۲۷۷ ویں یادوں بھری رات

اطلاعات، تیراکی اور ہمارے طلب کئے گئے وائرلیس سیٹ

مریم رجبی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-05-19


ایرانی اورل ہسٹری سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، یادوں بھری رات کے سلسلے کا ۲۷۷ واں پروگرام، ۲۳/ فروری سن ۲۰۱۷ء کو  جمعرات کی شام آرٹ گیلری کے سورہ آڈیٹوریم میں منعقد ہوا۔ اس پروگرام میں مصطفی کریم پناہ، احمد قاسمی بیان اور رضا صفر زادہ نے  آٹھویں و الفجر آپریشن سے متعلق اپنے واقعات کو بیان کیا اور دفاع مقدس کے دنوں کی یادوں کو تازہ کیا۔

ابتدا میں اس آپریشن کی تصاویر دکھائی گئیں کہ جن کے بارے میں کہا گیا انہیں اس سے پہلے کسی میڈیا نے نہیں دکھایا ہے۔ ان تصویروں کو دسویں سید الشہداء (ع) ڈویژن کے اراکین لائے تھے۔

 

پانچ مہینے ، ۲۵ دن

یادوں بھری رات کے سلسلے کے ۲۷۷ ویں پروگرام میں سب سے پہلے مصطفی کریم پناہ نے اپنے واقعات کو بیان کیا۔ انھوں نے کہا: "آٹھواں و الفجر آپریشن، انٹیلی جنس سے وابستہ افراد کیلئے پانچ مہینے ، ۲۵ دن طولانی ہوگیا۔ گرمیوں میں تیسری محرم کو دوپہر ایک بجے حاج احمد عراقی نے دو کوھہ چھاؤنی میں موجود ہمارے یونٹ کے افراد کو جمع کیا اور آپریشن والے علاقے کے بارے میں بریفنگ دی۔ وہ زیادہ تر یہ اشارہ کر رہے تھے کہ آپریشن کا علاقہ مغربی طرف ہے۔ اُنھوں نے تقریباً  دو تین افراد کے نام لئے جن میں، میں بھی شامل تھا اور ہم سے تیار ہوکر چلنے کا کہا۔ ہم نے اپنا سامان گاڑی پر باندھا جس میں خیمہ، رسی اور گرم لباس تھے۔ چونکہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ خزاں اور سردی کا موسم آنے والا ہے اور ویسے بھی مغربی محاذ بہت ٹھنڈا ہے اور ہمارے پاس اندازے کے مطابق کافی حد تک ضروری سامان ہونا چاہیے تھا۔ ہم نے دو کوھہ سے غرب کی طرف بڑھنا شروع کیا، ابھی اذان میں آدھا گھنٹہ باقی تھا کہ حاج احمد نے گاڑی کو نماز کے بہانے رکوا دیا،  ہم نے اُن سے جلدی رکوانے کی وجہ پوچھی؛ انھوں نے جواب میں کہا: "ہم جب تک کھانا کھاکر آرام کریں گے نماز کا وقت بھی ہوجائے گا۔" نماز کے بعد حاج احمد نے کہا: "مجھے جنوب میں کچھ کام ہے لہذا  ہمیں جنوب کی طرف چلنا چاہیے۔" میں اُس وقت تک شک میں تھا کہ آپریشن مغربی علاقے میں ہو، وہاں مجھے پتہ چلا کہ یہ کام حفظ و امنیت کیلئے انجام دیا گیا تھا کہ لوگ حاج احمد اور اُس کے ساتھیوں کو غرب کی طرف جاتا ہوا دیکھ لیں۔ ہم سورج غروب ہونے تک غرب کی طرف گئے اور پھر اُس کے بعد راستہ بدل کر جنوب کی طرف چل پڑے۔ ہم شہید حبیب اللہی چھاؤنی پہنچے، وہاں پر شہید غلام رضا کیان پور، شہید حاج علی دل ہنر اور شہید ناصر دواری ہم سے ملحق ہوگئے۔ وہاں سے چلنے والے تمام لوگوں میں سے صرف میں زندہ ہوں اور باقی سب افراد شہادت کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہوچکے ہیں۔ جب ہم خرم شہر پہنچے تو پتہ چلا کہ آپریشن کا علاقہ یہی نزدیک میں ہے۔ وہاں ہم کسی ایسے گھر کی تلاش میں تھے جہاں پڑاؤ ڈالا جاسکے، سپاہ کے افراد کہہ رہے تھے کہ کسی  گھر کو استعمال کرنے کیلئے  اُس کے مالک مکان کو ڈھونڈ کر اُس سے اجازت لینی چاہیے ۔ تھوڑی سی پوچھ گچھ کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ دفاتر میں کام کرنے والے افراد ابھی شہر میں موجود ہیں۔ ہم واٹر سپلائی کے آفس میں گئے اور اُس کے ایک ملازم سے اُس کے گھر کی چابی لے لی جو اتفاق سے ہمارے مطلوبہ راستے سے بہت قریب تھا۔

میں علی کے ساتھ گھر دیکھنے گیا، حاج احمد نے ہر ٹیم کو کسی کام سے لگادیا، وہ خود اور حاج غلام جو اصل میں آفیسرز کے زمرے میں  آتے تھے، فوج سے ہماّہنگی کرنے چلے گئے۔ ہم لوگ جن کی عمر ابھی فوجی ٹریننگ کرنے کی تھی ، ہم نے فوج کے سپاہیوں کی وردی پہن لی جسے حاج احمد نے پہلے ہی ہمارے لئے خریدلیا تھا۔ ہم فوج میں سپاہ کے فوجی کے عنوان سے بھرتی ہوئے تھے۔ حاج احمد اور حاج غلام نے مطالبہ کیا کہ ہم لوگ دفاعی پوزیشنوں پر نگہبانی کا کام انجام دیں جسے فوج نے بھی قبول کرلیا۔"

