محمدحسین خالدی کی انقلاب اورجنگ کے ایام کی تصویروں پر ایک نظر(۱)

میری پہلی تصویریں بہشت زہرا)س( کی تھیں

سارا رشادی زادہ
مترجم: سید محمد جون عابدی

2015-09-30


محمد حسین  خالدی،اپنےدوستوں کے درمیان حسین عکاس کے نام سے جانے جاتے ہیں. ان کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے جنہوں  نے انقلاب اور ایران پرعراق کی طرف سے تحمیل کی ہوئی جنگ کےزمانے کی یادداشت کو تصویروں کی شکل میں اپنے البم میں محفوظ کیا ہواہے ۔

اشارہ: اسلامی انقلاب کے ان پرشور ایام کو ایران اور دنیاکے بہت سے فوٹوگرافروں نےاپنےکیمرےمیں قیدکیاتھا۔اوروہ تصویریں البموں،کتابوں کے صفحات اوراخبارات  میں یادگار کے طورپر  موجود ہیں۔ذرائع ابلاغ کے فوٹو گرافروں کے علاوہ کچھ ایسے لوگ  بھی تھے جوانقلاب اور جنگ کے پرتلاطم مناظر کو اپنی یادداشت میں محفوظ کرنا چاہتے تھےاوراسی خاطراپنے گھر کا چھوٹا سا کیمرا لیکر سڑکوں پر آجاتے تاکہ  ۱۳۶۰ کی دہایئ کے ان مناظر کو اپنی یادداشت کا حصہ بناسکیں ۔

محمد حسین خالدی،اپنےدوستوں کے درمیان حسین عکاس کے نام سے جانے جاتے ہیں ان کا شماران افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے انقلاب کےایام کی تصویروں کواپنے ذاتی ایلبم میں محفوظ کیا تھا۔آگےآپ کے سامنےایران کی زبانی تاریخ کی سائیٹ کے رپورٹر کی انکے ساتھ ایک گفتگو کو پیش کیاجارہا ہے اور اس گفتگوکا مقصد اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ایام کی یادداشت اور تصویروں کو دیکھنا اوراس کا مرور کرنا ہے۔

 

پہلے تو آپ خود اپنے بارے میں کچھ بتائیے؟

میں محمد حسین خالدی ہوں ،۱۳۲۲ ش کومیں شہر تہران میں پیدا ہوا۔گھر کا بڑا بیٹا تھا اور چونکہ مادرگرامی کوامام حسین علیہ السلام سے بہت لگاؤ تھا اس لئےاپنےاطراف کےافراد کےدرمیان حسین کے نام سے جانا گیا۔

 

آپ کے والد کے مالی حالات کیسے تھے اورآپ لوگ کہاں رہتےتھے؟

میرے والد پھیری کرنےوالے تاجر تھے ۔اور اس زمانہ میں ہماری مالی حالت بہت خراب تھی۔اس وقت ہمارا مکان میدان مولوی (مولوی چوراہے)کے پاس ہوا کرتا تھا۔کاروان سرا کے پیچھے ایک گلی میں  بہت سے گھر تھے اور ان گھروں میں سے ہرایک میں  کئی  خاندان رہا کرتے  تھے۔ہم بھی اس وقت کی بہت کم سہولیات کے ساتھ وہیں پر پلے بڑھے تھے۔اور ہماری خوشی کا تنہا سامان پھولوں سےپانی دینےکے بعد آنے والی خوشبواور رات کے کھانے پر آب گوشت  کا مزہ ہوا کرتا تھا۔

 

آپ کے بچپن کےدور کے  مدرسہ کا کیا نام تھا؟

میں نے اسکول کے ابتداکےچھ کلاس اسماعیل بزاز روڈ پر واقع مدرسہ شرف محمدی میں  گذارے تھے۔یہ روڈ آج مولوی روڈکا ایک حصہ ہے۔اس کے بعد آگے کی تعلیم کےلئےباغ فردوس روڈ پر واقع اسکول میں داخلہ لیا۔اس  مدرسہ کےاکثرطلاب لمبےقد کے اورطاقتور تھے۔اور اسکے مقابلہ میں میں پستہ قد اور دبلا پتلا تھا اس وقت مجھ میں اورمدرسہ کے دوسرے طلاب مین اس قدر جھگڑا ہوتا تھا کہ میں وہاں ہائیر سیکنڈری کا دوسرا سال ختم کرنے کے بعد تعلیم ترک کرنے کا پروگرام بنانے لگا۔نتیجۃ مدرسہ چھوڑدیا اور بازارمیں وارد ہوکر کام میں مشغول ہوگیا۔

