عباس منظرپور سے گفتگو

کتاب در کوچہ و خیابان کی پانچویں جلد چھپنے کے لئے تیار ہے


2015-08-22


اشاره:  گذشتہ سال کے آخر میں مجھے کچھ فرصت ملی کہ میں کتاب درکوچہ و خیابان کے مصنف ڈاکٹر عباس منظر پور سے ان کے بڑے بیٹے کہ جو میدان امام حسین ع کے اطراف میں رہتے ہیں ،ان سے بہت صمیمانہ ماحول میں ملوں ،اگر چہ یہ گفتگو تین گھنٹوں سے زیادہ پر مشتمل تھی ،لیکن ان کی میٹھی اور دل کو چھو لینے والی باتوں نے مجھے وقت کا احساس ہی نہیں ہونے دیا ۔

در کوچہ و خیابان نامی کتاب کہ جو کئی بار چھپ چکی ہے اور پڑھنے والوں کے درمیان مقبول ہوئی،یہ کتاب ان آثار میں سے ہے کہ جومردم شناسی اور تہران کی سماجی تاریخ کو سمجھنے میں سودمند ہے، میں نےان سے اپنی گفتگو میں ان کی دیگر کتب اور تاریخی حوالے سے کچھ پوجھ گجھ کی ،میں آپکو بھی دعوت دیتا ہوں کہ آپ بھی ہماری گفتگومیں شامل ہو جا یئے ۔

 

موسیٰ خان ۔جناب منظر پور آپ کچھ اپنے بارے میں بتائیں؟

منظر پور: میں کوچہ حمام گلشن کہ جو حالیہ تہران کے ١۲ویں منطقے میں ہے فلسفی صاحب کہ جو بہت بڑے واعظ تھے ان کے والد جناب تنکابنی کے گھر کے نذدیک میری ولادت ہوئی،دوسری کلاس تک تو دبستان توفیق  میں تھا کہ جو امامزادہ یحیی میں ہے  ، خیابان اسماعیل بزاز کہ جو حالیہ مولوی ہے میں تیسری کلاس کے لئے گیا ، کو چہ آب منگل میں دانش اسکول میں چوتھی سے لیکر چھٹی تک کا داخلہ کر وایا ،پڑھائی کے دوسرے دور کے کی ابتدا سے لیکر پانچویں سال تک میں نے پہلوی اسکول کہ جو میدان شاہ کہ جو حالیہ قیام ہے کا علاقہ ہے ،وہاں گذارا اس وقت تہران میں تمام شمسی سالوں میں دارالفنون میں جانا لازمی تھا سو میں بھی ناچار گیا ۔

 

موسی ٰ خان ۔آپ نے کس شعبے میں تعلیم حاصل کی؟

منظر پور: میرا ارداہ تو ادب پڑھنے کا تھا لیکن والد صاحب نے﴿ طبیعی تجربی﴾ پڑھنے پر مجبور کیا اس بات کا ذکر کرنا میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس وقت میں دارالفنون میں  جوانوں کی ایک پارٹی کا زمہ دار  تھا ،ڈپلومہ پاس کرنے کے بعد ﴿کنکور﴾ میں شرکت کی اورتہران کے ایک  ڈینٹل کالج میں قبول ہوا ،کالج میں بھی میں طلباو اساتذہ کی تنظیم کا ایک فعال رکن تھا ،لیکن میں ۲۸ مرداد ١۳۳۲شمسی کی بغاوت سے پہلے ہی میں اس تنظیم کو چھوڑ دیا تھا مجھے ایسا لگا کہ ایجنسی کے افراد اس تنظیم میں داخل ہو چکے ہیں،تعلیم کے مکمل ہونے کے بعد میں نے لشکر ۸ کے ایک کلینک میں کہ جو خراسان میں تھا اپنی رضاکارنہ سپاہی کی خدمت انجام دی ،اس دوران میں خوش تھا کیوں کہ ایک مفلوج قیدی کی مانند تھا اور سیاسی سر گرمیوں سے دور تھا ان سب باتوں کے علاوہ میں اپنے کام میں کامیاب بھی تھا ،اس رضاکارنہ سپاہی کی خدمت تمام ہو ئی تو میں وزارت صحت گیا وہاں کے زمہ دار نے مجھے شہر فومن کے ایک کلینک کے دانتوں کا شعبہ مجھے دے دیا ،اس کے بعد میں ۷ سال 1337 تا 1344 دماوند میں اپنی ڈیوٹی انجام دیتا رہا۔ ١۳۴۴ میں پلشت ﴿پاکدشت﴾ورامین گیا اور ١۳۵٦تک ۸۰۰۰ تومان کی تنخواہ میں وہیں رہ کر ریٹائر ہوا اور اب میں یہاں ہوں ۔