کریم پناہ نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے نہر اروند کے بارے میں بتایا: "اروند کے جس حصے میں ہم لوگ کام کر رہے تھے، نہر کی چوڑائی تقریباً ۸۰۰ میٹر اور اُس کی گہرائی ۱۵ سے ۳۰ میٹر تک تھی۔ وہاں پر ایک جزیرہ موجود ہے، اُس جگہ کے سامنے جہاں چشموں کا پانی  اروند میں گرتا ہے؛ اس جزیرے کی لمبائی آٹھ کلومیٹر اور چوڑائی ۸۰۰ میٹر ہے۔ جزیرہ ختم ہوتے ہوتے پتلا ہوجاتا ہے۔ اس جزیرے کے پیچھے، دو اُم البابی چھوٹے اور بڑے جزیرے ہیں۔ جزیرہ ام الرصاص کا رقبہ تقریباً ساڑھے تین کلومیٹر ہے جو ہماری بریگیڈ کا ہدف تھا اور آپریشن انجام دینے کیلئے ہمیں وہ جگہ سونپی گئی تھی۔ ہمیں پانی کی رفتار اور بھنور کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا اور ہمیں نہیں پتہ تھا کہ یہاں کس طرح کام کرنا ہے۔ ایک دن علی دل ہنر، عیسی کرہ ای، ناصر دواری اور میں نہر کے کنارے گئے تاکہ دیکھیں کہ ہم اُس میں تیر سکتے ہیں یا نہیں؟ ہم نے رسی کے ایک سرے کو علی دل ہنر کی کمر پر اور دوسرے سرے کو  درخت کے تنے سے باندھ دیا ۔ علی پانی میں اُترا اور ہمیں جیسے ہی پتہ چلا کہ وہ نہیں تیر پا رہا، ہم نے فوراً اُس کو باہر کھینچ لیا۔  پانی کی رفتار کبھی بہت تیز ہوجاتی اور کبھی وہ بالکل پرسکون ہوجاتا تھا اور ہمیں کچھ بھی اندازہ نہیں تھا۔ ہم نے آہستہ آہستہ اطلاعات جمع کرنا شروع کی، یہاں پر ہماری مشکل یہ تھی کہ ہم کوئی تحقیق یا سوال نہیں کرسکتے تھے، ہم بالکل پابند تھے اور حتی ہمیں خرم شہر  سے اہواز یا آبادان جانے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ ہم سے پہلی ٹیم جو شہید حبیب اللہی چھاؤنی میں تعینات تھی، انھوں نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی ہوئی تھی کہ حفاظتی تدابیر کا خیال رکھیں گے اور آپریشن کے آخر تک وہاں سے باہر نہیں نکلیں گے اور جس وقت ہم لوگ پہنچے، انھوں نے ہم سے بھی قسم کھانے کا کہااور ہم نے بھی اُن سے وعدہ کیا کہ تمام باتوں خیال رکھیں گے۔

نہر اروند کے کنارے ہم بھنور کا اندازہ نہیں لگا سکتے تھے، پس ہم ایک غرق شدہ چینی کشتی  کے ذریعے اُس کا اندازہ لگانا شروع کیا ، جس کشتی کا صرف اگلا حصہ باہر تھا۔ ہم رات کی تاریکی میں اس کشتی پر جاتے جو نہر اروند کے وسط میں تھی، ۲۴ گھنٹے وہیں رہتے پھر اپنی شفٹ تبدیل کرلیتے۔ ہم نے ایک نوٹ بک بنائی ہوئی تھی اور  ہر پندرہ منٹ بعد  پانی کے اوپر ، نیچے ہونے کی مقدار کا اندازہ لگاتے۔

ہم لوگ تقریباً ایک مہینے تک ابتدائی کاموں میں مصروف رہے، مثلاً نگہبانی کرنے کیلئے برج بنانا۔ فوج کے  بھی کچھ برج تھے، لیکن ضرورت تھی کہ ہمارے پاس بھی ہو۔ نہر کی دیوار کے ساتھ ایک کرین تھی جو  جنگ سےپہلے  کشیتوں پر سے سامان اُتارتی، ہم نے اُس کرین کے ایک دستے پر چھپ کر ایک ایسی جگہ بنائی کہ جہاں بیٹھ کر نگہبانی کرسکیں۔ وہ بہت اچھی جگہ تھی لیکن ضروری تھا کہ ہم اُسے محفوظ رکھنے کیلئے تمام باتوں کا دھیان رکھیں۔ رات کی تاریکی میں ایک آدمی اُس  پر جاتا اور  چوکیداری کرتا اور اگلی رات نیچے آجاتا  پھر اُس کی جگہ دوسرا آدمی جاتا۔ اصل میں ایک آدمی کو ۲۴ گھنٹے تک وہاں چوکیداری کرنی ہوتی۔ ہمارے فوجی دوستوں کو  ہمارے اس کام کے بارے میں بالکل بھی نہیں پتہ تھا۔ کچھ عرصہ بعد کسی وجہ سے ہمیں تین دن کی چھٹی دی گئی۔ میں تہران آیا اور میں ان تین دنوں میں تہران یونیورسٹی کے آس پاس جغرافیہ کی کتابیں ڈھونڈتا رہا تاکہ اُن سے مد و جزر کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرسکوں۔ تین دن کے تلاش کے بعد مجھے تین کتابیں مل سکیں اور میں خرم شہر واپس آیا تاکہ اُن کا مطالعہ کرکے کافی معلومات حاصل کرسکوں۔

خرم شہر  کی کسٹم پورٹ کے ستون ، جو پانی میں ڈوب گئے تھے،وہ  اس کام کیلئے بہترین تھے کہ ہم اُن سے کوئی چیز وصل کرکے مدو جزر کا اندازہ لگالیں۔  میں نے بڑھئی کے کارخانے سے سفید اور مختلف رنگوں کی لکڑیاں ڈھونڈی اور اُس پر مارکر کے ذریعے سینٹی میٹر کے نشان بنائے ، پھر مد و جزر کی کیفیت ثبت  کرنے کا کام شروع کردیا۔ نہر اروند کے مد و جزر کی حرکت کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ تین میٹر اور ۷۰ سینٹی میٹر تھی کہ خوش قسمتی سے اُن لکڑیوں کی لمبائی پانچ میٹر تھی۔ میں آہستہ آہستہ اپنی معلومات مکمل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ مجھے سمجھ آگیا کہ بالکل کس وقت پر پانی نیچے جاتا ہے اور کس وقت پر اوپر آتا ہے،  کس وقت پانی میں ٹھہراؤ ہوتا ہے ، کس وقت وہ حرکت کرتا ہے اور کب اُس کی رفتار میں تیزی آتی ہے  جو ہر تیراک کو اپنے ساتھ لے جاسکتی ہے۔ اسی کے ساتھ لوگوں نے تیراکی کی مشقیں بھی شروع کردیں تھیں۔ ایک رات مشقوں کے بعد، حاج غلام نے سپاہیوں سے کہاوہ لوگ پانی کی مخالف سمت میں دس کلومیٹر تک تیراکی کریں تاکہ معلومات کے کام میں اور زیادہ آمادگی حاصل ہوجائے۔ پانی کی مخالف سمت میں ۱۰ کلومیٹر تیرنا بہت مشکل کام ہے، اسی وجہ سے لوگوں نے مجھے سے کہا کہ میں حاج غلام کو راضی کرلوں کہ وہ اس کام سے منصرف ہوجائے، کیونکہ میری حاج غلام سے پرانی دوستی تھی۔ جب میں نے اس مسئلہ کو حاج غلام کے سامنے رکھا، انہیں پتہ چل گیا کہ میں نے یہ بات لوگوں کے اُکسانے پر کی ہے، انھوں نے جواب میں کہا یہ لوگ جب تک  زندہ ہیں، تیراکی کریں  اور جب مر جائیں  تو پھر اُن پر کوئی ذمہ داری نہیں ہوگی چونکہ مردے پر تو کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی! رات کو کھانے اور آرام کے بعد، ہم لوگ نہر کے کنارے ایک جگہ گئے جہاں پر ہمیشہ  مشقیں انجام دی جاتیں تھیں۔ ہم نے تیراکی کا لباس اٹھایا اور اس مشق کیلئے تیار ہوگئے۔ ہم نے ایک رسی  اٹھائی اور طے پایا کہ سب اس رسی کو پکڑلیں تاکہ اگر کوئی تھک جائے تو اس رسی سے لٹک جائے اور دوسروں سے الگ نہ ہو، بالآخر ہم لوگ پورا دس کلومیٹر تیرنے میں کامیاب نہیں ہو پائےاور تقریباً چار کلومیٹر آگے جانے کے بعد واپس پلٹ آئے۔

