ماموستا 54
مصنف: علی رستمی
ترجمہ: ضمیر علی رضوی
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2025-12-01
پہلوی حکومت کے خلاف سیاسی سرگرمیوں کا آغاز(تیسرا حصہ)
رات گزری اور صبح نمودار ہوئی۔ دھمکیوں اور خوف و ہراس کا الٹا نتیجہ نکلا؛ نہ صرف یہ کہ عوام خوفزدہ نہیں ہوئے اور انہوں نے اپنے بچوں کو ملامت نہیں کی، بلکہ وہ دھرنا دینے والوں کے لیے کھانے پینے کا سامان اور کپڑے لے کر گئے۔ لمحہ بہ لمحہ پہاڑ پر دھرنہ دینے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ 28 اکتوبر 1978(6 آبان 1357) ہفتے کی صبح آٹھ بجے، طلباء نے مسجد اور قرآن کی بے حرمتی کے خلاف احتجاج کے طور پر اسکولوں کے سامنے مظاہرے کیے اور نعرہ بازی کی۔ ان کی آوازیں مولوی چوک سے جامع مسجد اور سردہ محلے تک سنائی دے رہی تھیں۔ صبح نو بجے، وہ لوگ منظم دستوں کی صورت میں میئر آفس کی طرف روانہ ہوئے اور اس عمارت کے سامنے بیٹھ گئے اور پاوہ کے امام جمعہ کے گھر کے محاصرے کے خاتمے، جمعے کی شام کے جلسے کی بے حرمتی کرنے والوں اور ذمہ داروں کو سزا دینے اور دھرنا دینے والوں اور مظاہرین کی کوہستان سے شہر واپسی کا مطالبہ کرنے لگے۔ کچھ ہی دیر بعد ہم سب مولانا، ضیائی صاحب کے گھر سے باہر نکل آئے۔ ہمارا ان کے گھر سے نکلنا اور ماموستا ضیائی کی ایک رشتہ دار، محمد عزیز صالحی صاحب کی والدہ اور مرحوم حاجی احمد صالحی کی زوجہ کی تشییع جنازہ بیک وقت ہوئے اور ماموستا ملا زاہد کے خاندان کے احترام میں ہم سب نے تشییع جنازہ اور تدفین میں شرکت کی۔ تدفین کے بعد میں نے کُردی زبان اور کرمانجی لہجے میں تلقین پڑھی۔ تلقین ایک حزن والا ذکر ہے اور ان لمحات میں کرمانجی لہجے میں اس کے پڑھنے نے لوگوں کے غم و حزن میں اضافہ کردیا۔ میرے خیال میں یہ تلقین، سننے والوں کی لیے موت کو آسان بنا رہی تھی؛ خاص طور پر ظلم کے مقابلے میں بہادری کی موت!
قریب صبح کے دس بجے، پاوہ شہر پوری طرح بند ہو چکا تھا اور اکثر ملازمین، کوہستان کے مظاہرین اور طلباء کے ساتھ شامل ہوگئے تھے۔ اس محاذ آرائی نے شہر کے سیاسی اور سیکیورٹی ذمہ داران کے حوصلوں پر ایک کاری ضرب لگائی۔ پاوہ کے اس وقت کے میئر، صمدی نے یقین دہانی کرائی تھی کہ طلباء کے مطالبات کو پورا کیا جائے گا۔ طلباء اور اساتذہ نے میئر سے کہا تھا کہ شہر کے ذمہ داران کو کوہستان میں آکر گزشتہ روز کے واقعے پر معافی مانگنی ہوگی۔
جامع مسجد کے واقعے، اسکولوں کی تعطیل، طلباء کے مظاہرے اور کوہستان میں ایک ہزار سے زیادہ جوانوں کے احتجاج کی خبر ہر طرف پھیل گئی اور کرمان کی جامع مسجد اور کرمانشاہ کے نام کے ساتھ پاوہ کا بھی ذکر ہونے لگا۔ کاوئنٹیز میں نکلنے والی ریلیوں میں عوام نعرے لگارہے تھے: ’’ شاہ نے قرآن کو نذر آتش کیا ہے؛ شاہ نے پاوہ اور کرمان کو نذر آتش کیا ہے!‘‘
پاوہ کے میئر، صمدی صاحب ایک معتدل انسان تھے اور شہر کے مسائل کو بات چیت سے حل کرنا چاہتے تھے۔ قریب دوپہر دو بجے میں کسی خاص کام سے پاوہ سے نوریاب گیا۔ گھر والوں سے ملنے کے بعد، جب میں پاوہ لوٹ رہا تھا کہ اپنے ہم فکر افراد کے ساتھ کوہستان میں کوئی حل نکالوں تو پاوہ کے میئر کا ایک قاصد میرے پاس پہنچا اور اس نے کہا کہ میئر صاحب نے کہا ہے کہ وہ ایک با اثر استاد کے ساتھ کوہستان میں جوانوں کے دھرنے کی جگہ جانا چاہتے ہیں تاکہ انہیں شہر واپس لاسکیں۔ میں پاوہ لوٹ آیا اور ساتھی مولاناؤں اور اساتذہ سے مشورہ کیا۔ آخرکار اتفاق ہوگیا اور میں اور ایک با اثر استاد کمال زردشتیان صاحب، کوہستان میں ساتھیوں کے پاس ان کے مطالبات سننے چلے گئے۔ ہم دو لوگ ہاتھ میں ایک لاؤڈ اسپیکر لیے شہر کے شمال میں چار کلو میٹر کے فاصلے پر جوانوں کے دھرنے کی جگہ بانہ مران پہنچے۔ بانہ مران میں ہم نے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے جوانوں کو اکٹھا ہونے کو کہا تاکہ ہم آہنگی اور مشورے کے ساتھ ہم ایک فیصلہ کر سکیں۔ پہلے تو جوانوں نے منع کردیا اور لاؤڈ اسپیکر پر ہمارے بلاوے پر انکار کردیا، لیکن جب انہوں نے ہمیں پہچان لیا تو قریب بیس منٹ بعد وہ بانہ مران اور اس کے اردگرد کے غاروں سے نکل کر ہمارے پاس آگئے۔ مظاہرین کے نمائندے نے ہماری بات سننے کے بعد کہا کہ میئر، سٹی کونسل کے ممبران اور ساواک کے چیف کو مظاہرے کی جگہ آنا ہوگا اور ہماری بات سننی ہوگی۔ اگر انہوں نے ہماری بات مان لی تو مظاہرین شہر واپس لوٹنے پر راضی ہوجائیں گے۔
مظاہرین، پیر محمد کے مقبرے پر آگئے جو مظاہرے کی جگہ سے قریب دو کلومیٹر نیچے واقع تھا۔ ہم نے دو قابل اعتماد لوگوں کو میرآباد کے راستے میں انتظار کر رہے میئر صمدی اور ان کی ٹیم کے پاس بھیجا تاکہ وہ مظاہرین کے مطالبات ان تک پہنچا سکیں۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم نے دیکھا کہ میئر صمدی، پاوہ کی ساواک کے ڈپٹی چیف علیانسب، کاؤنٹی اور سٹی کونسل کے سربراہ اور کچھ مولانا آہستہ آہستہ پیدل چلتے ہوئے پیر محمد کی طرف آرہے ہیں۔ گزشتہ روز تھوڑی بارش ہوئی تھی اور زمین نم تھی لیکن اس دن موسم صاف اور تھوڑا گرم تھا۔ شام کے قریب، مظاہرین اور شہر کے ذمہ داران اکٹھا ہوئے۔ ایک خوش لحن تالشی طالب علم، کشف الدین محمدیان[1] صاحب نے میٹنگ کا آغاز سورۂ بلد کی کچھ آیات کی تلاوت سے کیا۔ محمدیان صاحب کی خوبصورت آواز اور قرائت نے ہم سب کو متأثر کیا۔ اس کے بعد کچھ جوانوں نے شہر کے ذمہ داران بشمول میئر صمدی، ساواک کے ڈپٹی چیف علیانسب، سٹی کونسل کے سربراہ، کاؤنٹی کونسل کے سربراہ، حاجی شیخ طہ، حاجی خلیفہ احمد، ماموستا کاک ملا، محمد انصاری صاحب اور شہر کے دیگر ذمہ داران کے سامنے اپنے مطالبات پیش کیے اور جامع مسجد میں پولیس، جینڈرمیری اور ساواک کے برے اقدام پر احتجاج کرنے کے بعد انہوں نے دھرنے کو ختم کرنے کے لیے شہر کے ذمہ داران کے مظاہرین سے معافی مانگنے کی شرط رکھی۔
انقلابی جوانوں کے مطالبات پیش کرنے کے بعد، ملا ناصر سبحانی صاحب نے مظاہرین کی نمائندگی کرتے ہوئے کچھ اہم نکات بیان کیے اور آیت ’’لقد خلقنا الانسان فی کبد‘‘(ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے) پر گفتگو کی۔ ان کی باتوں نے لوگوں متأثر کیا؛ یہاں تک کہ میئر صمدی نے کہا: ’’یہ خلیفہ کون ہیں؟‘‘
شہر کے ایک مولانا نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’یہ خلیفہ نہیں ہیں۔ ملا ناصر سبحانی ہیں۔‘‘
میئر نے اپنا سر ہلایا۔ گویا پہلے انہوں نے سبحانی صاحب کے بارے میں سن رکھا تھا۔ سبحانی صاحب کی گفتگو کے بعد، جبار کیوانفر صاحب نے 19 شقوں پر مشتمل مظاہرین کے مطالبات اور قرارداد پڑھ کر سنائی۔[2]