 

موسیٰ خان: ایسے کون سے اسباب تھے کہ جو اسی کتاب کے لکھنے کی فکر کا باعث بنے ؟

منظر پور: اچھا سوال ہے ،جب میں ایک طالب علم تھا تو ہمیشہ اچھے مضامین لکھا کرتا تھا دارالفنون کے چھٹے سال میں نے وہ واحد شخص تھا کہ جس نے مضمون نویسی میں ۲۰ نمبر حاصل کئے تھے ،انقلاب کے بعد بھی میں کیہان اخبار میں کالم لکھتا تھا ۔

 

موسی خان: کن موضوعات پر ؟

منظر پور: زیادہ تر تنقیدی۔ اجتماعی تھے ،لہذا لکھنے اور لکھانے کے ماحول سے دور نہ تھا  ،اور جو نثر لکھتا ہوں وہ مرحوم ایرج افشاری کی روش پر ایک جدید انداز نثر تھا کہ جو عامة الناس کی زبان سے نذدیک ہے ،ملک کے ایک ادیب بیان کر رہے تھے کہ جب میں مرحوم افشار کو دیکھنے گیا تھا تو انھیں مطالعہ کی حالت میں پایا میں نے ان سے کہا کہ آپ ہم پر نظر عنایت کیوں نہیں کرتے  ،انھوں نے کہا کہ ایک کتاب میرے ہاتھ لگی ہے جب تک اسے نہ پڑھ ڈالوں اس وقت تک کسی پر کو ئی توجہ نہیں اور وہ کتاب در کوچہ و بازار تھی ۔

تقریباً ۲۰سال پہلے میری اہلیہ کو کینسر ہوا تھا اور وہ علاج کے سلسلے میں سوئزرلینڈ گئیں  علاج کے بعد ١۵سال بہت اچھے گذرے کہ دوبارہ اس مرض میں مبتلاء ہو گئیں ان کے علاج اور ان کی دیکھ بھال کے لئے میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ اپنی بیٹی کے پاس لندن چلا گیا پانچ سال ان کی دیکھ بھال کرتا رہا لیکن آخر کار وہ فوت ہو گئیں، اپنی زوجہ کی دیکھ بھال کے دوران اور ان کے بعد غریب الوطنی میں اپنے بڑے بیٹے کے مشورے پر اپنی یادداشتوں کو لکھنا شروع کیا، شروع شروع میں اس لئے لکھا کہ میرا بیٹا پڑھے لیکن قدیم زادہ کہ جو نشر و اشاعت کی وزارت کے سربراہ تھے انگلستان کے دورے پر میرے بیٹے کے گھر میں میری مسودے کو دیکھا انھیں اچھا لگا،پہلی جلد وزارت نشر و اشاعت کے توسط سے چھپی ،کچھ عرصے کے بعد انھوں نے مجھ سے دوسری جلد کی درخواست کی میں نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ میری یاداشتیں ۳ جلدوں تک پہنچ گئیں ١۳۸٦ میں تینوں جلدیں در کوچہ و خیابان کے عنوان سے ایک ہی جلد میں شائع ہوئیں ۔

 

موسیٰ خان: آپ نے اپنی یادادشت کو لکھنے سے پہلے اس طرح کے نمونے دیکھے تھے ؟

منظر پور: جلال آل احمد نے یادادشت پر ایک مقالہ لکھا تھا اس مقالے میں ،میں اپنے کام کی شباہت پاتا ہوں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آل احمد کہ خیابان اسماعیل بزاز،پر میرے چچا زاد حبیب کی دکان تھی وہاں آیا کرتے تھے اور وہ ان کے دوست تھے میں نے انھیں وہاں دیکھا کرتا تھا ،حبیب  کباب فروش بہت اچھے انسان تھے جس طرح کہ میں نے کتاب ﴿ص۴۳۹﴾میں لکھاکہ آل احمدہر ہفتے یا دو ہفتوں میں ایک بار ان سے ملنے انکی دوکان پر جایا کرتے تھے ۔

 