 

آپ کس کام میں مشغول ہوئے تھے؟َ

مدرسہ چھوڑنےکےبعدمیں اپنےماموں کی گوشت کی دکان پر کام کرنےلگا،لیکن میں ہمیشہ سے ٹیکسی ڈرائیور بننا چاہتا تھا۔سرابازی(حکومت کی خدمت کے لئے فوجی ٹریننگ)میرے راستہ کی رکاوٹ تھی اسی لئے میں سربازی پر چلا گیا۔تاکہ جلدازجلد ٹیکسی ڈرائیور بن سکوں ۔اگرچہ سربازی کے دور کی بھی ایک داستان ہے ۔

 

آپ مصدق کے  وزارت عظمیٰ کے دور میں بچے تھے اس دور کی کچھ باتیں آپ کویاد ہیں؟

شاید ۱۳۲۶ یا۲۷ کا سال تھا میدان مولوی پر ایک چبوترا بنایا گیا تھااور اس پر ایک مجسمہ اور فوارہ تھا۔سردیوں کا موسم تھا اور مصدق نے میدان کا افتتاح کیا تھا اورلوگ مصدق کے استقبال کے لئے گئے تھے اس سے متعلق یہی ایک بات مجھے یاد ہے۔

 

آپ کے اطراف میں ایسے لوگ بھی تھے جو عصری تاریخ کی مشہور شخصیت ہیں؟

میرے  محلہ کے اکثر جوان فدائیان اسلام کے رکن تھے۔ان میں سے خلیل طہماسبی جیسے افراد بھی تھے جنہیں  بعد میں سزائے موت دیدی گئی۔اوروہ شہید ہوگئے۔اس وقت میں چھوٹا تھا اس لئے ان سے متعلق کوئی خاص بات مجھے یاد نہیں  ہے۔اس وقت خلیل طہماسبی اور انکے ساتھی میرے لئےعام لوگ تھے۔لیکن میرے پڑوس کے اکثر افراد فدائیان اسلام کے رکن تھے لیکن ان کے نام  مجھے ٹھیک سے یاد نہیں ہیں۔ایک اور شخصیت جن کو میں نے بچپن سے دیکھا اور بہت اچھی طرح سے انہیں پہچانتا تھا وہ طیب حاج رضائی تھے۔انکے پاس محلہ میں ایک بڑی  سولہ تھی جسپر وہ  سامان خالی کرتے تھے اور ان کے پاس ایک بڑا ترازو بھی جومیدان مولوی کےآخر میں تھا اوروہ میدان مولوی کا تنہابڑ ترازو تھی ۔اور گاڑیاں اس پر اپنا سامان وزن کرواتی تھیں ۔اوراس کے بعد اسے سولہ (ایک گاڑی)کے حوالے کرتے  تھے۔طیب ھاج رضائی ہمیشہ شاپو نامی ٹوہی  پہنتے تھےاور سردیوں میں ایسا لباس پہنتے تھے کہ جسے لوگ لباس جاہلی سے  تعبیر کرتے تھے۔

ہر سال عشرہ محرم میں اپنے ترازو والے کمرےمیں  عزاداری برپا کرتے  تھے اور رات کودوسرےمحلہ کےافراد اپنی مجلسیں  ختم کرنےکے بعد طیب حاج کے دستہ سے ملحق ہوجاتے تھے۔یہاں تک کہ جب میدان شوس اورمیدان قیام جواس وقت میدان شاہ کےنام سے مشہور تھا،تک پہونچتےتوایک بڑےجلوس کی شکل اختیارکرلیتا۔سارے عزاداروں کو رات کا کھانا کھلاتےتھے حاج  طیب کے ایک بھائی بھی تھے جن کا نام طاہر تھا۔طیب نے ۱۵ خرداد ۱۳۴۲کو بھی جلوس نکالا اور اسی وجہ سے انہیں گرفتار کیا گیااور اسی سال انہیں  شہید کردیا گیا۔

 

