انصار بٹالین کے دلاورں کی سولہویں نشست

ایسا لگا جیسے آپریشن کی رات ہو

مہدی خانبان پور
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-01-21


۲۷ ویں محمد رسول اللہ (ص) لشکر کی انصار بٹالین کی سولہویں نشست، جمعرات ۱۵ دسمبر ۲۰۱۶ء کی شام آرٹ گیلری کے اندیشہ ہال میں منعقد ہوئی۔ ایران کی زبانی تاریخ کی سائیٹ کے رپورٹر نے اس نشست کے بارے میں ایک رپورٹ تحریر کی ہے جو آپ قارئین کے پیش نظر ہے۔

آپ جمعرات کی شام کو جیسے ہی آرٹ گیلری کے صحن میں داخل ہوتے، وہاں لگے خیمے آپ کو اپنی طرف متوجہ کرتے۔ ایسے خیمے جو شہادت اور ایثار کے دنوں کی یاد دلاتے ہوں، تبلیغات کے لوگوں نے اس دفعہ ہاتھ سے لکھنے کے بجائے بنر سے سجاوٹ کی تھی۔ لیکن یہ تبدیلی بھی اُن دنوں کی ہمدلی اور ہم رنگی کو ختم نہیں کرسکی۔ صحن میں داخل ہوتے ہی ایک خیمہ لگا ہوا تھا جہاں تحفے کے طور پر امتحانی کاغذ، ترانے کا کاغذ، معلوماتی فارم،ایک میگزین اور نوٹ بک دیئے جا رہے تھے۔

زندگی کے بہترین ایام

میں نے ایک ایک خیمہ  پر لکھی تحریرکو پڑھا۔ "شہادت بٹالین"، "تبلیغات"، "صلواتی سبیل"، "صلواتی فوٹوگرافی" و ... جہاد اور ایثار کرنے والی نسل کیلئے لفظ صلواتی ابھی بھی  ایک پرانی دلچسپ یاد ہے۔ لیکن اس دفعہ صلواتی سبیل پر شربت اور پاسٹک کے گلاس دکھائی نہیں دے رہے تھے بلکہ ہال میں داخل ہونے سے پہلے مہمانوں کی پذیرائی کیلئے رنگین کیک اور چاکلیٹ ملک کے پیکٹس موجود تھے۔ صلواتی پالش کروانے والے  اسٹال کے بھی خاص گاہک تھے۔

کل کے مجاہد آئے ہوئے تھے، لیکن جوانی کی تازگی ابھی بھی باقی تھی، نہ ہی اُن کی کمر خمیدہ تھی اور نہ وہ تھکے ہوئے تھے! بلکہ پہلے سے زیادہ ہمت اور حوصلے سے آئے تھے، لیکن اُن کی داڑھی کے سفید رنگ نے اُنہیں ایک نئی شکل دیدی تھی۔ ایک اور بھی فرق تھا اور وہ یہ کہ اس دفعہ صرف بٹالین کے افراد جمع نہیں ہو رہے تھے۔ بٹالین کے تمام افراد اپنے گھر والوں کے ساتھ آئے تھے؛ زوجہ کے ساتھ، اپنی اولاد وں حتی اپنی بہوؤں اور دامادوں کے ساتھ۔

بہت ہی گرمجوشی کے ساتھ مل رہے تھے۔ ایک دوسرے کو ایسے گلے لگا رہےتھے جیسے آپریشن کی رات ہو۔ میں نےپوچھا: "کیا آپ نے بہت دنوں سے ایک دوسرے کو نہیں دیکھا ؟"جواب ملا: "زیادہ وقت تو نہیں ہوا، ایک ہفتے پہلے انجمن کے پروگرام میں ملے تھے۔" میں نے کہا: "کچھ دنوں پہلے ملے تھے اور آج یوں  عاشقوں کی طرح مل رہے ہیں؟" اُس نے مذاق میں گہری بات کہی:"تم کیا سمجھو! ہم کئی سال صبح سے شام تک ایک ساتھ رہے ہیں۔ ہم نے اپنی زندگی کے بہترین لمحات ایک ساتھ گزارے ہیں۔ ہمارے لئے چند دن تو کیا چند گھنٹوں کی دوری بھی زیادہ ہے۔"