موسیٰ خان: مرحوم مرتضیٰ احمدی کی یاد آرہی ہے؟

منظر پور: خدا ان کی مغفرت کرے، میری ان  سےآشنائی تھی۔

 

موسیٰ خان: آپ سے وہ اپنی کتابوں کےلئے کو استفادہ کرتے تھے؟

منظر پور: نہیں ،آپس میں گفتگو تو کی ہے لیکن ان کی روش دوسری تھی ۔

 

موسیٰ خان: انھوں نے جو قدیم تہران کی اصطلاحات کے سلسلے میں جو کام کیا تھا وہ کیا تھا ؟

منظر پور: مرحوم نے ان اصطلاحتوں کو جمع کیا تھا کہ جو گھروں میں رائج تھیں یہاں تک کہ انھوں نے زنانہ محافل میں جو اشعار استعمال ہوتے تھے انھیں جمع کیا تھا ۔تہران کے موضوع پر بہت زیادہ کتابیں لکھی جا چکی ہیں جیسا کہ مرحوم جعفر شہری کہ جس میں بہت غلطیاں ہیں انھیں نے صرف تہران کے ظاہر کوبیان کیا ہے لیکن افسوس انھوں نے تہران کے لوگوں کے آپس کے سماجی روابط کے ماحول پر کو ئی توجہ نہ دی ،در کوچہ و  خیابان میں پرانے تہران کے اس پہلو پر توجہ دی گئی ہے میں نے تہران کی عمارتوں پر توجہ نہیں فی بلکہ کوشش کی ہے کہ عامة الناس کے آپس کے روابط کو اس طرح بیان کروں کہ جس طرح سے وہ تھے ،یہ کہنا ضروری ہے کہ ہم ماضی میں قابل احترام افراد رکھتےتھے ،مجھے یاد ہے کہ میری والد اور چچا کی خیان اسماعیل بزاز پر کباب کی ایک دوکان تھی تو وہ اس کباب کے وزن اور قیمت شرعی کے لئے جناب میرزا محمد حسین تنکابنی کے پاس گئے تھے  کہ جو شیخ محمد تقی فلسفی کے چچا تھے۔ ان کی نظر پوچھنے کے جب وہ سیخ پر کباب لگایا کرتے تھے تو ان کے بتائے ہوئے وزن کا خیال رکھا کرتے تھے بیشتر افراد اسی طرح  مسائل شریعہ کا خیا ل رکھتے تھے ۔

 

موسیٰ خان: اس پہلو سے تاریخ تہران کو دیکھنے میں کو ئی خاص مقصد ؟

منظر پور: کوئی مطلب نہیں ،بلکہ مجھے عشق تھا ،تاریخ سے عشق ،میں تاریخ میں بہت دلچسپی رکھتا ہوں میں نے تاریخ کے ایک پہلو کو ثبت کر دیا ہے کہ افسوس ،بہت سے لکھنے والوں نے اس گوشے کو نادیدہ لیا  ہے،افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ میرے علاوہ مجھے اور کو ئی بھی نہیں ملا کہ جس نے علاقائی لغت کہ جیسے اسماعیل بزاز کو تحریر کیا ہو ۔

 

کریمی: میری نگاہ میں آپ تاریخ کو کسی اور نگاہ سے دیکھتے ہیں آپ کی نگاہ تاریخی لوگوں کی زندگی ہے نا کہ بادشاہوں اور زمانداروں کی زندگیاں؟

منظر پور: جی ایساہی ہے  ،میری کتاب کی پہلی شخصیت کو آپ دیکھیں وہ رضا صاحب ہیں کہ باوجود یہ کہ انھیں ارث میں بہت مال ملا لیکن انھوں نے اس مال سے دل نہ لگایا،کتاب میں اور بہت سی شخصیات ہیں کہ جن کو بیان کیا گیا ہے سب کے سب اس وقت کے معاشرے کے عام افراد ہیں ۔اچھا ہے کہ جناب رضا صاحب کے چچا کا ایک قصہ سنا دوں ،میرزا احمد نانبائی رضا صاحب کے چچا تھے ١۳١۳ میں ان کے پاس گاڑی تھی اور جب بھی آتے ہم دیکھنے جا تے مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میرزا احمد بغیر کوٹ لیکن اپنے کام والا لباس پہنے روٹی کے پیڑے بنا رہے تھے پیڑے کچھ بڑے لگ رہے تھے ١۰ سے ۲۰ روٹیاں انھوں نے تنور میں لگائی اور پکنے پر الگ رکھتے جا تے ، ان روٹیوں میں سے انھوں نے صرف ایک کو چنا بعد میں پتہ چلا کہ یہ روٹی محمد رضا اور فوزیہ کی شادی کی رسم کی روٹی تھی ۔

