ورلڈ کنفیڈریشن کے سابق سیکریٹری، فریدون اعلم کی یادیں


2015-11-05


تعظیم اور سلام عرض کرتا ہوں تمام شرکاء کی خدمت میں جنہوں نے آج ہمیں یاد رکھا، میں چاہتا ہوں کہ ان دو واقعات کو ،جو کہ تاریخ کے دو مختلف ادوار میں، بیرون ممالک طلباء کی تحریک کی عالمی یکجہتی ، کے بارے میں ہیں، مختصرا بیان کروں۔

پہلا واقعہ

پہلا واقعہ ورلڈ کنفیڈریشن تنظیم کی تشکیل کے دوران اور دوسرا بیرون ملک طلباء کی

تحریک کے ابتدائی دور میں پیش آیا۔ سن  1967 کی گرمیوں کی بات ہے، میں کنفیڈریشن کا سیکریٹری تھا کہ محمد رضا شاہ ، جرمنی کے صدر کی، سرکاری دعوت پر جرمنی آیا،اس زمانے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز  میں، مجھ سمیت، زندہ یاد رحمت خسروی، چنگیز پہلوان، حسن ماسالی، بہمن نیرومند  شامل تھے۔

مجموعی طور پر ہم سب اس سے قبل ہی، جرمنی میں احتجاجی جلسوں کے تدارکات دیکھ چکے تھے اور اس  سے واقف تھے، اس سلسلے میں اصل کام طلباء کی اس احتجاج میں شرکت تھی کہ اس سے دو سال قبل حکومت اس بارے میں اقدام کرچکی تھی، اور انگلینڈ کی ایک فیڈریشن کے کارکنوں کو جو کہ "بھلائی پسند و نیکخواہ گروہ" کے نام سے مشہور تھی، ان کی سرگرمیوں ، اور شاہ کے قتل میں حصہ لینے  کے جھوٹے الزامات میں گوفتار کر چکی تھی۔ یہ سرگرم کارکنان جب اپنی تعلیم مکمل  کرنے کے بعد ایران آ‌ئے تو اس قاتلانہ حملے کے الزام میں گرفتاری کے دوران ، جرم  کے اعتراف کے لۓ شدید تشدد کا نشانہ بن چکے تھے اور فرد جرم عائد ہونے پر  سزاۓ موت یا طویل قید کا مطالبہ بھی کیا جا چکا تھا۔

فوجی ٹرائلز، خبروں اور وکیلوں کی ایران بھیجنے والی درخواستوں نے ، بیرون ملک  ایرانی جوانوں کو شدید ٹھیس پہنچائی۔ ہم نے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی اور اس سلسلے کا سب سے اہم اقدام، شہر  کالسروہہ میں، طلباء کی بھوک ہڑتال تھی، جس کے نتیجہ یہ نکلا کہ آخرکار ہم  کامیاب ہوگۓ کہ ان کی سزاۓ موت کو رکواسکیں یہ ایک ایسا تنازعہ تھا جس سے  ہم نے بہت کچھ سیکھا مثلا ہمارے دوست جمشید انور نے ،جو ابھی یہاں آپ کے  درمیان موجود ہے، اس زمانے میں انگلینڈ کے کالج کا طالب علم تھا اپنے پرانے دوستوں کے لۓ جو اس وقت موت کے رو برو تھے ایک ٹائپ رائٹر اور کاپئر مشین  کے ذریعے، دن رات محنت کے بعد، ایک اشاعت" پیمان" کے نام سے شایع کیا جس کی بنیاد سیاسی قیدیوں کے دفاع پر رکھی اور جب شاہ جرمنی آیا تو طلباء کو موقع ملا کہ ایران میں سیاسی کار کنوں کی قید اور ان پر ہونے والے تشدد پر اعتراض کر سکیں۔

اس کے پیش نظر مظاہرے کا اہتمام کیا گیا اور جب سفارت خانہ چند کراۓ کے لوگوں کو بھی شاہ کے استقبال کے لۓ جمع نہ کر سکا تو پھر ایران سے کچھ اوباش اور کراۓ کے لوگوں کو ایک جہاز میں بھر کر برلن لا یا گیا، تاکہ وہ اس کا استقبال کر سکیں وہ لوگ بھی کیونکہ ہنگامہ آرائی اور شور شرابے کے سوا کچھ نہ جانتے  تھےلہذا جرمنی کے میڈیا اور کیمروں کے سامنے، طلباء پر، ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے  برس پڑے اور بدترین اور توہین آمیز الفاظ کا استعمال کیا ، یہ ویڈیوز جرمنی کے ٹی  وی سے نشر ہوئیں اور اس طرح ہمارے حق میں سب بہتر ہوا کیونکہ ہم جرمنی کی  عوام کے سامنے ،  اس سے بہتر انداز میں اپنا احتجاج ریکارڈ نہیں کروا سکتے تھے۔ اس واقعے کے کم و بیش چھ ماہ کے بعد،  21 دسمبر 1967 یعنی کرسمس کی چھٹیوں  سے دو روز قبل اور نیا سال شروع ہونے سے پہلے، میرے اور چنگیز پہلوان کے نام شہر کارلسروہہ کی عدالت سے ایک نوٹس (سمن) جاری ہوا جس میں ہمیں آرٹیکل 103  کے تحت، 23 جنوری کو عدالت میں طلب کیا گیا تھا ، اور دھمکی دی گئی تھی کہ اگر  حاصر نہ ہوۓ تو زبردستی پیشی کے لۓ لایا جاۓ گا ۔