مزید فوجی بھی آکر ہم سے ملحق ہوگئے تھے، ہم سب لوگ تین مختلف جگہوں پر ٹھہرے ہوئے تھے، میری ذمہ داری یہ تھی کہ تمام ٹیموں کے جانے کے وقت کو ایک کاغذ پر لکھوں اور جب کھانا تقسیم کرنے والی گاڑی آئے  تو اُسے کاغذ دیدوں تاکہ وہ ساتھیوں تک پہنچا دے۔ مثلاً میں یہ لکھتا کہ کس وقت جانا ہے اور کس وقت واپس آجانا چاہیے۔ اطلاعات کا کام تقریباً یہاں سے شروع ہوا کہ بعد میں افراد جزیرے کے پیچھے موجود پل کو بھی دیکھ پا رہے تھے اور اگر میں اس راستے کے بارے میں بیان کرنا چاہوں، تو مجھے کہنا پڑے گا کہ ہمیں کارون کے سامنے سے نہر اروند میں داخل ہونا چاہیے تھا، ہم تین کلومیٹر نہر اروند کی مخالف سمت میں شمال کی طرف  تیرتے ،  ہمارے تیراکوں کو پل تک پہنچنے کیلئے پورے جزیرے کا چکر کاٹ کر جزیرے کے پیچھے تک جانا پڑتا، پھر پل کی اطلاعات حاصل کرنے کیلئے چار کلومیٹر واپس آنا ہوتا اور ایک بار پھر یہ راستہ طے کرنا ہوتا؛ بالآخر اُسے پہنچنے کیلئے تقریباً ۸ کلومیٹر تک تیرنا پڑتا اور واپس آنے کیلئے بھی ۸ کلومیٹر تیرنا پڑتا۔ اس کام کیلئے وقت کا تعین بالکل صحیح ہونا چاہیے تھا تاکہ  ٹھہرے ہوئے پانی سے موقع پر فائدہ اٹھایا جاسکے، اُس وقت جب پانی مخالف سمت میں بہہ رہا ہوتا ہے، بہترین فائدہ اٹھایا جائے اور ہم اس وقت کے تعین کو تقریباً اچھی طرح جانتے تھے۔"

انھوں نے مزید کہا: "ایک ایک حصے کی اطلاعات حاصل کرنے کیلئے تقریباً پانچ مہینے، ۲۵ دن لگ گئے اور ہم اس حد تک آگے بڑھ گئے تھے کہ ہم نے روزانہ نظر آنے والے ہر عراقی کا ایک نام رکھا ہوا تھا۔ اطلاعات اتنی کامل تھیں کہ  ہم تمام درختوں اور مورچوں کو پہچانتے تھے، حقیقت میں آپریشن کے مسائل کی جزئی اطلاعات حاصل کرلیں تھیں۔ کبھی کبھار بعض افراد یہ گمان کرتے ہیں کہ کسی جگہ کو اتفاقاً اور بغیر کسی وجہ کے انتخاب کرلیا گیا ہے  اور بغیر کسی زحمت کے اس جگہ کو استعمال کیا جاتا ہے؛ میں ان سختیوں کے بارے میں چھوٹے سے حصے کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔ ہمارے سپاہی تیراکی کرتے تھے اور ہمارے فوج کے ساتھی کہ جن کے ساتھ  ہم ہر روز زندگی گزار رہے تھے، انہیں ہمارے کام کے بارے میں کچھ نہیں پتہ تھا۔ رات کو اُس وقت جب طے ہوتا کہ ایک تیراک اطلاعات حاصل کرنے کیلئے پانی میں جائے، تو اس بات کا بہت امکان تھا کہ فوجی ساتھی اس بات سے آگاہ ہوجائیں، پس تیراک کے نکلنے سے آدھا گھنٹہ پہلے، ہمارے دو آدمی نگہبان کے پاس جاتے جس کے سامنے سے ہمارے تیراک نے گزرنا ہوتا تھا، وہ اس کے ساتھ بات چیت اور مذاق کرکے اُس کا دھیان بٹا تے اور چونکہ اُنہیں تیراک کے پانی میں جانے کا صحیح وقت پتہ تھا، اُس کے بعد وہ مورچے میں واپس آجاتے اور دوبارہ تیراک کے واپس آنے کے وقت پھر فوج کے سپاہیوں کے پاس جاکر اُنہیں باتوں میں لگاتے، اتنے میں تیراک پانی سے نکل کر اُن سے دور ہوجاتا۔ یہ حساس اور نازک کام مستقل جاری رہتا اور اب  تیراک کے گیلے لباس اور گیلے بدن کو چھپانا، بہت مشکل کام تھا اور ہر کسی کے ماجرے کو بیان کرنے کیلئے ایک کتاب لکھنے کی ضرورت ہے، اس بات پر توجہ کرتے ہوئے کہ ہم اپنے فوجی دوستوں کے ساتھ ایک ہی مورچوں میں تھے، ایک ہی سن و سال کے تھے اور ہماری آپس میں دوستی بھی بہت تھی، اُن سے لباس، برج اور اطلاعات حاصل کرنے کی ساری سرگرمیوں کوچھپانا کہ جس میں ۵ مہینے، ۲۵ دن کا عرصہ لگا، بہت طاقت فرسا کام تھا۔ ایک مرحلہ میں حتی ایک حادثہ کی خاطر، فوجی دوستوں نے شہید دل ہنر اور شہید دواری کو گرفتار کرنے کیلئے بھیج دیا البتہ گرفتار ہونے سے پہلے اُنہیں کسی کی ضمانت پر معاف کرکے واپس بلوا لیا گیا۔

ہم آپریشن کیلئے ایک لمبی مدت تک اطلاعات جمع کرنے کے بعد، بہت زیادہ پریشان تھے  اور یہ پریشانی آپریشن کے انٹیلی جنس افراد کو بہت زیادہ تھی۔ پریشانی یہ تھی کہ کیا واقعاً افراد اس  خطرناک راستہ سے عبور کر سکتے ہیں؟ ایسا راستہ جس پر  تین چار میٹر کے فاصلے پر دشمن کے مورچے تھے۔ جب تیراک پانی سے باہر آنا چاہے تو  عراقی مورچوں سے کچھ میٹر کے فاصلہ پر ہوتا۔ ہمارے افراد کیلئے یہ پریشانی بہت زیادہ تھی۔

