خواتین اور جنگ کی زبانی تاریخ

مریم رجبی

ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2016-12-13


ایران کی زبانی تاریخ کی ویب سائیٹ کی رپورٹ کے مطابق "خواتین اور جنگ کی زبانی تاریخ" کے عنوان سے ماہرین اورل ہسٹری کا اجلاس منگل کی شام،  ۴ اکتوبر ۲۰۱۶ ء کو ایرانی نیشنل آرکائیو بلڈنگ کے پرھام ہال میں منعقد ہوا۔  

ایرانی زبانی تاریخ کی انجمن کی طرف سے منعقد ہونے والے اس اجلاس میں امیر کبیر یونیورسٹی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر اور مقدس دفاع کی سرگرم شخصیت فاطمہ داداشیان، انقلاب اسلامی کے ادبی دفتر میں شعبہ زبانی تاریخ کے انچارج حجت الاسلام سعید فخر زادہ،  یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر علی اصغر سعیدی، لاپتہ افراد اور اسراء کمیشن میں سرگرم عمل حسین فروتن نژاد، دفاع مقدس کے قیمتی آثار کی حفظ و اشاعت کی فاؤنڈیشن میں زبانی تاریخ اور دفاع مقدس کی دستاویزات جمع  کرنے کے انچارج  کرنل عبد اللہ اسماعیلی، قومی محفوظ شدہ دستاویزات کے رکن داود امینی اور  ماہر تاریخ ، محقق  فائزہ توکلی نے گفتگو کی۔

 

جنگی مہاجرین کے مسائل

محترمہ داداشیان نے کہا: ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ امن و امان کی نعمت سے مالا مال ہیں۔ امنیت صحت کی طرح ہے، انسان جب صحتمند ہوتا تو اُسے زیادہ اہمیت نہیں دیتا لیکن جب کسی مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو اُسےتندرستی کا زمانہ یاد آتا ہے۔  

جس نسل نے جنگ کو دیکھا ہے اور اُس کا تجربہ رکھتی ہے وہ یقینی طور پر  آج اس کا زیادہ دفاع کرے گی۔ کیونکہ وہ نہیں  چاہتی کہ اُس کا شہر ایک دفعہ  پھر جنگ میں غرق ہو جائے۔ خوش قسمتی سے ہم مقام معظم رہبری اور اس ملک کے تعلیم یافتہ لوگوں کے زیر سایہ ابھی تک امن و چین میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ 

جب کسی معاشرے میں امن و امان ناپید ہوجائے تو خواتین کا طبقہ زیادہ خطرے میں ہوتا ہے۔  میرے خیال سے خواتین ہمیشہ تمام جنگوں میں براہ راست یا بغیر واسطے کے  ملوث رہی ہیں۔  چاہے وہ خواتین جن کے ہاتھوں میں اسلحہ تھا، چاہے وہ جو محاذ کے پس پردہ سرگرم تھیں یا وہ خواتین جنہوں نے اپنے شوہروں اور فرزندوں کو بھیج کر ایثار کیا۔ 

ہم اوائل انقلاب میں جوان تھے اور شاید اس کام کے فلسفہ کو صحیح سے نہیں سمجھتے تھے، آہستہ آہستہ جب جنگ سے سامنا ہوا تو ہمیں احساس ہوا کہ گھٹنیوں چلنے والے انقلاب کو ابھی محافظوں کی ضرورت ہے اور اس کی حفاظت بھی عقیدہ اور ایمان کے ساتھ ہو۔ جن کا عقیدہ اور یقین زیادہ مضبوط ہوتا ہے  غالباً وہی لوگ سسٹم کے دفاع میں پیشقدم  ہوتے ہیں اور اس طرح سے ہر اسکول، مسجد، یونیورسٹی اور محلوں میں فوجی ٹریننگ اور  امدادی دورےکا آغاز ہوا۔"

انھوں نے مزید کہا: "میں پولی ٹیکنک یونیورسٹی جس کانام انقلاب کے بعد امیر کبیر انڈسٹریل یونیورسٹی پڑ گیا، کی اسٹوڈنٹس تھی؛ ہماری یونیورسٹی سیاسی تھی اور ہم معاشرتی مسائل میں سرگرم رہتے تھے اور اکثر اوقات بہت سے کاموں کا آغاز وہیں سے ہوتا؛ میں نے  روزنامہ "شرق" میں جو آرٹیکل لکھا ہے اُس میں کچھ اشارے کئے ہیں۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد، ہم نے پہلا تعلیمی کورس شہید چمران کی سربراہی میں اس وقت کی باغ شاہ چھاؤنی، اور آج کی حر چھاؤنی، میں کیا۔ اُس زمانے میں صرف پیشن گوئیاں تھیں اور جنگ شروع نہیں ہوئی تھی۔ 

