کیا قدیم زمانہ تھا۔۔۔۔

رپورٹ: رحیم میر عظیم
حوالہ: مھر نیوز

2015-08-25


کل کی سادہ اور سخت زندگیاں اور آج کے اصراف کرنے والے خاندان

ابرکوہ – خبرنگار مھر: لوگ ان دنوں نوروز کی کی خریداری میں مشغول ہیں لیکن ان میں سے اکثر کے چھروں پر اپنی خریداری کی نسبت لطف اندوزی اور رضایت کا احساس نہیں ہے کیونکہ اکثر لوگ خود بھی اپنی فضول خرچی اور اصراف کی طرف دھیان رکھتے ہیں اور اسکے باوجود کہ پرانے زمانے کی خوش بحال زندگیوں کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

مھر کے خبرنگار کے مطابق، ان دنوں سڑکیں لوگوں سے بھری ہوئی ہیں جو جوش و خروش سر عید نوروز کی خریداری میں مصروف ہیں، اور مالی اور اقتصادی مشکلات بھی اس مسئلہ پر زیادہ اثرانداز نہ ہوسکیں گرچہ قدرت خرید خصوصا بعض طبقات میں گذشتہ ۲ ، ۳ سال کی نسبت کم ہوئی ہے۔

اسی دوران بعض عوامی حلقہ اسراف اور فضول خرچی میں مگن ہیں اور اس عرصے میں عیاشی اور لگژریز کے آثار معاشرے میں دیکھے جاسکتے ہیں اور افسوس کے ساتھ میڈیا نے اس معالمے میں جلتی ہی تیل کا کام کیا۔

گذشتہ عرصوں میں ملک کا اقتصاد زراعت پر موقوف تھا اور روایتی زراعت بھی اس سے کم بھرہ برداری کی وجہ سے اور بہت زیادہ محنت و مشقت کی وجہ سے، ہم وطنوں کے لئے پر مشقت زندگی کا باعث بنی۔

پرانے دور کی زندگی، محنت طلب تھی

پہلے جب ملک کا پھیہ جام کردینے والے اقتصاد کے ساتھ، حاکموں کے خراب نظم و نسق، ظلم و جور اور لوٹ مار بھی شامل ہوجاتی تھی تو لوگوں کی مشکلات میں ناقابل تحمل سختوں کا باعث بنتی تھی۔

زیادہ دور نہیں، ابرکوہ کے ایک چھوٹے سے شھر کے لوگوں کی اقتصادی حالات کو تھوڑا بہت جاننے کے لئے، جو ملک کے محروم اور کم وسائل والے علاقوں میں سے ہے، اس وقت کی اقتصادی حالت، اس دور کے لوگوں کا طرز زندگی اور واقعات و داستانیں ذکر کررہے ہیں تاکہ ہمارے لئے واضح ہو کہ اس دور میں کیا گزری اور اب حالات کیسے ہیں۔

علی قیومی صحاب، ۷۰ سال عمر، ابرکوہ کے ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ سے رٹائرڈ بہت ہی قوی حافظہ کے مالک ہی، اس سے قبل "ابرکوہ میں خواتین کی چادریں چھیننے کی پالیسی کے اجرا کے قصے/ پلیس والا، جو لعنتوں کی آگ میں جل گیا" کے عنوان پر ایک رپورٹ پہلی بار، ابرکوہ میں چادریں چھیننے کے بارے میں شائع ہوئی اور اسے سراہا بھی گیا۔

اس رپورٹ میں علی قیومی صاحب نے چند عرصہ قبل، اس قصبہ کی عوام کے اقتصادی حالات جو انہوں نے دیکھے یا سنے  "مھر" کے خبرنگار کے ساتھ گفتگو میں ان کی عکاسی کی گئی ہے۔

کاغذ کے بدلے ٹین کے ٹکڑے

میرے مرحوم والد ) محمد جواد قیومی( بیان کرتے ہیں کہ ہم بچپن میں )جو تقریبا قاجاریوں کا آخری دور تھا( تعلیم حاصل کرنے ۱۲چوک کے علاقہ میں، مقدس صاحب جو ایک بزرگ سید تھے، انکے پاس جاتے تھے۔

اس زمانے میں کاغذ کی مہنگائی اور اسکا لوگوں کے پاس نہ ہونا باعث بنا کہ مدرسہ کے طالب علم ٹین کے ورق تانبے والے کے پاس لےجاتے تاکہ اس حصے کی کوٹنگ کردے، اس کو "لوح" کہا جاتا تھا۔

