سیاسی قیدیوں کی یادوں میں عید نوروز

محمود فاضلی
مترجم: سید محمد روح اللہ

2015-09-19


اشارہ:
ایران کی تاریخ قربانیوں،  آزادی، استقلال اور عدالت کے استقرار کے لئے مردوں اور عورتوں کی استقامت، اور  قید و بند سے بھری پڑی ہے۔ ایسے مرد و عورتیں کہ جنہوں نے پھلوی حکومت کے تمام ادوار میں اپنی زندگی کے بھترین دن زندان اور جیلوں میں گزارے اسی طرح کئی عید نوروز اپنے خاندان سے دور اور ساواک کے درندوں کے ساتھ گزاریں۔  گرچہ جیلوں میں "سبزه، سمنو، سیر، سیب، سماق، سرکه، سنبل و سکه”  وغیرہ موجود نہیں تھے لیکن ھر ایک سین کی یاد "پیدائش دیگر، نئی زندگی، عشق، خوبصورتی و سالمتی، طلوع سورج کا رنگ، صبر و عقل، بھار کی آمد " کی نشانگر تھی۔ پھلوی دور میں قیدی کمترین امکانات کے ساتھ بھار کی آمد کا جشن مناتے تاکہ بتادیں کہ موسم سرما کا اختتام  ہوچکا ہے۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد خاص شرائط میں پیش آنے والے ان قیدیوں کے مختلف گروہوں کے قصہ و واقعات قلمبند کیے گئے جو اس دور کے تلخ و شیریں ایام کی یادگار ہیں۔

 

نوروز واقعی ایک نیا دن تھا۔۔۔
حزب تودہ کے ایک قدیمی قیدی محمد علی عمویی  ۱۳۴۰ ھجری شمسی کے نوروز پر پیش آنے والی اہنی ایک داستان کو یوں بیان کرتے ہیں: "قیدیوں کو اجازت دی گئی کے انکے چھوٹے بچے نوروز کا جشن اپنے والد کے ساتھ زندان میں گزارسکتے ہیں۔ جیل میں گذشتہ سے مختلف ہلچل مچی ہوئی تھی۔ اس سال جشن کا اپنا ہی ایک مزہ تھا، بچوں کی موجودگی نے تمام روایتی پروگراموں کو خاک میں ملادیا تھا۔ ضروری تھا کہ چسن کا پروگرام بچوں کے لئے اور انکے شوق و رگبت کے مطابق طے کیا جاتا۔ پورے جیل میں خوشحالی و حیات جلوہ گر تھی۔ بچہ ایک ایک کرکے یا گروہ کی صورت میں لائے جارہے تھے، انکے والد انکے استقبال کے لئے جاتے اور پیار کرکے گود میں اٹھاتے اور پھر دیگر افراد آگے بڑھ کر بچوں سے، جو حیرت کے ساتھ جیل کی سلاخوں اور بلڈنگ کو تک رہے تھے، نوازش سے پیش آتے۔ نوروز واقعی ایک نیا دن تھا و جیل کے برامدے خوبصورت اور یادوں میں بس جانے والے اور انسان کے لئے باعث لذت اور عشو و محبت کی تجلی پیش کررہے تھے۔ قیدی لمبے عرصے بعد اپنے بچوں کی محبت کی مٹھاس کے مزہ لےرہے تھے۔