میں خاموش ہوگیا۔ جیسے ان کی جنس ہی الگ ہو؛ ان کے عشق کی جنس، ان کی محبت کی جنس، ان کے تعلقات کی جنس ہم سے الگ ہے۔ اپنے نئے رشتہ داروں (بہو، داماد) کو  اپنے دوستوں سے ملوا رہے تھے۔ بچے تو اپنے چچاؤں کو اچھی طرح پہچانتے ہیں۔ بیوی بھی کئی سالوں سے جانتی ہے کہ اُس کے شوہر کے بھائیوں کی تعداد انصار بٹالین  کے افراد جتنی ہے۔

میں بائیں طرف متوجہ ہوا؛   دوران جنگ کا ایک سپاہی بٹالین کے شہداء اور مختلف تصاویر کے سامنے کھڑا ہوا  تھا۔ اُس کے برابر میں دو مرد اور دو خواتین  کھڑے ہوئے تھے، جن میں سے ایک اُس گھر کا بیٹا اور دوسرا داماد تھا، جس  کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ وہ عجیب انداز میں بات کر رہا تھا: "یہ میں ہوں؛ میں اُس وقت ۱۵ سال کا تھا، جتنے سال کا آج علی ہے۔(علی اُس کا بیٹا تھا) میں اپنے شناختی کارڈ میں ہیرا پھیری کرکے بڑی مشکل سے محاذ پر گیا تھا۔ اور یہ ... وہ یہ ہیں، لو خود ہی آگئے ...۔"

ایک دوسرے سے گلے مل کر پرسکون ہوگئے۔ اب دو ہوگئے تھے، یادیں اور زیادہ ہوگئی تھیں۔ ایک تصویر کے پاس پہنچے۔ اُن کا ایک  دوست چھٹ گیا تھا! اتنے سالوں بعد بھی ایسا لگ رہا تھا جیسے اُس کا غم تازہ ہو۔ اُن کی پلکوں پر شبنم کے قطرے نمودار ہوئے۔ ایسے میں بھی مذاق کرتے رہے۔ شیطانیوں کے بارے میں بات کر رہے تھے اور زور زور سے ہنس رہے تھے۔

میں نے بٹالین کے ایک ایک شہید کی تصویر دیکھی اور آرٹ گیلری کے صحن میں آیت اللہ خامنہ ای مسجد کی طرف بڑھا۔ مغرب کی اذان کی آواز آ رہی تھی۔ نماز کا وقت تھا۔ سب مسجد  کے اندر جمع ہوگئے تھے، محاذ کے مورچوں پر پڑھی جانے والی نماز کی  یاد تازہ ہوئی۔ میں نماز کی صفوں میں ایسے لوگوں کے درمیان کھڑا تھا  جنہوں نے کبھی آسمان  اور زمین کے فاصلہ کو کم کردیا تھا۔

نماز ختم ہونے کے بعد میں ہال کی طرف گیا۔ مجھے ایک اور اسٹال نظر آیا۔ جس پر لکھا ہوا تھا: "بچوں اور نوجوانوں کا اسٹال"۔ میں اندر گیا۔ وہاں بچے اپنے گھر والوں کے ساتھ جمع تھے۔  بچوں کے نہ تکھنے اور ہال میں پریشان نہ ہونے کی خاطر خاص پرگروام بنائے گئے تھے؛ ڈرائنگ کا اسٹال، فوٹوگرافی اور مقابلوں کا اسٹال، اس پروگرام کے اسٹالوں میں سے  تھے۔

گزری ہوئی یادیں

آہستہ آہستہ ہال میں رش بڑھتا جا رہا تھا۔انصار بٹالین کی جمعیت اپنی حد تک پہنچ رہی تھی۔ ہر کوئی ایک آدمی کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ وہ اُن سے ضرور ملنا چاہ رہے تھے: "حاجی ہیں؟ حاجی آگئے؟ حاجی صاحب  کہاں ہیں؟ آپ نے حاجی صاحب کو دیکھا ہے؟" میں نے ایک آدمی سے پوچھا: "حاجی کون ہے؟ ہرکوئی اُن کے بارے میں کیوں پوچھ رہا ہے؟" اُس نےکہا: اُن لوگوں کی مرادانصار بٹالین کے کمانڈر حاج جعفر عقیل محتشم ہے۔" اب مجھے پتہ چلا کہ یہ حاجی کون ہے۔ سب لوگ حاجی کو اپنا بڑا بھائی سمجھتے تھے۔ مجھے بھی اُن سے ملنے کا شوق ہوا۔ ہم نے بٹالین کے لوگوں سے پوچھ کر اُنہیں ڈھوند لیا۔ میں بولا: "حاجی صاحب سلام، کیا آپ چند منٹ ہم سے بات کرسکتے ہیں؟" اُنھوں نے مہربانی کے ساتھ قبول کرلیا۔  

