۔ جب میں نے پرنٹنگ پریس کا کنٹرول سنبھالا، کسی بھی  مؤلف کا اپنی کتاب لینے کا ارادہ نہیں تھا، انھوں نے مجھے موقع فراہم کیا اور میں نے بھی اُن کی کتابوں کو دوبارہ چھاپا۔"

اس پبلیشر نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: "میں جو کام امریکا میں انجام دے رہا تھا مجھے اُس میں بہت دلچسپی تھی اور اگر میں وہ کام جاری رکھتا تو میں اس وقت زیادہ خوشحال ہوتا۔ میری والدہ کی دیرینہ آرزو تھی کہ اشاعت کا کام جاری رہے اور بقول اُن کے "ہمیں چراغ کو جلتا رکھنا ہے"انھوں نے یہ کام انجام دینے کیلئے میرا انتخاب کیا، کیونکہ میرے بھائیوں میں نہ کہنے کی جرائت تھی  لیکن مجھ میں یہ حوصلہ نہیں تھا، چونکہ میری والدہ بوڑھی ہوچکی تھیں اور انھوں نے بہت سی سختیاں بھی جھیلیں تھیں۔ اس وقت یہ کام میرا شوق نہیں ہے، کیونکہ مجھے اپنی درآمد اور کام  کے بارے میں پہلے سے  بہت ہی کم معلومات تھیں اور ابھی تک تقریباً ۲۵ سال گزر جانے کے بعد میں جو اس کام میں مشغول ہوں، مجھے نہیں معلوم میں کہاں پہنچ پاؤں گا اور اس کام کا انجام کیا ہوگا۔ میرے لئے ہر چیز مبہم ہے اور مجھے نہیں معلوم میرے پاس کیا ہے اور کیا نہیں ہے؟ میں ابھی تک اس بارے میں فکرمند رہتا ہوں کہ میرا چیک کلیئر ہوگا یا نہیں؟ آج ہم شاید پورے دن میں صرف دو یا تین کتابیں بیج پاتے ہیں۔ میں اپنے انبار میں لگے کتابوں کے ڈھیر کو دیکھ کر پریشان نہیں ہوتا، کیونکہ کتاب میری ایک دوست اور میرے لئے دلجوئی کا باعث ہے۔"

خریداروں نے کہا ہم کتابوں اور بٹر پیپر کو کلو کے حساب سے خریدیں گے!

انھوں نے مزید کہا: میں نے حسین پرتو بیضائی کی کتاب "تاریخ ورزش باستانی ایران (زور خانہ)" (ایران کی قدیمی ورش کی تاریخ[ورزش کلب]) کی طباعت  اپنی ذاتی دلچسپی کی بنیاد پر کی تھی۔ اس وقت میرے پاس کتاب کے تقریباً ۲۰۰ عناوین موجود ہیں، لیکن میرے والد کے زمانے سے کتاب کے تقریباً ۷۰۰ عناوین موجود تھے۔ انہیں دوبارہ نہ چھاپنے کی وجہ یہ ہے کہ اُن کا موضوع عام نہیں تھا اور کوئی خریدار بھی نہیں تھا۔ میرے پاس سالانہ طباعت کیلئے اس وقت تقریباً کتابوں کے پانچ، چھ عنوان  اور تقریباً بیس عنوان دوبارہ چاپ ہونے  کیلئے  ہیں۔"

جناب علی زوّار نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: "مطبوعات زوّار تاریخ، ادبیات اور عمومی ثقافت کی حدود میں کام کرتا ہے۔ میں ایک دفعہ اس راستہ سے ہٹ گیا اور میں نے ناول اور  نفسیاتی موضوعات پر کتابوں کی طباعت کی، لیکن مجھے اس میں کامیابی نہیں ہوئی  اور میں نے سن  ۲۰۱۲ء میں کتابوں کے  پچیس عناوین ۱۰۰۰نسخوں  لیکر  ۲۰۰۰ نسخوں تک بائنڈ کئے۔ جو کتاب نہیں بکتی وہ ہماری دشمن ہوتی ہے، کیونکہ ہمیں روزانہ اُن کتابوں کے تعداد کو دیکھتے ہوئے مزید پریشانی  ہوتی  ہے۔"

