ماموستا 50
مصنف: علی رستمی
ترجمہ: ضمیر علی رضوی
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2025-09-22
پاوہ کے مدرسۂ قرآن کی تأسیس(حصہ دوم)
پختہ ایمان کے ساتھ، پاوہ کے جوان ہمارے ارد گرد جمع ہوگئے اور ہم نے فراہم ہوئے موقع کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے، گرد و نواح کے دیہاتوں اور شہروں میں جشن میلاد کے لیے تفصیلی منصوبہ بندی کی۔
18 مارچ 1978(27 اسفند 1356) کو ہم نے پاوہ کی جامع مسجد میں ایک عظیم الشان محفل منعقد کی اور اس محفل میں عوام کو اگلی نشستوں میں شرکت کی دعوت دی۔ محفل بہت منظم تھی۔ تلاوت کلام پاک کے بعد کچھ علماء اور اساتید نے دلچسپ اور پرجوش تقریریں کیں اور لوگوں کا بہت اچھا ردعمل آیا۔ اگلے دن ہم نے دوریسان گاؤں میں جشن میلاد کی محفل منعقد کی۔ عشائیے کے بعد ایک طویل محفل منعقد ہوئی۔ دو علماء کی تقریروں کے بعد پیغمبر اکرم(ص) کی شان میں نعتیں اور قصیدے پڑھے گئے، مہارت سے بجائی جانی والے دف کے ساتھ ہونے والی نعت خوانی نے سامعین اور حاضرین کی تھکان کو دور کردیا۔
پیغمبر اکرم(ص) کی ولادت کی خیر و برکت سے مدرسۂ قرآن کا ادارہ اپنی جڑیں مضبوط کرنے لگا اور اورامانات اور پاوہ کے علاقے کے عوام کو شعور دینے میں بہت مؤثر ثابت ہونے لگا۔ ان محافل کی مقبولیت اس حد تک تھی کہ نوریاب گاؤں کے عوام نے یہ تقاضا کیا کہ وہاں بھی کوئی محفل منعقد کی جائے۔ دوریسان گاؤں کی محفل میں ہم نے لوگوں کو نوریاب گاؤں کے جشن میلاد میں شرکت کی دعوت دی۔ پے در پے تین نئی طرز اور جدید تبلیغی طریقۂ کار والی عظیم الشان محافل کے انعقاد نے سب کی توجہ کو اپنی جانب مبذول کرلیا تھا۔
تیسری محفل میں نوریاب گاؤں کے تمام لوگوں کے علاوہ دوریسان، خانقاہ اور گلال گاؤں(شہر پاوہ سے سات کلو میٹر جنوب میں واقع) کے بزرگوں اور جوانوں کی بڑی تعداد اور پاوہ کے سیکنڈری اسکولوں کے طلباء اور اساتید کی شرکت نے محفل کو چار چاند لگادیے تھے۔ محفل کے اختتام پر ہم نے اعلان کیا کہ سن 1356/1978 اپنے اختتام پر ہے اور خدا نے چاہا تو سن 1357/1978، پاوہ اور اورامانات میں فکری بیداری اور اسلامی شعائر کی گونج کا سال ہوگا۔ اس امید اور بلند حوصلے کے باعث پاوہ کے مدرسۂ قرآن کی ترقی اور عوامی ساخت اختیار کرنے میں تیزی آئی۔
وقتاً فوقتاً ایک جانب ملک کی کشیدہ صورتحال اور دوسری جانب قم، تبریز اور دوسرے بڑے شہروں کے عوام کے حق پسند قیام کی خبریں اس بات کا باعث بنیں کہ ہم دن رات منظم طور پر ملک کی خبروں پر نظر رکھیں اور ذمہ داران کی نظروں سے دور اور خفیہ سرگرمیوں کے ساتھ پاوہ میں کم ہی دکھائی دیں۔ ہم زیادہ تر ملاقات کے عنوان سے کاؤنٹی کے دوسرے دیہاتوں میں تبلیغی سفر کیا کرتے تھے۔
ہم سرعام اور کبھی خفیہ نشستوں کا انعقاد کرکے ریاست کے ظلم اور انتظامی، اخلاقی اور معاشرتی فساد پر گفتگو کیا کرتے تھے۔ ہماری جن دیہاتوں میں زیادہ آمد و رفت ہوتی تھی وہ دوریسان، خانقاہ ، نوریاب اور نجار تھے؛ لیکن کبھی کبھار ہم دوسرے دیہاتوں میں بھی جایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ہم، ضلع باینگان کے لاران سفلی گاؤں(پاوہ کاؤنٹی کے ضلع باینگان کا ایک نواحی گاؤں) میں جناب ملا احمد بہرامی سے ملنے گئے۔ مجھے یاد ہے کہ اس دن ہم نے ریڈیو پر اس وقت کے رکن قومی اسمبلی بنی احمد صاحب کی حکومت کی کارکردگی پر تنقیدی گفتگو سنی تھی۔