ایک رات کو ہم سب ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور آپریشن کے نتیجے کے بارے میں بہت پریشان تھے کہ ہمارے عزیز دوست حاج علی آقا ترابی نے کہا: " میں نے استخارہ دیکھا ہے، یہ آیت آئی ہے کہ: " پھر ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی اپنا عصا سمندر پر ماریں چنانچہ دریا پھٹ گیا اور اس کا ہر حصہ عظیم پہاڑ کی طرح ہو گیا " اس وقت افراد کو بہت ہی سکون کا احساس ہوا اور سب کی پریشانی دور ہوگئی۔ جیسے آگ پر ٹھنڈا پانی ڈال دیا گیا ہو۔ اگلی رات جو کہ اصل میں آپریشن کی رات تھی، ہمارے افراد دو گروہ میں تقسیم ہوگئے، ایک گروہ کو تیراکوں کے ساتھ جانا تھا اور ایک  گروہ میں وہ ٹیم تھی جسے بٹالین کے ساتھ جانا تھا۔ ہم نے ایک جگہ معین کی جہاں  آپریشن سے پہلے سب سے خدا حافظی کرنی تھی۔ عام طور سے جب لوگ نماز با جماعت پڑھتے تھےتو  جو بڑا ہوتا یا کوئی انچارج ہوتا تو وہ جماعت کرواتا تھا۔ اُس رات شہید جلال توکلی پہلی بار  پیش نماز بنے اور جب قنوت پڑھنے لگے، تو انھوں نے اتنے آنسو بہائے اور خدا سے شہادت کی دعا کی کہ اُن کی ہچکی اُنہیں نماز جاری نہیں رکھنے دے رہی تھی۔ جلال توکلی اور محمد پرگنہ ام الرصاص کے سرفہرست شہداء میں سے تھے۔"

کریم پناہ نے اپنی گفتگو میں آٹھویں و الفجر آپریشن کے ایک حصے کو اس طرح بیان کیا: "جب ہم فاو میں داخل ہوئے، نمک کی جھیل کے احاطہ کو ہمارے حوالے کردیا جسے ہم نے بعد میں دفاعی ایریا بنادیا۔ نمک کی جھیل، بہت بڑی جھیل تھی کہ جس میں سمندر کا پانی آتا تھا اور گرمیوں میں پانی بخار بن جاتا اور نمک تہہ میں بیٹھ جاتا۔ ہماری بریگیڈ اس جھیل کے کچھ حصے پر مستقر تھی۔ حضرت علی اصغر بٹالین کہ جس کے کمانڈر حسین اسکندر لو تھے، انھوں نے وہاں آپریشن انجام دیا۔ انھوں نے آپریشن کے بعد عراق کی طرف حرکت کی اور ہم سے آگے ایک دفاعی مورچہ بنانے  کا مطالبہ کیا۔ ہمارے پاس آپریشن انٹیلی جنس کے دو افراد تھے جن کے پاؤں کا عضو کٹا ہوا تھا، ایک انٹیلی جنس کے انچارج حاج احمد عراقی  اور دوسرے جعفر حق۔ ایک رات کو اُس وقت کے بریگیڈ انچارج حاج ید اللہ کلھر نے ہم سے کہا کہ جن جگہوں پر دشمن نے قبضہ کیا ہے وہاں پر جاکر  صحیح معلومات لیکر آئیں  کہ کہاں ہے اور وہاں کے حالات کیسے ہیں۔ مائنز ناکارہ کرنے والے افراد کو بھی تیار رہنے کا حکم دیا گیا۔ چند دنوں سے محاذ پر رہنے کی وجہ سے ہم لوگ بہت زیادہ تھک  چکے تھے  اور ادھر سے بارش کی وجہ سے علاقے میں دلدل بن گئی تھی، اس طرح سے کہ ہم گھٹنوں تک اُس میں چلے جاتے۔ ان حالات میں کسی گاڑی کا وہاں سے گزرنا ممکن نہیں تھا اور ان ساری باتوں کی وجہ سے  جانا اور دشمن کے قبضہ کردہ علاقوں کی اطلاعات جمع کرنا بہت مشکل ہوگیا تھا۔ہم چار لوگ تھے، میں، جعفر حق، ناصر دواری اور شہیدجریری کہ جنہیں حتماً یہ کام کرنا تھا۔ وہ سب شہید ہوگئے ہیں۔ طے پایا کہ ہم چار لوگوں میں سے  دو افراد کی ایک ٹیم معلومات  جمع کرنے کا کام کرے اور دوسری ٹیم نگہبانی کیلئے جائے۔ طے پایا کہ میں اطلاعات حاصل کرنے جاؤں اور میں نے جعفر کو اپنے ساتھ چلنے کا نہیں کہا کیونکہ اس کا پاؤں کٹا ہوا تھا۔ میں اکیلا جانے پر تیار ہوگیا، لیکن جعفر میرے ساتھ جانے کیلئے ضد کرنے لگا اور  بالآخر میں بھی مان گیا۔ ہم اُس دلدل میں تھوڑا سا چلے، لیکن جعفر پیچھے رہ جاتا، وہ صلاحیت کے حوالے سے بہت اچھا تھا لیکن اُس کی مصنوعی ٹانگ دلدل میں پھنس جاتی اور باہر نکل آتی۔ میں نے کئی بار اُس سے کہا کہ تم یہیں بیٹھو، میں جاکر واپس آتا ہوں، چونکہ راستہ طولانی تھا ہمیں پہلے اپنی حدود تک پہنچنا تھا پھر دشمن کی حدود کی طرف حرکت کرنی تھی۔ ابھی تو ہماری حدود تک بھی بہت فاصلہ باقی تھا، لیکن وہ نہیں مانا، آخر میں، جعفر نے اپنی پینٹ کو گھٹنوں تک چڑھا لیا اور اپنے پیر  پرلگے لیدر کے فیتوں کو ڈھیلا کرلیا۔ وہ ہر قدم بڑھانے کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھوں سے اپنی مصنوعی ٹانگ کو کیچڑ میں سے  نکالتا اور ایک قدم آگے بڑھاتا۔ ہمیں تقریباً ۹ کلومیٹر تک اسی سختی کے ساتھ آگے تک جانا تھا اور دشمن کی جگہوں سے باخبر ہونا تھا۔ خلاصہ یہ کہ تمام مشکلات کے ساتھ ہم نے اپنا کام انجام دیا اور رپورٹ جمع کروادی۔ اگلے دن صبح جب میں مورچے میں داخل ہوا تو مجھے محسوس ہوا کہ جعفر نے مجھ سے کوئی چیز چھپائی ہے اور کمبل کو جلدی سے اس پر ڈال دیا ہے، پہلے تو میں سمجھا کہ زخمی ہوگیا ہے یا کوئی گولی لگی ہے، لیکن جب میں نے ضد کرکے اُس کی ٹانگ سے کمبل ہٹایا تو دیکھا جہاں سے اُس کا پیر کٹا تھا وہ زخم بہت خراب ہو گیا تھا اور اُس میں سے خون بہہ رہا تھا اور میرے اندر آنے سے پہلے، جعفر اپنے پیر کی پٹی اور مصنوعی ٹانگ کی صفائی کر رہا تھا۔ ایک دن پہلے جعفر اس ٹانگ کے ساتھ میرے ساتھ دلدل میں آٹھ کلومیٹر تک گیا اور واپس آیا تھا۔ چند مہینے بعد جعفر کربلائے ایک آپریشن میں شہید ہوگئے؛ حاج احمد عراقی کربلائے پانچ میں، علی دل ہنر فکہ میں اور عیسی کرہ ای چوتھے و الفجر آپریشن میں، ناصر دواری حاج عمران میں آپریشن کے وقت دوبارہ زخمی ہوا  اور کیمیائی اثرات کی وجہ سے علاج کے لئے جرمنی گئے ا اور وہاں پر جام شہادت نوش کرلیا۔