ہم طالبعلم تھے اور طالبعلم کا ایک خاص مقام اور احترام تھا، بعض گھرانے تو طالبعلم کو وزیر کی طرح قابل احترام سمجھتے۔ اس کام کے بعد میں نے ریسکیو کارڈ دریافت کیا۔ میں نے تقریباً کچھ مہینے تک طبی مسائل اور فوجی اطلاعات کا کورس کیا۔ ان کاموں  کے ساتھ ساتھ لیبر کمیٹی کی ممبر بھی بن چکی تھی اور ہم انقلاب کے بعد انڈسٹری سسٹم سے متعلق مباحث کو یونیورسٹی میں حل کیا کرتے؛  جیسا کہ  اکتوبر ۱۹۷۸ء میں آیت اللہ خمینی کےبقول، ہم نے تہران کی پولی ٹیکنک مسجد میں لیبر ہڑتال کمیٹی کا آغاز کیا تاکہ مختلف افراد کو ہڑتال میں شرکت کرنے کیلئے لا سکیں، اقتصاد پر کاری ضرب لگی اور  سب سے بڑا حصہ تیل کی صنعت تھی جس کے کاریگروں نے ہڑتال کی اور اقتصاد مفلوج ہوگیا؛ ہم کاریگروں سے اسی طرح رابطے میں تھے، جنگ کے مسائل شروع ہوگئے اور میں نومبر ۱۹۸۰ء  میں آبادان گئی۔  میں اپنی ایک بہن فاطمہ خبازان جو اللہ کو پیاری ہوچکی ہیں، اُن کے ساتھ فوجیوں کو لے جانے والی بس میں اہواز روانہ ہوئی اور شہید علی طاہری ہمیں چھوڑنے آئے تھے۔ انھوں نے ہمیں بس تک پہنچایا اور ڈرائیور کو ضروری ہدایات دیں۔ ہم تقریباً رات کے ایک یا دو بجے علاقے میں داخل  ہوئے۔ اہواز اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا لیکن نفسیاتی طور پر بہت ہی پر امن۔ 

جنگی علاقوں میں  سپورٹنگ اسٹاف کے رکن شہید حسین ناجیان کے ساتھ ہم کیچڑ سے چھپی ایک گاڑی پر بیٹھ کر اہواز کے ترقی یافتہ اور اہم شخصیات کے رہائشی علاقے کیان پارس گئے۔ وہاں ایک نامکمل عمارت تھی جسے پوری طرح سے مورچے میں تبدیل کیا ہوا تھا۔ اُس بلڈنگ کے تہہ خانے میں اہواز اور مختلف شہروں کی خواتین موجود تھیں، اُن میں سے ایک خاتون ہمیں لینے کیلئے آئی۔ اُس کے اگلے دن ہم جنگی علاقوں کے سپورٹنگ اسٹاف کی طرف گئے، جسے جناب انجینئر سلمان پور نے دوسروں لوگوں کےساتھ ملکر بنایا تھا۔ حقیقت میں اس اسٹاف کا کام یہ تھا کہ کاریگروں میں سے خاص فوجیوں کا چناؤ کرے۔ 

شہید محمد طرح چی پل بنانے کا ماہر تھا جس کی مدد سے آبادان محاصرے کو توڑا گیا، انھوں نے علاقے کے چپے چپے کو چھانا تھا اور  بھاری چیزوں کے رکنے یا گزرنے کی رکاوٹ کیلئے کچھ سیپیاں ڈھونڈی تھیں۔  شہید حسین ناجیان اور شہید محمد طرح چی اس سپورٹنگ اسٹاف کے بانی تھے۔ اہواز کے لوگ شہروں، مہاجروں کے امور اور جنگی امور کو آرگنائز کرنے پر بہت خوش تھے۔  حقیقت میں عراقی اہواز کی ریلوے کراسنگ تک آگئے تھے  اور ہم اپنے لوگوں کو دربدر ہوتا دیکھ رہے تھے؛ ایسا علاقہ جو ایرانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا اور اسی طرح اُس کے اطراف میں آباد علاقے تھے۔ اس وقت چابہار کو اس ملک کا سب سے بڑا اور اہم ترین شہر ہونا چاہیے، لیکن نہیں ہے کیونکہ ایران میں سمندری معیشت کی ابحاث شروع نہیں ہوئیں  اور جنگ کے زمانے میں ایسے لوگ دربدر ہوئے جو آبادن اور خرمشھر جیسے آباد شہروں میں زندگی بسر کرتے تھے۔

امیر کبیر یونیورسٹی کی استاد نے جنگی مہاجرین کے مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے اشارہ کیا:

 "کھانا پہنچانے کا مسئلہ در پیش تھا کہ  علاقائی فوجیوں کو کیسے منظم کریں تاکہ لوگوں کے جمع غفیر کو، جن کی روحانی اور نفسیاتی حالت بہت خراب  تھی، پرسکون کرسکیں۔ واقعاً کبھی کبھی انسان کو اپنے آپ سے بھی شرم آنے لگتی ہے جب کوئی بہت ہی مؤدب شخص اپنے خاندان والوں کے ساتھ آپ سے غذا کا تقاضا کرے یا کوئی ہمارے ساتھی ٹرک پر سوار ہوجائے اور راستے میں  کھانا طلب کرے اور اللہ نہ کرے اُن کے بار بار اصرار پر کوئی اہانت ہوجائے۔  یہ سب ایسے مسائل تھے جن کا ہمیں سامنا تھا اور ہمیں دکھ ہوتا تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اُس وقت انسان کے ارادوں  پر ایک بلند ہمت حاکم تھی، یعنی ایک عظیم ارادہ ، فوجی مدد کرنا چاہتے تھے اور ایسے شجاع لوگ تھے جو ایک دوسرے پر سبقت لیتے تھے، اور زیادہ نکھرنے کیلئے ایک جنگ تھی۔ جنگی علاقوں میں سپورٹنگ اسٹاف کے لوگ  ایک دوسروں  سے بڑھ چڑھ کر کام کرتے تھے، ہر کسی کی کوشش ہوتی کہ وہ زیادہ سے زیادہ گھر والوں تک کھانا پہنچائے یا زیادہ بچوں کا علاج کرے۔

انہی کاموں کے سلسلے میں، میں رامشہر میں جنگی مہاجرین کی کالونی میں مصروف تھی۔ یہاں اب ایک شہر آباد ہوچکا تھا اور اُس کے وسائل تہران اور دوسرے شہروں سے آتے تھے۔ لوگ دور رہتے تھے لیکن ہر چیز بھیجتے تھے۔ وسائل کی فراہمی کے ساتھ، ثقافتی اور نفسیاتی ابحاث  کی بھی اہمیت ہے۔ کیونکہ ایسے خاندان بھی تھے جو اپنے چاہنے والوں کو کھو چکے تھے۔ ہم نے جو کورسز کئے تھے اور ہمارے اندر جو صلاحیتیں  پیدا ہوگئی تھیں، اُن کی بناء پر ہم نے عمارتوں اور ہوٹلوں کو اپنے دوستوں کے ساتھ ملکر  ریلیف سینٹر اور اسپتالوں میں تبدیل کردیا تھا۔

مجھے یاد ہے دزفول کی محترمہ شہیدہ خلقتی، جو ریڈیو میں تھیں بہت ہی مؤثر خاتون تھیں اور علاقے کو اچھی طرح جانتی تھیں؛ مجھے ان کے ساتھ کام کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ مجھے دزفول کے واقعات یاد ہیں ،جہاں کے  لوگ بہت ہی جدوجہد کرنے والے ہیں اور انھوں نے شاہ کے زمانےمیں، انقلاب اور جنگ کے زمانے میں بہت ہی سختیاں جھیلیں تھیں  اور دزفول پر ہمیشہ ۹ میٹر لمبے اور بڑے بڑے میزائل گرتے تھے۔ دزفول میں بہت بڑے اور گہرے تہہ خانے تھے۔ پرانے زمانے سے بنی ہوئی پناہ گاہیں۔ ہم اُس رات محترمہ خلقتی کے ساتھ دزفول کے ایک تہہ خانے میں داخل ہوئے  اور اُس رات بہت سے چوہوں سے آمنا سامنا ہوا۔ اُس سے پہلے تک میں چوہے سے بہت ڈرتی تھی۔ ذرا سوچیں چوہا آپ کے پیروں پر چلے، واقعاً لرزہ طاری ہوجائے، لیکن میزائل کا تجربہ چوہے سے زیادہ خطرناک تھا، ہم اگر اوپر جاتے تو میزائل سے مارے جاتے۔ اُس رات دزفول نے بہت ہی کٹھن رات گزاری  اور بہت ہی نقصان اٹھایا۔  جب حالات قابو میں آئے تو  ہم نے صبح دزفول میں بہت ہی برے مناظر دیکھے۔  سب سے برا منظر وہ تھا کہ تین بچے، اُن کے ماں باپ اور اُن کے رشتہ دار سب شہید ہوچکے تھے۔ ایک تین سالہ بچی جس کے ہاتھ اور پاؤں پر چوٹ لگی تھی، ایک پانچ سالہ بچہ اور اُس کی دس سالہ بڑی بہن تھی؛ ان تین بچوں کو میں خود اہواز لے گئی۔ بچی کا علاج کروایا۔ بہت  رو رہی تھی اور ضد کر رہی تھی۔ کچھ دن بعد یہ مسئلہ پیش آیا کہ یہ تین بچے کہاں جائیں؟ مجھے کبھی نہیں بھولتا کہ اُن کی بڑی بہن فریاد کررہی تھی اُنہیں (سن و سال میں فرق کی وجہ سے) ایک دوسرے الگ نہ کریں۔"