عمویی سال ۱۳۴۶ کے نوروز کو اسطرح لکھتے ہیں: "جشن نوروز منانا، ایک گرماگرم موضوع ہے۔ بھار کی مطلوب، آرامدہ اور لذت بھری ہوائیں اور اس سے بڑھ کر اپنے جیسے افراد سے ملنا اور ۴ نمبر کے قیدیوں کے دوستانہ نے، مل کر ایک پروگرام ترتیب دینے کی لگن کو مزید تقویت بخشی تھی۔ تحریک کے بعض احباب اسی فکر میں رہتے تھے۔ آقائے طالقانی کی تائیید کام تمام کردتی تھی۔ گھر والے ہماری نیاز و ضرورت سے زیادہ پھل اور مٹھائی وغیرہ لے آئے۔ نئے سال کی پہلی دوپہر کا کھانا عمومی ہوتا اور باھر ست لایا جاتا۔ جیلر سے درخواست کی کہ چھوٹے بچوں کو جیل میں آنے دیا جائے تاکہ اس جشن میں انکی شرکت انکے بزرگوں کے لئے خوشی کا باعث بنے۔ قصر جیل کے سربراہ کی رضیات کی خبر، کسی قسم کا سیاسی مظاھرہ سے پرھیز اور جیل کے قوانین کی پابندی کی شرط کے ساتھ، قیدیوں تک پہنچ گئی۔ روایتی اور رسمی پروگرام جیل کے برامدے میں ہوا۔ برامدے کے وسط میں ایک میش پر مختلف پھل اور مٹھائیاں اور ھفت سین کا دسترخوان سجا ہوا تھا۔ آقائے طالقانی چند جملوں میں مبارکباد دیتے اور گلے ملتے۔"


عمویی ۱۳۵۴ کے نوروز کا ایک مختلف تجربہ رکھتے ہیں: "۵۱ کی خزاں سے عادل آباد کے زندان میں منتقل کردیا گیا تھا، صرف ایک بار نوروز کے جشن کے مزہ اڑائے۔ بعض کمروں میں ہلکی پھلکی ہلچل مچی اور گندم کے بونے سے سبزہ پھوٹنا شروع ہوئے۔ کمروں کے دروازے ابھی تک بند تھے۔ مجبورا سب ایک دوسرے سے جدا نوروز کی رسمیں اور سال کی تبدیلی منارہے تھے۔ لیکن اس سال گرچہ بعض کمروں کے دروازے بند ہیں، امکانات زیادہ اور پلیس والوں کا کردار کافی دوستانہ ہے۔ ہمارے علاوہ بعض افراد نوروز کے استقبال میں باھر نکلے اور سبزہ بنانا شروع کیا۔ تعجب کے ساتھ دیکھا کہ تولے نہیں لگے۔ باقی کمرے بھی اب بند نہیں رہے۔ بعض احباب ہمارے کمرے میں آئے دروازے کھول دیے گئے اور ۲ سال کے بعد ایک دوسرے کے کمروں میں آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہوا۔ محب و اشتیاق کے ساتھ ایک دوسرے سے ملنا ناقابل بیان ہے۔ صرف یہی آزادی کے ساتھ  آمد و رفت کا ممکن ہونا ایک بہت اہم کامیابی سمجھی جاتی۔"

 

ہم نے خود جشن منایا۔۔۔
سید محمد مھدی جعفری، جو ایک لکھاری، مترجم، دینی امور کے ماھر اور ۱۳۴۲ و ۱۳۴۳ کے پھلوی دور میں تحریک آزادی ایران کے سربراہوں کے ساتھ عدالت کے حکم پر ۴ سال کے لئے قید جھیلنے والے، اپنا ۱۳۴۶ کا ایک واقعہ یوں بیان فرماتے ہیں: " اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ ۱۳۴۵ کے اسفند کی ۱۴ تاریخ کو ڈاکٹر مصدق چل بسے اور جشن نوروز کا سامنا ملت ایران کے سر سے باپ کا سایہ اٹھنے سے ہوا۔ اس بنیاد پر جیل بعض افراد سے تلخ کلامی کی بنیاد پر غم و غصہ کے علاوہ اعلان کیا کہ اس سال ہم اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کو نہیں جائینگے۔ ۱۳۴۶ کے نوروز پر جیل کے سربراہوں کی جانب سے یہ اعلان ہوا کہ گذشتہ برسوں کے برخلاف جو ملاقات آزاد فضا میں روبرو ہوا کرت تھی اس سال سلاخوں کے پیچھے سے ہوگی۔ ہم پھر غصہ ہوئے اور ملاقات کو نہیں گئے۔ یہ کام ہم لوگوں کے آپس میں مضبوط تعلقات کا باعث بنا۔ اس کے بدلے ہم نے خود آپس میں جشن منایا۔ اینجینئر بازرگان اور محمد جواد حجتی صاحب نے اس جشن سے خطاب کیا۔ میں نے بھی فرخی سیستانی کے شعر اس محفل میں پڑھے۔"
 