وہ ٹیم جس کے ساتھ میں نے پہلی دفعہ اطلاعات جمع کرنے کا کام شروع کیا تھا، وہ سب لوگ شہید ہوگئے اور قسمت میں لکھا تھا کہ میں یہاں آؤں اور ان عظیم سپاہیوں کے بارے میں آپ لوگوں کو مختصراً کچھ بتاؤں۔  ہمیں  پانچ مہینے، ۲۵ دنوں میں اطلاعات کی جمع آوری اور فاو میں گزرے ۷۳ دنوں کیلئے کچھ زیادہ لوگوں کی ضرورت ہے جو آئیں اور اس آپریشن میں ہونے والے حادثات کو بیان اور پھر ریکارڈ کریں۔"

 

یا ساحل کے اِس پار، یا ساحل کے اُس پار

اس پروگرام میں دوسرے نمبر پر واقعات بیان کرنے والے احمد قاسمی  تھے، انھوں نے اپنی گفتگو کا آغاز اس طرح کیا: "ہمارے محترم بھائی جناب کریم پناہ نے ام الرصاس آپریشن کے بارے میں بتایا اور میں بھی کوشش کروں گا کہ ام الرصاص سے فاو کی طرف جاؤں۔ تیرتے ہوئے آپریشن کرنے کیلئے پانی میں مشق  کرنا یا نہر میں تیرنا ضروری ہے  تاکہ ضروری آمادگی حاصل ہوجائے۔ آپریشن، بہت سخت آپریشن تھا  جس کیلئے اعلیٰ جسمانی قوت کی ضرورت تھی اور یہ کام ممکن نہیں تھا سوائے اس کے کہ افراد پانی میں مشقیں کرتے۔ پہلے لوگ تیرنا سیکھتے تھے، بعد والے مرحلے میں تیراکی کے لباس سے آشنا ہوتے تھے، لباس پہننے سے لیکر اُس کے ساتھ پانی میں مشقیں کرنے تک۔ اُن کی جسمانی قوت بڑھانے کیلئے، تیرنے والے پنکھےجو حقیقت میں تیراکی کے  مخصوص جوتے ہیں، اُنہیں یہ جوتے پہنائے گئے تاکہ  وہ پانی میں پیر مارنے کی مشق کریں۔ اس اثناء میں افراد اپنی جسمانی قدرت بڑھانے کیلئے کیچڑ میں چلتے وہ بھی ایسا کیچڑ جو اُن کی کمر تک تھا، وہ اُس میں چلتے اور کچھ دیر کیلئے بیٹھ جاتے  اور پانی کی مخالفت سمت میں چپو چلاتے۔ افراد سردی کے موسم میں بھی دن رات ٹھنڈے پانی میں مشقیں کرتے تھے۔

ام الرصاص آپریشن والی رات ہم لوگ مورچوں میں روکے ہوئے تھے اور لوگوں نے دعا و مناجات کرنا شروع کردی۔ سردار خادم الحسینی نے اشارہ کیا تھا کہ اس آپریشن میں خاموشی رہنے کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور حقیقت میں پہلی اور آخری بات ہی سکوت کی تھی، چونکہ دشمن سے ہمارا فاصلہ کم تھا  اور آواز بہت آرام سے پانی کی سطح سے عبور کرجاتی ہے۔ اُس رات جب لوگوں نے دعا پڑھ لی، میں مورچے میں تھا میں نے دیکھا کے بادل آئیں ہیں اور لطیف ہوا چلنے لگی جس سے  گھاس ہلنے لگیں، یہ چیز مطلق سکوت سے باہر آنے کا باعث بنی اور اگر لوگوں کی کوئی آواز آتی بھی تو ہوا اُسے دبا دیتی اور میری نظر میں ایسا افراد کی دعاؤں اور خداوند متعال کی  عنایت سے ہوا تھا۔ اس کے بعد ہمیں پانچ چھ لوگوں کی ٹیم کی صورت میں پانی میں داخل ہونا تھا۔ میں ٹیم کا انچارج تھا۔ تیراکی کے لباس اور جوتے تیار تھے۔ افراد نے ایک چھوٹے سے کمرے میں چلنے سے پہلے نماز شب پڑھی اور خدا سے توسل کیا، پھر رات کی تاریکی میں سب چلنے کیلئے تیار ہوگئے۔ مجھے چونکہ لوگوں سے بات کرنی تھی اور اُنہیں کچھ باتیں بتانی تھیں، میرے تیراکی والے جوتے کھو گئے۔ یہ چیز مجھ پر بہت گراں گزری؛ چونکہ مجھے اس آپریشن میں شرکت کرنے کا بہت شوق تھا اور ادھر سے یہ ذمہ داری مجھے سونپی گئی تھی کہ جب ہم پانی کے اس پار پہنچے، تو آبی – خاکی ٹیمیں جن کے پاس تیراکی کے لباس نہیں ہیں  اور وہ کشتی سے جائیں گے، اُنہیں ہدایات دوں کہ وہ فلاں راستے سے جائیں کہ جزیرے کے آخر تک پہنچ جائیں۔ ہمیں کشتی کے مخصوص جوتے بھی دیئے گئے تھے جو میں نے پہنے ہوئے تھے اور میں اپنے تیرنے والے جوتوں کو ڈھونڈ رہا تھا۔ میں پریشانی کے عالم میں سپاہیوں کے نیچے، اِدھر اُدھر ڈھونڈ رہا تھا  اور چند مرتبہ تو میرا ہاتھ گولہ بارود کے ڈبوں سے ٹکرایااور ایک آواز بلند ہوئی۔ خاموش رہنے کی بہت زیادہ تاکید کرنے کی وجہ سے ، ہر آواز پر ایک سپاہی مجھے ایک لات مارتا کہ شور نہ کرو اور انہیں نہیں پتہ تھا کہ میں اُن کی ٹیم کا انچارج ہوں۔ جب افراد چلنے کیلئے تیار تھے تو میں نے اُن کے اطراف میں نگاہ دوڑائی لیکن مجھے اپنے جوتے نہیں ملے۔

