زبانی روایت کا مطالعہ؛ خدو سردار، سرکشی سے حکمرانی تک


2015-09-21


مقامی تاریخ  کے سلسلے میں ماخذوں  کی کمی اور ستاویزات کی  پراکندگی کی  وجہ سے  مصنفین ، واقعیت اور حقیقت کے مطابق تاریخ کا تجزئیہ  کرنے  سے قاصر  ہیں۔ اساسی  طور  پر دستاویزات کے بغیر کسی تاریخ کو تحریر  کرنا اس تارٰیخ  نویسی کی سب سے بڑی مشکل ہوتی  ہے۔کبھی کبھی دستاویزات ہونے کے باوجود کسی مسئلے کے سلسلے میں غلط  فکریں اور  تصورات اس  بات کا  سبب بنتے ہیں کہ بعض مصنفین حقائق  سے  چشم  پوشی  کرتے  ہوئے  واقعہ میں  تحریف  کرجاتے ہیں۔

درحقیقت غلط قصہ گوئی اور نادرست تجزیہ  مصنف کو  اپنے  احساسات  کا  شکار  بنالیتے  ہیں ۔زبانی   روایت پر  اکتفا کرنا ، سنجیدگی سے انٹرویو نہ کرنا اور  صرف ایک ہی شخص پر اکتفا کرنے کی  وجہ    سے مسئلے اور واقعے  کے بعض   پہلو  مبہم اور  تاریک رہ جاتے ہیں۔ اگراپنی  خواہشات اور  رجحان سے  قطع نظر کرتے ہوئے  واقعات کو  اسی طرح  سے  بیان  کیا  جائے جس طرح وہ  رونما ہوئے تھے، اور  مقامی سرداروں کی شخصیت کی درست  تصویر   پیش  کی جائے   تو  یہ  امر  مقامی  تاریخ  کے  مستغنی  ہونے اور قوم  کی خدمت  اور  آئندہ نسلوں  کے ساتھ  خیانت سے بچنے کا  سبب   بنے گا۔
 
ہاشم فرہادی ۱۳۶۷ ش کو شیروان میں  پیدا ہوئے۔شمالی  خراسان کی   بعض  مقامی  شخصیتوں  کی  تاریخ کے  سلسلے میں اب تک اس نوجوان مصنف  کی تین  کتابیں  تاریخی  ناول کی صورت میں منظر عام  پر آچکی  ہیں۔ مصنف  نے اپنی کتاب’’قہرمانان‘‘میں  سردار  عیوض  خان  جلالی  کی زندگی کا  تجزئیہ  کیا  ہے اور دوسری کتاب  ’’فرمانرواے جنگ وموسیقی‘‘میں  شیروان کے  ایک  سردار ’’ خدا  وردی ‘‘کی زندگی  کو مورد تجزئیہ اور  تحلیل  قرار دیا  ہے ۔ گلیل  کے علاقہ میں  دستوری حکومت  کے  انقلاب کے بعد  یہ سردار ایک مدت  تک مرکزی حکومت کے  لئے خطرہ اور مشکل کا سبب  بنا   رہا۔ اسی  طرح  اس مصنف  نے اپنی جدید کتاب فرج اللہ  خان  بیچرانلو کے  بارے میں تحریر کی ہے ۔
 
مصنف  نے  کتاب کے  مقدمہ  میں لکھا  ہے :’’ جن کتابوں میں   سردار  خدا  وردی کے  قیا م کی  طرف  اشارہ کیا گیا ، ان کے مواد  ان  افسروں  کی  یادداشتوں  سے  جمع  کئے  گئے  جو  قاجاری  حکومت کے  خادم  شمار ہوتے تھے۔اور  قلعوں میں جو واقعات رونما ہوئے  اس  کی خبر  کسی  کو نہیں  ہے ۔اس  سوانح عمری میں  ہم نے  جو  مطالب   جمع کئے  ہیں  وہ  یا تو   ان فراد سے  لئے  جن کے آباؤ اجداد  خداوردی  کے  آدمی  تھے یا  ان کی جنگوں  کو  قریب سے  دیکھا  تھا ‘‘۔
 