 

کیا آپ انصار بٹالین کے کمانڈر تھے؟

(مسکراتے ہوئے) جی، اگر خدا قبول کرے۔

کب سے؟

اوائل جنگ سے۔ میرے خیال سے میں سن ۸۷ء  تک انصار بٹالین کا انچارج رہا۔

انصار بٹالین کس سال میں بنی؟

وہی جنگ کے شروع میں۔ میرے خیال سے بیت المقدس آپریشن سے، سن ۱۹۸۲ء۔ اُس وقت بریگیڈ حضرت رسول (ص) تھی۔ جب وہ لشکر میں تبدیل ہوئی تو انصار بٹالین بنی۔ لیکن میں سن ۱۹۸۳ء میں انصار بٹالین میں آیا۔ رمضان آپریشن کے وقت میں مقداد بٹالین میں تھا، اُس کے بعد انصار بٹالین میں آگیا۔

آپ نے کونسے آپریشن سے بٹالین انچارج کا عہدہ سنبھالا؟

مسلم بن عقیل آپریشن سے، میں اس آپریشن میں انصار بٹالین کا انچارج تھا۔

آج (جمعرات ۱۵ دسمبر ۲۰۱۶ء) کے دن کیا ہونا قرار ہے؟

آج انصار بٹالین کے شہداء کی سولہویں برسی ہونی ہے۔ خدا نے توفیق دی ہے اور شہداء کے خون کے برکت سے بٹالین کے افراد ہر سال ایک جگہ جمع ہوتے ہیں۔ افراد اس دن کیلئے پورے سال منصوبہ بندی کرتے ہیں کہ جس کا نتیجہ یہ ایک اجلاس ہے،  جس میں بٹالین کے شہداء اور  جا نثاروں کے گھر والے شریک ہوں۔

اس تقریب میں کن لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے؟

بٹالین کے شہداء کے گھر والے اور جانثار؛  انصار بٹالین کے سپاہیوں کو بھی گھر والوں کے ساتھ مدعو کیا جاتا ہے۔ یہ پروگرام ایسی جگہ ہے کہ اگر کوئی بٹالین کی انجمن کے پروگرام میں نہ آسکے  تو  یہاں سب لوگوں سے مل لے اور انصار بٹالین کے  گھر والے بھی ایک دوسرے سے ملاقات کرلیں۔

پس بٹالین کی ایک انجمن بھی ہے ...

ہماری حضرت زہرا (س) نامی ایک انجمن  ہے  جس کا ہر مہینے کے  آخری منگل  کو پروگرام ہوتا ہے۔ سب لوگ ایک ساتھ بیٹھ کر قرآن پڑھتے ہیں، اُس کے بعد دعائے توسل، تقریر، اور پذیرائی بھی ہوتی ہے۔ یہ بھی بٹالین کا سالانہ پروگرام ہے۔ پورے سال میں ایک دن شہداء کی یاد سے مربوط ہے اور ایک پروگرام ماہ رمضان  کے بعد بھی ہوتا ہے۔ یہ زیارتی سفر کا پروگرام ہے جس میں سب مل کر مشہد مقدس جاتے ہیں، البتہ اس کا خرچہ بٹالین کے لوگ خود اٹھاتے ہیں، لیکن اس پروگرام کا سربراہ میں ہوں۔ اس پروگرام کا اصلی مقصد شہداء کی یاد کو زندہ رکھنا ہے۔ یہ شہداء میرے لئے بھائیوں سے بڑھ کر تھے۔ چونکہ ہم نے دفاع مقدس میں آٹھ سال ایک ساتھ زندگی گزاری ہے۔ اصلی مقصد ان لوگوں کے خون کو زندہ رکھنا ہے۔ پھر سب دوست احباب یہاں آتے ہیں ایک ساتھ جمع ہوتے ہیں اور محاذ کی یادوں کو دہراتے ہیں۔ میں نے خود طے کیا ہوا ہے کہ جب تک زندہ ہوں یادوں کے اس پروگرام کو منعقد کروں گا اور جاری رکھوں گا، ہمارے بعد جو لوگ ہیں انشاء اللہ اگر اُن میں ہمت ہوئی تو وہ جاری رکھیں گے۔