عام طور سے جب پانی ایک طرف سے آرہا ہوتا ہے، نہر کے ایک حصے کو کاٹ کر اُسے بڑھا دیتا ہے اور اور اُس کا دوسرا حصہ ساحلی حصہ  بن جاتا ہے۔ جس طرف ہم لوگ تھے اُس حصے کو پانی نے کاٹا تھا اور ہمیں اس بات کا علم نہیں تھا۔ ہمارے پاس ایک قسم کے بڑے وائرلیس سیٹ تھے جنہیں ہم نے اپنی کمر پر باندھا ہوا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ خدایا میں کیا کروں؟ تیراکی کا لباس مجھے پانی کی سطح پر رکھے گا، لیکن اسلحہ اور گولہ بارود انسان کو نیچے کھینچ لے گا۔ یہ باتیں میرے ذہن سے گزریں اور میں نے مجبوراً ٹیم کے اُن پانچ افراد کوافسردگی سے کہا آپ لوگ جائیں۔ میں اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا کہ ایک عدد تیراکی کے جوتے مل جائیں کہ اچانک میری نگاہ ایک بندہ خدا پر پڑی۔ میں نے پوچھا: "تم کیا کرتے ہو؟" اُس نے کہا: "تعاون" میں نے تھوڑے  اصرار اور پانی کے اُس پار اپنی ذمہ دار کی وضاحت کرکے اُس سے جوتے لے لئے، لیکن وہ تیراکی کے جوتے اس قسم کے تھے جس میں فیتے نہیں تھے۔ جب میں نے پہنے تو بہت اچھے تھے اور بالکل میرے سائز کے تھے ۔ ایک فین تو میرے پاس تھا، میں نے اُس سے دو اور لے لئے، پس ایک عدد کو میں نے اپنی کمر پر باندھ لیا۔ میں جیسے ہی پانی میں داخل ہوا  نیچے کی طرف جانے لگا۔ وائرلیس سیٹ بھی واٹر پروف تھی جو میری کمر سے وصل تھی اور میں نے اس کے گرد پلاسٹیک چڑھائی ہوئی تھی۔ میں تھوڑی دیر بعد ساتھیوں تک پہنچ گیا اور ہم نے ایک دوسرے کو تھام لیا تاکہ ایک دوسرے الگ نہ ہوں اور اپنے راستے پر چل پڑیں۔

میں نے عبور کرنے کی چند جگہوں کو نظر میں رکھا ہوا تھا جن میں سے ایک کا نام حضرت زینب (س) تھا اور اسی وجہ سے ہمارے محترم کمانڈر سردار حاج خادم الحسینی نے بعد میں ہماری بٹالین کا نام حضرت زینب (س) رکھ دیا، شاید یہی گزرگاہ باعث بنی ہو۔ جب میں نے پانی میں تھوڑی حرکت کی تو جوتے ڈھیلے ہوگئے۔ میں اتنے  ساز وسامان کے ساتھ نہیں چاہتا تھا کہ ہماری ٹیم کو کوئی مشکل پیش آئےاور میں خود کو بھی پہنچانا چاہتا تھا۔ ہم نے نور سے بچپنے کیلئے اپنے سروں پر ایک بوری ڈالی ہوئی تھی۔ پانی آکر ہمارے منہ سے ٹکراتا اور میں اس حالت میں مستقل نیچے جاتا اور اپنے جوتے کو صحیح کرتا اور پھر سانس لینے کیلئے دوبارہ اوپر آتا۔ بہت بری حالت تھی۔ میں نے ایک دو دفعہ یہ کام کیا کہ اچانک پورا جوتا میرے پیر سے نکل گیا ، میں نے اپنی کمر پر بندھے ہوئے جوتے کو پہننے کی کوشش کی اور اس کام کیلئے مجھے کئی دفعہ پانی میں اوپر نیچے ہونا پڑا اور سانس لینے کیلئے بار بار اوپر آنا پڑا۔ اس جوتے کے ساتھ بھی تھوڑا سا آگے گیا تھا کہ یہ بھی کھل کر اتر گیا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ پانی کے اس پار خاردار تاریں ہیں اور وہاں سے گزرنے کیلئے تمام گولہ بارود، اسلحہ اور وسائل آپ کے جسم سے لگے ہوں، اسی وجہ سے میں نے اُن تمام وسائل کو مضبوطی سے اپنے ساتھ باندھا ہوا تھا اور اب میرے پاس تیراکی کا ایک ہی جوتا بچا تھا، میں اُسے نہیں چھوڑ سکتا تھا  کہ ہلکا ہوکر آگے بڑھوں۔ میں اس حالت میں کچھ مدت تک پانی میں رہا اور میرے ساتھی مجھ سے دور ہوگئے تھے۔ اُس وقت میں نے خدا سے کہا: "میں صرف تیری اطاعت کرتا ہوں اور تجھ ہی سے مدد کا طلب گار ہوں"۔ میں نے خدا سے چاہا کہ میں ساحل کے اس پار یا اُس پار  تک پہنچ جاؤں۔ اچانک میں نے دیکھا کہ ایک ساتھی میری طرف آرہا ہے، میں نے اُس سے کہا کہ مجھے اُس طرف لے جاؤ۔ پس میں نے اُس کی کمر پکڑلی اور ایک ہاتھ اور پاؤں سے اُس کے ساتھ تیرنے لگا تاکہ ہم دشمن کی حدود تک پہنچ جائیں۔ ہم ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں عراقیوں کی آواز آر ہی تھی اور چھپنے کیلئے کوئی سبزہ بھی نہیں تھا۔ ہم اس وجہ سے کہ ہمارا پورا جسم خشکی پر نہ رہے اور دشمن ہمیں نہ دیکھ پائے، پانی کے اندر چلے گئے اور چونکہ میرے پاس جوتے نہیں تھے، میں پورا پانی میں نہیں اترا۔ میں نے تھوڑا سا دائیں طرف حرکت کی کہ ٹارچ ماری گئی، میں نے اپنی دو انگلیوں سے خار دار تاروں کو پکڑلیا اور اپنا چہرہ اپنی طرف کرلیا۔ تھوڑی سی بارش ہوئی جس کے سبب دشمن اپنے مورچوں ، برجوں  اور چیک پوسٹوں سے نکلنے پر مجبور ہوا؛ یہ ہمارے لئے بہت اچھا ہوگیا تھا۔ بالآخر ہم ستون کی انتہا تک پہنچ گئے اور ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ یہ ستون اُس راستہ پر ہے جس کا  نام، حضرت زینب (س)  کے نام پر ہے۔ کسی نہ کسی طرح آپریشن کے رموز کہے گئے اور ہم اُسی راستے سے دشمن کی حدود میں داخل ہوئے۔ ہم اُنہی خار داروں  کے درمیان سے گزرے؛ ہم اپنے جوتے اُتار کر خندق  میں داخل ہوگئے ۔ ہم ایسے مورچے سے باہر نکلے جو آرپی جی کا مورچہ تھا، اسلحہ اور اس کی گولیاں پڑی ہوئی تھی اور وہاں کا انچارج مرکزی مورچے کی طرف گیا ہوا تھا۔ حاج خادم الحسینی اور اس کے ساتھی خندق میں دستی بم پھینکتے ہوئے آگے کی طرف حرکت کر رہے تھے، اسی وقت ہم بھی خندق میں داخل ہوکر ان بزرگوں کے پیچھے چل رہے تھے، اچانک ہم نے عراقیوں کے چیخنے کی بلند آواز سنی اور لوگوں نے دستی بم پھینکنا شروع کردیئے۔ جیسے دستی بم پھینکا گیا میں نے نخلستان میں دیکھا کہ ایک شخص جو اوور کوٹ پہنا ہوا ہے وہ ایک مورچے سے دوسرے مورچے میں جا رہا ہے۔ اچانک مجھے پتہ چلا کہ یہ شخص عراقی ہے،  چونکہ ہمارے افراد تو تیراکی کا لباس پہنے ہوئے تھے، میں نے ایک دستی بم اٹھاکر اُس کی طرف پھینکا؛ میرا دھیان اپنے سروں پر موجود درختوں کی طرف نہیں گیا۔ جن کی وجہ سے وہ دستی بم پلٹ کر ہماری طرف آیا اور ہم چونکہ خندق میں تھے، اس لئے زیادہ  حرکت بھی نہیں کرسکتے تھے، خوش قسمتی سے وہ خندق کے سامنے ہی پھٹ گیا۔

