ایران کے عبرت نامی عجائب گھر میں آیت اللہ طالقانی کی مجلس ایصال ثواب

وہ ثقافت ساز، استعمار مخالف اور آئیڈیالسٹک تھے

رپوررٹ: مریم رجبی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2016-11-01


ایرانی اورل ہسٹری سائٹ کی رپورٹ کے مطابق "ابوذر زمانہ آیت اللہ محمود طالقانی کی ۲۷ویں برسی پر مجلس ایصال ثواب" کے عنوان سے  جمعہ کی شام بمطابق ۹ ستمبر ۲۰۱۶ ء کو ایران کے عبرت نامی عجائب گھر  کےاحاطہ میں تقریب کا انعقاد کیا گیا۔

اس تقریب میں فدائیان اسلام کے رکن محمد مہدی عبد خدائی، آیت اللہ طالقانی کے فرزند سید مہدی طالقانی اور تاریخ معاصر ایران کے محقق  جناب قاسم تبریزی نے ایک ایسے مرد کے بارے میں خطاب کیا جس نے ایک مدت تک مطلق العنانیت اور سامراجیت کے خلاف جدوجہد اور انسانوں کی آزادی اور رہائی کے راستے میں بہت سی کوششیں کی۔

عبرت میوزیم میں دو بڑے آئیڈیوں کا اجراء

ابتداء میں عبرت عجائب گھر کے ڈائریکٹر قاسم حسن  پور نے  مہمانوں کو خیر مقدم کہنے اور آیت اللہ طالقانی کی یاد منانے کے سلسلے میں اس جگہ دو بڑے آئیڈیوں کے اجراء کی خبر دی؛ "  دورہ مشروطیت سے لیکر انقلاب اسلامی کی کامیابی  تک کیلئے فنون سے استفادہ کرتے ہوئے ایک تاریخی کوریڈور کا اجراء " اور " انقلاب سے پہلے سیاسی اسیروں کے زندگی نامہ کو قصے کہانیوں کے انداز میں منتشر کرانا"۔

 

وہ (آیت اللہ طالقانی) معاشرے میں قرآنی ثقافت رائج کرنا چاہتے تھے

اس کے بعد  عبد خدائی نے پہلے خطیب کے عنوان سے، جدوجہد کے زمانے کی فضا پر کچھ اس طرح روشنی ڈالی: "ستمبر ۱۹۴۱ء کے بعد تین گروہ نمودار ہوئے جو ایرانی معاشرے سے دین اور مذہب کی بنیادوں کو جڑ سے اکھاڑنا چاہتے تھے: ۱۔ توحید کے مخالف (ماس اور کمیونسٹ طبقہ) ۲۔ دینی عقائد کے مخالف (سیکولرز) ۳۔ شیعہ مخالف (احمد کسروی)۔ ان سے مقابلے کے لئے تین دوسرے گروہ سامنے آئے: ۱۔ ثقافت ساز (جس کے بانی مرحوم آیت اللہ العظمی بروجردی تھے) ۲۔ استعمار مخالف (مرحوم آیت اللہ کاشانی کی قیادت میں) ۳۔آئیڈیالسٹک (شہید نواب صفوی)"۔

انھوں نے آیت اللہ طالقانی کی دو برجستہ خصوصیات،  ظلم کی مخالفت اور جوانمردی کی اس طرح تعریف کی: "آیت اللہ طالقانی ثقافت ساز، استعمار مخالف اور آئیڈیالسٹک تھے۔ ثقافت ساز ا س لئے،کیونکہ  ستمبر ۱۹۴۱ء کے بعد وہ پہلے آدمی تھے جنہوں نے  قرآن کی تفسیر پیش کی  اور وہ چاہتے تھے کہ معاشرے میں قرآنی ثقافت قائم ہوجائے؛ استعمار مخالف اس وجہ سے تھے کہ جب اُن سے علامہ نائینی کی کتاب  کے دوسرے ایڈیشن پر مقدمہ لکھنے کے سلسلے میں سوال ہوا تو انھوں نے جواب میں کہا ابھی مطلق العنانیت ہے، پہلے یہ مشخص ہونا چاہیے کہ ایک شیعہ مرجع کی آزادی کے بارے میں کیا رائے ہے۔  آئیڈیالسٹک تھے کیونکہ وہ اُن کی حمایت کرتے  تھے۔