مصنف کی کوشش یہ  رہی ہے  کہ شمالی خراسان کی عصری تاریخ   کے سلسلہ میں  ایک  موضوع  کو منتخب  کیا جائے اور باخبر افراد سے  زبانی  طور پر  اطلاعات جمع کرکے کتاب تشکیل دی جائے ۔یعنی   مصنف نے یہ  طرز عمل اپنایا کہ  اپنے  قلم اور  زبانی روایات کے  درمیان  ایک تعلق قائم کرے اور  قارئین  کو اس طرح تاریخ  سے روشناس کرائے جیسا وہ خود چاہتا ہے ۔وہ  تجزئے  جو مصنف  نے کتاب میں  پیش  کئے ہیں  بنیادی  طور پر  وہ عام  باتیں  ہیں جو  قاری کے ذہن میں کشمکش پیدا کرتی ہیں۔
 
کتاب کی  روایت گلیان کے مطرب  سے شروع ہوتی ہے۔ اورروشن علی کوگلیان کے  پہلے  بخشی کے  عنوان سے پیش کیا گیاہے جو شاہ عباس صفوی  کے دور سے تعلق رکھتا ہے۔اس سلسلے میں اس  مصنف کا خیال ہے:"گلیان کے قدیمی  بخشی جوشاہ جہان  کے ساتھ   آئے  تھے ،دنیا میں  مقامی   موسیقی کے     موجد ہیں ۔ اور  بے شک  دوتار  والے ساز  انہیں کی دین ہیں" یا  بخشی  تاریخ  گو  ہیں  ؟ یا  افسانہ   گو  ہیں اور رائی کا پہاڑ بناکر  پیش کرنے والے ہیں ؟ ایسا معلوم  ہوتا ہے  کہ  بخشی ایسی  باتیں  کرتے تھے  جو صد فی صد  کسی شخص  پر  تطابق نہیں رکھتی تھی  ۔بلکہ  وہ  اپنی   باتوں کو  تمثیل  اور  مجاز گوئی کے پیرائے میں  بیان کرتے تھے۔
 