 

موسیٰ خان: آپکی کتاب میں ایک جالب عنوان نظر آتا ہے کہ جس کی جانب آپ نے توجہ ڈالی ہے وہ ہے بدمعاشی ،اور پرانے تہران کے پہلوان حضرات، اس کی کو ئی خاص وجہ ہے کہ جو معاشرے کے ان کرداروں پر آپ نے توجہ کی ؟

منظر پور: ایک دلیل تو یہ کہ میرے والد بھی انھیں میں سے تھے ،افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حالیہ دور میں بدمعاش و غنڈے کا لفظ لات کے مترادف ہو گیا ہے جبکہ ان دونوں میں فرق ہے ،میں بدمعاشوں اور غنڈوں کا مرید ہوں جس طرح میں نے کہا کہ میں کتاب کے آغاز میں اپنی پہلی شخصیت جناب رضا کو لایا وہ بھی ایک بدمعاش و غنڈے تھے اسی طرح پوری کتاب میں بدمعاش و غنڈے افراد کو بیان کیا ہے، اگر ہم اپنے ملک کی تاریخ کی جانب نگاہ کریں توہمیں نظر آئے گا کہ یہ بدمعاش و غنڈے افراد ہمارے معاشرے پر اثر انداز تھے جیساکہ یعقوب لیث کہ جو عیاران کے ایک رکن تھے اور مالداروں سے لیتے اور فقرا میں تقسیم کرتے تھے ،ایک نکتہ بیان کر دوں کہ یہ بدمعاش و غنڈے شہروں میں ہوا کرتے تھے اور ان کی چاہت بھی شہری تھے۔ یعقوب صفار یعنی رویگر تھے کہ جو شہری مشاغل میں حساب ہوتا ہے ،دورة حافظ میں مجھے ایک رندوں کی ایک گلی کا پتہ چلا کہ جو مرحوم زرین کوب کی کتاب ہے کہ جو اسی عنوان سے ہے ، یہ گلی حقیقت رکھتی تھی کہ جس میں بدمعاش و غندہ افرد وہاں موجود تھے ،شاہ شجاع اور امیر مبارز الدین کی جنگ میں بدمعاشوں اور غنڈوں نے شاہ شجاع کی حمایت کی تھی ،آپ ایام مشروطہ کو دیکھیں ستار خان اور باقر خان تبریز کے بدمعاشوں اور غنڈوں میں سے تھے ،ایام مشروطہ میں سب ان کے کردار سے واقف ہیں ،ایرانی عرفان بھی شہریوں سے مربوط تھا نہ کہ دیہات سے ،جیساکہ مولانا شہر بلخ سے آئے تھے عطار کا تعلق بھی شہرسے تھا ،دوسری جانب میرے والد کی راہ ورسم بھی ان بدمعاشوں اور غنڈوں کے ساتھ تھی ،حسین رمضان یخی کہ جو بدمعاشی  و غنڈہ گردی میں معروف تھے وہ جناب طیب حاج رضائی سے زیادہ بلند تھے کیوں کہ طیب میں بدمعاشی  و غنڈہ گردی کم تھی لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ آج جن لوگوں سے ہم ڈرتے ہیں یہ صحیح نہیں ہے ۔

 

موسیٰ خان: شعبان جعفری کیا تھے؟

منظر پور: میں نے ان کے بارے میں بہت زیادہ برائی نہیں کی ،وہ خونگاہ کے رہنے والے تھے ان کا عیب کہ جو مجھے برا لگا وہ یہ تھا کہ وہ احمد آباد گئے اور مصد ق کو گالیاں دی ،شعبان اتنے برے نہیں تھے بہت سے گروہ مجھے سے اس بات پر ناراض ہیں کہ میں نے ان کو اس طرح بیان کیا ہے لیکن جو میں نے دیکھا وہ بیان کیا ، وہ اپنے دوستوں او ر جاننے والوں کے خدمتگذار تھے ان میں بھی بدمعاشی  و غنڈہ گردی کے جراثم تھے ،لیکن خونگاہ کے اصلی بدمعاش و غندہ مصطفی دیوانہ تھے اور ایک حاج محمد صادق کرسٹل فروش تھے کہ جو دیسی کسرت کے لئےروڈ کے سامنے  علی تِک تِک کے اکھاڑے میں جایا کرتے تھے ،ابھی تو کسرت کرانے والے پیسہ لیتے ہیں لیکن جانب محمد صادق اور ان جیسے افراد اکھاڑے کے لئے پیسہ دیا کرتے تھے تاکہ وہ چلتا رہے ۔