ہر کوئی ایک مٹھائی اٹھالے۔۔۔
مھین محتاج  اپنے ۱۳۵۵ کے نوروز کا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں: "جمعہ کا دن تھا، دوپہر کت کھانے کے بعد عید کا وقت ہوگیا۔ جیل کے سیل زیادہ روشن نہیں تھے اور باھر کی ھوا ابرآلود لگ رہی تھی۔ کھانا کھایا تھا کہ تھوڑی دیر بعد ایک محافظ نے دروازہ کھولا اور ایک پیالہ آگے کرکے بولا ایک ایک مٹھائی اٹھا لیں، عید ہوگئی ہے اور سب کو ایک ایک خشک مٹھائی پکڑادی۔۔۔ سال ۵۵ کے فروردین کا پہلا دن تھا۔ میرا دماغ جیل سے باھر کی زندگی میں تھا۔ پچھلے سال کی عید، عید کے دن تھران میں تھے اور اسکے بعد طاھر کے ساتھ ھمدان چلے گئے۔۔۔ وہاں کا موسم تر و تازہ تھا۔ ہر جگہ پھول و پودوں کی خوشبو سے معطر تھی۔ طبیعت کی بو ہمدان میں سونگھی جائے، سرد ہوا کا جھونکا گندم کے کھیتوں اور درختوں کے پتوں کی صدا دیتا رہا۔ میں تازہ اور رنگارنگ پھولوں سے گل دستہ بنا رہا تھا۔"

 

نوروز کی خوشی دوبالا ہوگئی۔۔۔
مھدی غنی، انقلاب سے قبل کے جنگجو افراد میں سے ہیں، اپنا نوروز کے دن کا ایک قصہ اس طرح لکھتے ہیں: "۵۷ کا نوروز بادشاھت کے دور کی جیل کی محرک ترین داستانوں میں سے ایک ہے۔ کسی کو نہیں معلوم تھا کہ یہ آخری عید نوروز ہے جو پھلوی خاندان ایران پر حکومت کررہا ہے، لیکن عوام اور حکومت کے درمیان پچھلے سال کے آخری دنوں میں کشیدگی اپنے عوج پر پہنچ گئی تھی اور ہر روز ایک نئے مرحلے میں داخل ہورہی تھی۔ اس دوران ۲۹ دن قیدیوں کی بھوک ہڑتال ایک خاص اہمیت کی حامل ہوئی۔ ۱۳۵۶ کے اسفند کے مہینے میں قیدیوں نے اپنے مطالبات کے لئے جو کہ قیدیوں کے بنیادی حقوق کا حصول تھے جیسے بلاواسطہ ملاقات، اخبار اور ریڈیو وغیرہ۔۔۔ بھوک ہڑتال کردی۔ یہ ہڑتال نوروز کے دنوں تک چلی اور ۲۲ دنوں کے بعد مزید شدت اختیار کرگئی اور قیدیوں نے تمام غذاوں کا بائکاٹ کردیا حتی پانی پینے سے بھی انکار کردیا۔  ان دنوں پلیس اور ساواک کے ایجنٹ جاسوسی کرتے پھرتے تھے اور اس ہڑتال کو ختم کرنے کے تمام حربے اور سازشیں انجام دے رہے تھے۔ لیکن قیدیوں کی مقاومت سے زیادہ اہمیت انکی ماوں جیل سے باھر مسلسل کوششوں کی تھی۔ انہوں نے نوروز کو جشن کو خود پر حرام کردیا تھا اور گروہ گروہ کرکے مراجعین کے گھروں پر جاتیں یا سڑکوں کے دمیان بیٹھ جاتیں اور لوگوں سے مدد کا تقاضا کرتیں کہ ہمارے بچے موت کی حالت میں ہیں۔ انہوں نے عید نوروز اور ہفت سین کو اپنی یادوں سے محو کردیا تھا اور صرف اس فکر میں تھے کہ کہیں سے قیدیوں میں سے کسی کے مرنے کی خبر لیک ہوجائے۔ ان ماوں نے ۵۷ کے نوروز کے دنوں میں ڈاک، ٹیلیگرام اور فیکس وغیرہ کے ذریعے شاہ سے رابطہ کیا اور اسے دھمکی دی کہ اگر انکے بچوں کو کچھ ہوا تو تمہاری نیند حرام کردیں گے۔ بعض ماوں نے قصر جیل کے آگے دھرنا دیا ہوا تھا۔ بلآخر ایک طرف سے قیدیوں کی مقاومت اور دوسری طرف سے ماوں کی جد و جھد نے ساواک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور قیدیوں سے مزاکرات کے بعد انکے مطالبات تسلیم کرلئے گئے اور ۲۹ دن کے بعد بھوک ہڑتال اپنے اختتام کو پہنچی۔ مائیں، جنہوں نے عید نوروز کو خود پر حرام کیا ہوا تھا، یہ خبر سننے کے بعد لوگوں میں مٹھائی تقسیم کرنے لگیں اور قصر جیل کے سامنے نوروز کا جشن منایا۔ اس طرح نوروز نوروز کی خوشیاں دوبالا ہوگئیں۔"