محترمہ داداشیان نے بات جاری رکھتے ہوئے معاشی استقامت کے بارے میں کہا:

 "ثقافتی انقلاب کے دوران ہم سے کہا گیا کہ انجیئنرنگ فیلڈ یا جس فیلڈ میں جانا چاہتے ہیں جائیں۔ بہت سے دیگر افراد گئے، لیکن میں نے کہا کہ میں پہچان حاصل کرنا چاہتی ہوں۔ میں نے انگلینڈ کی مانچسٹر یونیورسٹی سے اعلی تعلیم حاصل کی۔ معاشرتی زندگی کیلئے میں ہمیشہ سے آمادہ تھی۔نہ میں ایثار گر ہوں اور نہ ہی میں نے اُن کی سہولیات سے کبھی کوئی فائدہ اٹھایا ہے ، میرے ذمے کچھ نہیں ہے۔  آجکل یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہوں۔ سن ۲۰۰۲ء سے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہوں اور میں پروفیسر بن سکتی ہوں، لیکن میں نے پہلے کی نسبت کم ترقی کی ہے۔  میرے ایک دوست نے پچھلے سال "شرق" اخبار میں آبادان محاصرہ توڑنے پر بحث کی جس کی وجہ سے میں قلم اٹھانے کی طرف مائل ہوئی۔ صرف وہاں پر حاضر نہیں تھے، بلکہ آٹھ سال تک ہر میدان میں موجود رہے، چاہے علمی میدان ہو یا یونیورسٹی۔ میرے شوہر جنگ کے زمانے میں انجینئر غرضی کے اسسٹنٹ تھے۔ ایسا ملک جس کا دفاعی پوزیشن میں کم سے کم بجٹ ۲ بیلین ہو کیونکہ ۳ بیلین اُس کی جنگ کا خرچہ تھا؛ ایسے لوگ ملک کو چلا رہے تھے جو تنخواہ نہیں لیتے تھے اور اُن کے گھر والے کسی سسٹم کے تحت نہیں تھے۔

آئیے ان باتوں کو زندہ کریں اور دیکھیں کہ سخت  ترین حالات کے باوجو کیسے یہ ملک قائم رہا۔ابھی بھی منیجمنٹ میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو پہلے کی طرح اُنہی عقائد کے ساتھ، اسراء اور شہداء کے گھر والوں کے مسائل کے درپے رہتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ عیش و عشرت کا رنگ زیادہ چڑھ گیا ہے۔ واقعاً میری خواہش تو یہ ہے کہ زبانی تاریخ  کے ذریعے بتایا جائے کہ ایرانی قوم نے کس طرح کم سے کم پر گزارا کیا ہے۔ البتہ مقام معظم رہبری نے استقامتی معیشت پر زور دیا ہے  اور مجھے اُمید ہے کہ ہم  اس مسئلے میں کچھ پیشرفت کرسکیں اور اپنے وسائل پر نظر ڈالیں۔ میں اس وقت  ایران اور بلیجیئم حکومتی انجمن کے مینیجنگ بورڈ کی ڈائریکٹر ہوں، لیکن ہمارے واقعات ہمیں دنیا سے رابطہ قائم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ آج کل انٹریکشن کا زمانہ ہے اور ہمیں ملک کو بین الاقوامی انٹریکشن کے طور پر بنانا اور ترقی دینا چاہیے ۔"

پھر خانم توکلی نے جنگ کے شہداء خاص طور سے شہداء خواتین کے اعداد و شمار کو پیش کیا: "دفاع مقدس کے عرصے میں ۴۳۶۳ خواتین درجہ شہادت پر فائز ہوئیں اور ان میں سے زیادہ تر شہروں پر ہونے والی بمباری سے شہید ہوئیں۔ ۲۲۸۰۸ خواتین امدادی کارکن اور ۲۲۷۶ لیڈی ڈاکٹر جنگی علاقوں کی طرف گئی ہیں۔ آج کل ملک میں پانچ ہزار سے زائد جان نثارخواتین موجود ہیں جن میں ۳ ہزار خواتین ۲۵ فیصد زخمی ہیں۔"

 

واقعہ نگاری کا طریقہ

"خواتین اور جنگ کی زبانی تاریخ" کے عنوان سے جاری اجلاس سے حجت الاسلام فخر زادہ  جو تین  دہائیوں سے زیادہ عرصے سے، انقلاب اسلامی  اور ایران عراق جنگ کے واقعات ریکارڈ کرنے میں سرگرم عمل ہیں، کہا:

"میں نے میٹرک کے بعد دینی تعلیم حاصل کی اور جب میں محاذ پر گیا تو اصل میں تبلیغ کی وجہ سے گیا تھا۔ سپاہ کے سیاسی مراکز میں فوجی واقعہ نگاری کے نام سے کام کا آغاز ہوا۔ اصل میں انھوں نے ایسے راویوں کی تربیت کی تھی جو افسروں کے ساتھ رہتے اور اُن کے تمام رویوں اور باتوں کو  لکھتے تھے۔ دوسرے تبلیغی اور ثقافتی کام بھی انجام دیتے تھے، وہ زیادہ تر میدان جنگ میں سپاہیوں کے واقعات کو لکھ کر محفوظ کرتے تھے۔  ایک رجسٹر بناکر فوجیوں کو دیدیا گیا تھا تاکہ وہ اپنے واقعات اُس میں لکھیں۔ جیسا کہ اُس زمانے میں ہم لوگوں میں لکھنے کا رجحان کم تھا لہذا کوئی بھی ان رجسٹروں کو استعمال نہیں کرتا، میں بعد میں سمجھا کہ لوگ ایک بڑا سے ریکارڈر لیکر جاتے اور اُسے کسی شخص کے منہ کے پاس رکھ دیتے تاکہ اُس کا واقعہ ریکارڈ کرسکیں۔ لیکن جب کوئی فوجی اپنا واقعہ سناتا،  تو اس واقعہ کی کوئی سند ذکر نہ ہوتی یعنی یہ واقعہ کس تاریخ، کس بٹالین اور کونسے آپریشن میں پیش آیا۔ میں نے ایک میٹنگ میں کہا تھا کہ یہ باتیں  مستند نہیں رہیں گی۔ میں سن ۸۳ میں بسیجی اور فوجی لباس پہن کر پھر واقع نگاری میں مشغول ہوا۔ شروع میں تو فوجیوں نے تعاون نہیں کیا ، چونکہ وہ اپنی تعریف کرکے ریا کاری نہیں کرنا چاہتے تھے۔ہم نے اُن سے کہا آپ نے ان حوادث میں سے جو دیکھا  ہے ہم ان حوادث کو ریکارڈ کرکے محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم آپریشن کے دوران، آپریشن کے بعد، اسپتالوں میں ان کے پاس جاتے اور مطالب جمع کرتے۔ اسی طرح ہم نے ایک رجسٹر بناکر شہدا کے گھر والوں  کو دیاتاکہ وہ شہیدوں کے بارے میں لکھ کر ہمیں دیں۔ تقریباً ۴۰ ہزار رجسٹر تقسیم اور جمع ہوئے۔ اسی طرح ہم عراقی اسیروں کے پاس جاتے اور کیمپ میں درپیش اُن کی مشکلات کو دور کرتے تاکہ وہ اپنے واقعات میں ہمیں یاد رکھیں۔ ہم جنگی علاقوں کے لوگوں اور مہاجرین کے پاس بھی جاتے  جو بہت ہی مشکلات کا شکار تھے۔ آزاد ہونے والوں سے بھی تقریباً ۴ سے ۵ ہزار گھنٹے تک، جب وہ ہماری سرحدی حدود سے نکل کر قید ہوجاتے ہیں اور پھر پلٹ کے ایران آنے تک، انٹرویو ہوا اور اس کے بعد ہم نے آزاد ہونے والوں کی یادوں پر مشتمل ایک  رجسٹر بنایا۔"

آرٹ گیلری میں انقلاب اسلامی کے ادبی دفتر میں شعبہ زبانی تاریخ کے انچارج نے اپنی گفتگو اور واقعات کے بیان کے دوران خواتین کے کردار کو اہم جانتے ہوئے کہا:

"ایک حصہ اُن نرسوں کا ہے جنہوں نے حتی فرنٹ لائن اور شدید بمباری  میں بھی زخمیوں کے مدد کی۔ پس پردہ کام کرنے والے حصے میں کپڑوں کو دھونا اور سلائی کرنا تھا جسے خواتین نے اپنا عشق بنالیا تھا۔ اُن میں سے مغربی گیلان، کرمانشاہ، آبادان اور خرمشہر کی بعض شیر دل خواتین نے جنگ بھی لڑی، جن کی شہادت کی خبر ہم تک پہنچی۔ جنگ زدہ علاقوں کے لوگوں نے بھی بہت زیادہ  استقامت دکھائی۔ بعض گاؤں والے دودھ، پنیر اور دہی بناکر اُنہیں سپاہیوں کو بیچ کر بہت کم مالی وسائل کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے۔ وہ جنگ زدہ افراد جو دوسرے شہروں کی طرف چلے گئے،  ہمیشہ اپنے بچوں اور بچیوں کیلئے پریشان رہتے کہ اُن کی زندگی میں غربت  کی وجہ سے کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ خواتین اور جان نثاروں کی زوجات کا بھی بہت کردار رہا ہے، انھوں نے بہت مشکلات اٹھائی ہیں اور یہ مشکلات ابھی تک ختم نہیں ہوئی ہیں۔ علم کا حصول بھی موثر کاموں میں سے ایک تھا کہ جو جنگ کے بعد والے قدم یعنی ترقی کیلئے بنیادی کردار کا حامل ہے۔"

