ایک اخبار بیچنے والے کی یادداشتیں

محمود فاضلی
مترجم: جون عابدی

2015-09-21


کتاب ’’خاطرات یک  روزنامہ  فروش‘‘ ایک  اخبار  بیچنے  والے کی  یادداشت، ایران کے بہت ہی قدیمی اخبار  بیچنے والے شخص کی یادداشت پر مشتمل ہے۔

’’ محمد ابراپیم رنجبر‘‘۱۳۰۷ ش کو   صوبہ مازندران کے  شہر بابل میں پیدا ہوئے اور  ۱۳۱۶ ش کو  تہران کی طرف ہجرت کر گئے۔ انہوں نے  اپنے اخبار بیچنے  والے  دوبھائیوں جو  ایک دوسرے کے  پڑوس میں  ہی  رہتے تھے،کی مدد سے پریس اور اخبارات کے میدان میں قدم رکھا۔ رنجبر نے ایرانی  پریس  کی  دنیا  میں ۸۶ سال تک  اخبار بیچنے کا ریکارڈ قایم  کیا  ہے۔ اس کتاب میں    ۱۲۹۹کی بغاوت  سے  ۱۳۵۷ش کے انقلاب  تک کے تاریخ کے واقعات کے سلسلے میں رنجبر صاحب  کی  یادداشت کو تحریر کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں ایران کے  حالات کے ۵۰ سالہ حصے کی  محفوظ اورسالم اطلاعات شامل ہیں۔

یادداشت  کے پیرائے میں لکھی گئی کتابوں  کے باوجود اس قسم کی کتابیں معاشرے کے مختلف طبقات سے متعلق تاریخ نویسی کے لئے بہترین ماخذ ہوسکتی ہیں۔ اس کتاب کے  تجزئیے  کے  ذریعے گذشتہ  دہائیوں میں ایرانی پرنٹ میڈیا کے ارتقا کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس کتاب میں پرنٹ میڈیا اورپریس اور اس کےحاشیوں کو ایک جدید زاویہ نگاہ سے دیکھا  گیا جس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔ یہ کتاب خاص زمانے سے متعلق واقعات اور حادثات سے متعلق  معاشرے  کے عام طبقوں کی نمائندگی میں نظریات پیش کرتی ہے۔ مصنف ایک  نئی  بات پیش کرتے ہیں کہ اس زمانے میں عوام کی  نگاہ میں طباعت اور نشرواشاعت کرنے کا کام  بہت مشکل تھا۔

غلام رضا امیر خانی، ایران کے قومی کتاب خانے اور دستاویزات کے ادارے کے معاون، کتاب ’’خاطرات یک روز نامہ فروش‘‘کی تنقید و تجزئیے کی تقریب کے موقع پر تاکید کرتے ہیں:’’ کچھ سال قبل جب میری ملاقات رنجبر صاحب سے ہوئی تھی تو انہوں نے  ۱۲۹۹ سے  ۱۳۵۷ تک   کے واقعات کے سلسلے میں اپنی یادداشت کے بارے میں  مجھے بتایا  تھا۔ اور مجھے یہ بات  بہت دلچسپ لگی اور میں چاہتا تھا کہ یہ مطالب کتابی شکل میں منطر عام پر آئیں۔ یہ کتاب شاید پہلی کتاب ہو جسمیں ایرانی پرنٹ میڈیا کی تاریخ کے بعض حصوں کو اس خوش اسلوبی  سے پیش کیاگیاہو۔ اس کتاب ’’خاطرات یک روزنامہ فروش‘‘ کے مواد مکمل طور پر جدید اور بے نظیر ہیں اور کتاب کے مواد کے علاوہ اس کی جلد کی پشت  پر دی  گئی  تصاویر  بھی مکمل طور پر  واضح اور نمایاں ہیں۔ کیونکہ ان تصویروں کو میں نے اب سے پہلے کہیں نہیں دیکھا تھا ۔اس کتاب کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کی اطلاعات کا ماخذ خود راوی ہے جس کا پہلے  سے یہ قصدہی نہیں تھا کہ اس نسل کے  قارئین  کو یہ بتائےکہ اس زمانے میں  بھی خط و کتابت میں تاریخ  نامہ  لکھنے کا  رواج  تھا، اس کتاب کے دستاویزی پہلو بھی اس کی اہمیت میں چار چاند لگاتے ہیں۔ اس کتاب کے مواد اس کی سند کے ساتھ با آسانی مدغم ہوجاتے ہیں اور یہ امر اس کی اہمیت کو دوبالا کردیتا ہے۔ اور دوسرا نکتہ یہ ہےکہ یہ کتاب معاشرے کے ایک   پسماندہ طبقے سے متعلق شخص کے بارے میں لکھی گئی ہے۔ کتاب’’خاطرات یک روزنامہ  فروش‘‘ ایک ایسی کتاب ہے جو  معاشرے کے پسماندہ طبقے کی زندگی کے سلسلے میں گفتگو کرتی ہے ۔ اور ہمارے ملک میں یہ  مسئلہ بہت کم حیثیت رکھتا ہے ‘‘