مدرسہ کے اراکین ان لوح کو کاغذ کی جگہ استعمال کرتے تھے اور پھتر اور سیاہی کے زریعے اس پر الف، باء۔۔۔ کی مشق کرتے تھے۔ جب انکے لوح پر جگہ ختم ہوجاتی تو نھر پر جاکر اس کو دھوتے اور خشک کرنے کے بعد دوبارہ لکھنے کے لئے تیار کرلیتے۔

حقیقت میں اس دور کے لوگوں کی اقتصادی حالت ایسی نہیں تھی کہ ایک خاطرخواہ رقم بچوں کی پڑھائی پر خرچ کریں اور اسی وجہ سے اپنی خلاقیت کے زریعے کمترین امکانات کے ساتھ علم سے بھرور ہوتے۔

لوگ اپنی آمدنی پر اکتفاء کرتے تھے

جعفر نامی شخص کے بیٹوں میں سے ایک آرمی ٹریننگ کے لئے گیا ہوا تھا، اسکی ماں مجبورا اپنے علاقہ کی ایک دکان سے کاغذ اور لفافہ ۵ شاہی کی قیمت پر قرض لیتی تھی تاکہ اپنے سے دور گئے بیٹے کو خط لکھے اور اسکا حال دریافت کرے۔ شام میں جعفر جب گھر پلٹا تو اس خریدہ ہوئے لفافے اور کاغذ کی جانب متوجہ ہوا اور اپنی بیوی کی اس حرکت پر غصہ ہوا اور اسکو کہنے لگا کہ: ہمیں صرف وہ خرچہ کرنا ہے جو بلہ کی نہر سے پورا ہوسکے۔
اسکا مطلب یہ تھا کہ جو کچھ اس زمین اور صحراء میں ہماری دسترس میں ہے، اس پر قانع ہوں اور غیر ضروری اخراجات سے اجتناب کریں اور اسطرح اپنی زندگی کو قرض میں دکھیل کر مزید مشکلوں کا راستہ روکیں۔

ان دنوں وہ افراد جو آرمی کی ٹریننگ کے لئے بھیجے جاتے تھے خرچہ اور طویل راستوں کی بنا پر ٹریننگ کے اختتام تک گھر نہیں آتے تھے۔

 

گندم کا ھر دانہ چوہے کے کان کے برابر آٹا رکھتا ہے!

اسلام کی تعلیمات زندگی میں فضول خرچی کو حرام کہا گیا ہے، اس دور کے لوگ بھی، جو کم آمدنی کی بنا پر تنگدست تھے، فضول خرچی کے بارے میں بہت محتاط رہتے تھے اور جہاں تک ممکن ہوتا اسراف اور فضول خرچی سے پرھیز کرتے۔

مرحوم حاج سید علی ملک صاحب جو حاکم تھے اور اقتصادی طور پر بھی مناسب تھے، انہوں نے اپنی رعایا کو اسراف کا راستہ روکنے کے لئے بہت ہی عمدہ نصیحت کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ گندم کا ھر دانہ چوہے کے کان کے برابر آٹا رکھتا ہے، پس ضایع نہیں ہونا چاہئے۔

کوئی چیز پھینکی نہیں جاتی تھی

 اس وقت تقریبا ہر صحرا میں ) صحرائے ابرجامہ، برزن، عزآباد، فخرآباد، حمیر( انگور کا رس نکالنے کے کارخانے تھے، اور ان صحراوں کے افراد اپنی انگور کی فصل کو وہاں لے جاکر شیرہ بناتے تھے۔

لوگ، انگور کا رس نکالنے کے بعد اس بچے ہوئے چھلکوں کو بھی ضایع نہیں کرتے اور اسکا استعمال کرتے، وہ لوگ ان چھلکوں کو مٹی کے ایک برتن میں ڈال کر اس میں پانی ڈالتے اور پھر موسم سرما میں اس کو کھولتے، اور اس محلول کو اچار کے طور پر استعمال کرتے جسے "ساس" کہا جاتا تھا۔

دکھاوے کا معمول نہیں تھا

علاقہ دربلقعہ کا ایک دکاندار کے مطابق: 12 چینی کے چھوٹے برتن 6 ریال میں اور 12 بڑے برتن 12 ریال میں دکان پر لائے تھے اور 2 سال تک یہ برتن دکان پر پڑے رہے اور کسی نے ایک عدد بھی نہیں خریدا۔

اکثر لوگ چائے بنانے یا جڑی بوٹیوں کے لئے تانبے کی کیتلیوں کو استعمال کرتے اور کیونکہ آمدنی بہت کم تھی تو دکھاوہ بھی نہیں تھا، کم سے کم پر گزارہ کرتے تھے اور مثال کے طور پر چینی کے برتن خریدنے کا بھی احساس نہیں تھا۔