حاجی صاحب برائے مہربانی ہمیں کوئی واقعہ سنائیں

واقعات تو بہت زیادہ ہیں۔ بعض لوگ واقعات سننے آتے ہیں لیکن اتنی دیر سے آتے ہیں کہ  انسان کو جو کچھ یاد ہوتا ہے وہ بھی بھول جاتا ہے۔ مجھے و الفجر ۴ آپریشن کا ایک واقعہ یاد ہے۔ میں اُس آپریشن میں بھی انصار بٹالین کا انچارج تھا۔ دشت پنجوین (پنجوین عراقی کردستان کے صوبہ سلیمانیہ میں ایک چھوٹا سا شہر ہے) کےعلاقے میں آپریشن ہونا تھا۔ ہم آپریشن والی رات اصلی ہدف تک پہنچنے کیلئے آگے بڑھے، لیکن آپریشن انٹیلی جنس کے افراد راستہ بھول گئے۔ ہم ایسے دشت میں تھے جہاں پانی کی چھوٹی سی نہر تھی۔ نہر کے پانی کی آواز ہمارے کانوں تک پہنچ رہی تھی۔ صنوبر کے کچھ درخت بھی تھے۔ ہم نے افراد کو روک لیا تاکہ اوپر سے کوئی حکم آئے۔ ہم نے ایسے ہی اندھیرے میں زمین پر ہاتھ پھیرا۔کوئی گول سی چیز ہمارے ہاتھ لگی۔ جب ہم نے دقت کرکے دیکھا تو وہ ٹماٹر  تھا۔ ہم نے ساتھیوں کو درختوں اور ٹیلوں کے درمیان روک رکھا تھا۔ اوپر سے حکم آیا کہ آپ لوگوں پیچھے آجائیں، اُسی جگہ جہاں انجینئرز  کے لشکر نے مورچے لگائے ہوئے ہیں۔ ہم نے لوگوں کو لائن میں لگایا اور بہت ہی آرام سے عراقی کمین گاہ سے  نکل کر پیچھے آگئے۔

وہ سامنے والا مورچہ

پیدل مارچ اور راتوں کی  مشقوں میں، ہم نے لوگوں  کی عادت ڈالی تھی کہ وہ  اپنے ساتھ خندق والی چند بوریاں اٹھا کر چلیں۔ جب ہم پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ لشکر کے بولڈرز مورچے بنانے میں مصروف ہیں۔ ہم بھی مورچوں کے پیچھے چلے گئے اور خندق بنانے کیلئے بوریاں بھرنی  شروع کردیں۔ اُس کے بعد ہم نے پوزیشنیں سنبھال لیں۔جنگی انجینئر کو حکم دیا گیا کہ تھوڑا آگے مورچے بنائیں۔ ہم سے بھی خندق کو آگے لے جانے کا کہا گیا، اُسی جگہ جہاں لشکر کے انجینئرز نے دوبارہ مورچے لگائے تھے۔ ہم نے دوبارہ بوریوں سے مٹی خالی کی اور آگے چلے گئے۔ تیسری دفعہ ہم سے کہا گیا کہ آپ کو وہاں جانا ہے جہاں صبوری (صبوری بعد میں شہید ہوگیا۔ یہ ۲۷ ویں محمد رسول اللہ (ص) لشکر کے انجیئنرنگ شعبے میں کام کرتے تھے) نے مورچے لگائے ہیں۔ مجھے بہت غصہ آیا۔ اس وجہ سے نہیں کہ ہمیں اور آگے جانا تھا، میں افراد کے تھک جانے کی وجہ سے ناراض تھا۔ جب تیسری دفعہ اوپر سے حکم آیا: "آگے جاؤ!" میں نے کہا: "ارے بابا! لوگ تھک چکے ہیں۔" حاج رضا دستوارہ وائرلیس پر مجھ سے  بات کر رہا تھا اور وہ کہہ رہا تھا آگے کی طرف بڑھو اور میں نہیں مان رہا تھا۔ حاج ہمت سمجھ گئے تھے، انھوں نے ریسیور پکڑ کر کہا: "محتشمی یہ ایک فوجی حکم ہے، تمہیں حتماً آگے جانا ہوگا۔" میں نے کہا: "ضرور جناب" چار بوریاں میں نے خود خالی کی۔ لوگ کہنے لگے: "حاجی صاحب کیا کر رہے ہیں؟" میں بولا: "میں چاہتا ہوں اُس آگے والے مورچے پہ جاؤں، جو بھی چاہتا ہے وہ میرے ساتھ آئے۔" لوگوں نے ایک دوسرے کی دفعہ دیکھا اور سمجھ گئے کہ اوپر سے حکم آیا ہے، پھر اُن سب نے مل کر ساری بوریوں کو خالی کیا اور پھر جہاں پہ پوزیشنیں سنبھالنی تھی اُس طرف چل پڑے۔

