چپ سادھ لینے والا مجاہد بھلا دیا گیا
جعفر گلشن روغنی
مترجم: سید مبارک حسین زیدی
2016-08-12
پتہ نہیں کیوں ایسے شخص کے بارے میں لکھ رہا ہوں جس نے کبھی نہیں چاہا کہ لوگ اُسے جانیں اور وہ مشہور ہو جائے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ماضی کی باتوں کو دھرایا جائے اور اُس نے اپنی یادوں کے تلخ اور شیریں دریچوں کو حتی اپنے بیٹوں کیلئے بھی نہیں کھولا تھا۔شاید وہ نہیں چاہتا ہو کہ سیاسی سرگرمیوں کے نشیب و فراز بیان کرنے سے اُس میں سہم لینے، شہرت اور عہدہ لینے کی خواہش پیدا ہو، لہذا تقریباً پچاس سال اُس نے اپنے ہونٹوں پر چپ کی مہر لگا لی اور اپنی سیاسی سرگرمیوں کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ یہاں تک کہ اُس کی اولاد بھی اُس کے ماضی کے بارےمیں بہت کم جانتی ہے، تو پھر یہ مضمون لکھنے والے کیلئے کیا رہ جاتا ہے۔
بہرحال یہ کہنا پڑے گا کہ میں حاج کاظم موسیٰ خان (ایسا شخص جوحج پہ بھی نہیں گیا) کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں جو اپریل ۲۰۱۶ سے اب تک تہران کے مختلف ہسپتالوں جیسے امام حسین (ع) ہسپتال میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اُن کی پہچان اور شناخت کا جذبہ باعث بنا کہ اُن کے بیٹے محمد مہدی (مجید) کے ساتھ دوستانہ بات چیت ہوئی۔ مندرجہ ذیل معلومات اسی گفتگو کا نتیجہ ہیں۔
کاظم موسی خان ۳ مارچ ۱۹۳۵ء کو تہران میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد حاج صادق کی بازار میں ڈرائی فروٹس (ہول سیل ) کی دکان تھی۔ ری اسٹریٹ پر موجود نایب السلطنہ مارکیٹ میں اُن کا گھر تھا، مجالس اور انجمن قائمیہ کے پروگرام وہ اپنے گھر پر منعقد کرتے۔ کاظم نے پرانے اسکول میں نو سال تک اپنی پڑھائی کو جاری رکھا، پھر اپنے والد کی شاگردی اختیار کرلی۔ مذہبی خاندان سے تعلق اور بازار تہران میں مصروف ہونے کے باعث وہ متحدہ اسلامی جماعتوں سے منسلک ہو گیا۔ نتیجتاً ۱۹۶۱ء میں شروع ہونے والی امام خمینی ؒ کی تحریک میں پیش پیش رہا اور اس کا شمار امام خمینی ؒ کے اعلانات کی نشر و اشاعت والے گروہ میں ہونے لگا ۔ ان گروہوں کو "اعلانات چاپ کرنے والا گروہ" اور "گروہ اعلانات" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جنوری ۱۹۶۳ء میں اُس وقت کے وزیر اعظم حسن علی منصور کے قتل کے الزام میں متحدہ اسلامی جماعتوں کے بہت سے کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا، موسی خان نے کچھ اور ساتھیوں کے ساتھ اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھا یہاں تک کہ مارچ ۱۹۶۶ء میں امام کے اعلانات کی نشر و اشاعت کی وجہ سے دیگر ۱۱ ساتھیوں کے ساتھ گرفتار ہوجاتا ہے۔ اس گروہ میں اس کے ساتھیوں کے نام یہ ہیں: غلام علی، قربان علی اور حسین، اکبر پوراستاد، بنکدار، مولایی، سلیمی، جلالی ، علوی طالقانی۔اُسے دو گھنٹے بعد پولیس کی عارضی جیل سے چند مراحل جیسے انگوٹھا لگانا، تصویر لینا اور لباس تبدیل کرنا وغیرہ کے بعد مکمل تحقیقات کیلئے قزل قلعہ نامی جیل بھیج دیا گیا اُس کی یہ زندانی تین مہینے طول پکڑ گئی، پھر ۲۱جولائی ۱۹۶۶ء والے دن اُسے قصر جیل منتقل کردیا گیا۔
اس کا جرم ملک کے امن و امان میں خلل اندازی یعنی ایسے گروہ کی تشکیل جس کا مقصد آئینی شہنشاہیت کے خلاف کام کرنا ہے، ثابت ہوا ۔ جس کی سزا تین سے دس سال کی قید تھی۔ اس کی عدالت ۲۵ ستمبر کو کرنل مومنی کی صدارت میں تشکیل پائی اور تین دن بعد ۲۳ سالہ حاج کاظم کو تین سال جیل کی سزا سنادی گئی۔ ایسا حکم جس کی سپریم کورٹ نے بھی تائید کردی۔
آیت اللہ طالقانی اور اُن کے داماد محمد بستہ نگار اور اُن کے کزن علی عدالت منش، عزت اللہ سحابی، مہدی بازرگان، محمد مہدی جعفری (۲ جلد پر مشتمل ہمگام با آزادی کے مؤلف)، محمد جواد حجتی کرمانی، شہید محمد منتظری، محمد باقریان موحد، حاج مہدی شفیق، مصطفی مفیدی، صادق اسلامی، ابو الفضل توکلی بینا، محمد خمسی اور اسکویی، یہ ایسے افراد ہیں جو قصر جیل کے یونٹ ۴ میں حاج کاظم کے ساتھ تھے۔ وہ دو سال جیل کاٹنے کے بعد جشن تاج پوشی کے سبب معاف کردیا گیا اور مارچ ۱۹۶۸ ء میں آزاد ہوا۔ البتہ وہ انقلاب کی کامیابی تک ایک دو مرتبہ ر چند گھنٹوں کے لئے گرفتار ہوا پھر اُس نے انقلاب کی کامیابی کے بعد تمام سیاسی سرگرمیوں کو ترک کردیا۔
کاش اُس کے دوست، احباب اور اُن دنوں کے ساتھی جن کے پاس حاج کاظم کی یادیں ہیں، اپنے ہونٹوں کو کھولیں اور اِس سے زیادہ ان کی پہچان کرائیں تاکہ ایران کی عصری تاریخ میں ہر شخص کے مقام و جدوجہد خاص طور پر انقلابی سرگرمیوں اور پہلوی حکومت کے خلاف سرگرم رہنے والے محرکات اُجاگر ہوں۔
سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
صارفین کی تعداد: 4511
http://oral-history.ir/?page=post&id=6514