 

تم کو عیدی دینا چاہتا ہوں۔۔۔
آیت اللہ ھاشمی رفسنجانی اپنی عید نوروز کی ایک داستان کو یوں نقل کرتے ہیں کہ: "ایک دفعہ ایک بندہ آیا اور کہا: میں چاہتا ہوں کہ تم کو عیدی دوں اور تم بھی مجھے ایک عیدی دو، عیدی جو میں تمہیں دونگا وہ تمہاری جیل سے آزادی ہے، اور عیدی جو تم مجھے دو گے وہ یہ ہے کہ ان دہشتگردوں کو جڑ سے اکھاڑنے میں ہماری مدد کرو اور انکی خبریں ہمیں دو۔ میں کیونکہ سن چکا تھا کہ آقائے حکیم اس معاملے میں پڑے ہیں اور طے ہوا ہے کہ مجھے آزاد کردیا جائے اور میں ایک بری سپورٹ رکھتا ہوں، سیدھا کھڑا ہوا اور سخت انداز میں کہا: تم جلاد ہو، یہ کیا طریقہ ہے جو تم نے میرے ساتھ انجام دیا ؟ وہ پلٹا اور کہا: تم سمجھتے ہو کہ ہم آقائے حکیم یا دیگر افراد سے ڈرتے ہیں ؟ دوبارہ میرے لئے ایک پلان بنایا گیا اور پھر سخت اذیت میں رکھا گیا۔"

 