ہم لوگ ایک، دو رات وہاں پر رہے۔ میں پوری لائن میں جاکر ایک ایک سے خیریت لیتا۔ خندق میں سے کسی نے آواز لگائی: "حاجی صاحب سامنے سے ایک آدمی ہماری طرف آ رہا ہے۔ ہم نے اُسے رُکنے کا کہا ہے۔" میں نے مورچے کے کنارے پر جاکر دیکھا تو ایک آدمی جس کا پیر گھٹنے کے نیچے سے کٹا ہوا ہے، ہماری طرف آرہا ہے۔ اُس نے ران پر جوتوں کے فیتوں کو باندھا ہوا تھا۔ وہ رات میں سینے کے بل آتا اور دن میں حرکت نہیں کرتا؛ چونکہ اگر حرکت کرتا تو چھپے ہوئے عراقی اُسے مار دیتے۔ اُس کے راستے میں پانی کی ایک نہر تھی اور چونکہ وہ نہر کے اوپر سے چھلانگ نہیں لگا سکتا تھا، تو وہ ایک نشانی لگانے پر مجبور تھا تاکہ راستہ نہ بھٹک جائے، پھر وہ نہر کے طول میں حرکت کرتا تاکہ اُسے نہر کی کم چوڑائی ملے اور دوبارہ  نشان لگائی جگہ پر لوٹ جائے؛ پھر اپنی فوجوں کی طرف جو کہ ہم تھے، حرکت کرے۔ یہ کہنا آسان ہے لیکن بہت مشکل کام تھا۔ جب وہ سینے کے بل  آرہا ہوتا تو وہ فیتے جو اُس نے ران پر باندھے ہوئے تھے اُنہیں ہاتھوں سے کھینچتا تاکہ اپنے زخمی پاؤں کو آسانی سے حرکت دے سکے۔ ہم نے اُس کی مدد کیلئے کچھ لوگوں کو بھیجا۔ جب ہم اُس کے سرہانے پہنچے تو میں نے اُس سے کہا: "کیا کر رہے تھے، کیا ہوا ہے؟" اُس نے صرف یہ کہا: "کربلا جانا بھی ایک ماجرا ہے۔" لوگوں نے اُسے پیچھے لے جانے کیلئے ایمبولنس میں ڈالا۔

آپ کو اُن کے بارے میں کچھ  معلوم ہے؟

نہیں، افسوس کہ اُس کے دن بعد اُن کے بارے میں کچھ نہیں پتہ چلا۔

اس زخمی کو منتقل کرنے کے بعد کیا ہوا؟

اگلی رات ہم نے دو اور لوگوں کو دیکھا  جو ہماری طرف آرہے تھے۔ ایک آدمی دوسرے کی پشت پر سوار تھا اور وہ لوگ ایرانی سپاہیوں کی طرف بڑھ رہے تھے۔ پہلے تو ہم سمجھے عراقی ہیں۔ اُنہیں رکنے کا کہا  اور چند لوگ جاکر انہیں مورچوں تک لے آئے۔ میں نے دیکھا کہ ایک کی آنکھ میں گولی لگی ہے اور وہ اندھا ہوگیا ہے اور دوسرے کا پیر کٹ ہوا تھا۔ جس کا پیر کٹ ہوا تھا وہ دوسرے کی آنکھ بن گیا تھا اورجس کی آنکھ چلی گئی تھی وہ اُس کا پیر بن گیا۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو والفجر ۴ آپریشن سے  ہمیشہ کیلئے میرے ذہن میں رہ گیا ہے۔ 