میں نے فورا کنفیڈریشن کے وکیل، ڈاکٹر ہیلڈمن  کو فون کیا اور ان کو سارے معاملے  سے آگاہ کیا، انہوں نے سارا معاملہ سننے کے بعد کہا کہ معاملہ درست نہیں اور اس آرٹیکل کے مطابق آپ جرمنی کے دوست ملک کے سربراہ کی توہین کے مرتکب ہوۓ  ہیں اور یہ سفارت خانے کے بس کی بھی بات نہیں کہ وہ اس میں آپ کی مدد کرسکے اور اس حل کر واسکے۔

اس جرم کی سزا تین سے پانچ سال قید اور آپ کی ساری تعلیمی اسناد کا ڈس کلیمر ہے ہمیں کسی کم سے کم نقصان یا جرمانے کی راہ کے بارے میں سوچنا پڑے گا، ہم نے  اپنے سارے دوستوں، بہمن نیرومند، محمود رفیع (برلن) زندہ یادان ، شجاع صدری ،  فرہاد سمنار اور محمود راسخ کوفرینکورٹ فون کۓ اور ان کو اس معاملے کی نزاکت سے آگاہ کیا ان سب نے بھی اس معاملے کے حل کیلۓ کوششیں شروع کر دیں اور متفقہ راۓ کے مطابق دو بڑے شہروں کے کالج کے ہزاروں طلباء سے تحریری بیان  لیا کہ وہ بھی آرٹیکل 103 کے تحت اس جرم کے مرتکب ہوئے ہیں اس  طرح پندرہ ہزار افراد نے بربین سے اور دس ہزار افراد نے فرینکفورٹ سے اقرار جرم کیا۔ اس اقرار جرم کے بعد، جرمنی کی حکومت مجبور ہوگئی کہ اپنا نوٹس واپس لے لے کیونکہ ڈاکٹر ہیلڈ من کے مطابق اگر وہ اس معاملے میں آگے کاروائی کریں گے تو  مجبور ہو جائیں گے سب پر کیس کریں اور ایسا کرنے میں جرمنی کے ان دونوں  بڑے شہروں کی عدالتیں کئی ماہ تک کوئی اور کام نہیں کر سکیں گی۔

یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے کہ اس واقعے میں بنوانہ زورگ، جرمن طالب علم کی برلین مظاہرے میں موت پر شاہ کے طرفداروں کی طرف سے جھوٹی ویڈیو بنائی گئی، اور اس موت کو رصا کار طلباء کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔

دوسرا واقعہ

یہ واقعہ، شہر مونیخ کے طلباء کی تحریک کے بارے میں ہے جو کہ بیرون ملک طلباء کے تحریک کی ابتدائی دور میں پیش آیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جرمن کی یونیورسٹیاں، دوسرے ممالک کے احتجاجوں اور قتل و غارت گری کے الزامات سے پاک تھیں ۔ ایرانی طلباء کی تنظیمیں، ہمیشہ سے ہی اس  شہر میں باہمی یکجہتی کا مظاہرہ کرتی آ‌ئی تھیں ایک دفعہ کنگو کےآزادی خواہ قائد" پاتریس لومومبا" کے قتل کے سبب مظاہرے ہو رہے تھے، ان مظاہروں میں ایرانی  طلباء بھی طبق معمول شریک تھے اور اپنی یکجہتی کا ثبوت دے رہے تھے کہ انہی  کے ساتھ ساتھ ایک سیاہ فام جوان بھی چل رہا تھا، آغا شنایدر، پولیس کے افسر نے اس مظاہرے کے انچارج کو اپنے پاس بلا کر کہا کہ میں تم میں سے ایک ایک ایرانی کو اس کے نام کے ساتھ جانتا ہوں مجھے یہ بتاؤ کہ یہ سیاہ فام تم لوگوں کے درمیان  کیا کر رہا ہے؟

وہ جو معاملے کو سمجھ چکا تھا بولا: محترم افسر صاحب،وہ بھی ایک نیا آنے والا ایک ایرانی ہے اور اس کا آپ سے تعارف نہ کروانہ پڑے اس لئے ہم نے اس کے منہ پر پالش مل دی ہے۔۔۔۔۔

 

                 

 

 

 

 


حوالہ: سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 4002



http://oral-history.ir/?page=post&id=5869