انھوں نے بیان کیا: "میں نے اپنے والد کے انتقال کے دو سال بعد، مطبوعات زوّار کے تمام وسائل، انبار میں موجود کتابیں، فلم اور بٹر پیپر، قرار دادیں، تصحیح شدہ کام اور مطبوعات سے مربوط تمام وسائل کی قیمت ۳۰ ملین لگائی اور ماہانہ قسط ایک ملین قرار دی، کوئی بھی خریدنے کیلئے تیار نہیں تھا۔ خریداروں نے کہا ہم کتابوں اور بٹر پیپر وغیرہ کو کلو کے حساب سے خریدیں گے اور ہم مؤلفین سے خود ہی نئی قرار دادیں لکھ لیں گے۔"

انھوں نے کہا: "میرے والد کتاب شناس ہونے کے علاوہ، ایک اچھے وکیل بھی ہوسکتے تھے، کیونکہ وہ ہمیشہ اس طرح سے جواب دیتے  کہ آپ کو ایسا محسوس ہو کہ آپ نے اپنے سوال کا جواب پا لیا ہے، لیکن آپ کو کچھ عرصہ بعد پتہ چلے گا کہ آپ نے اُن سے جو چاہا تھا وہ آپ کو نہیں ملا۔ انہیں کلمات سے بہت اچھی طرح کھیلنا آتا تھا اور اُن کے اندر ایک یونیورسٹی کے استاد کی طرح گفتگو کرنے کی توانائی اور صلاحیت تھی۔ وہ بہت مطالعہ کرتے تھے اور اپنی کتابوں کی تصحیح خود انجام دیتے تھے۔"

انھوں نے اپنی کتابوں کی قیمت لگانے کے معیار پر گفتگو کرتے ہوئے کہا: "میں اپنی مورد نظر کتاب کو بازار سے ڈھونڈ کر اُن کی قیمتوں کی بنیاد پر قیمت کا تعین کرتا ہوں۔ ہم کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں ۳۵ فیصد تخفیف دیتے ہیں، ۱۵ سے ۲۰ فیصد حق تالیف ہوتا ہے اور ۳۰ سے ۳۵ فیصد  کتاب کی چاپ پر خرچہ آتا ہے۔ "

اس پبلیشر نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: "کتابوں کی صوبائی نمائش  بہت زیادہ کامیاب نہیں، لیکن انٹرنیشنل نمائش فروش کی بہترین  جگہ ہے  اور نقدی منافع کے لحاظ سے اچھی جگہ ہے۔ وزارت ارشاد کی طرف سے کتابوں کی خریداری اچھا عمل ہے اور ایسا  ہوا ہے کہ ہم نے وزارت ارشاد کو ۷۰۰ جلد کتابیں بیچی ہیں، لیکن اب تقریباً ۵۰ سے ۱۰۰ جلد تک خریدتے ہیں۔ ہماری "شاخہ نبات" نامی کتاب کو ناجائز طور پر چھاپ رہے ہیں، پولیس ادارے یا کسی سنٹر کو اس مسئلے کی چھان بین کرنی چاہیے۔ "از صبا تا نیما" وہ واحد کتاب تھی جس کے صفحات  میں موجود ایک تصویر  پر وزات ثقافت و ارشاد اسلامی کنٹرول بورد نے  اعتراض کیا کہ اس تصویر کو چھوٹا کیا جائے۔ میں ابھی تک کسی بھی کتاب کی طباعت پر پشیمان نہیں ہوا۔"

انھوں نے آخر میں کہا: "پڑھائی میں رہنمائی کرنے والی کتاب طالب علم کو سست بنانے کے علاوہ کچھ اور نہیں کرتیں۔ ان کتابوں کی حیثیت مریض کیلئے دوائی کی طرح ہے جسے مریض خریدنے پر مجبور ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا کتاب کا سخت رقیب ہے اور مجھے نہیں معلوم کہ وزارت ارشاد و ثقافت اسلامی کیوں ڈیجیٹل کتابوں کی روک تھام کے بارے میں کوئی اقدام نہیں کرتا۔"