انھوں نے اپنی گفتگو کے آخر میں، کرنل محبی کی زوجہ کا واقعہ سنایا: "کرنل محبی انقلاب سے پہلے ایک حادثے میں قتل ہوگئے تھے، اُن کےگھر والے  شاہی حکومت کو اس کا ذمہ دار ٹہراتے تھے، وہ انقلاب سے پہلے ملک سے باہر چلے گئے اور انقلاب کے بعد واپس آئے  اور اپنی خطیر دولت کو انقلاب اور جنگ کے راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ جناب محبی کی زوجہ جو اپنے بیٹے کے محاذ پر جانے پر راضی تھیں، اپنے بیٹے کی شہادت کے بعد ایک آنسو نہیں بہاتیں۔ جب اُنہیں خرمشھر ان کے بیٹے کی جائے شہادت لے جایا گیا تو وہ اس وقت بھی نہیں روئیں۔ وہ اس سوال کے جواب میں کہ کیوں نہیں  رو رہیں، اپنے ساتھ والے کو اپنا پرس پکڑا کے چہل قدمی کرنے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد جب واپس آئیں تو اس سے پرس لے کر پوچھتی ہیں: "کیا پرس واپس لینے سے  آپ ناراض ہوئے؟" تو  وہ کہتا ہے کہ پرس تو آپ کا اپنا ہے اس میں ناراض  ہونے کی کیا بات ہے۔ محبی صاحب کی زوجہ نے جواب دیا بالکل اسی طرح کہ آپ پرس لینے سے ناراض نہیں ہوئے، میں بھی اپنے بیٹے کے شہادت پر ناراض نہیں ہوئی، چونکہ میرا بیٹا خدا کی امانت تھا  اور میں خوش ہوں کہ میں اس امانت کی صحیح سے دیکھ بھال کرنے میں کامیاب رہی۔

 

خواتین کے واقعات کا مؤثر ہونا

اجلاس کے دوسرے حصے میں، ڈاکٹر علی اصغری سعیدی نے چند نکات کے بیان سے یہ نتیجہ اخذ کیا: " جب خواتین داستان بیان کرتی ہیں تو اپنے تجربے اور احساسات کو منتقل کرتی ہیں اور اس بات کی وجہ سے لوگوں اور خود  اُن پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔"

انہوں نے کہا

" داستان کا معتبر نہ ہونا کوئی اہم مسئلہ نہیں، ممکن ہے بعض داستانیں جھوٹی ہوں  یا اُنہیں بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہو، یا وقت گزرنے کے ساتھ لوگ بھول گئے ہوں، لیکن اہم چیز یہ ہے کہ تاریخ میں ایسا واقعہ رونما ہوا ہے۔ مؤرخین دستاویزات کی نسبت بہت حساس ہوتے ہیں لیکن اس بات پر توجہ نہیں کرتے کہ تمام یقینی اور مطمئن دستاویزات ابتداء میں سند شدہ روایات تھیں۔ داستانوں  کے معتبر ہونے میں اہم مسئلہ یہ ہے کہ علماء کا واقعات پر اتفاق رائے ہو  اور یہ داستانیں جتنی زیادہ ہوں گی اتفاق رائے بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا چونکہ افراد اس پر کراس چیک لگا سکتے ہیں اور ایران پر تھونپی گئی عراقی جنگ میں یہ کراس چیک ضعف کا سبب ہے، چونکہ خواتین کے واقعات کم ہیں۔