 

کریمی: اگر کسی کو بدمعاش و غندہ افرد کے بارے میں بتانا چاہیں تو انکے کے بارے میں کیا کہیں ،ان  کی خصوصیات کیا تھیں؟

منظر پور: پرلے درجے کے بدمعاش و غنڈے وہ ہیں کہ جو کام کرتے ہیں یعنی انکا ایک پیشہ تھا وہ حکومت کے لئے کام نہیں کیا کرتے تھے جب بھی کسی نے حکومت کے لئے کام کیا بدمعاشی  و غنڈہ گردی سے نکال دیا گیا، انھیں میں سے شعبان تھا ﴿طول تاریخ میں جو ظالم حاکم تھے ان کے ساتھ تھا اور مظلوموں کی اور اچھے بدمعاشوں اور غنڈوں کی حمایت نہیں کرتے﴾

بدمعاش و غنڈے ہمیشہ بزرگوں اور خواتین کا احترام کرتے تھے، تیسرے یہ کہ جہاں تک ممکن ہو لوگوں کی مدد کیا کرتے تھےاور کسی سے جزا کی کو ئی توقع بھی نہیں رکھتے تھے میں نے بدمعاش و غندہ صالح کو نہین دیکھا لیکن سنا ہے کہ وہ گلی کے کونے میں بیٹھ جا تے تھے تاکہ کو ئی کسی کو پریشان نہ کرے ۔

 

موسیٰ خان: پس یہ بدمعاش و غندہ محلے کے نظم کو برقرار رکھا کرتے تھے؟منظر پور ۔جی ، مثال کے طور پر اگر کو ئی مکہ جانا چاہتا تھا اور سفر کے طولانی ہو نے کی وجہ سے اپنے گھر والوں کو اپنے علاقے کے بدمعاش و غندہ کے حوالے کر دیا کرتا تھا اور وہ ان کی حفاظت کیا کرتا تھا ۔کریمی ۔آپ نے اپنی کتاب میں لکھا کہ یہ بدمعاش و غندہ تہران کی ثفافت ہے یعنی پہلوی دور میں اور دوسرے شہروں میں بدمعاش و غندہ نہیں ہیں ؟

منظر پور: جو کچھ کتاب میں لکھا ہے وہ صرف تہران کے بارے میں مشروطیت کے بعد کا ہے ۔

 

کریمی: کیا یہ صورت حال دوسری جگہوں پر ہے ؟

منظر پور: میں نے دوسری جگہوں پر نہیں دیکھا ،ایک بات کہتا چلوں کہ ۲۸ مرداد ١۳۳۲ کی بغاوت کے بعد کو ئی بھر پور بدمعاش و غندہ نہیں دیکھا ۔

 

کریمی: یعنی بغاوت اس  کا سبب بنی کہ ایسے افراد معاشرے سے ختم ہو جا ئیں؟

منظر پور: میری نگاہ میں امریکی ثقافت کو کم نہیں سمجھنا چاہیے ،بغاوت سے سے پہلے باڈر پر اور جوانوں کی تنظیموں میں بدمعاش و غندہ دکھائی دیتے ہیں ،بغاوت کے بعد جب امریکی سسٹم ملک میں وارد ہوا تو روپے پیسے کو بہت اہمیت حاصل ہو گی، جنگ عظیم دوم کے بعد امریکی نے فلموں کے ذریعے اپنی ثقافت کو زیادہ تر ایران میں وارد کیا، یہ ثقافت مادیات کو زیادہ اہمیت دیتی تھی ،بدمعاشوں اور غنڈوں کے کردار کے برخلاف تھی اس وجہ سے آہستہ آہستہ بدمعاش و غندہ معاشرے سے ختم ہو گئے ،اس بات کو بھی جان لیں کہ بدمعاشوں اور غنڈوں کی کبھی کو ئی نماز ترک نہیں ہو تی تھی حتیٰ کہ شراب پیا کرتے تھے پھر بھی نماز پڑھا کر تے تھے ۔

 