پھر محمد رضا عظیمی نے آیت اللہ طالقانی کی برسی کی مناسبت سے کہی گئی نظم کو  لوگوں کے سامنے پڑھا، اس کے بعد  آیت اللہ طالقانی کی امر بالمعروف ٹیم کے ہمراہ رہبر معظم انقلاب، آیت اللہ خامنہ ای سے ہونے والی  ملاقات کی ویڈیو  دکھائی گی۔ آیت اللہ طالقانی کی توصیف میں اُن کا بیان یوں تھا: "دینی محور پر نئے انداز سے سوچتے اور قرآن اور نہج البلاغہ پر زیادہ تاکید کرتے تھے؛ ۔۔۔ جناب طالقانی کا ایک دوسرا پہلو ، میری نظر میں جسے فراموش نہیں ہونا چاہیے، اس انسان کا اخلاص تھا۔ یہ شخص خالص ،صاف گو اورمعاشرے میں اتنا سچا تھا کہ انسان اس قدر پاکیزگی پر حیرت میں مبتلا ہوجائے ۔۔۔"

اس کے بعد سید مہدی طالقانی نے اپنی فیملی کے والد صاحب سے رابطے  کے بارے میں خاص طور سے جلا وطنی کے بارے میں گفتگو کی  اور بتایا کہ کم سن ہونے کے باوجود میں کس طرح اپنے والد سے ملنے جاتا اور ان سے ملنے والے پوسٹر کو  کس طرح تقسیم کرتا تھا۔

 

قلم اور گفتار سے جہاد کرنے والا مجاہد

اس کے بعدخطاب کیلئے  قاسم تبریزی ڈائس پر تشریف لائے اور کہا: "آیت اللہ طالقانی ہماری تاریخ کا ایک نمایاں کردار ہیں، اُنھوں نے رضا خان کے زمانے  (۱۹۳۹ء) میں پہلی دفعہ اسی قید خانے (جہاں عبرت عجائے گھر ہے) میں ظلم سہا  اور امام خمینی ؒکے مطابق  انھوں نے ایک قید خانے سے دوسرے قید خانے اور ایک جلا وطنی سے دوسری جلاوطنی میں اپنی زندگی بسر کردی۔"

انھوں نے اس مقدمہ کے بعد، آیت اللہ طالقانی کی خصوصیات کو اختصار کے ساتھ اس طرح شمار کیا:

وہ ایک برجستہ عالم دین تھے جن کا تاریخ معاصر میں  اہم کردار رہا۔
مفسر قرآن اور نہج البلاغہ کی شرح کرنے والے، جو معتقد تھے معاشرے میں ان کتابوں کو رائج کرنے سے معاشرے کی ترقی اور کامیابی حتمی ہوجائے گی۔
جدوجہد کرنے والے عالم دین تھے جنہوں نے رضا خان اور اس کے بیٹے کی مطلق العنانیت کی مخالفت میں اپنی پوری زندگی گزار دی اور کبھی بھی مطلق العنانیت کے سامنے  گھٹنے نہیں ٹیکے۔
ممتاز خطیب اور مقرر تھےکہ اُن کی پوری زندگی میں کی جانے والی اُن کی گفتگو کا مجموعہ، متن کے لحاظ سے بھی اور انداز بیان کے حوالے سے بھی بہت ممتاز تھا۔
مدرسہ سپہ سالار کے استاد اور نہج البلاغہ کے مترجم و ۔۔۔  ۱۹۴۸ء سے لیکر آخر عمر تک مسجد ہدایت کے امام جماعت۔
ایسے مجاہد جنہوں نے بین الاقوامی کیپٹلزم، کمیونزم اور صہیونیزم کی منحوس مثلث کے خلاف قلم اور گفتار سے جہاد کیا۔
دنیا میں استعمار کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں کا دفاع کرنے والے خاص طور سے کشمیر کے مسلمانوں کی تحریک، مصر کے مسلمانوں اور خاص طور سے فلسطین اور ایران  میں اٹھنے والی معاصر تحریکیں، پٹرول صنعت کے قومی ہونے کی تحریک اور امام خمینیؒ کی تحریک۔

 