سب گھر والے مدعو ہیں

میں نے حاج عقیل محتشم سے خدا حافظی کی، اب آرٹ گیلری کا صحن لوگوں سے بھر چکا تھا۔ انصار بٹالین کے افراد میں سے ایک کی کارکردگی بہت واضح تھی۔ تقریباً جسے بھی کوئی کام ہوتا یا اُسے کچھ چاہئیے ہوتا تو وہ اُسے پکارتا۔ میں نے آگے بڑھ کر سلام کیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جنگی افراد ہمیشہ آپریشن  کی حالت میں رہتے ہوں  اور تھکاوٹ ان لوگوں سے تھک چکی ہو۔

آپ اپنا تعارف کروائیں گے؟

میں حسین خوشبین ہوں۔

اس پروگرام میں آپ پر کیا ذمہ داری ہے؟

اگر خدا قبول کرے، میں ۲۷ ویں محمد رسول اللہ (ص) لشکر کی انصار الرسول بٹالین کے شہداء کی سولہویں برسی کے پروگرام کا سیکریٹری ہوں۔

یہ برسی ہر سال ہوتی ہے؟

جی، خدا نے توفیق دی ، ہر سال ہوئی ہے اور اس سال اُس کا سوالہوں پروگرام منایا جا رہا ہے۔

اس طرح کی تقریبات منعقد کرنے کا مقصد کیا ہے؟

کلی ہدف انقلاب کی نئی نسل اور تیسری نسل    میں ایثار اور شہادت کی ثقافت کو رائج کرنا تاکہ یہ لوگ شہداء اور سپاہیوں سے آگاہ ہوں اور ان معزز لوگوں کی یاد کو زندہ رکھیں اور اس طرح شہداء کے گھر والوں  کی  حوصلہ افزائی ہو۔

آج کونسے پروگرام تیار کئے گے ہیں؟

ترانے، تھیٹر، مقابلے  اور شام کے مسائل پر سردار شعبانی کی تقریر ہے۔ اور اس کے ساتھ آج رات کے پروگرام میں انصار بٹالین  کے شہداء کے گھر والوں  اور مقابلے میں جیتنے والوں کو انعامات  تقسیم کئے جائیں گے۔

لوگوں کو یہ پروگرام کیسا لگا؟

اللہ کا کرم ہے بہت اچھا لگا۔ اس بات کے پیش نظر کہ ہم نے کوئی خاص پروپیگنڈہ نہیں کیا اور  ٹی وی پر بھی اشتہار نہیں آتا، الحمد اللہ اندیشہ  ہال ہر سال بھر جاتا ہے  اور جانثاروں ، سپاہیوں کے گھر والوں کو ملاکر اور اسی طرح شہداء کے گھر والوں کو ملا کر تقریباً ہزار لوگ اکٹھے ہوتے ہیں۔

سپاہیوں اور جانثاروں کے گھر والوں سے مراد کون سے لوگ ہیں؟

یعنی ہر گھر کے تمام افراد کو دعوت دی جاتی ہے۔ سپاہیوں کے بیوی بچوں کے علاوہ، اُن کی بہوووں، دامادوں اور ان کے  پوتے پوتیوں کو بھی دعوت دی جاتی ہے۔ یہ پروگرام پرانے دوستوں سے ملنے جلنے کی مناسب جگہ ہے  اور اسی طرح تیسری نسل کی سپاہیوں، جانثاروں اور شہداء کے گھر والوں سے آگاہی۔

کیا آپ خود بھی اس بٹالین کے رکن تھے؟

جی، اگر خدا قبول کرے، میں دفاع مقدس کے زمانے میں اس بٹالین کا رکن تھا۔

جب میں نے کہا کہ کوئی واقعہ سنائیں تو  بہانے بازی کرنے لگے اور بہت سے جنگی افراد کی طرح  کہنے لگے: "ہمارا تو کوئی واقعہ نہیں!" لیکن میں موقع ملتے ہی اُن ایک واقعہ ضرور سنوں گا۔