کریمی یہ بدمعاشی  و غنڈہ گردی صرف مردوں کے لئے ہی تھی؟

منظر پور: جی نہیں ،یہاں ضروری ہے کہ خواتین کے نام بھی لئے جا ئیں نمونے کے طور پر میری دو پھپھیاں تھیں میری بڑی پھپھی ،پھپھی معصومہ کہ جن کے پانچ بچے تھے اور ان کا شوہر مر گیا تھا درزن تھیں وہ لباس سیتیں اور بد نام اس وقت کے بد نام ترین محلے شہر نو آیا جا یا کرتی تھیں ،لپڑے بیچنے کے بہانے ان کے گھروں میں جایا کرتی تھیں ،اور اگر وہ دیکھتیں کہ کسی خاتون یا کسی لڑکی کو دھوکہ دیے کر لا گیا ہے اسے خرید لیا کرتی تھیں کیوں کہ اس گھر والوں نے اس کو خرید لیا ہوتا تھا ، ان کے پاس زیادہ پیسہ نہیں تھا لیکن اہل محلہ انکا احترام کیا کرتے تھے اور ان کی مدد کیا کرتے تھے ،ان خواتین کو خریدنے کے بعد گھر لاتیں اور انھیں آداب نمازروزہ اور دعائیں سیکھاتیں اسی طرح انھیں سینا پرونا سیکھاتیں اہل محلہ میری پھپھی کو جانتے تھے ،ان خواتین کے لئے رشتے ڈھونڈتے ،ان کی شادیاں ہو تیں شادی کے بعد ان میں سے ہر ایک مختلف جگہوں پر چلی گئیں  اور ایک دینی مرکز کے عنوان سے رہیں ،یہ میری پھپھی کی بدمعاشی  و غنڈہ گردی تھی،میری دوسری پھپھی خدیجہ تھی انکا میاں بھی مر گیا تھا داماد غائب تھا بیٹی اپنے تین بچوں کے ساتھ انہی کے پس رہتی تھی ،میری یہ پھپھی اپنے گھر کا چولہا جلانے کے لئے میرے چچا کی کباب کی دوکان پر پانچ افراد کا کام انجام دیا کرتی تھیں،وہ اس طرح کام کیا کرتی تھی کہ ان کے پیروں کے تلوتک سے پسینہ نکل آتاتھا،اسی طرح کام کر کے انھوں نے اپنی بیتی کے تین بچوں کو پالا اپنے بھائیوں سے کسی بھی قسم کی کو مدد حاصل نہیں کی میری نگاہ میں یہ خاتون بدمعاش و غندہ تھیں ،اس طرح کی خواتین کو میں بہت دیکھا ہے لیکن افسوس ہے کہ ملک میں مردوں کی حکومت ہے خواتین کے بارے میں بہت کم مطالب ملتے ہیں ۔کریمی ۔طیب جیسے افراد عام طور پر مذہبی کام کرتے ہیں ؟منظر پور۔جس طرح کے میں کہا کہ طیب اصلی بدمعاش و غندہ نہیں تھا میں نے بدمعاشوں اور غنڈوں کی خصوصیات کے بارے میں اپنی کتاب میں لکھا ہے طیب دوسروں کی مدد کیا کرتا تھا لیکن وہ درِباغی بھی لیا کرتا تھا۔

 

موسیٰ خان: یہ درِباغی کیا ہے ؟

منظر پور: سبزی فروشوں کا ایک بازار کہ جو امین السطان میں مولوی سے نیچے کی جانب تھا ،دکان دار اور کم دارآمد والے افرد اکثر وہاں جایا کرتے تھے اور وہاں سے اپنی ضرورت کی سبزی خرید لیا کرتے تھے طیب اپنے لچّوں کے ذریعے سے بازار کے داخلی دروازے پر ایک ٹیبل لگوا کر بازار میں آنے والوں سے بھتے کہ طور پر دو یا تین سکے لیا کرتاتھا،سب جاننتے تھے اور مجبور تھے اسے دینے پر ،میں نے خود دیکھا ہےکہ ایک بورھی عورت نے ایک آنے کی سبزی لی اس کے پاس دینے طیب کے لونڈوں کو دینے کو بھتہ نہیں تھا ،اسکے ہاتھ سے سبزی چھین لی اور اسے کیچڑ میں دھکا دے دیا اور اسے وہاں سے نکال دیا بعد میں سنا کہ انھیں لونڈوں نے بھتے کی خاطر ایک بوڑھے مرد کو گھونسا مارکر قتل کر دیا ،آپ کتاب کے اس حصے کو پڑھیں حقیقی داستان ہے ﴿ص۳۷۲ تا۳۷٦﴾