کتاب فرمانروائے جنگ و موسیقی کو  پڑھنے والے کے  ذہن میں سب سے اہم سوال  جو  آتا  ہے وہ یہ ہے کہ  کیا مصنف نے اس کتاب میں اس علاقے کی  شناخت کے عناصر کو  بیان ہے؟ زبا ن کہ جس کے ذریعہ  زبانی  روایت کو  بیان کیاجاتاہے، شناخت کے سلسلے میں  ایک اہم کردار  رکھتی ہے ۔ درحقیقت   مختلف  علاقوں  کے  زبانی   ثقافت کو محفوظ کرنے کے سلسلے میں وہاں کی زبان پر بہت  توجہ دی جاتی ہے۔ شمالی خراسان کے تاریخی دستاویزات اور  ثقافت میں سے  جو  چیزیں  باقی بچی ہیں ان سے   وہاں کی  زبان کے فارسی اور  رسم الخط کے عربی ہونے کا  پتہ  چلتاہے ۔ اور  اکثر  مصفین  نے اسی  سے  استفادہ کیا  ہے۔ اس کتاب فرمانروای جنگ و موسیقی میں  زبان  کو شناخت کے عنصر کے لحاظ سےکوئی   اہمیت نہیں  دی ہے اور  مصنف  نے اس  اساسی    عنصر   پر توجہ   کئے  بغیر   کتاب    تحریر  کردی ہے ۔ اگرچہ  انہوں  نے   شناخت کے  سلسلہ میں  علاقہ کے دیگر  عناصر کو   بیان  کیا   اور اس  سلسلہ میں   دره پیرشهید، رزمقان، ملاباقر،گاوسرخون، توکور، کانی ده وری، قلعه حسن، اقوام پهلوانلو، اور تاریخچی جیسے  الفاظ   کی   طرف  اشارہ   کیا  ہے  نیز تاج محمدخان، عبدالعلی تناسوانی، رمضان تاریخچی، فرج‌الله‌خان، حسین حاج تاتار، ابراهیم بلشویک...جیسے  منجملہ   مستند  ناموں کا  تذکرہ  کیا ہے اور  علاقہ  کے   تاریخی   جغرافیہ  کی  عکاسی  کرتے ہوئے  ایک  حد تک    داستان کےزمانہ اور  مکان    پر   توجہ  دینے  کی  کوشش کی ہے ۔
اس کتاب میں  وادی  گلیل  کی  صحیح  تصویر  پیش  نہیں کی گئی ہے ۔جب  تک  قاری    کے  ذہن میں  علاقہ   کی  صحیح   تصوری  نہ ہو  وہ   اس  کتاب فرمانروای جنگ و موسیقی  میں  سردار خدا  وردی  کا ہم سفر  نہیں  بن سکتاہے ۔اس  کتاب کی  جزئیات   خود   مصنف  کے  افکار اور  تخیلات   کا  نتیجہ  ہیں  جو  انہوں  نے  روایت کی   کلی اورعام   باتوں  سے   حاصل   کی ہیں۔ایسا  لگتا  ہے  مصنف  نے کتاب   لکھنے میں  عجلت  سے  کام لیا ہے  اور  تاریخی  اور  زبانی    ماخذوں  کے سلسلہ میں بہت  زیادہ غور وفکر سے کام نہیں  لیا ہے۔انہوں  نے  کتاب کے آخرمیں  ان  عام ماخذوں اور حوالوں کو  تذکرہ  کیا  جن  سے  اس کتا ب کو لکھنے میں  استفادہ کیا  ہے ۔بعض   حوالوں کا  کتاب کے  عنوان  سے کوئی   ربط ہی   نہیں  ہے ۔اور یہ  احتمال   پایا  جاتا  ہے کہ  ان کتابوں  کو لانے مقصد  خراسان  کے کردوں کے سلسلہ میں  کلی  معلومات  لینا  ہے  جو پیرنیا، گریشمن، دیاکونوف و رضایی جیسے   مصنفین کی کتابوں میں  بھی وارد ہوئی ہیں ۔بہر حال    چند حوالوں میں سے  کلیم  اللہ  توحدی کی  کتاب  ’’حرکت  تاریخی   کرد   بہ   خراسان ‘‘ ہی  ایسی  کتاب ہے جو   براہ  راست  خداوردی  سردار کے   موضوع  سے   تعلق  رکھتی ہے ۔لیکن کتاب   کی  تحریر کے سلسلہ میں    مختلف  زبانی   حوالوں(۶)پر  مصنف  کا تکیہ   کرنا قابل  اشکال  بات ہے ۔
 
 
افسانہ کی تکرار    
کتاب کا  آغاز  ایک تکراری اور افسانہ وار داستان سے ہوتا ہے۔مصنف نے خدا وردی سردارکی ولادت  کے سلسلہ میں علم نجوم کی پیشنگوئی کی طرف اشارہ کیا ہے  اور ایسے پر نور  ستارے کی کہانی  سے  وارد ہوئے ہیں جو  وسیع وعریض آسمان میں  ایک شعلے کے مانند چمک رہا ہو اور  اس کے بعد   مغربی پہاڑوں کے   پیچھے   چھپ گیا ہو۔ پھر اس کی  تعبیر میں لکھتے ہیں:’’یہ  بچہ  آج را ت  ہی پیدا ہوگا یہ  بیٹا ہوگا اور بہت  بلند قسمت کا حامل ہوگا۔وہ  اس  قدر شہرت  اور  قدرت حاصل     کریگا کہ اس کے سامنے کوئی ٹک نہیں سکے گا۔ اس کانام  ہرجگہ پھیل جائیگا اور  اپنے زمانہ میں  اس کی شخصیت بے مثل و بے نظیر ہوگی ۔۔۔ وہ  اس آگ کے شعلہ کی مانند ہوگا  کہ جو  اس سے دوستی  کریگا  اس شعلہ سے گرمی اور حرارت حاصل کریگا اور جو دشمنی کریگا وہ آتش   اسے  جلاکر خاک  کردیگی۔‘‘پھر ایک  دوسرے افسانہ کی تکرار  کرتے ہوئے خداوردی  کی  ولادت کی داستان کو  آگے بڑھا تے ہیں :’’اچانک ایک نومولود بچے کے رونے کی صدا فضاؤں میں گونجنے لگی۔۔۔گہرے   خاکستری  رنگ کاگھوڑا نوروزی زور  زور سے  ہنہنانے  لگا۔اور اس  طرح مضطرب نظر آیا کہ اس سے  پہلے ایسا کبھی نہ دیکھاگیاتھا،تھوڑی دیر نہ گذری تھی کی کتوں کے  بھونکنے کی صدائیں  بھی  آنے لگیں ۔‘‘شاید مصنف یہ بھول گئےتھے کہ یہ کتاب کس  کے  بارے میں لکھی جارہی  تھی؟ یا  یہ  کہ وہ اس سے ایک نیا افسانہ  بنانا چاہتے  تھے؟آیا خداوردی سردار اس  تحریر کی حد  تک پہونچے  بھی   تھے؟
 