اُس کے بعد مائنز ناکارہ بنانے والے افراد نے خاردار تاروں کو جمع کرکے احاطہ کو  کشتیوں کے پہنچنے کیلئے تیار کردیا تاکہ افراد وہاں آکر کشتی سے اتر سکے اور آپریشن کرنے والے فوجی آگے کی طرف چلے جائیں۔ اور ہوا بھی ایسا ہی، میں خندق کے سرہانے ہی تھا کہ وہ آگئے  اور میں نے اُن کے انچارج کو اُن کے راستے کی طرف ہدایات دیں تاکہ دشمن کی آخری حدود تک پہنچ جائیں۔ یہ کام بھی ہوگیا اور الحمد للہ تیراکوں کا کام وہاں اپنے اختتام پر پہنچا، چونکہ دشمن کی حدود پر قبضہ ہوگیا تھا۔"

انھوں نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے آٹھویں و الفجر آپریشن کے  بارے میں اس طرح بیان کیا: "ہم نے اپنی ٹیموں کو حاج خادم الحسینی کے پیچھے تعینات کئے ہوا تھا۔ ہم احتیاطی پوزیشنوں پر تھے اور حاج خادم الحسینی اور اُس کے ساتھی آگے والی صفوں پر بالکل دشمن کے سامنے تھے۔ میرے کمانڈرز جناب نصر اللہ سعیدی، جناب کیان پور اور جناب میر رضی یہ سب ایک مورچے میں تھے اور انھوں نے مجھ سے کہا وہ سڑک جو حاج خادم الحسینی کے راستے سے پہلے ہے، اپنے ساتھیوں کو وہاں تعینات کردو تاکہ لشکر علی بن ابی طالب (ع) کے پہنچنے سے پہلے حاج خادم کیلئے کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ حاج خادم سے خاص اُنس کی وجہ سے میں فورا چل پڑا۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ حاج خادم کی طرف سے بھیجی گئی ایک بٹالین راستے میں ہے، اس بٹالین کو ہائی وے پر لے جاؤ اور جب وہ وہاں پوزیشنیں سنبھال لیں تو تم واپس آجانا۔ تقریباً سو میٹر کا فاصلہ تھا میں بھاگتا ہوا وہاں پہنچا، جب وہ افراد بھی پہنچ گئے، میں اُنہیں ہائی وے پر لے گیا۔ جناب دواری بھی ہمارے ساتھ تھے۔ میں اُن کے ساتھ واپس آ رہا تھا کہ بٹالین کے افراد بھی آگئے۔ میں جناب دواری سے تیز حرکت کر رہا تھا۔ اچانک میں نے سٹرک پر فوجی ٹوپی کی طرح کی کوئی چیز دیکھی جو ایک ساتھ رکھی ہوئی تھیں، میں سمجھا شاید سوکھی ہوئی مٹی ہے، لیکن جب میں تھوڑا سا آگے گیا تو مجھے پتہ چلا کہ فوجی ٹوپیاں ہیں اور مجھے یقین ہوگیا کہ عراقی ہیں۔ میں نے یہ بات جناب دواری کو بتائی، وہ تعجب سے بولے: "ہاں یہ لوگ عراقی ہیں۔" ہم نے بٹالین کے ا فراد کو اس بات سے باخبر کیا اور ہم نے کہا یہ عراقی انٹیلی جنس کی ٹیم ہےاور ہم نے اُن سے پوچھا کیا آپ لوگوں کے پاس اسلحہ اور گولہ بارود ہے؟ اُن کے پاس حتی ایک گولی بھی نہیں تھی ، انھوں نے کہا ہم سے کہا گیا تھا کہ ہم اسلحہ اور دوسری چیزیں حاج خادم اور دوسروں کو دیدیں۔ پس ہم نے اُن سے کہا کہ فوراً فوجیوں کو واپس لے جاؤ۔ وہ لوگ فوراً فوجیوں کو پیچھے کی طرف  لے گئے۔ ہم نے وہاں سے ۱۵۰ میٹر کا فاصلہ اختیار کرلیا جہاں نمک کی وادی تھی اور ہم بعض جگہوں پر چاروں ہاتھ پیروں سے چلنے پر مجبور تھے کہ ہمارے پنجے خراب ہورہے تھے اور نمک سے تکلیف ہو رہی تھی۔ ہم نے اطراف میں موجود مورچوں کی بوریوں سے اپنی ہاتھوں کو ڈھانپ لیا۔ جس طرح بھی ہوا میں نے خود کو ایک سہ راہے پر پہنچا یا، وہ شیل مار رہے تھے، میں نے خود کو جلدی سے زخمیوں کو لے جانی والی ایک وین کے پیچھے چھپالیا ۔ میں پیچھے کی طرف پلٹا، مورچے پر پہنچا اور میں نے جناب نصر اللہ سعیدی، کیان پور اور شہید میر رضی سے کہا جو لوگ وہاں تھے اُن کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھااور ہم لوگ پیچھے واپس آگئے ہیں؛ اور واپس آنے والے افراد بھی ابھی راستے میں ہیں۔ میں، جناب نصر اللہ سعیدی اور جناب فرہنگی مورچے کے کنارے کھڑے ہوئے تھے کہ ایک شیل مورچے پر آکر لگا جس کا ایک ٹکڑا جناب نصر اللہ سعیدی اور ایک ٹکڑا جناب فرہنگی کے سر پر بھی لگا، لیکن مجھے کوئی ٹکڑا نہیں لگا اور یہ آٹھویں و الفجر آپریشن کا آخری حادثہ تھا۔"