 

موسیٰ خان: آپ نے جگہوں کا ذکر کیا ایک جگہ کہ جس کا آپ نے ذکر کیا ہے وہ آب منگل ہے بہت زیادہ لکھاہے ،یہ بات معروف ہے کہ آبمنگل اصیل محلہ ہے اور وہاں کے لوگ مذہبی ہیں ،کیایہ حقیقت ہے ؟۔

منظر پور: ایک حد تک درست ہے ،مذہبی انجمنیں تھیں لیکن زیادہ نہیں تھیں میں کافی عرصہ وہاں رہا ہوں اس محلے کے بہت سے افراد کو جانتا ہوں جیسا کہ جناب سید اسحاق کہ جو تہران کے تعویز لکھنے والوں میں معروف تھےاس محلے کے رہائشی تھے میں نے اپنی کتاب میں ان کا تذکرہ کیا ہے ﴿ص١١۰﴾ جہاں تک مجھے یادہے  ایک لاطی وہاں تھا کہ جس کا نام جواد زہتاب تھا ﴿ص١۹۴﴾ متدین کمانے والے بھی تھے لیکن آورہ افرد بھی وہاں رہتے تھے ان کے نام اور ان کے القابات سے معلوم ہے کہ وہ کیا تھے ان میں سے ایک ابولدردہ تھا اکبر لانتوری کہ جو تھوڑا شریر بھی تھا اسے یہ لقب دیا گیا تھا رضا حرام دادہ تھا کہ جو اتنا برا تھا کہ یہ لقب اس کے اسکے شایان شان ہے، اچھے برے سب ہی رہا کرتے تھے ،محلہ ایک جیسا نہیں تھا۔

 

کریمی: آپ نے کہا کہ ۲۸ مرداد کے بعد معاشرے سے بدمعاشوں اور غنڈوں کی ثقافت ختم ہو گئی لیکن سینما گھروں میں آج بھی ایسی فلمیں دیکھائی جاتی ہیں کہ جن میں ایسی شخصیات نظر آتی ہیں جیسا کہ فردین و ناصر ملک مطیعی کیا یہ کردار بدمعاشی  و غنڈہ گردی کو بیان نہیں کرتی ہیں؟

منظر پور: جی نہیں ،یہ فلم ایک انڈین فلم کا چربہ ہے میری نظر میں صرف ایک فلم ہے کہ جس نے بدمعاشی  و غنڈہ گردی کی خصوصیات کو اجاگر کیا ہے اور وہ فلم ہے گوزن ھا۔

 

کریمی: پھر کیوں اس فلم کو نچلے طبقے نے قبول کیا؟

منظر پور: کیوں کہ اس فلم میں ایک خیالی کہانی کو بیان کیا گیا ہے اور حقیقت سے بہت دور ہے نچلے طبقے کے لوگوں نے اپنے زہن کے خیالوں کو اس فلم میں دیکھا اسی وجہ سے اسے پسند کیا۔

 

موسیٰ خان: ١۵ خرداد کی اہم جگہوں میں سے ایک جگہ خیابان رے تھا آیا آپ اس وقت وہاں موجود تھے ؟

منظر پور: اس زمانے میں ،میں اسپشلائزیشن کے لئے جرمن گیا ہوا تھا لیکن میں نے اخبارات میں پڑھا تھا ،معلومات کی تھی۔

 