تازگی اور بھار کی حس کو زندہ کردیا۔۔۔
طاھرہ سجادی نوروز کے دنوں کا اپنا ایک واقعہ یوں بیان کرتی ہیں: "میں نے کل ۳، ۴ عیدیں جیل میں گزاری ہیں، ایک مشترکہ جیل میں اور باقی اوین جیل میں تھی۔ زیادہ اذیت اور ظلم و ستم عمومی جیل میں تھا۔ عید کے دنوں میں عمومی جیل کافی حد تک خالی ہوجاتا تھا، ٹارچر کی کی آوازیں کم آتی تھیں کیونکہ اکثر تفتیش والے افراد چھٹیوں پر چلے جاتے تھے اور جو باقی بچتے تھے وہ نسبتا کم ظلم و ستم کرتے تھے۔ اس جیل میں ہماری عید یہ تھی کہ ہمیں ایک دفعہ ملاقات کی اجازت مل جاتی۔ مشترکہ جیل اور اوین یا قصر کی عید کا ماحول بہت مختلف تھا۔ مثال کے طور پر مشترکہ جیل کی فضا گھٹی گھٹی تھی، جیل سے باہر کی خبر ہونا محال تھا لیکن اوین میں درختوں کی ٹہنیاں اور پرندوں کو جو بھار کے آنے کی اطلاع دیا کرتے، انکا ملاحظہ کیا جاسکتا تھا۔ خمیر ہوئی روٹی اور اپنے لعاب سے چھوٹے سے جھاز یا پھول وغیرہ بناتے تھے، مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ایک میں نے گلدستہ بنایا تھا جس نے میرے اندر تازگی اور بھار کی حس کو زندہ کردیا۔ جو کچھ اسوقت بنایا تھا اب کچھ بھی باقی نہیں۔"
انہوں نے اس سوال کا کہ "کیا ایک دوسرے کو عیدی دیتے تھے ؟" جواب دیا: "معمولا جب کوئی ملاقات کے کئے لایا جاتا تو وہی بنائے ہوئے چھوٹے سے جھاز اور اسی طرح کی چیزیں یا کچھ پینٹنگ وغیرہ جو اوین میں بناتی تھی، عیدی اور ھدیہ کے طور پر انکو دے دیتی تھی۔ ان چیزوں پر رنگ کرنے کے لئے جو آٹے یا خمیر روٹی وغیرہ سے بناتی تھی ان رنگ برنگی دواوں اور گولیوں کا استعمال کرتی تھی۔ اوین میں کیونکہ آزادی زیادہ تھی تو پینٹنگ کرتی تھی۔ البتہ یہ پینٹنگز بہت ہی شروعات کی تھیں اور سادہ تھیں جن میں سے بعض کو ان دنوں کی یادگار کے طور پر محفوظ کرلیا گیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب اوین میں تھیں خصوصا ۱۳۵۷ کڑھائی بھی شروع کی تھی جس میں سے ایک میں نے اپنی بھانجی کو دی۔ ۵۶ میں پہلی بار ہم سے کہا گیا کہ:"آپ اپنے گھروالوں کو خط لکھ سکتی ہیں۔" کافی عرصے کتابوں سے دوررہنے کی بنا پر اکثر الفاظ ذھن سے مٹ چکے تھے، آہستہ آہستہ کتاب پڑھنے کی اجازت ملی اور الفاظ یاد آتے گئے اور پھر احباب کو خط میں اپنے دل کی کیفیت بتانے کے قابل ہوگئی۔ ابھی بھی وہ خط میرے پاس موجود ہیں۔ جب بھی کسی وقت ان خطوط میں سے کسی کو دیکھتی ہوں تو یاد آتا ہے کہ بعض وہ چیزیں جو میں جیل میں بھار اور عید کی علامت کے طور پر بناتی تھی  انکے بارے میں دوستوں یا گھر والوں کو بتاتی تھی۔ ابھی تک اس کبور کی یاد کی جھلک جس نے جیل کی کھڑکی کے کونے پر ایک گھونسلہ بنایا ہوا تھا، صبح کے وقت مرغے کی اذان اور یہاں تک کہ سورج کی چمکتی شعاوں کا کھڑکی سے جیل میں آنا بھی میرے ذھن میں موجود ہے، یہی چیزیں مجھے خوشی اور امید دیتی ہیں۔ اس وقت کہ جب جیل میں تھی ان چھوٹی چھوٹی اور دل کو چھو جانے والی یادوں کو محسوس کرتی، امید اور خوشی کا احساس کرتی تھی۔"