میئر صمدی صاحب نے قرآن اور مسجد کی بے حرمتی اور گزشتہ روز کے واقعے پر باضابطہ طور پر معافی مانگی اور مجرموں کو سزا دلانے کے علاوہ گرفتار ہوئے تمام افراد کی رہائی کا بھی وعدہ کیا۔ سیکیورٹی کونسل میں مولاناؤں اور جوانوں کی گرفتاری کا فیصلہ کیا گیا تھا اور ان کی گرفتاری کے احکامات بھی جاری ہوچکے تھے اس حوالے سے انہوں نے وعدہ کیا کہ اسے کالعدم کیا جاتا ہے۔
اس عقب نشینی سے درحقیقت گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ذمہ داران کے لیے تمام فیصلے کالعدم ہوگئے اور اس مفاہمت کے ساتھ مظاہرین، شہر واپس لوٹنے پر راضی ہوگئے۔ کوہستان سے دھرنا دینے والے جوانوں کی فاتحانہ واپسی پر شہر میں ناقابل بیان ماحول تھا۔ مولانا ہجوم کے آگے آگے چل رہے تھے اور سب لوگ خوشی کے ساتھ فاتحانہ انداز میں شہر لوٹ آئے۔ اس واقعے میں عوام خود کو کامیاب اور اپنے ذمہ داران کو ناکام سمجھ رہے تھے۔
جوان، مولانا اور ہاتھوں میں عصا لیے بزرگ اس شان سے چل رہے تھے کہ گویا وہ کوئی بڑی فتح حاصل کرکے لوٹ رہے ہوں اور تھا بھی ایسا ہی۔ شہر کے داخلی راستے پر ماں باپ اپنے بچوں کا انتظار کر رہے تھے۔
[1] کشف الدین محمدیان سن 1960(1339) میں تالش کاؤنٹی کے علاقے اسالم میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بچپن میں اپنے والد سے قرآن کی تعلیم حاصل کی۔ ان کے والد نے اپنے خاص نقطۂ نظر کے باعث اپنے بیٹے کو سرکاری اسکول نہیں جانے دیا، کیونکہ اس وقت ان کا ماننا تھا کہ اسکول، انسان کو بے دین بنا دیتا ہے۔ البتہ اکثر لوگوں کا یہی ماننا تھا۔ ان کے والد چونکہ خود قرآن کے استاد تھے اس لیے انہوں نے اپنے بیٹے کو قرآن کی تعلیم اور گلستان سعدی کی حد تک پڑھنا لکھنا سکھایا، پندرہ سال کی عمر میں ان کے والد نے انہیں کُردستان کے دینی مدرسے بھیج دیا۔ ان کے والد نے تصوف سے اپنے لگاؤ اور رشتے کی وجہ سے اپنے بیٹے کی تحصیل علم کے لیے دورود کا انتخاب کیا۔ اس گاؤں میں، ماموستا محمود مدرس، دینی مدرسے کے ایک بڑے استاد کی حیثیت سے پڑھاتے تھے۔ اس کے بعد محمدیان، پاوہ آکر دوریسان گاؤں کے حجرے میں حصول علم میں مشغول ہوگئے۔
[2] بانہ مران کوہستان کے مظاہرین کے مطالبات کا متن: 1۔ آزادی بیان اور مذہبی اجتماع، قرآن اور مذہبی تعلیم کی آزادی؛ 2۔ مولاناؤں سے معافی؛ 3۔ جامع مسجد پر حملے میں ملوث، پاوہ کی پولیس اور جینڈرمیری کے اہلکاروں کے خلاف قانونی کاروائی، جن نام سب کو معلوم ہیں؛ 4۔ مظاہرین بالخصوص ملازمین کے تعاقب اور گرفتاری کو روکنا؛ 5۔ اسکول کے طلباء کو ان کی سطح کے مطابق دین سے آگاہ لوگوں کے زریعے دینی تعلیم کی فراہمی؛ 6۔ حجاب کی توہین کو بالخصوص اسکولوں میں روکنا؛ 7۔ برائی کے اڈوں پر پابندی؛ 8۔ اساتذہ کے پرانے مطالبات کو پورا کرنا؛ 9۔ مساجد کے امور اور وقف شدہ چیزوں کے انتظامات بورڈ آف ٹرسٹیز کو سونپنا؛ 10۔ مولاناؤں کو عالم دین ہونے کی حیثیت سے وظیفے کی ادائیگی؛ 11۔ دینی مدارس کا احترام اور دینی طالب علموں پر توجہ؛ 12۔ سیاسی قیدیوں کی غیر مشروط رہائی؛ 13۔ پورے ایران میں فوجی حکومت کا خاتمہ؛ 14۔ مظاہرین کی عدم گرفتاری پر مبنی متعلقہ حکام کی تحریری ضمانت؛ 15۔ کیہان اور اطلاعات(اخبار) کے رپورٹرز کی تبدیلی؛ 16۔ متعلقہ اخباروں تک واقعے کی تفصیلات پہنچانے کے لیے کیہان اور اطلاعات کے رپورٹرز کی موجودگی؛ 17۔ دینی بھائیوں میں تفریق کو روکنا؛ 18۔ عوامی سطح پر طلباء اور مسلمانوں کے وقار کی بحالی؛ 19۔ عمر کی حد سے متعلق، فیملی پروٹیکشن لاء کا خاتمہ۔
صارفین کی تعداد: 20
http://oral-history.ir/?page=post&id=12951