موسیٰ خان: واپس آنے کے بعد آپ نے وہاں کے لوگوں سے حالات پوچھے تھے ؟

منظر پور: اپنی اہلیہ سے پوچھا تھا ،جب میں جرمن گیا تھا ،میری اہلیہ اور بچے میری سوتیلی بہن کے پاس قم چلے گئے تھے میری بہن کے گھر کی دیوار آیت اللہ خمینی کے گھر کے ساتھ ملی ہو ئی تھی جناب مصطفی خمینی میرے بہنوئی کے دوست تھے  ان کی گوشت کی دوکان حرم معصومہ کے پاس تھی اور آیت اللہ برجردی کے گھر کا گوشت انھیں کی دکان سے جاتا تھا ،وہ بیان  کرتے ہیں کہ آیت اللہ خمینی خود اس کی دکان پر آتے اور اپنے گھر والوں کے لئے گوشت خریدتے اس وقت آج کے برعکس بہت ہی سادی زندگی گذارا کرتے تھے ١۵ خرداد کی رات تھی کہ سحر کے قریب سپاہی آیت اللہ خمینی کے گھر آدھمکے  ،میرے بہنوئی اپنے صحن میں کھڑے سن رہے تھے کہ انھوں نے بلند آواز سے کہا کہ میں ہوں خمینی کسی کو کچھ مت کہنا ،بس پھر کیا تھا جناب کو لے گئے ان کے نوکر نے چیخنا شروع کر دیا یا ابوالفضل آقا کو لے گئے، اس وقت سے صبح تک لوگ صحن میں جمع ہو گئےشور شرابہ ہو نے لگا اور ١۵ خرداد کا واقعہ ہوا ۔میرے بہنوئی نے آیت اللہ خمینی کا ایک واقعہ سنایا ،میرے بہنوئی اپنا حساب کتاب کرنے آیت اللہ بروجردی کے گھر جایا کرتے تھے ،ایک دن وہ حساب کےلے گے دیکھا کہ کچھ خواتین اور بچے ہیں کہ جو ان کی صحن میں جمع ہیں ،وہ داخل ہوتے ہیں ،ان کے نوکر نے کہا کہ ابھی جناب کسی سے گفتگو فرمارہے ہیں ،ابھی ٹھرو ،وہ بھی کمرے کے باہر ٹھر گئے ،اس دوران انھوں نےکسی کی  بلند صدا سنی کہ جو آیت اللہ بروجردی سےان بچوں اور خواتین کے حقوق کے بارے میں بات کررہا تھا کہ جو اس وقت ان کے صحن میں موجود تھے ،کچھ دیر کے بعد ایک شخص اپنی عبا کو سر پر ڈالے کمرے سے باہر آیا اور باہر نکل گیا ،میرے بہنوئی کو جستجو ہو ئی ،وہ اس شخص کے پیچھے ہو لیا ،خیابان ارم پر اس شخص نے اپنی عبا کو سر سے ہٹایا تو معلوم ہوا کہ یہ آیت اللی خمینی ہیں بعد میں پتہ چلا کہ وہ خواتین اور بچے کہ جو آیت اللہ بروجردی کے گھر کےصحن میں تھےدر اصل وہ ان افسروں  کے بیوی اور بچے تھے کہ جنھیں بغاوت کے جرم میں پھانسی دے دی گئی تھی اور آیت اللہ خمینی، آیت للہ برجردی سے ان کے بارے میں بات کر رہے تھے۔

 

موسیٰ خان: آخری سوال اور وہ یہ کہ جب آپ کی کتاب در کوچہ و خیابان منتشر ہو ئی تو لوگوں کو رویہ کیا تھا؟

منظرپور: بہت فون آئے ،کہ جو اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ کتاب لوگوں کو پسند آئی ہے ،اور جس طرح میں نے کہا کہ اس کی پہلی جلد وزارت نشر و اشاعت کی مدد سے چھپی ہے لیکن بہت جلد مجھے اس بات کی خواہش کی گی کہ میں دوسری جلد بھی لکھوں ۔یہ کتاب اہل فن کے نزدیک قابل توجہ ہوئی۔ مرحوم زھرائی نے کہ جو انتشارات کارنامہ کے انچارج تھےمجھے مشورہ دیا کہ ایک کتاب بدمعاشوں اور غنڈوں کے بارے میں لکھوں۔ ان کا ارادہ تھا کہ وہ اس بارے میں کچھ کام کریں لیکن اجل نے مہلت نہ دی۔ ابھی در کوچہ و خیابان کی پانچویں جلد بھی چھپ رہی ہے مجھے اس بات کی خوشی ہے ک نوجوانوں اس کتاب میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور اس بات کی امید رکھتا ہوں کہ اپنی جوان نسل کو اپنی تاریخ کو پہچنوانے میں اس کتاب کا کوئی کردار ہو ۔

 

موسیٰ خان: ہم آپ کے تہہ دل سے شکر گذار ہیں کہ آپ نے ہماری باتوں پر صبر کیا اور ایک ایک کے جواب  دیئے؟




1ـ منظرپور، عباس. در کوچه و خیابان، تهران، وزارت فرهنگ و ارشاد اسلامی، چاپ سوم،‌ 1386.

مصاحبه و تنظیم: محمد مهدی موسی ‌خان



 
صارفین کی تعداد: 4256



http://oral-history.ir/?page=post&id=5545