وہ سال کی تبدیلی کے وقت پہنچ جائے۔۔۔
محسن چینی فروشان جو انقلاب سے قبل کے ایک سیاسی قیدی ہیں سال کے پہلے دن کی اپنی ایک یاد کو یوں نقل کرتے ہیں: "اپنے اپنے سیلز میں سال کی تبدیلی کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ ابھی۱۳۵۴ کے شروع ہونے میں ۴ گھنٹے باقی تھے اچانک میرے سیل کا دروازہ کھلا۔ محافظ دروازہ پر کھڑا مجھے دیکھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر خاموشی کے بعد بولا "کھڑے ہو، تفتیش کے لئے جانا ہے۔"   اس وقت کسی قسم کی تفتیش کی امید نہیں تھی۔ جب محافظ کے ساتھ جارہا تھا تو اسی فکر میں تھا کہ کیا اہم مسئلہ پیش آیا ہے کہ یہ عید کی شب میں بھی مجھے نہیں چھوڑ رہے۔ کمرہ میں داخل ہوتے ہی اپنے بھائی کو دیکھا جو ایک کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ محافظ جو کمرہ میں کیٹ واک کرتا پھر رہا تھا میری طرف رخ کرکے بولا: "اچھی طرح دیکھ لو! یہ تمھارا بھائی ابھی گھر جارہا ہے۔ جی، اسے آزاد کررہے ہیں۔ کیونکہ اسنے انسان کے بچوں کی طرح بیٹھ کر تمام باتیں بتادی ہیں۔ تقریبا ایک گھنٹے بعد گھر والوں کے ساتھ ہفت سین دسترخوان پر بیٹھے ہوگا، ماں باپ کے ساتھ۔ لیکن تم بیچارہ بدبخت ابھی تک ہمارے مھمان ہو۔۔۔" وہ اسی طرح اپنی گندی زبان سے میری تحقیر کرتا رہا۔ اس وقت کمرہ میں عجیب فضا چھا گئی تھی اور میں اس فضاء کے زیر اثر آگیا تھا۔ تفتیش کرنے والے نے اپنی آخری کوشش کی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ اس سخت مرحلے پر میرے جزبات سے کھیلے۔ کچھ منٹ کی باتوں کے بعد میرے نزدیک آیا اور کہا: "اگر چاہو تو اپنے بھائی کو الوداع کرسکتے ہو، جلدی کرو تاکہ وہ گھر جائے اور سال کی تبدیلی کے وقت گھر پہنچ جائے۔" میں کرسی سے کھڑا ہوا اور اپنے بھائی کے گلے سے لگ گیا۔"



مجید قرآن پڑھو!
مسعود ستودہ جو انقلاب سے قبل کے جنگجو ہیں ۱۳۵۳ کی عید نوروز زندان میں منانے کی داستان یوں بیان کرتے ہیں: "عید کی رات آگئی تھی۔ ہم نے پہلے سے ایک پروگرام ترتیب دیا ہوا تھا۔ کچھ پھل وغیرہ لے آئے تھے اور اپنے سیل کے بیچ میں رکھ دیے تھے۔ یہ پھل کچھ دن قبل آنے والے ملاقاتی لے آئے تھے اور ہم نے آج کی رات کے لیے سنبھال کر رکھ دیے تھے۔ سال کی تبدیلی کے وقت جیل کے سپیکرز سے رضا شاہ کی تقریر نشر ہوئی۔ جیل کے اسٹاف یہ عمل نفسیاتی جنگ کا باعث بنا۔ ہم نے ایسا کام کرنا تھا کہ ہمیشہ کی طرح اپنی موجودیت کا زیادہ سے زیادہ ثبوت دیں۔ میں مجید کسے مخاطب ہوا اور کہا کہ :"مجید قرآن پڑھو!" وہ جیسے میرے کہنے کا انتظار کررہا تھا پوچھا :"کونسی سورہ ؟" میں نے جان بوجھ کر کہا :"الم ترکیف۔۔۔پڑھو" اسنے اپنی خوبصورت آواز کے ساتھ تلاوت شروع کی، اتنی دلنشین آواز تھی کہ سب کو اپنے زیر اثر لے لیا۔ اچانک دو بندے اندر آئے تاکہ اس پروگرام کو روکیں لیکن پم نے بغیر کسی کی پروہ کیے اپنا پلان جاری رکھا۔ یہ دو افراد جب اندر آئے تو زرا سی دیر میں خود بھی اس پروگرام کے تحت تاثیر آگئے اور کسی قسم کی مخالفت نہیں کی۔ قرآن کی تلاوت کے بعد رسمی طور پر ایگ دوسرے کے گلے ملے اور مبارک باد پیش کی۔"