کیا ۱۵ خرداد ۱۳۴۲کے کچھ واقعات آہ کو یاد ہیں ؟

۱۵ خرداد ۴۲ ش کو میں اپنےماموں کی گوشت کی دکان پرکام کررہاتھا کہ شاہپورروڈ سے وزیر دفتر کا گذرہوا،صبح ۱۰م بجے کےقریب میں نےبہت زوردار آواز سنی گویا کچھ پھٹنےکی آواز تھی اسی وقت میرے ماموں کا ایک دوست دکان میں آٰیا اوران سےکہا تیمورخان ،بوذر جمہری سے لیکر سیروس تک سب کو ماررہے ہیں ۔یہ آوازیں فوجیوں کی ہیں جولوگوں کاقتل عام کررہے ہیں۔اس نے بتایا کہ مسجد شاہ میں دوتین لوگوں کو گولی سے ماردیا ہے اور اعتراض میں تہران کے بازار نے بند کا اعلان کیا ہےاور سب ایک ساتھ گروہ کی صورت میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں ۔میں اسی وقت چپکے سے نکلااوراپنی سائیکل سے گیا کہ دیکھوں آخر کیا مجرا ہے۔میں اس جگہ پہونچااورمقتولین اور زخمیوں کو دیکھا۔اس زمانہ میں فوج کی رائیفل ام1(m1) تھی کہ جب اس کی گولی کسی کو لگتی تو اس کا بدن چھیدتی ہوئی دوسری طرف سے خارج ہوجاتی۔جب میں  واپس آٰیا تو میرے ماموں نے مجھے ایک طمانچہ مارا اور پوچھاکہ کہاں گیا تھا؟میں نےسارا ماجراانکو بتایا۔اسی روز میں نےسنا کہ اس روز دوپہر کے  بعد جنازوں کو جمع کرکے اتابک روڈ کے سامنے مسگرآباد لے جایاگیا ہے۔ان میں سے بہت سے لوگوں کی شناخت ہی نہیں ہوئی تھی ۔اس دن گلوبندک چوراہے جسیی جگہوں پر لوگوں کےساتھ بہت ہی وحشیانہ سلوک کیا گیا تھا۔میں نےسنا کہ اس روز اگر کوئی چھت پر سے یا کھڑکی میں سے باہرکی جانب دیکھ رہا تھاتو اسے بھی گولی ماردی گئی تھی۔میں حالات کے بارے میں ریڈیو سے سن رہا تھا لیکن لوگوں کو پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ اپنے اقربا کے  جنازوں کو کہاں سے جاکر لیں۔

 

اپنی سربازی کے بارے میں ہمیں  بتائے؟

میں اپنےدودوستوں کے ساتھ ٹریننگ کی غٖرض سے چار مہینوں کے لئےباغشاہ نامی چھاؤنی گیا۔مجھے بچپن سےہی کمانڈواچھے لگتے تھے۔جب  بھی کمانڈو اور عالمی جنگ سے متعلق کوئی فیلم آتی میں بلافاصلہ سینیما گھر جاکر اسےدیکھتا۔ اسی وجہ سےجب میں نے سربازی کا لباس پہنا توخوشی سےپھولے نہیں سما رہا تھا۔ایک دن مارچ کرتے وقت میں نے اسی چھاؤنی کے دوسرے حصہ میں کمانڈوزکی ٹریننگ بھی دیکھی اور میں اس روز سےہردن چھپ کران کی ٹریننگ دیکھنے جانے لگا اور اپنےخیال میں،میں خود کو ان کے درمیان دیکھتا تھا کمانڈو بننے کا شوق اس قدر شدید ہوگیا کہ میں نے ڈرائیور بننےکا خیال ہی چھوڑ دیا۔بالآخر ایک روز گارڈ نے مجھے پکڑ لیا اور میرے افسر کے پاس لےگیا۔اور بہت اصرار کے بعد میں نے افسرکو اس بات پر راضی کرلیا کہ ہرروز اپنے کام  کے علاوہ وقت میں ایک  گھنٹہ ان کمانڈوز کی ٹریننگ میں شرکت کرونگا تاکہ تھوڑا بہت کمانڈوز کے بارے میں  بھی سیکھ لوں۔

 