اس داستان کی ابتدا میں حقیقت اور  افسانے کا تناسب قابل غور  ہے۔خدا وردی کی سوانح عمری  میں  لکھا ہے کہ ان کا بچپن فقیری اور تنگدستی میں گذرا اوریہ  سورما  کبھی حالات اور  زمانے  کا شکوہ  کرتے ہوئے کہتاہے :’’میں اپنے باپ کی طرح چرواہا نہیں بنناچاہتا۔ مجھے فوجیوں کی طرح جنگی لباس پہننا پسند ہے میں چاہتا ہوں کہ گھوڑ ے کی سواری کروں اور  جب لوگوں کے درمیان سے گذروں تو سب میرا احترام کریں ۔‘‘
یا  دوسرے مقام پر مصنف  قاجاری حکومت کے آخری دور میں عوام سے  زبردستی محصو ل اور ٹیکس وصولنے اور خدا وردی کی بغاوت کے اسباب  کے سلسلے میں لکھتے ہیں :’’ایک روز  کچھ  لوگ  نوروز  قہرمان  کے گھر گئے  اور اس کی بیس   بھیڑوں میں سے دس  بھیڑیں زبردستی چھین  لے گئے۔۔۔۔خدا  وردی نے قاجاری ظلم و ستم کے  خلاف قیام  کیا ۔‘‘ اس  کے بعدمحمد ابراہیم خان روشنی سے  آشنائی کے قصے کی طرف اشارہ  کرتے  ہوئے ایک  اور تکراری داستان سے استفادہ کیا ہے ۔ چیتے سے کشتی اور  اس کو پسپا کردینے کی داستان مقامی قصوں میں بارہا  بیان کی جاچکی  ہے جسے مصنف نے  خداوردی  اور  محمد ابراہیم  خان کے درمیان آشنائی کے سلسلے میں  بیان  کیا ہے ۔
 