 واقعات کی جمع آوری کے مسئلے میں،"حقیقت سازی" بھی موجود ہے۔ یعنی  محاذ پر بہت سے واقعات پیش آئے ہیں کہ اگر انہیں لکھا جائے تو جنگ کی زبانی تاریخ بھی لکھی جائے گی۔ جنگ جیسے واقعات میں، خواتین کا طبقہ زیادہ ظلم و ستم کا شکار ہوتا ہے، جنگی حملوں اور گھروں کا ویران ہونا اُن کیلئے  ڈراؤنے خواب کی طرح ہوتا ہے۔  جنگ میں جاپانی عورت کا واقعہ جو ایرانی عورت پر بھی صدق کرتا ہے، یہ ہے کہ  اُن سے چاہا جاتا ہے کہ وہ گھر میں  مردوں کا کردار ادا کریں، اس صورت میں سختی زیادہ اور آزادی کم ہوجاتی ہے۔ اُن کے روابط کا طریقہ تبدیل ہوجاتا ہے اور اُنہیں اپنے بچوں کیلئے باپ کی طرح ہونا پڑتا ہے۔ ایسی خواتین جن کے شوہر، باپ اور بچے محاذ پر تھے اُن کی آنکھیں اور فکریں دوسرے لوگوں سے زیادہ محاذ پر لگی رہتی ہیں اور وہ ان تبدیلیوں کی وجہ سے زیادہ مسائل اور مشکلات کا سامنا کرتی ہیں۔ شہداء چلے گئے ہیں اور انہیں ہر صورت میں اُن کی یادوں، حیثیت، شرف اور احترام کو  حفظ کرنا ہے۔ان کے ایثار کا یہ کام محاذ پر شہداء کے کام سے بڑھ کر ہے۔"

 

آزاد شدہ خواتین

آگے چل کر کرنل حسین فروتن نژاد نے کہا: "میں ۱۵- ۱۶ سال تک اسراء اور لاپتہ افراد کے کمیشن میں رہا ۔ مذاکرات میں عراقیوں  سے بات چیت کرنا میرے ذمہ تھا  اور بالآخر میں ایران اور عراق کمیشن کا  انچارج بن گیا۔ اسیر خواتین کے بارے میں بات نہیں ہوئی، ہماری ۲۳ خواتین اسیر تھیں جو سن ۱۹۸۰ء میں اسیر ہوئی تھیں۔ تلاش و کوشش کے بعد وہ سب  سن ۱۹۸۳ میں آزاد ہوگئیں، سوائے اُن دو کے جو آبادان اہواز ہائی وے پر نہیں تھیں۔ سب کی سب امدادی کارکن تھیں اور اگر اُن کے ریڈ کراس نمبر کو دیکھا جائے تو سب کے نمبر تین ڈیجیٹ  کے ہیں یعنی وہ اوائل جنگ کی ہیں۔"

انھوں نے خواتین کے کردار کی اہمیت پر بھی اشارہ کرتے ہوئے کہا: "جنگ ، سکے کے دونوں رُخوں کا نام ہے، ایک رُخ فرنٹ لائن اور محاذ اور دوسرا رُخ ۳۹ ہزار ۱۴۰ آزاد شدہ افراد اور اُن کے زوجات۔ مسز افراز جو اُم الاسراء کے نام سے مشہور ہیں اور ہلال احمر میں کام کرتی تھیں، وہ ایرانی اور عراقی اسیروں کے خطوط پہنچانے کی انچارج تھیں۔ جنیوا میں ریڈ کراس کے نمائندوں سے ہونے والے آخری مذاکرات کے تحت، ۱۳ ملین، ۱۰۷ ہزار اور ۹۱ خطوط ایرانی اور عراقی اسیروں کے درمیان ردّ و بدل ہوئے ہیں۔ خط  کی دو طرف تھیں، ایک طرف اسراء خط لکھتے  اور اس کی دوسری طرف جواب لکھ کر مربوط ملک  ارسال کیا جاتا۔ یہ محترمہ ہلال احمر میں خط و کتابت کا کام انجام دیتی تھیں۔ سن  ۲۰۰۳ ء میں اعلان ہوا کہ کوئی بھی زندہ عراقی ایران میں اور کوئی بھی زندہ ایرانی عراق میں نہیں ہے اور تمام لاپتہ افراد لاپتہ جسموں میں تبدیل ہوگئے کہ اس کے بعد لاپتہ جسموں کا بھی تبادلہ ہوا۔"

اس کے بعد کرنل اسماعیلی نے کہا: "حفظ آثار فاؤنڈیشن میں چند ادارے شامل ہیں، جن میں روحانیوں کا ادارہ جس کے مسئول جناب مصلحی ہیں، دفاع مقدس میں خواتین کا ادارہ کہ جس کی مسئول محترمہ مجتہد زادہ،  جو گذشتہ حکومت میں صدر کی مشاور اور دفاع مقدس میں خواتین کی زبانی تاریخ میں دستاویزات جمع کرنے کی ٹرسٹی ہیں۔ اس اجلاس میں اُن کی جگہ خالی ہے۔ آخری بات یہ کہ تقریباً ۱۰ ملین سندیں  ادارہ دستاویزات میں منتقل ہوچکی ہیں کہ جن کے بارے میں بہت جلد عمومی اعلان ہوگا۔ ان سندوں میں ایسے اہم مطالب موجود ہیں جو  دفاع مقدس میں خواتین کی شراکت کے بارے میں ہیں۔"