 

واٹر پروف وائرلیس سیٹ بنانا

واقعات بیان کرنے والی تیسری شخصیت جناب  رضا صفر زادہ کی تھی، انھوں نے اپنے واقعہ کو اس طرح بیان کیا: "آپریشن سے تقریباً ۲۰ دن یا ایک مہینہ پہلے کمانڈر نے مجھے طلب کیا اور اصرار کیا کہ ہمیں ایسے وائرلیس سیٹ کی ضرورت ہے جو واٹر پروف ہوں۔ہمارے پاس ایک مرمت کرنے والا شخص تھا جس کا نام آمین آراء تھا جو تعمیراتی روم کا انچارج تھا، اُس نے الیکٹرک میں بی اے کیا ہوا تھا، اُس نے امریکا سے تعلیم حاصل کی تھی اور وہ خالص حزب اللہی افراد میں سے تھا۔ میں نے اُسے آواز دی اور اُس  کے سامنے یہ مسئلہ رکھا، جبکہ کمانڈر نے مجھے کسی کو بھی حتی اپنے جانشین کو بھی یہ بات بتانے سے منع کیا تھا۔ میں سوچنے لگا کہ اگر ڈبہ پیک ، نیا  پی آر سی ۷۷ وائرلیس سیٹ ہمارے ہاتھ لگ جائے تو شاید وہ کام کرجائے، وہ بھی نہیں صرف اُس کا میکروفون، بلکہ اُس کا سسٹم۔

مجھے پتہ تھا کہ عراقیوں کے پاس ایک ایسا وائرلیس ہے جو حلق کے نیچے لگتا ہےاور اُس میں بات کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور آپ فقط بات کرنے کا ا رادہ کریں، وہ آواز کو حلق سے کیچ کرلیتا ہے۔ میں نے اپنے آپ سے کہا اگر ہم اسے ۷۷ وائرلیس میں فٹ کرپائیں  اور واٹر پروف بنالیں، تو یہ کام کریگا۔ میں نے امین آراء سے پوچھا کہ کیا ایسا کام کرسکتے ہو یا نہیں؟ اُس نے کہا: آپ کو کس لئے چاہئیے؟ میں نے کہا یہ مت پوچھو۔" وہ بولا: "مجھے سوچنا پڑے گا۔" وہ کمرہ بند کرکے تقریباً چار پانچ گھنٹے تک ہیڈفون اور  عراقی وائر لیس کے ساتھ لگا رہا اور آخر میں چار پانچ گھنٹے بعد  خوشی خوشی بولا کہ ہوسکتا ہے۔ کہنے لگا اگر اس کی تار کاٹ دیں تو کام کرنے لگے گا، ہم نے اسے چیک کیا تو پتہ چلا صحیح ہے اور وہ حلق سے آواز کو کیچ کر رہا ہے۔ ہم نے اُس کے واٹر پروف ہونے پر بھی سوچ و بچار کی اور جناب انجینئر بیاتی کو بھی بتایا جوالیکٹرونکس شعبے سے تعلق رکھتے تھے، انھوں نے اہواز  کے رامین برق پلانٹ جانے کیلئے ہم سے ایک گاڑی کا مطالبہ کیا اور وہ واپسی  پر اپنے ساتھ ہمارے لئے ایک خاص قسم کا ٹیپ لے آئے جسے میں نے جناب امین آراء کو دیدیا اور اُس سے کہا اسے ۷۷ وائر لیس پر لگاؤ اور اُسے واٹر پروف بنانے کی کوشش کرو؛  میں تمہیں کچھ نئے قسم کے وائرلیس دونگا اور تم یہ کوشش کرنا کہ ان کے آپس میں ملنے والے ساکٹس کو صحیح کردو۔ جب اُس نے اُنہیں بنالیا تو کسی کو کچھ کہے بغیر وہ میرے پاس لایا اور ہم نے اُسے ٹیسٹ کیا ، وہ کام کر رہے تھے۔ اُس کے بعد میں نے لوگوں کو ۷، ۸ وائرلیس سیٹ دیئے تاکہ اس طرح کے وائرلیس سیٹ بنائیں۔ آخر میں اُنہیں کمانڈر کے پاس لے گیا، لیکن وہ یقین نہیں کر رہے تھے۔ نہر کے کنارے ہمارا ایک ہیڈ کوارٹر تھا جہاں لشکر نے پڑاؤ ڈالا ہوا تھا، حاج خادم الحسینی، حاج عبد اللہ کلھر اور شہید کیان پور بھی تھے۔ کچھ وائرلیس آپریٹر بھی آگئے اور ہم نے ان وائرلیس سیٹوں کو اُن سے وصل کردیاوہ لوگ کئی مرتبہ پانی کے اندر گئے اور باہر آئے اور اُس کی کارکردگی سے مطمئن ہوگئے۔ انھوں نے کہا: "یہاں فاصلہ نزدیک ہے"، کشتی لائے اور دور جاکر میں ٹیسٹ کیا تو پھر بھی  صحیح کام کر رہا تھا۔

آپریشن والی رات جتنے وائرلیس  کا ہم سے مطالبہ کیا گیا تھا ہم نے فراہم کردیئے اور افراد نکل گئے۔ ہمارا ٹیکنیکل ہیڈکوارٹر بھی فرنٹ لائن سے تقریباً سو یا دوسو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ جب افراد نکلے تو ایک گولی ہیڈ کوارٹر کے چھت پر لگی جس نے تمام تاروں اور انٹینوں کو قطع کردیا۔ میں نے فوراً چھت کے سوراخ سے ایک ۷۷ وائرلیس سیٹ باہر نکالا اور اُسے چفیہ (بسیجی رومال)سے باندھ لیا۔ میں نے اپنے ایک دوست سے کہا کہ اس پکڑ ے اور افراد کو ہدایات دے تا کہ میں جب تک باقی لوگوں کو تیار کرلوں۔ اسی طرح میں نے اُس سے کہا کہ لوگوں سے بات کرو، اُس نے آرام سے کسی ایک فرد کو آواز دی اور اُس شخص نے جواب دیا۔ میں نے بھی دو تاریں اٹھائیں اور فوراً اُن دو تاروں کو آپس میں جوڑ دیااور اعلان کیا کہ سپورٹنگ نیٹ ورک بھی آمادہ ہے اور  آپریشن نیٹ ورک بھی تیار ہے۔"

ثقافتی تحقیق، مطالعات اور پائیدار ادب کے مرکز اور ادبی اور استقامتی فن و ہنر کے مرکز کی کوششوں سے یادوں بھری رات کے سلسلہ کا ۲۷۷ واں پروگرام، جمعرات کی شام ۲۳/ فروری سن ۲۰۱۷ء کو آرٹ گیلری کے سورہ ہال میں منعقد ہوا۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 4159



http://oral-history.ir/?page=post&id=7042