" کتاب کی زبانی تاریخ" کی نشستوں کا نیا سلسلہ خانہ کتاب فاؤنڈیشن کے اہل قلم سرا میں اس ترتیب کے ساتھ منعقد ہوا: پہلی نشست بدھ، ۱۲ اپریل ۲۰۱۷ء کومطبوعات تہران – تبریز کے انچارج حاج بیت اللہ راد خواہ (مشمع چی) کی موجودگی میں، دوسری نشست بدھ، ۱۹ اپریل کو مطبوعات پرتو کے انچارج جمشید  اسماعیلیان کی موجودگی میں، تیسری نشست بدھ،  ۲۶ اپریل کو مطبوعات اشرفی کے انچارج ابو القاسم اشرف الکتابی کی موجودگی میں، چوتھی نشست بدھ، ۱۷ مئی کو مطبوعات مرتضوی کے انچارج حجت الاسلام بیوک چیت چیان کی موجودگی میں، پانچویں نشست منگل، ۲۳ مئی کو مطبوعات اسلامیہ کے انچارج سید جلال کتابچی اور مطبوعات علمیہ اسلامیہ کے انچارجوں سید فرید کتابچی اور سید محمد باقر کتابچی کے موجودگی میں، چھٹی نشست منگل،  ۳۰ مئی کومطبوعات اسلامیہ کے انچارج سید جلال کتابچی اور مطبوعات علمیہ اسلامیہ کے انچارجوں سید مجتبی کتابچی، سید فرید کتابچی اور سید محمد باقر کتابچی کی موجودگی میں، ساتویں نشست منگل، ۶ جون کو دار الکتب الاسلامیہ کے انچارج مرتضیٰ آخوندی کی موجودگی میں، آٹھویں نشست منگل، ۱۳ جون کو دوبارہ دار الکتب الاسلامیہ کے انچارج مرتضی آخوندی کی موجودگی میں، نویں نشست منگل، ۲۰ جون کو کارنامہ پبلشر کی صاحب امتیاز مہدیہ مستغنی یزدی،مطبوعات کارنامہ کے مرحوم انچارج، محمد زہرائی کے فرزندوں ماکان اور روزبہ زہرائی کی موجودگی میں، دسویں نشست بدھ، ۲۷ جون کودوبارہ کارنامہ پبلشر کی صاحب امتیاز مہدیہ مستغنی یزدی،مطبوعات کارنامہ کے مرحوم انچارج، محمد زہرائی کے فرزندوں ماکان اور روزبہ زہرائی کی موجودگی میں، گیارہویں نشست منگل،  ۱۱ جولائی کو نشر  رسا  کے انچارج محمد رضا ناجیان اصل کی موجودگی میں، بارہویں نشست اتوار،  ۱۶ جولائی کو  مطبوعات نو کے انچارج محمد رضا جعفری کی موجودگی میں، تیرہویں نشست منگل، ۱۸ جولائی کو ایک بار پھر مطبوعات رسا کے انچارج محمد رضا ناجیان اصل کی موجودگی میں، چودہویں نشست، منگل ۲۵ جولائی کو ایک بار پھر مطبوعات نو کے انچارج محمد رضا جعفری کی موجودگی میں، پندرہویں نشست، ہفتہ ۲۹ جولائی کو مطبوعات پیام کے انچارج محمد نیک دست کی موجودگی میں، سولہویں نشست، منگل ۸ اگست کواقبال پبلیکیشنز کے انچارج سعید اقبال کتابچی کی موجودگی میں، سترہویں نشست، ہفتہ  ۱۲ اگست کو ایک بار پھر اقبال پبلیکیشنز کے انچارج سعید اقبال کتابچی کی موجودگی  میں، اٹھارہویں نشست،منگل ۱۵ اگست کو  مطبوعات فرہنگ معاصر کے انچارج جناب داوود موسائی کی موجودگی میں، اُنیسویں نشست، منگل ۲۲ اگست کو مطبوعات مازیار کے انچارج جناب مہر داد کاظم زادہ کی موجودگی میں۔

اسی طرح "کتاب کی زبانی تاریخ" کی ابتدائی نشستوں کا مرحلہ سن ۲۰۱۴ء کے وسط سے سن ۲۰۱۵ کی گرمیوں تک جناب ہمت نصر اللہ حدادی کی کوششوں سے خانہ کتاب فاؤنڈیشن کے اہل قلم سرا میں منعقدہوا۔ ان نشستوں کا نتیجہ "کتاب کی زبانی تاریخ" کے عنوان سے حاصل ہونے والی وہ کتاب ہے جو ۵۶۰ صفحات پر خانہ کتاب فاؤنڈیشن کی طرف سے اشاعت ہوئی ہے۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3596



http://oral-history.ir/?page=post&id=7398