 
کہانی  کا سورما 
خداوردی  (خدو)شیروان کے تکرمان نامی دیہات کے  کرد  پہلوان  سورماؤں  میں  سے تھا  جو قاجاری حکومت کے آخری زمانے میں محمدابراہیم خان کے سوار لشکر میں شامل ہوا اور اس کے بعد شیروان کا حاکم بن گیا۔مقامی جنگوں اور اپنے حوصلہ کی وجہ سے کچھ ہی عرصہ کے بعداسے ایک بہترین کمانڈر کے طور پر  منتخب کیاگیا اوراس نے شیروان کو اپنے اختیار میں لے لیا ۔لیکن بعد میں فرج اللہ خان (ضیغم الملک) کی مداخلت کی وجہ سے شیروان کے حالات تاج محمد خان کے حق  میں ہوگئے اور اس طرح خدو کو شیروان سے باہر نکال دیا گیا اور وہ اپنے سواروں کے ساتھ سرحدی علاقوں کے اطرا ف میں زندگی گذارنے لگا۔
اس دوران ۱۹۱۷ کا روسی انقلاب رونما ہوتا ہے  اور کمیونیسٹی سرگرمیاں بڑھ جاتی ہیں۔اور عشق آبادی میں خدا وردی کا  تعارف ایک مہاجر ترک کے ذریعہ کہ جس کے یہاں اس کا آناجانا تھا ،عشق   آباد کے  کمیونسٹوں  کی سربرآوردہ شخصیات  سے  ہوتا   ہے۔ روسی    جوپہلے   ہی سے   خدا وردی  کی  بے باکی اور   بہادری  کے بارے میں جانتے تھے،نے اس کا استقبال   کیا  اور اس سے    وعد ہ کیا  کہ اگر   شمالی خراسان میں ایک  کمیونسٹی حکومت   تشکیل دیتا ہے  تو   وہ  اس کی حمایت اور  مدد  کریں  گے۔
لوگاشوا  کے  مطابق    کردی فقیروں    کی  بغاوت کا  آغاز   خدا وردی  کی  رہنمائی میں ہوا جارج  لنچافسکی  (۱۳)کا خیا ل ہے کہ   روسی  حکومت نے  خدو کو خراسان میں   فسادات  کرنے  پر  مامور کیا  تھا اور  اسے   اسلحہ اور  مدد فراہم  کی  تھی ۔اسی  طرح  استاد  توحدی  نے خدو  سردا ر  کی  تحریک کو   کمیونسٹی   قیام   کے نام   سے یاد کرتے ہیں۔ بہرحال    کتاب فرمانروای  جنگ و موسیقی کے مصنف نے  بھی      کمیونسٹوں کے  رہبروں زینوویف کے ساتھ   خدو کے روابط کی  طرف اشارہ  کیا  ہے  اور اس  امر کو  بھی قبول  کیا ہے ۔لیکن ایسا لگتا ہے  کہ اس سلسلہ میں انہیں   کوئی  خدشہ  تھا  جس کی وجہ  سے  انہوں  اس  تاریخی مسئلہ  سے  چشم ہوشی  کرلی  ہے ۔
اور  خدو  کی  اپنے بھائی  اللہ  وردی  کے  ساتھ   مشورہ  کرنے کی   گفتگو کو یوں بیان  کیا ہے:’’میں تمہیں   ایک ایسا  راستہ بتاؤنگا   جس کے ذریعہ ہم لوگ   سارے وسائل کے  ساتھ  خاموشی کے  سے  یہاں سے  نکل  جائیں گے  لیکن   توجہ  رہے  کہ کسی  کو  اس  بات کی  خبر  لگے ۔صرف  میں  اور تم  ہی   اس  بات   سے  باخبر رہیں۔۔۔یہ  روسی  لوگ ہمارے ہی  لوگوں کا   استعمال  کرتے   ہیں  اور  ہمیں ایک دوسرے  کے خلاف  بھڑکاتے ہیں  کیوں  کہ  انمیں  خود تو ہم  سے ٹکر  لینے کی  ہمت  نہیں ہے ۔۔۔ تم  زینوویف  کی  درخواست کو  قبول  کرلو اور  تمام  وسائل کو   اس  سے لو  ۔اگر  ہم   ایک ساتھ ملکر   قدرت حاصل  کرنے میں  کامیاب ہوگئے  تو   پھر ہم روسیوں سے  کوئی واسطہ نہیں  رکھیں گےاور  اپنے راستہ ہوجائیں اور  اور ایسا  ظاہر کریں  کے   ہم  ان کے پروگرام کے   تابع  ہیں  ،جیسے  ہی ہمیں   حکومت اور طاقت مل جائے گی   انہین  پشت  دکھا دیں  گے  کیوں کہ اب  ہمیں  ان کی کوئی ضرورت  نہ ہوگی ۔‘‘
 
