ماموستا 51
مصنف: علی رستمی
ترجمہ: ضمیر علی رضوی
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2025-11-23
پاوہ کے مدرسۂ قرآن کی تأسیس(حصہ سوم)
اس رسم کا تعلق ایرانیوں کی قدیمی ثقافت سے تھا۔ کُرد قوم خود کو سب سے زیادہ قدیمی ایرانی قوم سمجھتے تھے۔ اس کے باوجود وہ ایران کی قدیمی ثقافت کے تحفظ کے قائل تھے، اسلامی طور طریقوں کے تحفظ کے اور وہ ان کاموں کو اسلامی ثقافت کے مطابق انجام دیتے تھے۔ البتہ دیہاتوں میں نوروز کے پروگرام میں افراط فطری تھا اور ایک حد تک انہیں حق بھی تھا؛ کیونکہ وہ لوگ عید کے صرف خوشی کے پہلو کو دیکھتے تھے اور ان کے ذہنوں میں تصور یہ تھا کہ نئے سال کے لیے خوشی منانا اگر کسی خلاف شرع عمل کا باعث نہ بنے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ خاص طور پر کہ جب انہوں نے علمائے دین سے سن رکھا تھا کہ دینی اعتقادات اور کتب میں آیا ہے کہ جب پیغمبر اکرم(ص) نے مدینۂ منورہ ہجرت فرمائی، تو آپ نے دیکھا کہ مدینے کے لوگ سال میں ایرانیوں کی طرح کچھ عیدیں مناتے ہیں۔ پیغمبر اکرم(ص) نے دریافت فرمایا: ’’یہ کون سی عیدیں ہیں جو تم لوگ مناتے ہو؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: ’’ہم فارس(ایرانی) لوگوں کے پڑوسی ہونے کی حیثیت سے ہر سال دو عیدیں مناتے ہیں؛ عید نوروز، نئے سال کا آغاز اور دوسری عید مہرجان یا باغوں کے پھلوں اور کھیتوں کی فصلوں کی کٹائی کی عید۔‘‘
پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: میں بھی تم لوگوں کے لیے دو عیدیں لایا ہوں؛ رمضان اور قربان۔ چونکہ پیغمبر اکرم(ص) کے کلام میں نوروز اور مہرجان کی دو عیدوں کے رد میں کوئی انکار یا وعید نظر نہیں آتی، اس لیے مسلمان رمضان اور قربان کی عید کے ساتھ ساتھ عید نوروز اور مہرجان کی عیدیں بھی مناتے تھے اگرچہ کم جوش و خروش کے ساتھ ۔ امام ابو حنیفہ(رہ) کی سوانح حیات میں ملتا ہے کہ ان کے جد ذوطی، عید نوروز کے دن کوفے میں حضرت علی(ع) کی خدمت میں پہنچے اور وہ اپنے ساتھ تھوڑا حلوا لے کر گئے تھے کہ اپنے امام کی خدمت میں پیش کریں تحفہ دیں۔ امام نے فرمایا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘
ذوطی نے کہا: ’’آقا یہ ہدیہ ہے۔ ہم فارس(ایرانی) لوگوں کے ہاں رواج ہے کہ عید نوروز کے دن ہم اپنے بڑوں کے لیے ہدیہ لے کر جاتے ہیں اور میں بھی ایرانیوں کے رسم و رواج کے مطابق آپ کی خدمت میں ہدیہ لایا ہوں۔‘‘
امام نے بظاہر انہیں منع نہیں کیا اور یہ بات اسلام سے پہلے کے کچھ رسموں کے تحفظ اور ان کے جاری رہنے کی دلیل ہے؛ بشرطیکہ اسلامی شریعت کے خلاف نہ ہوں۔
بہار کے موسم میں قومی اور علاقائی رسم و رواج کے ساتھ ساتھ دیہاتوں میں ہمارے لوگوں یعنی اہل سنت کی کچھ دوسری خاص مذہبی رسومات بھی ہوتی تھیں۔ شاید ہمارے زمانے میں وہ رسومات، اہل بیت رسول(ص) کی محبت اور لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا باعث بنے۔ ہمارے بزرگوں کی زندگی اور ہمارے سلف صالح کی کتب اس عقیدے کی تائید کرتی ہیں کہ ہم اہل سنت بالخصوص امام شافعی(رہ) کے پیروکار، اہل بیت رسول(ص) اور خاص طور پر حضرت حسن اور حضرت حسین، علیھما السلام سے ایک خاص عقیدت رکھتے تھے اور رکھتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں، ہم بہار کے موسم میں خودرو پودے اور پھول توڑنے اپنے گاؤں کے پہاڑوں اور بیابانوں میں جاتے تھے۔ ہمارے گاؤں کے کوہستان اور اورامانات کے بہت سے علاقوں میں گل لالہ اگتا تھا، جسے ہم مقامی زبان میں ’قه قله بازی‘ کہتے ہیں۔ ہم اس پھول کا احترام کرتے تھے۔ جب ہم پھول کے اندر دیکھتے تھے تو اس کے اندر قدرتی طور پر پانی جمع ہوتا تھا اور ہم جمع شدہ پانی کو دیکھ کر ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ یہ امام حسین کے لیے آنسو ہے اور پھر ہم سب مل کر اسے دہراتے تھے:
۔ قہ قلہ بازی، قہ قلہ بازی، حسن و حسین کہاں شہید ہوئے؟
پھر ہم خود اپنے سوال کا جواب دیتے تھے:
۔ کربلا میں، کربلا میں۔
ہم اس یقین اور اعتقاد کو اہل بیت کی محبت کی علامت سمجھتے تھے اور اس چیز کو مخلصانہ نظر سے دیکھتے تھے۔ ہمارا ماننا تھا کہ اگر کسی گھرانے میں کسی بیٹے یا بیٹی کا نام رسول اکرم(ص) کے اہل بیت یا ازواج مطہرات یا جناب فاطمہ زہرا(س) کی محبوب اولاد کے نام پر ہو تو اس گھرانے پر برکت اور رحمت نازل ہوتی ہے۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ہمارے اس یقین اور اعتقاد کو نقصان پہنچا۔ ہمارے لوگوں کی ثقافت اور آداب و رسوم کی جانب بے توجہی اور اہل سنت کے بہت سے آداب و اعتقادات کے ساتھ تنگ نظر رویہ، عوام کی ہٹ دھرمی کا باعث بنا اور اس دوران دونوں فریقوں نے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر مروّجہ دینی ثقافت کو نقصان پہنچایا اور دونوں ہی فریق، شیعہ بھی اور سنی بھی قصوروار ہیں۔ میں بالکل یقین سے کہہ رہا ہوں کہ ایک طرف میڈیا اور اداروں کا رویہ اور دوسری طرف ہمارے لوگوں کی ہٹ دھرمی ہمارے بہت سے مذہبی آداب و رسوم کو فراموشی کی جانب لے گئی۔ امام حسین(ع) کی شہادت کے ایام میں ہمارے ہاں نہ سینہ زنی ہوتی تھی نہ ہوتی ہے، لیکن پیغمبر اکرم(ص) کے ان عزیز اور نور عین کے احترام اور رسول اکرم(ص) کے مقام کے احترام کی خاطر محرم کے ایام میں بالخصوص نو اور دس محرم کو پیغمبر اکرم(ص) کا سنت روزہ رکھتے ہیں اور بہت احترام کے ساتھ یہ ایام گزارتے ہیں؛ یہاں تک کہ ہمیشہ ہماری یہ کوشش ہوتی ہے کہ ہم سے کوئی ایسا کام نہ ہوجائے جس سے پیغمبر اکرم(ص) رنجیدہ ہوں۔
اسی طرح، آئمہ جمعہ کا معمول تھا کہ وہ ہر سال محرم میں اپنے ایک خطبے کو تاسوعا اور عاشورا کے موضوع اور اہل بیت رسول اکرم(ص) پر آنے والے مصائب کے لیے مختص کرتے تھے اور خطباء اپنے نماز جمعہ کے خطبے میں ماہ محرم سے متعلق ابن نباتہ[1] کے خطبے میں بیان ہونے والے نکات کو لوگوں کے لیے بیان کرتے تھے۔
اس خطبے کا مضمون یہ ہے: اے لوگو جان لو کہ قیامت کے دن جناب فاطمہ زہرا(س) ہاتھوں میں اپنے بیٹے امام حسین(ع) کا خون آلود لباس لیے میدان محشر میں تشریف لائیں گی اور اس وقت ایک ندا سنائی دے گی: اے لوگو، راستہ دو تاکہ رسول اللہ(ص) کی بیٹی اپنے بیٹے کا خون آلود لباس اپنے بابا کو دکھائیں اور وہ اپنے والد محترم کو مخاطب کرکے فرمائیں گی: اے بابا جان، آپ اللہ کے حضور اس لباس کے مالک کا اس کے دشمنوں سے انتقام طلب فرمائیں۔
بدقسمتی سے آج کل عوام کے لیے ان عقائد کے بیان کو منافقت اور حکومت کی غلامی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور ہمارے مولوی حضرات، عوام کی تنقیدوں اور الزام تراشیوں کی وجہ سے کافی حد تک پیچھے ہٹ چکے ہیں۔ جبکہ اس مسئلے کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ دین اور پیغمبر اکرم(ص) کے گھرانے سے جڑی ایک حقیقت ہے جسے کسی بھی زمانے میں چھپایا نہیں جانا چاہیے؛ کیونکہ واقعہ کربلا حق و باطل کی جنگ تھی اور جب تک حق ہے تب تک باطل بھی رہے گا۔[2]
[1] أصبَغ بن نُباتہ تمیمی حنْؓظلی مُجاشِعی(قرن اول و دوم ہجری) امام علی بن ابی طالب(ع) کے ایک صحابی
[2] دستاویز آرکائیو میں ’’شخصیت امام حسین(ع) در کتب اہل سنت‘‘ کے عنوان سے جناب ماموستا کا ایک مقالہ موجود تھا جسے فصل نامۂ تخصصی مذاھب اسلامی میں شایع کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا(مقالے کا پورا متن ضمیمہ ج میں)
صارفین کی تعداد: 26
http://oral-history.ir/?page=post&id=12933