یعنی اتنی آسانی سے آپ اس وقت کمانڈوز کے گروہ میں شامل ہوگئے؟

نہیں ایسا نہیں  تھا بلکہ ایک گروہ کہ انچارج کی رہننمائی کے بعد فیصلہ کیا کہ اس چار مہینہ کی ٹریننگ کے بعد میں کماندڈوز کے گروہ میں  شامل ہوجاؤنگا اوردرجہ حاصل کرونگا۔لیکن وزن اٹھانے کے بعد یہ بات طے ہوگئی کہ میرا وزن اور قد کم ہے اور اس دورے کے ئے  منتخب نہیں  ہوسکتا ہوں۔اپنے افسر کی رائے کو تبدیل کروانے کے لئے میں نے بہت کوششیں کیں حتیٰ گریہ اور التماس تک کیا لیکن اس کابھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔آخر کار ایک درجہ دار افسر نے مجھے رائے دی کے میں شیراز چلا جاؤں اور سربازی کی خدمت گذارنے کے بعد ستوان کا دورہ مکمل کرکے تیسرا درجہ حاصل کرلوں مجھ سے کہا گیا تھا کہ شیرازمیں سرباز کی تنخواہ ۱۲۵ تومان ہے جبکہ تہران مین  ۱۷ ہزار تومان اور۱۰شاہی تھی۔ جب میں نے یہ سنا تو پہلے تو مجھے یقین  نہیں آیالیکن تحقیق کرنے کے بعد میں مطمئن ہوگیا۔ اور بہت اصرار کرنے کے بعد میری درخواست کو شیراز منتقل کردیا گیا ۔

 

شیراز کی کچھ یادیں ہمیں  بتائیے کیا ہوا اپنی آرزو تک پہونچکر کمانڈوز میں شامل ہوئے یا  نہیں ؟

اس وقت شیرازقبائلی اورخاندانی جھگڑوں کے بحران سے جوجھ رہا تھا۔اسی زمانہ  میں میری والدہ نے ایک گراموفون خریدا تھا اور مشہور اور محبوب گلوکارعباس منتجم شیرازی کے نغموں کو سنتی تھیں۔ مجھے شیراز پہونچنےمیں ۲۴ گھنٹے لگے اور اتنی طولانی مسافت دیکھنے کے بعد مجھے پچھتاوا ہونےلگا ۔لیکن کوئی چارہ نہیں تھا ۔شیراز پہونچنےکے بعد سینئرسربازوں نےبتایاکہ کبھی بھی قبائلی جنگیں شروع ہوسکتی ہیں اور ممکن ہےتم مارے جاؤ۔اس بات نے مجھےذرا خوف زدہ کر دیا تھا۔وہاں پر میں نے کمانڈو کی ٹریننگ لینا شروع کردی ۔ چار پانچ مہینوں کے بعد مجھے کودنے والے کھمبے پر لیجایا گیا بہر حال وہ ایفل ٹاور کی طرح نہیں  تھا۔وہاں  ایک رسی تھی اور تین سرباز مجھے پکڑنے کے لئے کھڑے تھے۔جب میں بلندی پر  پہونچا اور رسی کو میری کمر میں باندھاگیا تومجھےڈرلگنےلگا اور میں نہیں کود سکا۔اسی لئے میرے کمانڈر نے مجھے نیچے کی طرف دھکا دےدیا۔کچھ عرصے کے بعد یونی فارم اور کمانڈو کا شناختی کارڈ مل گیا اوراس وقت میں اہل شیرازکی نگایوں کودیکھ کرلطف اندوز ہوتا تھا۔بہرحال میرا ڈریس ’’اسکاؤٹنگ‘‘ سے مشابہ تھا جس کی وجہ سے لوگوں کو دھوکا ہوجایا کرتا تھا۔ لیکن بس فرق ٹوپی کا تھا۔ اس کے  بعد سے شیراز کی قبائلی جھڑپوں کےدوران  مجھے مسلسل مخصوص فوج کےعنوان سے بھیجا جاتاتھا۔ میں سمجھ گیا تھا کہ میری جو پہچان ہےمیں ویسا نہیں ہوں اسی لئے  سربازی تمام ہوتے ہی میں تہران واپس آگیا اور کمانڈوبننےکا خواب چھوڑ دیا۔

 

اتنی زحمتیں اٹھانےکے کے بعد آپنے کمانڈو بننے کاخیال اپ نے اپنے ذہن سے نکال دیا۔تو آپ کے مستقبل کا کیا پروگرام تھا؟