داود امینی نے بھی کچھ سوال پیش کرتے ہوئے کہا:

"میری پہلی تنقید خواتین پر ہے کہ انھوں نے جنگ میں ہونے کے باوجود، جنگ کے بعد اپنی سرگرمیوں کو نقل کرنے میں کوتاہی کی۔ اس اجلاس میں جو تعداد بیان ہوئی اور وہ تعداد جو پچھلے اجلاس میں بیان ہوئی تھی، دونوں میں فرق ہے، اُس اجلاس میں کہا گیا تھا کہ شہداء کی تعداد تقریباً ۷ ہزار ہے  اور جو جزوہ تقسیم کیا اُس میں شہداء کی تعداد ۶ہزار کچھ ذکر ہوئی تھی اور مسز توکلی نے بتایا ہے کہ خواتین شہداء کی تعداد ۴ ہزار کچھ  ہے۔ یہ تعداد بہت اہم ہے،  لیکن گنتیوں میں فرق ہے۔ دوسری بات یہ کہ محترمہ معصومہ آباد کی کتاب "من زندہ ام" میں ذکر ہوا ہے کہ ۴ خواتین اسیر ہوئی تھیں  جن میں سے کچھ شروع میں ہی آزاد ہوگئیں؛  ایسا لگتا ہے کہ اصلی تعداد وہی ۴ خواتین ہیں  اور میں نے نہیں دیکھا کہ ۲۳ تک پہنچی ہوں۔ اسی طرح کیا جنگ کے دوران جمع ہونے والے واقعات کو   جنگ کے بعد  دفاع مقدس کی دستاویزات سے تطبیق دیا گیا؟ کیا دفاع مقدس کی زبانی تاریخ کو مستند کرنے کیلئے کوئی کام انجام دیا ہے؟ کیونکہ ہمارا اور آپ کا یہ کام حقیقت میں واقعات کو مستند بنانا ہے۔ کیا وہ خطوط جن کی ایک طرف لکھ کر بھیج دیا جاتا، اُن کی فوٹو کاپی لی گئی کہ کیا وہی خط واپس آتا تھا  یا  کوئی دوسرا؟ محترمہ معصومہ آباد اور "دا" کتاب کی رائٹر اور اسی  طرح انقلاب سے پہلے واقعات لکھنے والے رائٹر جیسے فاطمہ جلالوند  "آن روزھای نامہربان" نامی کتاب میں ۱۵ خواتین کے واقعات لکھ کر ، ثابت کرتی ہیں کہ خواتین اچھے آثار ایجاد کرسکتی ہیں، لیکن کلی طور پر ہمارے پاس خواتین کے کم آثار ہیں اور اُس زمانے کی تقریباً ۶۰ فیصد خواتین  نے کچھ نہیں بتایا ہے۔"

محترمہ توکلی نے جناب امینی کے جواب میں کہا: "معیشت مردوں کے ہاتھ میں ہے اور خواتین کا اُس میں کوئی خاص حصہ نہیں۔ انھوں نے کہا کہ  سن ۲۰۰۶ء سے سن ۲۰۱۰ء تک انقلاب سے پہلے اور بعد کی سرگرم تیس خواتین سے انٹرویو ہوچکا ہے "

پھر کرنل فروتن نژاد نے کہا: "محترمہ معصوم آباد نے صحیح کہا ہے، ۱۵ اکتوبر سن ۱۹۸۰ء میں خرمشہر سے ۴ خواتین اسیر ہوئیں، لیکن انھوں نے اپنی اسیری  کے وقت کو بیان کیا ہے۔ جب ہم کہتے ہیں اسیروں کے پاس ریڈ کراس والوں کا نمبر ہے، یعنی  ریڈ کراس والوں نے انھیں عراقی کیمپوں میں  دیکھا ہے  اور اگر نہیں دیکھا ہوتا تو ریڈ کراس کا نمبر نہیں دیتے۔ تعداد کے بارے میں بھی بتادوں کہ آخری دفعہ ہم جو جنیوا گئے اُس کے مطابق، فقط اُن خطوط کی تائید ہوتی ہے جن پر ریڈ کراس والوں کی مہر لگی ہوتی ہے،  اور اصل سند محفوظ شدہ دستاویزات میں موجود ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں عراقی قیدیوں کی تعداد ۷۲ ہزار ہے، لیکن میں بتاؤں ۵۷ ہزار اور کچھ، چونکہ ان کے تبادلے کی سند موجود ہے اور وہ ۷ ہزار افراد دراصل پناہ گزین ہیں۔"

 


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 5167



http://oral-history.ir/?page=post&id=6749