فتح اللہ  جوادی  آملی رسالہ  ’’اطلاعات  ہفتگی‘‘ کے ایڈیٹر، نے بھی اس کتاب کی کیفیت کے سلسلے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: جس روز جناب رنجبر صاحب رسالہ ’’اطلاعات  ہفتگی‘‘ کے   دفتر  میں  تشریف لائے  اور۱۲۹۹ سے ۱۳۵۷ کے واقعات کو  ہمارے سامنے  بیان  کیا تھا  اسی  وقت میرے ذہن میں آیا کہ یہ یادداشت ایک  قیمتی کتا ب کی صورت میں  شائع  ہوسکتی ہیں ۔ کیوں کہ واقعی بے نظیر ہیں۔ اسی مقصد کے  تحت ہم نے رسالہ ’’اطلاعات  ہفتگی‘‘ میں شائع ہونے والی ان یادداشت کو جمع کیا اور کتاب کی صورت میں شائع  کردیا۔ اس کتاب کے  مواد بالکل جدید اور نئے ہیں۔ کیونکہ عام طور سےکتابنویسی کی دنیا میں مصنفین  اپنے  آپکو معاشرے کا اعلی طبقہ شمار کرتے  ہیں یا مواد ادھر ادھر سے نقل کرلیتے ہیں۔ اس  لحاظ سے اس کتاب کا کوئی بدیل و نظیر نہیں ہے۔ ہماری کتابی دنیا میں، زبانی  تاریخ کو بیان  کرنے والی کتابیں بہت ہی کم ہیں۔ چنانچہ ہم اس نتیجہ پر پہونچے کہ ایک ایسی کتاب شائع کرنا کہ جو ایسے شخص کے نظریے کے مطابق ہو جس کا تعلق معاشرے کے پسماندہ طبقہ  سے ہو اور اس نے اس معاشرے کے قلب میں رہ کر  زندگی گزاری ہو اور ان واقعات کو قریب سے دیکھا ہو، بہت ہی مفید ثابت ہوگا۔ یہ کتاب جدید زاویے سے ہمیں اپنے ملک کی عصری تاریخ سےآشنا کرتی ہے۔ کتاب’’خاطرات یک روز نامہ  فروش‘‘ ایک قیمتی اور بے نظیر کتاب ہے۔ اور  یہ اس صورت میں سامنے آئی ہے جب ہم کو اس میدان میں شدت سے کسی جدت اور نئے پن کی ضرورت تھی ‘‘