گھڑی کی سوئیاں رات کے سات بجا رہی تھیں اور پروگرام شروع ہوچکا تھا۔ استاد سعیدیان کی تلاوت قرآن سے  پروگرام کاآغاز ہوچکا تھا اور پھر سب لوگ اسلامی جمہوریہ ایران کے ترانے کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ ناظم نے ایک قصہ سناتے ہوئے پروگرام شروع کیا؛ ایک ایسے باپ کا قصہ جس نے اپنے تینوں فرزند اسلامی انقلاب اور ایران کی نظر کر دیئے۔ ایک بیٹا انقلاب سے پہلے پہلوی حکومت کے ہاتھوں شہید ہوگیا اور دوسرے دو بیٹے محاذ پر، لیکن اس کے بیٹوں کے جنازے دفن ہونے کیلئے ابھی تک نہیں آئے، حتی اُن کی ایک میٹر قبر بھی نہیں ہے  کہ وہ اپنے بیٹوں کے مزار پر حاضر ہو۔ یہ قصہ، باکری فیملی کے شہداء کا قصہ تھا۔ تقریب ہمیشہ کیلئے گم ہوجانے والے شہداء  کی یاد سے آگے بڑھی؛  ایسے شہداء کی یاد کہ جن کے جنازے آج تک واپس نہ آسکے یا اگر آ ئے  بھی تو اُن کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل سکا اور اُنہیں شہدائے گمنام کے عنوان سے زیر خاک سلا دیا گیا۔

تقریر کے لئے سب سے پہلے جس مہمان کو دعوت دی گئی وہ حاج قاسم قربانی تھے۔  وہ شہید کے بیٹے بھی ہیں اور شہید کے بھائی بھی اور انصار بٹالین کے کمانڈروں میں سے بھی۔ انھوں نے دعا امام زمانہ (عج) سے اپنی تقریر کا آغاز کیا اور پھر شہداء خاص طور سے شہدائے مدافع حرم کا ذکر کیا۔ پیغمبر اکرم (ص) اور امام جعفر صادق (ع) کی ولادت کی مبارک باد  دی اور  لوگوں کا تشریف لانے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں خوش آمدید کہا۔ حاج قاسم قربانی نے خدا کا شکر ادا کیا کہ ۱۶ سالوں سے  مستقل شہداء کی یاد منائی جا رہی ہے اور انھوں نے کہا کہ ہر سال انصار بٹالین کے شہداء کی یاد کو زندہ رکھنا خدا کی عنایت ہے  اور  یہ کم سے کم کام ہے جس کے ذریعے ہم اپنے شہید دوستوں کا قرض اتار سکتے ہیں۔ پھر لیلۃ القدر نامی ترانے پڑھنے والے گروپ نے، دو ترانے پیش کئے،  ایک پیغمبر اکرم (ص) اور امام جعفر صادق (ع) کی ولادت کی مناسبت سے اور دوسرا دفاع مقدس کے زمانے کے شہداء کی یاد میں۔  اس کے بعد انصار بٹالین کے کچھ سپاہیوں نے دفاع مقدس کے واقعات بیان کرکے اُسے مستند کردیا۔

اس کے بعد جس مقرر کو دعوت دی وہ سردار شعبانی تھے۔ انھوں نے اس پروگرام میں انقلاب کی تیسری نسل اور جوانوں کو خوش آمدید کہا اور شام کے شہر حلب کی آزادی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "ہمیں اُمید ہے کہ بہت ہی جلد عراق کے شہر موصل کو بھی اسلام کے فداکار سپاہی مکمل طور پر آزاد کرالیں گے کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ شہداء کے خون کے صدقے میں ہے۔ ہمارے جوانوں کی جدوجہد ایرانی سرحدوں سے بڑھ کر وہاں تک پہنچ چکی ہے۔" انھوں نے کہا شہداء اسلامی جمہوریہ ایران کی قدرت کا مظہر ہیں اور انھوں نے آٹھ سالہ دفاع مقدس کو اس ملک کیلئے باعث افتخار قرار دیا۔

اس پروگرام کے تسلسل میں حسن فدائیان نے جانثاروں کے موضوع پر موسیقی کا ایک ٹکڑا اور انصار بٹالین کے ترانے کو سب نے مل کر پڑھا جس کی وجہ سے ہال میں ایک دلچسپ ماحول بن گیا۔  دفاع مقدس کے موضوع پر نمائش بھی دکھائی گئی اور اس تقریب کے اختتام پر انصار بٹالین کے جانثاروں اور شہداء کے گھر والوں کی قدر دانی کی گئی اور اس نشست میں مقابلے میں شرکت کرنے والے افراد کو انعامات دیئے گئے۔ 


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 4555



http://oral-history.ir/?page=post&id=6815