عید کا پہلے دن گھروالے کھانے لیکر آئے۔۔۔
عاطفہ جعفری جو داھنے بازو والے قیدیوں میں سے ہیں انقلاب سے قبل ۵۲ کے نوروز کی ایک آپ بیتی یوں بیان کرتی ہیں: "عید کے نزدیک گھر والوں سے سنا کہ مرد قیدیوں نے بلاواسطہ ملاقات کی درخواست دی ہے۔ ہم بھی بحث کے بعد اس نتیجہ پرپہنچے کہ ایک نامہ اپنے نمائندہ کی جانب سے جیل کے سربراہ کو لکھا جائے اور بلاواسطہ ملاقات کی اجازت طلب کی جائے اور اگر ہمارا یہ مطالبہ پورا نہیں ہوا تو بھوک ہڑتال کریں گے۔ اس زمانے میں جیل میں سختی تھوڑی کم تھی۔ بلآخر ہمیں عید کے ۵ دنوں میں بلاواسطہ ملاقات کی اجزت مل گئی۔ پہلے دن گھر والے طرح طرح کے کھانے کے ساتھ ملاقات کے لئے آئے۔ سگے رشتہ داروں کے علاوہ کچھ اور افراد بھی آئے تھے۔"


بہار کی رونقوں سے لطف اندوز ہوتی رہتی…
فریدہ لاشائی جو ۱۳۵۲ میں گرفتار اور ۵۴ کے فروردین میں آزاد ہوئیں تھی عید نوروز کے دنوں اپنی قید کے دوران کی ایک داستان بیان کرتی ہیں: "عید میں کچھ ہفتے باقی تھے عمومی جلسے میں نوروز کے جشن پر بحث چھڑی ہوئی تھی اور جیل میں نوروز کی رسموں کے اجراء کی مخالفت پر۔ بعض لوگ کہرہے تھے کہ ہمیں ثقافتی جشن کی حمایت نہیں کرنی چاہئے ہے۔ بعض لوگ کہتے کہ یہ رسم جمشید شاہ نے شروع کی ہے اور یہ جشن شہنشاہوں کا ہے۔ میری نظر میں اسطرح کی باتیں ایک طرح سے چین کے ثقافتی انقلاب کا اثر تھیں کہ جو ایران کے باھنے بازو والے افراد پر گہرا اثر رکھتی تھیں۔ جتنا ثابت کرتے کہ جمشید شاہ کا وجود نہیں تھا بلکہ ایک افسانہ میں آیا تھا، اور جشن نوروز عوامی جشن ہے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آخر میں بحث اس موضوع پر پہنچ گئی کہ اس ھفتہ کسطرح کے کھانوں کی گھر والوں سے درخواست کی جائے۔ مٹھائی اور موسمی پھلوں کو لگژری اور عوامی غذاوں کا حصہ شمار کیا گیا۔ خوارک می لیکن عید کی رسمیں ہمارے بلڈنگ میں انجام نہیں دی گئیں۔ عید میں چند روز باقی تھے تو میں نے جو مروا کی شاخیں بڑی محبت سے اکھٹی کرکے پلاسٹک کی دو بوتلوں میں بوی تھیں، انھیں راہ داری کی کھڑکی میں رکھ دیا تھا. اس خاک آلود ماحول میں میں کھڑکی کے پاس گھنٹوں کھڑی رہتی اور بہار کی رونقوں سے لطف اندوز ہوتی رہتی. لیکن دو تین دن بعد ھریالی اچانک غائب ہوگئ۔


 

 

 


حوالہ: سائٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 4409



http://oral-history.ir/?page=post&id=5685