غلام رضا امیر خانی، ایران کے قومی کتاب خانے اور دستاویزات کے ادارے کے معاون کا خیال ہے:’’ کچھ سال قبل جب میری ملاقات رنجبر صاحب سے ہوئی  تھی  تو  انہوں  نے  ۱۲۹۹ سے  ۱۳۵۷ تک کے  واقعاات کے سلسلے میں اپنی یادداشت کے بارے میں مجھے بتایا تھا اور مجھے یہ بات بہت دلچسپ لگی۔ میں اس بات کی طرف متوجہ ہوا کہ یہ شخص ایران میں اخبار فروشی کے سلسلہ میں  چھوٹے  بڑے دلچسپ واقعات کی یاددو ں کا خزانہ ہے۔ اسی لئے میری خواہش تھی کہ اس یادداشت کو کتاب کی صورت میں شائع ہونے کے وسائل فراہم ہوجائیں۔ کتاب ’’خاطرات یک روزنامہ فروش‘‘کے  مواد بالکل نئے اورمحفوظ  ہیں۔ یہ کتاب ایسے  مطالب کو شامل ہے جو شاید اس سے  پہلے کہیں بھی بیان نہیں ہوئے ہین ‘‘۔

ابوالقاسم غلامی، دفتر خط و کتاب اور آئین کتاب نویسی کے استاد: ابراہیم رنجبر کے بارے میں کہتے ہیں: ’’یقینا ا ن کے  اندر ایک عشق پوشیدہ تھااور جہاں عشق ہوگا وہاں خوشی ہوگی اور جہاں خوشی ہوگی وہی جنت ہے لھٰذا یہ جنت اس  اخبار بیچنے  والے کے دل  میں  ہے ۔‘‘

محمد  ابراہیم  رنجبر امیری، اپنی یادداشت کو یوں نقل کرتے ہیں: ’’۱۴سال قبل اخبار  اطلاعات کے آفس  میں اپنے ایک  قدیمی دوست سے  ملنے کی غرض  سے گیا تھا۔ جیسے ہی کمرے میں  قدم رکھا  وہاں  ایک  عالم  دین  بیٹھے ہوئےانہوں مجھ بوڑھے شخص کو دیکھا اور فورا اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور میرے پاس  آگئے اور پوچھا:’’چچا؛کیا  کسی کو  ڈھونڈ رہے ہیں؟ میں نے ان سے کہا :’’میرا ایک دوست یہاں (اخبار اطلاعات) میں کام کرتاہے اور میں  خود  بھی اخبار بیچتاہوں۔ انہوں نے  مجھ سے پوچھا  :’’۲۸ مرداد سے متعلق آپ کو کچھ یاد ہے۔ میں نے کہا  بہت  کچھ یاد ہے  اور انہیں اس بارے میں بتانے لگا۔اور انہوں نے  ایک شخص سے کہا کہ ان  صاحب کو لے جاؤ اور جو کچھ رہے ہیں  اس کو  نوٹ کر لو۔میں اس  روز  سے مصنف  ہوگیا اور  جو کچھ اس کتاب ’’خاطرات یک   روزنامہ فروش‘‘میں  ہے وہ اسی کا نتیجہ  ہے ۔کسی  کی  اگر کوئی چیز اس  دنیا میں باقی رہ جاتی ہے  تو وہ اس کی کتاب ہے ،اسی لئے میں  نے اپنی  یادداشت کو لکھنا شروع کیا اور اس کو  کتاب کی شکل دےدی ۔اور چونکہ یہ میری پہلی کتاب ہے اس  لئے  اس میں قابل اعراض چیزیں زیادہ ہوں گی انشا اللہ دوسری، تیسری  کتابوں  میں یہ نقائص برطرف ہوجائیں گے۔‘‘