میں سربازی سے پہلےوالےخواب کی طرف گیایعنی ڈرائیونگ لائیسنس لیا اور ٹیکسی ڈرائیور بن گیا۔لیکن ڈرائیونگ سےاتنے لگاؤ کے باوجود اس کام سے بھی دل بھر گیا اور دوسرے کام کی تلاش میں لگ گیا ۔اس زمانہ میں میں مسلسل لڑائی جھگڑوں اور تھانے کے چکروں میں  پھنسا ہوا تھا۔ایک دن میرےماموں مرحوم میرے پاس  آئے تاکہ مجھے کچھ سمجھائیں اورمیں خود بھی اس حالت سےتھک چکا تھا بہر حال میرے ماموں مرحوم نے مجھے اپنے ایک دوست کے ذریعہ ’’ ادارہ تعاون‘‘ ادراہ باہمی امداد ،بھجوایا اور اس وقت یہ اداراہ اٹلانٹک سنیما گھر کےسامنے ہواکرتا تھا جو آج افریقہ سینما گھر کے  نام سے مشہور ہے ۔اس وقت عبدالعظیم ولیان وزیر تعاون تھے۔میں نے وہاں ادارے کے ڈارئیور کی حیثیت سے نوکری شروع کی اور معاشرت کے آداب بھی سیکھے۔

 

تو آپ کو قصابی سے لیکر ادارے تک میں کام کرنے کاتجربہ ہے تو آپ یہ فوٹوگرافر کیوں بن گئے۔؟یہبتائیں کہ کب سے آپ کو فوٹو گرافی کا شوق پیدا ہوا ؟

میں ادارے تعاون میں نوکری کررہا تھا کہ انقلاب شروع ہوگیا۔ میں بھی کبھی کبھی مسجد شاہ اوربازارجیسی مظاہروں کی جگہوں پرجایا کرتا تھا۔یہ مظاہرے مذہبی اور متدین افراد کے ذریعہ  ہواکرتے تھے۔وہ لوگ دین اور سیاست سے متعلق ایسی باتیں کرتے  تھے جو میں  نے اب تک نہ سنی تھیں۔

 

کیا  آپ انقلابی گروہوں کی کتابیں اور شبنامہ بھی پڑھتے تھے؟

بعدمیں انقلاب کی کامیابی کےنزدیک ایام میں ،انقلاب کے بروشر،اعلانات اور شبنامہ پڑھتا تھا۔جب کبھی گروہ میں جاتا تھا تو تقریریں  بھی سنتا تھا۔وہ باتیں ہم پراسقدر اثر اندازہوئی تھیں کہ دل چاہتا تھا کہ پہلوی حکومت کو اکھاڑ پھینکوں۔دھیرے دھیرے میرے ذہن میں سوال آیا کہ سیاست کیا ہے اور میں کیوں اس سے بےخبر ہوں ؟پھر میں نے جلسوں اورعزاداری کی مجلسوں میں شرکت کرنا جاری رکھا۔

 

ادارہ تعاون میں نوکری کے بعدآپنے کیا کیا؟آپ کی زندگی کہاں تک پہونچی؟

ادراہ تعاون میں نوکری ملنےکےبعد میں نے معاشرت اور رہن سہن کے آداب سیکھے اور اس کے بعد  شادی کرنےکا فیصلہ کیا ۔اس دوران میں  کرایہ دار تھا اور ہر گھر میں چند دوسرے خاندان بھی رہتے تھے۔اسی وجہ سے میری والدہ نے مجھے بہت سی لڑکیوں کے بارےمیں  بتایا۔لیکن مجھےکوئی پسندنہیں آئی۔یہاں تک کہ خراسان روڈ پرایک کمرہ  لیا اور وہاں رہنے لگے۔وہاں ہمارے کمرے میں  ایک لڑکی کا بہت آنا جانا تھا بہر حال اس سے لگاؤ پیدا ہوگیا اور اسی سے شادی کر لی۔

 