آیت اللہ طالقانی ساواک کی دستاویزات میں

تاریخ معاصر کے اس محقق اور ماہر نے مزید کہا: " انہی خصوصیات کی وجہ سے جو میں نے بیان کی، ان کی شخصیت ساواک کیلئے بہت اہمیت کی حامل تھی؛ سن ۱۹۵۵ء سے، جب ان کے فدائیان اسلام سے روابط کا آغاز ہوا، یہ مسئلہ اور زیادہ حساس ہوگیا۔ یہ باتیں تین جلدی کتاب "حضرت آیت اللہ طالقانی بہ روایت اسناد ساواک" میں چھپ چکی ہیں۔  پہلی دستاویزمصر کے دو ڈاکٹروں اور اسٹوڈنٹس سے ان کی مسجد ہدایت میں ملاقات کے بارے میں ہے؛ ایران اور مصر کے اختلافات  کے آغاز میں انہیں گرفتار کر لیا جاتا ہے  اور ان کے مصر سے خفیہ تعلقات کے درپے ہوجاتے ہیں جبکہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوپاتے۔

پہلی جلد کے دستاویزی متن میں خاص باتیں،  ان کی برطانوی، امریکائی اور صہیونی استعمار کی بین الاقوامی مخالفت ہے؛ اُن کے نظریہ کے مطابق پہلوی  حکومت بھی استعمار سے وابستہ تھی اور وہ مجموعی طور پر  بادشاہت اور استعمار کو ایران کی ترقی میں رکاوٹ کی بڑی وجہ سمجھتے ۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ علاقے میں کمیونزم کا بیج بونے والا برطانوی استعمار ہے؛ تحریک تنباکو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ  اس تحریک میں میرزا شیرازی استعمار کے خلاف ڈٹ گئے اور یہ بات خود آئینی انقلاب کا مقدمہ بنی۔

دوسری جلد کا دستاویزی متن جو سن ۱۹۶۴ ء سے شروع ہوتا ہے، درحقیقت یہ حصہ آیت اللہ طالقانی کی گرفتاری اور اسیری کو بیان کرتا ہے۔ تیسری جلد کا دستاویزی متن مسجد ہدایت میں انجام پانے والی سرگرمیوں کی حکایت کرتا ہے کہ آیت اللہ طالقانی کی عدم موجودگی میں آیت اللہ زنجانی اور محمد تقی شریعتی وہاں کے امام جماعت تھے۔"

جناب تبریزی نے مزید کہا: "آیت اللہ طالقانی جیل میں بھی تفسیر قرآن لکھتے تھے اور مخفی طور پر اُسے جیل سے باہر بھیجتے  اور اس کی اشاعت کرواتے۔ اسی طرح ہمارے مذہب میں بشریت کا مستقبل کے عنوان سے امام زمانہ (عج) کے بارے میں تقریریں کرتے۔

جس زمانے میں اُنہیں زابل جلا وطن کیا گیا، لوگوں اور شیعوں کے عظیم استقبال کی وجہ سے اُنہیں سراوان نامی جیل بھیجا گیا، پھر کچھ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر اُنہیں کرمان جلا وطن کیا گیا اور بالآخر وہ تہران آگئے اور اپنی جدوجہد کو پہلے سے زیادہ زور شور سے شروع کردیا۔"

"ابوذر زمانہ آیت اللہ محمود طالقانی کی ۲۷ویں برسی پر مجلس ایصال ثواب" کے عنوان سے  جمعہ کی شام بمطابق ۹ ستمبر ۲۰۱۶ ء کو ایران کے عبرت نامی عجائب گھر  کےاحاطہ میں ہونے والی تقریب  میں، بین الاقوامی اسراء منقبت خواں گروپ نے نظم پیش کی۔  اسی طرح پہلوی حکومت کے زمانے میں آیت اللہ طالقانی کے گرفتاری  کارڈ کو ایک تاریخی سند کے عنوان سے، علامتی طور پر ایک بڑے نسخہ کی صورت میں اُن کے فرزند کو یادگار کے طور پر ہدیہ دیا گیا اور اس کے چھوٹے چھوٹے نسخہ  ان کے رشتہ داروں اور انقلاب سے پہلے اُن کے ساتھ سیاسی جیل کاٹنے والوں  کو یادگار کے طور پر تقسیم کیا گیا۔ 


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 4558



http://oral-history.ir/?page=post&id=6672