ملک کا سب سے قدیم اخبار یوں نقل  کرتا ہے :’’۱۳۱۶ ش سے میں نے  لالہ  زار روڈ کی  ایک گلی  میں اخبارو جریدے تقسیم کرنے کا  کام شروع کیا۔ اس گلی کا نام  ’’بہار ‘‘تھالیکن  وہاں اس قدر اخبارات اور جریدے  تقسیم کئے  جاتے تھے کہ  اس کا  نام   ’’کوچہ توزیع  جرائد‘‘اخبا ر تقسیم  کرنے والی گلی، پڑگیا۔ اس وقت میں ایک  اخبار بیچنے والے کا  شاگرد تھا اور ہر روز  ایک قران مثلا ایک روپئے، لیتا تھا۔ ۲۰ شہریور تک کئی اخبارات شائع ہونے لگے۔لیکن اصلی اخبار  شام کاایک اخبار یا یہی اخبار’’اطلاعات ‘‘تھا۔ اور اس کے  بعد «تجدد ایران»، «ایران»، «مهر ایران» و مجلہ«حیات»جیسے اخبارات  بھی شائع ہونے لگے۔جیسا کہ  عرض  کیا  میں نے جیسے ہی کام  شروع کیا  اخباروں کی  تعداد  بڑھ گئی  اور میری  روٹی بھی گھی  میں تر ہونے  لگی۔‘‘

وہ اس زمانے میں  روزانہ چھپنے  والے اخباروں کے لانے لیجانے کے وسائل کے سلسلے میں  یوں کہتے  ہیں:’’ہمیں کسی  وسیلے کی ضرورت نہیں تھی، اخبارو ں کے بنٖڈل کو بغل  میں دباتے تھے اور بانٹنا شروع کردیتے  تھے۔اس وقت آخر  تہران  کتنا  بڑا ہوگا؟ دروازہ دولت سے اس طرف صرف بیابان  تھا ۔ امجدیہ سوئمنگ پول جو  شیرودی اسٹیڈیم  ہوگیا ہے،شہر کا  مرکز تھا ۔ اس وقت  پورا  شہر دو کلومیٹر میں تھا۔کبھی کبھی گدھے پر بیٹھ کر جاتے اور اخبار بیچ آتے تھے۔ اس  وقت پورے تہران میں کل اٹھارہ اخبار بیچنے والے تھے۔ اس وقت تہران مین  ۴۔۵ سڑکوں سے زیادہ نہیں تھیں؛ ایک سپہ روڈ تھی اورایک شاہ  روڈ۔ اور سعدی، فردوسی، لاله‌زار و ناصرخسرو، بوذرجمہری اور شوش نامی روڈیں بھی تھیں ۔ اس زمانہ میں میرے پاس کیوسک  ،کھوکھا نہیں تھا ۔ میں کسی بھی طرح سے اخباروں  کو  اپنے بغل میں دبا کر بیچا کرتا تھا ۔

وہ  اپنی یادداشت میں قوام  السلطنہ کے  زمانہ میں چھٹیوں کے دنوں کے کھلے ہوئے اخباروں کے  بارے میں یوں لکھتے ہیں: ’’وہ بہت عجیب دور تھا۔ ابھی تو میرے ذہن میں نہیں آرہا ہے لیکن  میں نے  ۱۳۲۵ کے  اخبارات کی یادداشت کو «روزنامہ فروش‌ہای  اونیفورم پوش»یعنی یونیفارم پہنے والےا خبار  فروش،نامی  مضمون   میں تحریر  کیا ہے ۔یہ  یادداشت  قوام السلطنہ  کے زمانہ سے مربوط ہے ۔ایک ڈیموکریٹک  اخبار شائع ہونا شروع  ہوا تھا جس کے مینیجر مظفر  فیروز  تھے، انہوں  ۳۰ اخبار  بیچنے والوں کو  رکھا تھااور وہ سب  یونی فارم پہنتے  تھے۔ اس وقت مجھے یاد نہیں آرہا ہے۔ آپ وہیں سے پڑھ لیجئے  گا۔۔۔ لیکن ڈاکٹر حسین فاطمی مجھے  بخوبی یاد ہے۔ وہ فرانس سے صحافت کے موضوع پر گریجوئیشن کرنے  کے بعد  ڈگری لیکر ایران واپس آیا  تھا۔ اور فورا  محمد مسعود کے پاس آیا اور’’مرد امروز‘‘ میں کام کرنے لگا۔ ڈاکٹر فاطمی اورمحمد مسعود بھی بہت  مدد کرتے  تھے۔


حوالہ: سائٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 4198



http://oral-history.ir/?page=post&id=5696