آپنے نہیں بتایا کہ کیوں فوٹوگرافر بنے اور فوٹو کھیچنےکا کام شروع کردیا؟

ادارہ تعاون میں رابطہ عامہ کے شعبہ میں زیادہ آٰیا جایا کرتا تھا۔اس شعبہ میں  کئی خطاط اورعکاس افراد تھے۔وہاں  کے خطاط سے میں نے کتابت سیکھی اور وہاں کے فوٹوگرافرکو میں دیکھتا تھا کہ اکثر اس کے پاس  وزارت خانہ سے فون آتا تھا فلاں جگہ فوٹو کھینچنے چلے جاؤ۔وہیں ادارے میں ایک چھوٹا سا تاریک کمرہ بھی تھا ۔ادارے کے تمام افراد اس کااحترم کرتےتھے۔اور مختلف کاموں کے لئے ادارے کے  عکاس سے ہی مشورہ کرتے تھے۔ عزت و احترام کے علاوہ اس کی مالی حالت بھی بہت اچھی تھی۔اداراہ تعاون کا فوٹوگرافر دامغان کارہنے والاایک بوڑھا شخص تھا جس کاایک پیر تھوڑا خراب تھااس کا نام دانش تھا اور ہرجگہ وہ دانش عکاس کے نام سے مشہور تھا۔۵۷ کا سال تھا کہ میں نے فیصلہ کیا کہ اس سے فوٖٹوگرافی سیکھوں گا۔لیکن اس نے قبول نہیں کیا اور کہا :’’بہتر ہے کہ ٖفوٹوگرافی کے کلاس می جاؤ‘‘یہ واقعہ دقیق طور پر اسی زمانہ کا ہےجب میدان شہدا کا واقعہ رونما ہوا تھا۔اس وقت میرے پاس ژیان کار تھی  اورمیں اس حادثے کے روزیعنی جمعےکے دن  ۱۷ شہریور۱۳۵۷کو میدان فوزیہ یا اسی میدان امام حسین علیہ السلام سے شہر کے آخری حصہ کی طرف جارہا تھاکہ گولیوں کی آوازیں سنیں اور مجھے ۱۵ خرداد کا دن یاد آگیا۔میں میدان کی طرف گیااوربھیڑدیکھتے ہی وہاں سے بھاگ نکلااور میدان خراسان  ہوتےہوئے اپنے گھر پہونچ گیا۔وہاں  پہونچنےکے بعد اپنے پڑوسیوں سے کہا کہ میدان ژالہ پرجھڑپیں ہوگئی ہیں اور تم لوگ یہاں بیٹھے کیا  کررہے ہو؟

کچھ لوگ وہاں سے اٹھ کر میدان ژالہ کی سمت بھاگے اور میں  اپنے گھر آگیا اور تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد میں نے بھی جائے وقوعہ  پر جانے کافیصلہ کیا ۔اور اپنی موٹرسائکل سے میدان ژالہ کی طرف روانہ ہوگیا ۔وہاں  کی درودیوار خون سے رنگین تھی۔اس وقت میں  نے سوچا کہ اےکاش ؛ادارے کاعکاس مجھےفوٹوکھینچنا سکھادیتا تومیں ان مناظر کی کچھ ٖفوٹوکھینچ لیتا۔لوٹنے کے بعد میں  نے بقیہ پڑوسیوں سے سارا ماجرا بیان کیا۔ان میں سے ایک پڑوسی نےکہا ایک کیمرا خریدلیتے ہیں اور ان مناظر کی  تصوریرکھینچتےہیں۔میں بھی اگلےدن صبح کو باب ہمایوں گیااوروہاں سے۱۱۰ماڈل کاایک کیمرا خریدا۔دوکاندار نے کہا ؛’’اس کیمرے سے تصویر کھینچنا بہت آسان ہے۔کیمرے میں  ریل ڈالو اور اور اس کے دستہ کو کھینچ دو اور تصویرکھینچ لو۔‘‘میں  بھی دو روز کے بعد بہشت زہرا سلام اللہ علیہا گیا اورچھپ کر وہاں سے جنازوں کی تصوریی کھینچنےلگا۔یہ تصویریں  میری زندگی کی کھینچی ہوئی پہلی تصویریں تھیں اور یہیں سے میں نے عکاسی کی دنیا قدم رکھا تھا۔میری زوجہ ان تصویروں کو دیکھنےکے بعد تھوڑا ناراض ہوئیں اور کہا ؛’’آپ کا کام  امن وامان والا ہے یہ سب کام آپ کے لئے مشکل پیدا کرسکتے ہیں ،اورممکن ہے اس کی وجہ سے تمہیں قتل کردیا جائے۔‘‘لیکن مجھے اس کام سے اتنالگاؤ پیدا ہوگیا تھا کہ میں  نے اس کی طرف کوئی توجہ ہی نہ کی ۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔


حوالہ: سائٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 4508



http://oral-history.ir/?page=post&id=5727