دستاویزات  پر  توجہ   نہ  دینے کی   وجہ سے مصنف    فکری   کشمکش کا  شکا ر ہیں اور  خدو  کو    کمیونسٹ  لکھنے  سے  ڈرتے ہیں ۔خدو  کے روسیوں  سے     تعلقات  کے سلسلہ میں  دستاویز  ات     روسیوں  کی  طرف سےمالی  اور  اسلحی  مدد  کی  نشاندہی کرتے ہیں۔افسوس کامقام ہے  کہ فرہادی   صاحب اس   حقیقت  سے چشم  پوشی  کی اور اس  کو  مخفی   رکھنے کی کوشش کی ہے  ۔کیا  یہ  ممکن ہے کہ  ایک  شخص   تھوڑے سے   سوار  سپاہیوں  کے ساتھ  پوری حکومت  سے   ٹکر لےسکے؟مصنف  ،  قاری کے لئے یہ ثابت  کرنے   کی  کوشش کرتے ہیں  خدو کی  تحریک  کمیونسٹی نہیں  تھی۔ بہر  حا  ل  کلیم اللہ  توحدی  کے ذریعہ   شائع  ہونے  والے  دستاویز  خدوکے  کمیونسٹی   ہونے   پر  مہر  تصدیق لگاتے ہیں۔
خدو نے ۱۲۹۸ ش  کی  آخر میں    اپنی حکمرانی کا   مرکزشیروان کے  مشرقی  جنوب  کے   گلیان دیہات   کو  قرار دیا  اور  فوجی  تقویت  کی   وجہ  سے  شمالی   خراسان  میں  ناامنی کا سبب بنا ۔
خدوسردار  کی  گرفتاری  کے سلسلہ میں میرزا  محمد  صارم الملک درہ گز کی   روایت  قابل غور ہے ۔(۱۸) انہوں  اپنی  یادداشتوں میں  جزئی  طور پر اس   موضوع کی  طرف اشارہ کیا ہے ۔اور اس کی نگاہ میں  درہ گز کے  سپاہیوں نے خدو کو   گرفتار کیا تھا ۔   آگے  اپنی  یادداشت میں   محمود  صارم  نے گلیان کے    سخت اور مشکل   راستہ  والے علاقہ  پر  قبضہ ،خدو سردار  کا  گلیان سے فرار کرنے پر مجبورکیا، بجنورد  تک   خدو سردار کا  پیچھا  کیااور اس کو چھوڑ دیا ، سردار  خد و  کو  مشہد   بھگانے کے وقت بجنورد  کی  عوام کا   بغاوت کرنا ،قوچان میں  خدو سردار  کی  گرفتاری  کی   مناسبت سے  طاق  نصرت کا  برپا ہونا  جیسے  اہم  موضو عات کو   بیان  کیا ہے۔ اور  ان  امور  پر   کتاب  فرمانروای جنگ و موسیقی   کے  مصنف  نے کوئی  توجہ نہیں  دی ہے ۔
میرزا محمود  نے آگے اپنی  یادداشت میں  درگز  کے سپاہیوں  کے ذریعہ    خدو سردار اور اس کے بھائی کو   مشہد کے لشکر کے  حوالے کرنے  کی   بات لکھی ہے ۔اور  لکھتے ہیں :’’درگز کی  سوار   خدو سردار کو  مشہد  کو سپرد کرنے پر مامور تھے ۔میں نےمیرزا   جعفر کے ساتھ   دس   سوار سپاہیوں  کو  معین کیا اور   دو  نوں بھائیوں کو  ان  کے حوالے کرکے مشہد بھیج دیا ۔
 
بالآخر کرنل محمد تقی خان  پسیان کے زمانےمیں خدو کوگرفتار کیاگیا اور ۷ تیر ۱۳۰۰ کو موت کی سزا سنا دی گئی ۔خدو سردارکے سپاہیو ں کا انجام  بھی قابل توجہ ہے ۔مصنف نے ان  میں سے منجملہ حسین حاج تارتار، ابراهیم بلشویک، قورخ امیرانلویی کی زندگی کا تجزئیہ کیا ہے اور داستان کو اس طرح ختم کیاہے کہ حسین حاج تار تار، کرنل محمد  تقی پسیان سے خدو کے خون کا بدلہ لینا چاہتا تھا  یہاں تک کہ قوچان کی قشون میں پسیان سے جنگ  کی غرض سے داخل ہوا اور اسی جنگ میں تیر سے پسیان کو قتل کردیا ۔درواقع مصنف کی نگاہ میں پسیان کوخدو کے دوست حسین  حاج تارتار نے   قتل کیاتھا ۔اور تاریخ پر توجہ دیئے بغیر  پسیان کے قتل کی تاریخ مہر   ۱۳۰۰ کے بجائے فروردین لکھ دیاہے ۔
 


حوالہ: سائٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 4429



http://oral-history.ir/?page=post&id=5697