ایک مختلف استقبالیہ
گفتگو: مہدی خانبان پور
ترتیب: تاریخ شفاہی ایران
ترجمہ: سید محمد روح اللہ
2016-06-07
فرورین ۱۳۶۳ (مارچ ۱۹۸۳)
میں جنگ کے دور میں ابھی مکمل ۱۷ سال کا نہیں تھا کہ مقدس دفاع کے محاذ پر چلا گیا۔ ۱۹۶۶ کی پیدایش ہے میری، ۱۹۸۳ کے اوائل میں محاذ پر چلا گیا تھا اور ۱۹۸۸ کی گرمیوں کے اختتام تک واپس آگیا تھا، اس وقت میں ۲۱ سال کا تھا اور میرا کام دشمن کے نصب کردہ بم اور مائنز وغیرہ کو ناکارہ بنانے کی تربیت دینا تھا۔ البتہ ان سالوں میں بھی مسلسل محاذ پر نہیں تھا بلکہ کبھی زخمی ہونے کی وجہ سے یا امتحانات کی وجہ سے موجود نہ ہوتا۔ البتہ اس پورے عرصے میں میں محاذ پر رہا اور میری ۳ عید یں وہیں گذریں۔
والفجر آپریشن جو ۱۹۸۳ کے ابتدائی دنوں میں تھا، میں وہیں تھا اور فرنٹ لائن پر موجود تھا۔
ساری کی ساری بٹالین اور پورا محمد رسول اللہ ص لشکر آپریشن میں مشغول تھا، لہذا عید نوروز کی تو کہیں خبر ہی نہیں تھی۔
آپریشن کے بعد جب ہم دو کوہہ پہنچے تو وہاں مائیک لگائے گئے اور صادق آہنگران صاحب نے ترانہ شہادت پڑھا، یہ انکا دوسرا براہ راست ترانہ تھا۔ بہت ہی رقت آمیز مناظر تھے، سب شہید دوست یاد آرہے تھے، سار ےجوان رو رہے تھے۔
اس آپریشن کے ایک شہید، سعید مہدوی تھے، جب سب واپس آرہے تھے تو وہ دستوں کو جمع کرنے میں مصروف تھے اور سجدہ کی حالت میں شہید ہوئے تھے۔
ایک دوست تھا ہمارا مہدی نظری، جس کی پیشانی پر راکٹ کے ٹکڑے لگے تھے اور وہ شہید ہوگیا تھا، بہت طویل سجدے کیا کرتا تھا۔
امام خمینی کا وہ جملہ ہے کہ "شہید وجہ اللہ کو دیکھتا ہے" ہم مزاحا شہید نظری کے لئے کہتے تھے کہ "نظری، نظر می کند بہ وجہ اللہ" یعنی نظری وجہ اللہ کو دیکھتا ہے۔
چوری کی سزا
۱۹۸۷ کے ایرانی مہینے فروردین میں، جب والفجر آپریشن کا آٹھواں مرحلہ جاری تھا، ہمیں فاو کے علاقے میں تعینات کیا۔ سال کی تبدیلی کے وقت شہید نباتی کے کیمپ میں تھے، اس وقت وہ زند ہ تھے۔ کیمپ میں کمبل کم تھے ہم نے شہید نباتی سے کہا کہ ہمیں کمبل چاہیئں تاکہ کیمپ بیٹھنے کے قابل ہوسکے، پھر نے اپنے انچارج سے جو سخت تھے کافی اور انکا نام عباسی صاحب تھا ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے دو ٹوک جواب دیا کہ "کمبلوں کی تعداد کم ہے ، ہم اس سے زیادہ نہیں دے سکتے " لیکن ہمیں معلوم تھا کہ گودام میں کمبل بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ میں اپنے ایک دوست توحید ملازمی کے ساتھ گودام کی جانب گیا۔
جب ہم وہاں پہنچے تو وہاں لوہے کا ایک بہت بڑا درواز بند پرا ہوا تھا، اوپر ایک روشن دان موجود تھا۔ میں نے اسے آسانی سے پار کرلیا، شہید ملازمی کی مدد سے ہم لوگ اندر داخل ہوئے تو بالکل اندھیرہ تھا، ہر وقت یہ احسا س ہورہا تھا کہ ابھی چوہوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ تقریبا ۲۷ کمبل میں نے وہاں سے باہر پھینکے، اسی دوران ۲ بوریوں پر میرا ہاتھ لگا۔ حیرت ہوئی کہ یہاں کمبل کے علاوہ کیا رکھا ہوگا۔ اس میں انجیر، آلو بخارہ اور اس طرح کی دیگر اشیاء تھیں، میں نے دونوں بوریوں کا سامان ایک میں کیا اور اپنے دوست کو کہا کہ اس کا اٹھاتے ہیں۔ اس بوری سمیت سارے کمبل ہم نے اپنے خیمہ میں پہنچا دئیے۔ سال کی تبدیلی کا وقت آیا۔ خیال یہ تھا کہ ہمارا خیمہ سب سے مختلف ہوگا اور مجھے یاد نہیں کہ ہم نے سات سین والا دسترخوان سجایا تھا یا نہیں ، البتہ محاذ پر یہ دسترخوان بھی عادی دسترخوانوں سے مختلف ہوتا تھا۔ اس میں خاردار تار، پتھر، سوئی اور اس طرح کی سین سے شروع ہونے والی اشیاء اور ساتھ اپنے ان دوستوں کی تصویریں جو جنگ میں شہید ہوگئے ۔
آلو بخارے ، لیمو کا رس اور چینی ملا کر ایک بہترین شربت ہم نے بنایا تھا۔ جو بھی آتا اسکا خشخاش کے پھولوں کے ساتھ شربت سے استقبال کیا جاتا۔ اسکے علاوہ خشک انجیر اور آلوچہ بھی دیتے تھے۔ شہید زینال حسینی جو بہت ہی شجاع اور دریادل انسان تھے، جب ہمارے خیمہ سے جانے لگے تو کہا "تم لوگوں نے یہ سامان کہاں سے جمع کیا ؟" شہید نباتی نے کہا "چوری کا مال ہے" پوچھنے لگے "کہا ں سے چوری کی ؟"ہم نے بتادیا۔ بہت غصہ ہوئے اور عباسی صاحب کو بلانے کا حکم دیا۔ اور عباسی صاحب سے کہا" کیا ہمارے پاس گودام میں آلو بخارے اور انجیر وغیر ہ موجود ہیں ؟" انہوں نے مثبت جواب دیا تو حکم دیا کہ جو کچھ موجود ہے امام بارگاہ میں لے آئیں۔ اس کے بعد ہم سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ" تم لوگوں کی سزا یہ ہے کہ ایسے ہی ایک اور مزیدار شربت بناو اور مغرب و عشاء کی نماز کے بعد جوانوں میں تقسیم کرو"
عمومی طور پر مجاہدین سال کی تبدیلی کے وقت امام بارگاہ میں جمع ہوجاتے تھے تاکہ امام خمینی کے بیانات کو بھی سن سکیں اور اسکے بعد جو مہم ترین بیان سنا ہوتا تھا وہ مقام معظم رہبری کا تھا جو اس وقت صدر مملکت تھے۔
سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
صارفین کی تعداد: 4260
http://oral-history.ir/?page=post&id=6387