محلہ کے ایک صاحب نقل کرتے ہیں کہ: ایک دفعہ دوستوں کے ساتھ سورمق سے ابرکوہ کی جانب پیدل آرہے تھے، راستے میں گدھے کا گوبر پڑا ہوا تھا، اسکو بھی اٹھا لیا۔

ہم دوستوں میں سے جو اس سفر پر تھے، صرف ایک کے پاس ماچس کی تیلی تھی، کہ جس سے ہم نے پائپ )تمباکو نوشی کے لئے استعمال ہونے والا( جلایا، جب اس کی آگ ختم ہونے لگتی تو ہم اس گوبر پر شعلہ رکھ دیتے تاکہ وہ بجھے نہیں اور اسی طرح شعلہ کو ایک پائپ سے دوسرے پائپ پر منتقل کرتے اور اسے بجھنے نا دیتے، یہ کام کرتے رہے یہاں تک کہ اسی ایک شعلہ سے ابرکوہ پہنچ گئے۔ )ایک ماچس کی تیلی کو بچانے کے لئے(
گدھے کا گوبر آگ لگانے کے لئے بہت کارآمد ہے، اور کیونکہ بہت آہستہ آہستہ جلتا ہے ایک شعلہ کو بجھنے سے بچانے کے لئے کام آسکتا ہے۔

زندگی کی ضروریات کو قرض دیتے تھے۔

خاندانوں کی اقتصادی حالت کا ضعیف ہونا اور زندگی کی اولین ضروریات اور سامان کا نا ہونا باعث بنا کہ ان چیزوں کا ایک دوسرے کو قرض دینا ایک روایت بن چکی تھی۔

مثال کے طور پر باوچی خانہ کے ضروری برتن، لباس، سردیوں کے کوٹ، فرش یہاں تک کہ کمبل لحاف اور تکیہ وغیرہ بھی ایک دیگر کو قرض دیتے تھے تاکہ اس چھوٹی سی مدد سے مشکلات کو رفع کیا جاسکے۔

کیونکہ ہر خاندان کے لئے اپنے گھر پانی کا کنواں کھدوانا مشکل تھا، بعض دفعہ چند پڑوسی مل کر مشترکہ طور پر ایک کنواں کھدواتے اور مل کر اس کا استعمال کرتے۔

زندگی کی اولین ضروریات کی تقسیم، روزمرہ کے بہت سے مسائل حل کرسکتی ہے۔

لیکن آج کل لوگوں کا رھن سھن بدل گیا ہے، بہت سے افراد پرانے دنوں سے غافل ہیں ان دنوں سے جس میں محنت اور مشقت تھی لیکن خاندانوں پر روحی سکون، غالب تھا۔

اب جب عید آتی ہے تو دلوں کی صفائی کے بجائے، گھر کے سامان کی صفائی ہوجاتی ہے جو کچھ عرصے قبل ہی خریدے ہوتے ہیں، اپنی من پسند اقتصادی حالت نا ہونے کے گمان کے باوجود، نیا فرنیچر اس سامان کی جگہ لیلیتا ہے۔

اس دور میں صوفے، قالین، فانوس، مٹھائیاں، روایتی سوغات اور کھانے اس طرح نہیں تھے لیکن محبتیں اور بھائی چارگی اس طرح تھی۔

کاش ان دنوں، جو سال کے آخری دنوں سے نزدیک ہورہے ہیں، کچھ اس قدیم دور کو یاد کریں، فضول خرچی کو اپنی زندگیوں سے نکالیں، ہمیں خیال رکھنا چاہئے کہ شاید کوئی پڑوسی، دوست یا کوئی رشتہ دار خریداری نہیں کرسکتا ہو اور ہماری زندگی کی روز مرہ کی تبدیلیوں سے اس کا اور اسکے خاندان کی حالت دگرگون ہوجائے۔

زبانی تاریخ کو جمع کرنا ایک با اہمیت کام ہے

بغیر کسی شک کہ زبانی تاریخ کو جمع کرنا ایک قیمتی اور زندہ رکھنے والا کام ہے اور بہت سے اہم اور مبھم تاریخی اور اجتماعی مسائل کے روشن ہونے کا باعث بن سکتا ہے/

تاریخ کا لکھنا نا صرف مخاطبین اور آئیندہ آنے والے افراد کے لئے درس و عبرت انگیز واقع ہوسکتا ہے بلکہ پڑھنے والوں کا اجتماعی حالت کی نسبت صحیح طریقے سے آگاہ ہونے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

 

 


حوالہ: سائٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 6314



http://oral-history.ir/?page=post&id=5563