اس کے باوجود کہ ہم پاوہ میں بہت کم ہی لوگوں کے سامنے آتے تھے، کچھ لوگ چند باتیں کرکے سیاسی اور سیکیورٹی ذمہ داران کو مدرسۂ قرآن کے اراکین کے خلاف مسلسل بھڑکاتے رہتے تھے۔ یہ بھڑکانا اس حد تک پہنچ چکا تھا کہ ساواک اور جینڈرمیری نے عملی اقدامات کیے اور مسلسل دھمکیوں اور غلط پروپیگنڈا کرکے وہ لوگ مدرسۂ قرآن کے اراکین کی سرگرمیوں کو روکنا چاہتے تھے اور ہمیں وہابیت کا پرچار کرنے والا اور بیرونی طاقتوں کا آلہ کار ثابت کرنا چاہتے تھے۔ ہمارے مخالف لوگ، حکومت میں مختلف عہدوں پر فائز تھے اور پہلوی حکومت نے ان میں سے ہر ایک کو پوسٹ یا ملازمت کے ذریعے اپنا نمک خوار بنا کر اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ سٹی کاؤنسل کی صدارت، رستاخیز پارٹی کی مینجمنٹ اور جمعیت شیر و خورشید کی صدارت ان عہدوں میں سے تھے جو حکومت کے ماتحت تھے اور بدقسمتی سے شروع میں ان میں سے کوئی بھی صاحب ہمارے ساتھ کوئی تعاون نہیں کرتے تھے اور ہماری راہ میں رکاوٹ تھے۔
مدرسۂ قرآن کے مولانا زیادہ تر جوان تھے اور ان کا تعلق گاؤں سے تھا؛ لیکن شہر کے مولانا جن کے شہر کے لوگوں کے ساتھ پرانے تعلقات تھے، ان کا تعلق شہر کے مشہور اور بااثر خاندانوں سے تھا اور سب سے بڑھ کر ان کا حکومت میں بہت اثر و رسوخ تھا۔ وہ لوگ ہمارے ثقافتی وجود اور سرگرمیوں کو ایک طرح کی قانون شکنی سمجھتے تھے۔ ان تمام مسائل اور مشکلات کی وجہ سے ہم ہر روز پہلے سے زیادہ ساواک کی دھمکیوں اور زبانی حملوں کا نشانہ بنتے رہتے تھے لیکن چونکہ ہمارا ایک پاکیزہ مقصد تھا، اس لیے ہم نے ہار نہیں مانتے تھے اور مخالفتوں سے خوفزدہ ہوئے بغیر اپنے مقصد کی جانب بڑھتے رہنے کو اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے۔ خدا کے فضل سے ہم آہستہ آہستہ گاؤں اور شہر کے جوانوں کو اپنی طرف راغب کرنے میں کامیاب ہوگئے اور ہم نے صورتحال کو اپنے حق میں تبدیل کرلیا۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لیے ہم نے کبھی بھی جوانوں کو علاقے کے بزرگوں اور سینیئر افراد جیسے علماء اور مشائخ کے ساتھ نہیں الجھایا اور ان لوگوں کے تعاون کی امید کیے بغیر بہت احتیاط اور احترام کے ساتھ ان کی دشمنی اور تنقیدوں کا سامنا کیا۔
سن 1978(1357) اس سال کا نوروز گزشتہ سالوں سے مختلف تھا۔ اورامانات کے کُردنشین لوگوں کے ہاں رواج تھا کہ وہ ہر سال مارچ کے وسط (اسفند کے اواخر) میں لکڑیاں اور گھاس پھوس جمع کرنا شروع کردیتے تھے اور نیا سال شروع ہونے سے چند دن پہلے لکڑیوں کو اپنے گھروں کی چھتوں پر لے جا کر رکھ دیتے تھے اور جب بھی علاقے کے معتمدین کی جانب سے اعلان کیا جاتا تھا کہ فلان دن کے غروب آفتاب کے وقت، عید نورورز ہے، تو اس وقت وہ اپنی جمع کردہ لکڑیوں کو جلا دیتے تھے اور اچانک تمام چھتوں سے آگ کے شعلے اٹھنے لگتے تھے اور جوانوں کی تالیوں اور دف کے ساتھ خوشی اور سرور، بہار کے آنے کا پتا دیتے تھے۔ یہ پروگرام، قومی اور مقامی رسم و رواج کا حصہ تھا۔
ہم، عوام کے رسم و رواج پر عمل کرتے تھے اور خوش تھے۔ رسم یہ تھی کہ گزشتہ لوگوں کی رسم و رواج کے مطابق گاؤں کے جوان چھوٹی چھوٹی منظم ٹولیوں میں، گاؤں کے ایک ایک گھر جاتے تھے اور بہار کے آنے کی خوشخبری دیتے تھے اور لوگوں سے انڈوں، مٹھائیوں یا کبھی پیسوں کے انعام اور تحائف لیتے تھے اور تحفہ لینے سے پہلے بلند آواز سے ایک مختصر نغمہ سناتے تھے اور کئی بار اسے دہراتے تھے یہاں تک کہ صاحب خانہ کو پتا چل جاتا تھا اور وہ ان کے لیے دروازہ کھول دیتا تھا۔
’’ھه لاتی مه لاتی خوا کور و کچتان بداتی
رہ حمه ت له باوکی ئه وہ ی عه یدانه مان ئه داتی‘‘
(بہار آگئی اور بہار کا آغاز ہے خدا آپ کو بیٹا اور بیٹی عطا کرے
خدا آپ کے والد پر رحمت نازل فرمائے ہمیں عیدی دیں۔)
جاری ہے۔۔۔
صارفین کی تعداد: 14
http://oral-history.ir/?page=post&id=12823
